چل پڑی ہے دُعائیں عرش کی جانب
تم بس میرے ہونے کی تیاری کرو
ہم اتنے خوبصورت تو نہیں ہیں صنم
پر جسے آ نکھ بھر کے دیکھ لیں اُسے الجھن میں ڈال دیتے ہیں
پھر غلط فہمیوں میں ڈال دیا
مسکرانا کوئی ضروری تھا
کوئی نظر بھی اُ ٹھائے اس پے تو دل دھڑک جاتا ہے
میں اس شخص کو چاہتی ہوں اپنی آبرو کی طرح
سیاہ رات میں جلتے ہیں جگنوؤں کى طرح
دلوں کے زخم بھی محسن کمال ہوتے ہیں
انہیں راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے
مجھے روک روک پوچھا ترا ہم سفر کہاں ہے
———————
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
علامہ اقبال
علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو جانے کس کس سے
محبت کر کے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے
———————
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
———————
جب تم سے محبت کی ہم نے تب جا کے کہیں یہ راز کھلا
مرنے کا سلیقہ آتے ہی جینے کا شعور آ جاتا ہے
———————
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
———————
مجھے تو قید محبت عزیز تھی لیکن
کسی نے مجھ کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا
———————
آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں
ہم محبت سے محبت کا صلہ دیتے ہیں
———————
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
———————
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
———————
وہ تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا
سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے
———————
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
———————
اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں
تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی
———————
آخری ہچکی ترے زانوں پہ آئے
موت بھی میں شاعرانہ چاہتی ہوں
———————
زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
جون ایلیا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain