قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے
اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے
دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جان فرازؔ
مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے
دل منافق تھا شب ہجر میں سویا کیسا
اور جب تجھ سے ملا ٹوٹ کے رویا کیسا
زندگی میں بھی غزل ہی کا قرینہ رکھا
خواب در خواب ترے غم کو پرویا کیسا
اب تو چہروں پہ بھی کتبوں کا گماں ہوتا ہے
آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں لب گویا کیسا
دیکھ اب قرب کا موسم بھی نہ سرسبز لگے
ہجر ہی ہجر مراسم میں سمویا کیسا
ایک آنسو تھا کہ دریائے ندامت تھا فرازؔ
دل سے بیباک شناور کو ڈبویا کیسا
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
فقیہ شہر کی مجلس سے کچھ بھلا نہ ہوا
کہ اس سے مل کے مزاج اور کافرانہ ہوا
ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
وہ رات بھول چکو وہ سخن نہ دہراؤ
وہ رات خواب ہوئی وہ سخن فسانہ ہوا
کچھ اب کے ایسے کڑے تھے فراق کے موسم
تری ہی بات نہیں میں بھی کیا سے کیا نہ ہوا
ہجوم ایسا کہ راہیں نظر نہیں آتیں
نصیب ایسا کہ اب تک تو قافلہ نہ ہوا
شہید شب فقط احمد فرازؔ ہی تو نہیں
کہ جو چراغ بکف تھا وہی نشانہ ہوا
فقیہ شہر کی مجلس سے کچھ بھلا نہ ہوا
کہ اس سے مل کے مزاج اور کافرانہ ہوا
ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
وہ رات بھول چکو وہ سخن نہ دہراؤ
وہ رات خواب ہوئی وہ سخن فسانہ ہوا
کچھ اب کے ایسے کڑے تھے فراق کے موسم
تری ہی بات نہیں میں بھی کیا سے کیا نہ ہوا
ہجوم ایسا کہ راہیں نظر نہیں آتیں
نصیب ایسا کہ اب تک تو قافلہ نہ ہوا
شہید شب فقط احمد فرازؔ ہی تو نہیں
کہ جو چراغ بکف تھا وہی نشانہ ہوا
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دست زمانہ سے زخم کاری لگے
اداسیاں ہوں مسلسل تو دل نہیں روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے
بظاہر ایک ہی شب ہے فراق یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
علاج اس دل درد آشنا کا کیا کیجے
کہ تیر بن کے جسے حرف غم گساری لگے
ہمارے پاس بھی بیٹھو بس اتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے
فرازؔ تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیاری لگے
قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا
آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے
اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا
وہ راحت جاں ہے مگر اس در بدری میں
ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا
ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا
دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
پاگل ہوئے جاتے ہو فرازؔ اس سے ملے کیا
اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا
رات کے پچھلے پہر رونے کے عادی روئے
آپ آئے بھی مگر رونے کے عادی روئے
ان کے آ جانے سے کچھ تھم سے گئے تھے آنسو
ان کے جاتے ہی مگر رونے کے عادی روئے
ہائے پابندیٔ آداب تری محفل کی
کہ سر راہ گزر رونے کے عادی روئے
ایک تقریب تبسم تھی بہاراں لیکن
پھر بھی آنکھیں ہوئیں تر رونے کے عادی روئے
درد مندوں کو کہیں بھی تو قرار آ نہ سکا
کوئی صحرا ہو کہ گھر رونے کے عادی روئے
اے فرازؔ ایسے میں برسات کٹے گی کیوں کر
گر یوں ہی شام و سحر رونے کے عادی روئے
گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا
دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا
ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا
باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کف دل دار پر اچھا لگا
کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا
ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا
اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا
میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شب فراق
اے مرگ ناگہاں ترا آنا بہت ہوا
ہم خلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا
اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا
اب ہم ہیں اور سارے زمانے کی دشمنی
اس سے ذرا سا ربط بڑھانا بہت ہوا
اب کیوں نہ زندگی پہ محبت کو وار دیں
اس عاشقی میں جان سے جانا بہت ہوا
اب تک تو دل کا دل سے تعارف نہ ہو سکا
مانا کہ اس سے ملنا ملانا بہت ہوا
کیا کیا نہ ہم خراب ہوئے ہیں مگر یہ دل
اے یاد یار تیرا ٹھکانہ بہت ہوا
کہتا تھا ناصحوں سے مرے منہ نہ آئیو
پھر کیا تھا ایک ہو کا بہانہ بہت ہوا
لو پھر ترے لبوں پہ اسی بے وفا کا ذکر
احمد فرازؔ تجھ سے کہا نہ بہت ہوا
مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں
لاکھ سمجھایا کہ اس محفل میں اب جانا نہیں
خود فریبی ہی سہی کیا کیجئے دل کا علاج
تو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں
ایک دنیا منتظر ہے اور تیری بزم میں
اس طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں
جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو
کل پشیماں ہوں کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں
زندگی پر اس سے بڑھ کر طنز کیا ہوگا فرازؔ
اس کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیوانا نہیں
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
لیکن شہر کی خاموشی بھی دھیان میں رکھنا
میرے جھوٹ کو کھولو بھی اور تولو بھی تم
لیکن اپنے سچ کو بھی میزان میں رکھنا
کل تاریخ یقیناً خود کو دہرائے گی
آج کے اک اک منظر کو پہچان میں رکھنا
بزم میں یاروں کی شمشیر لہو میں تر ہے
رزم میں لیکن تلوار کو میان میں رکھنا
آج تو اے دل ترک تعلق پر تم خوش ہو
کل کے پچھتاوے کو بھی امکان میں رکھنا
اس دریا سے آگے ایک سمندر بھی ہے
اور وہ بے ساحل ہے یہ بھی دھیان میں رکھنا
اس موسم میں گل دانوں کی رسم کہاں ہے
لوگو اب پھولوں کو آتش دان میں رکھنا
Junoon-e-ishq tha to kat jati thi raat baaton main
?WASI?
Saza-e-ishq mili to har lamha sadiyun jaisa lagnay laga.
Ab to mumkin hi nahi un se mulaqat WASI
Ab to urooj pe pohnchi hai us ki zaat WASI
Wohi wade hain aur rasmon ki zanjeeren baqi,
Kab badalti hain zamane ki riwayaat WASI
Ek wo din they k ek doosre ko sochte the hum,
Ab milte nahi dono k khayalaat WASI
Meri her subha ka aaghaz terey naam se ho,
Teri yadon mein katti meri her ek raat WASI
Tum kahan aur merey pyar ka mayyar kahan
Wo kitni saadgi se kar gia ye baat WASI
Buhat Samjaya Meray Yaroo Nay Wasi!
Ishq Darya Hai Jo Bacho Ko Nigal Leta Hai...
kaise mumkin tha kisi aur waseeley se ilaaj
WASi
ISHQ KA ROOG tha zehar peene se gya
Kitna Ikhtyar Tha Usko Apni Chahat Pe MOHSIN,
Is Liye Jab Chaha Yaad Kia Jab Chaha Bhula Dia.
Janta Tha Wo Mujh Ko Bhehlane K Har Andaz FARAZ,
Is Liye Jab Chaha Hansa Dia Jab Chaha Rula Dia.
Rakhta To Tha Wo Mera Bohat Hi Khayal WASI,
Is Liye Jab Chaha Khafa Kia Jab Chaha Mana Liya.
Lagta To Tha Usko Hai Mujhse Bohat Piyar SAAQI,
Is Liye Jab Chaha Apna Bana Liye Jab Chaha Daman Chura Liya,
Us K Dil Me Thori Si Jaga Maangi The Musafiron Ki Tarha...
wasi
Us Ne Tanhaiyon Ka Ik Shaehr Mere Nam Kar Diya...
Kisi Ko itna Na Sata Ke Wo
Zindagi Ki Baazi he haar jaye,,
W a s i
MusaLsaL Barishon Se Gir
jaatay hain Kabhi Kabhi PakKay
Makaan bhi....??
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain