میں نے بھی قہقوں کے لبادے اوڑھ کر
ثابت یہ کردیا کہ میرے پاس غم نہیں
دوستی سمیٹ لیتی ہے زمانے بھر کے رنج و غم...
سنا ہے یار اچھے ہوں تو کانٹے بھی نہیں چھبتے...
تو جو بھی بول مگر ہمکلام رہ مجھ سے
تو جانتا ہے مجھے چُپ سنائی دیتی ہے!
💞 ●★ S ★● 💞
Heving one real person is so enough
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر
سب اسی کے لگاۓ ہوۓ ہیں 😏😏
Principal ROUND pe nikla. dekha 1 teacher 1 ladhki ko
kiss kar raha hai.
PRICIPAL - what is this ?
Teacher - Maar se samjahti nahi, isiliye PYAR se samjha
raha tha .....

Night is Silent,
Night is Beautiful,
Night is Calm,
Night is Quiet..
But
Night is not complete
Without Wishing U
Good night.
Sweet dreams!
جو قربتوں کے نشے تھے وہ اب اترنے لگے
ہوا چلی ہے تو جھونکے اداس کرنے لگے
گئی رتوں کا تعلق بھی جان لیوا تھا
بہت سے پھول نئے موسموں میں مرنے لگے
وہ مدتوں کی جدائی کے بعد ہم سے ملا
تو اس طرح سے کہ اب ہم گریز کرنے لگے
غزل میں جیسے ترے خد و خال بول اٹھیں
کہ جس طرح تری تصویر بات کرنے لگے
بہت دنوں سے وہ گمبھیر خامشی ہے فرازؔ
کہ لوگ اپنے خیالوں سے آپ ڈرنے لگے
ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے
ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے
نو گرفتار وفا سعئ رہائی ہے عبث
ہم بھی الجھے تھے بہت دام سے پہلے پہلے
خوش ہو اے دل کہ محبت تو نبھا دی تو نے
لوگ اجڑ جاتے ہیں انجام سے پہلے پہلے
اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں
کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے
سامنے عمر پڑی ہے شب تنہائی کی
وہ مجھے چھوڑ گیا شام سے پہلے پہلے
کتنا اچھا تھا کہ ہم بھی جیا کرتے تھے فرازؔ
غیر معروف سے گمنام سے پہلے پہلے
کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے
وہ خار خار ہے شاخ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں اب کہاں سے لاؤں اسے
مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤں اسے
وہی جو دولت دل ہے وہی جو راحت جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اسے
جو ہم سفر سر منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔ
عجب نہیں ہے اگر یاد بھی نہ آؤں اسے
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
سبھی کہیں مرے غم خوار کے علاوہ بھی
کوئی تو بات کروں یار کے علاوہ بھی
بہت سے ایسے ستم گر تھے اب جو یاد نہیں
کسی حبیب دل آزار کے علاوہ بھی
یہ کیا کہ تم بھی سر راہ حال پوچھتے ہو
کبھی ملو ہمیں بازار کے علاوہ بھی
اجاڑ گھر میں یہ خوشبو کہاں سے آئی ہے
کوئی تو ہے در و دیوار کے علاوہ بھی
سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقیں آیا
کہ پھول کھلتے ہیں گل زار کے علاوہ بھی
کبھی فرازؔ سے آ کر ملو جو وقت ملے
یہ شخص خوب ہے اشعار کے علاوہ بھی
چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی کیں در و دیوار سے باتیں کیا کیا
بات بن آئی ہے پھر سے کہ مرے بارے میں
اس نے پوچھیں مرے غم خوار سے باتیں کیا کیا
لوگ لب بستہ اگر ہوں تو نکل آتی ہیں
چپ کے پیرایۂ اظہار سے باتیں کیا کیا
کسی سودائی کا قصہ کسی ہرجائی کی بات
لوگ لے آتے ہیں بازار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی دست شناسی کے بہانے کی ہیں
ہاتھ میں ہاتھ لیے پیار سے باتیں کیا کیا
کس کو بکنا تھا مگر خوش ہیں کہ اس حیلے سے
ہو گئیں اپنے خریدار سے باتیں کیا کیا
ہم ہیں خاموش کہ مجبور محبت تھے فرازؔ
ورنہ منسوب ہیں سرکار سے باتیں کیا کیا
نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے
کہ اب تلک نہیں آئے ہیں لوگ جب کے گئے
کرے گا کون تری بے وفائیوں کا گلہ
یہی ہے رسم زمانہ تو ہم بھی اب کے گئے
مگر کسی نے ہمیں ہم سفر نہیں جانا
یہ اور بات کہ ہم ساتھ ساتھ سب کے گئے
اب آئے ہو تو یہاں کیا ہے دیکھنے کے لئے
یہ شہر کب سے ہے ویراں وہ لوگ کب کے گئے
گرفتہ دل تھے مگر حوصلہ نہ ہارا تھا
گرفتہ دل میں مگر حوصلے بھی اب کے گئے
تم اپنی شمع تمنا کو رو رہے ہو فرازؔ
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے
تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے
اے یاد یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں
اے درد ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحان شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر کے ہو گئے
اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کہ ہم
اب کے گئے تو کوئے ستم گر کے ہو گئے
روتے ہو اک جزیرۂ جاں کو فرازؔ تم
دیکھو تو کتنے شہر سمندر کے ہو گئے
غیرت عشق سلامت تھی انا زندہ تھی
وہ بھی دن تھے کہ رہ و رسم وفا زندہ تھی
قیس کو دوش نہ دو رکھیو نہ فرہاد کو نام
انہی لوگوں سے محبت کی ادا زندہ تھی
شہر بیمار کے ہر کوچہ و بام و در پر
ہم بھی مرتے تھے کہ جب خلق خدا زندہ تھی
بجھ گئیں شمعیں تو دم توڑ گئے جھونکے بھی
جس طرح زہر رقابت سے ہوا زندہ تھی
یاد ایام کہ صحرائے محبت میں فرازؔ
جرس قافلۂ دل کی صدا زندہ تھی
نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے
کہ اب تلک نہیں آئے ہیں لوگ جب کے گئے
کرے گا کون تری بے وفائیوں کا گلہ
یہی ہے رسم زمانہ تو ہم بھی اب کے گئے
مگر کسی نے ہمیں ہم سفر نہیں جانا
یہ اور بات کہ ہم ساتھ ساتھ سب کے گئے
اب آئے ہو تو یہاں کیا ہے دیکھنے کے لئے
یہ شہر کب سے ہے ویراں وہ لوگ کب کے گئے
گرفتہ دل تھے مگر حوصلہ نہ ہارا تھا
گرفتہ دل میں مگر حوصلے بھی اب کے گئے
تم اپنی شمع تمنا کو رو رہے ہو فرازؔ
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے
خود کو ترے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
جو چھوڑ گیا اس کو پلٹ کر نہیں دیکھا
میری طرح تو نے شب ہجراں نہیں کاٹی
میری طرح اس تیغ پہ کٹ کر نہیں دیکھا
تو دشنۂ نفرت ہی کو لہراتا رہا ہے
تو نے کبھی دشمن سے لپٹ کر نہیں دیکھا
تھے کوچۂ جاناں سے پرے بھی کئی منظر
دل نے کبھی اس راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا
اب یاد نہیں مجھ کو فرازؔ اپنا بھی پیکر
جس روز سے بکھرا ہوں سمٹ کر نہیں دیکھا
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
تو محبت سے کوئی چال تو چل
ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے
دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے
کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے
ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فرازؔ
سب میں اک شخص ہی ملا ہے مجھے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain