ہزار باتوں پہ ہم اکثر یونہی خاموش ہیں رہتے لوگ کہتے ہیں مغرور اور کبھی پاگل ہیں کہتے یوں تو سنتے ہیں ہر روز بہت اچھے الفاظ بھی مگر ہم لفظوں سے زیادہ لہجے ہیں سمجھتے بات کرتے ہیں سیدھی اور زہر کی مانند ہم باتوں باتوں میں بات نہیں بدلتے خیال رکھتے ہیں رشتوں کے تقد س کا مگر نا قدری کرنے والوں کو ہم دوبارہ نہیں ملتے یہ لوگ جو بن بیٹھے ہیں خدا، سُن لیں ہم رب کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے
د حورو د مستۍ غېږه تاوان دے غني خانه سړے دے او ایمان ئې لا ګمان دے غنی خانه ستا سر باندې دا ستا د خداے لاس دے زهٔ ئې وینم دا ستا لاس کښې د کوم خداے ګرېوان دے غني خانه! د زړهٔ زور او د سر غرور ئې خداے مهٔ کړه چې مات شي دا پښتون وطن سم غني خان دے غني خانه!
تَو کیا ہوا جو آپ کے شمار میں نہیں رہا میں مختلف سا شخص تھا ہزار میں نہیں رہا فقط یہ آپ کا گلہ نہیں ہے میرے محترم ہمارے ساتھ جو رہا قرار میں نہیں رہا مجھے بھی عشق ہو دعائیں مانگتا تھا اور پھر میں دائرے میں آ گیا قطار میں نہیں رہا شراب میں سرور کی تجھے سمجھ نہ آئے گی کہ تُو کسی کی آنکھ کے خمار میں نہیں رہا کسی کے روٹھنے سے رنگ زرد پڑ گیا مِرا وگرنا دو گھڑی بھی میں بخار میں نہیں رہا ستارہ ہو یا اشک ہو یہ طے شدہ سی بات ہے وہ ٹوٹ کر گرے گا جو مدار میں نہیں رہا...
میری بیوی لڑکیوں کے کالج میں پڑھاتی تھی میں روز اسے کالج چھوڑنے اور لینے جاتا تھا،کالج کے گیٹ پر پہنچ کر میں گاڑی سے اترتا اور اس کی طرف کا دروازہ کھول دیتا تب وہ نیچے اترتی، میرا یہ طریقہ لڑکیوں کے کالج میں موضوع بحث بن چکا تھا،کالج کی استانیاں میری بیگم پر رشک کرتیں اور اسے چھیڑتیں کہ کیا نصیب پایا ہے،کیا رومانس ہے،کاش کہ ہمارے شوہروں کو بھی یہ توفیق ملتی،بلکہ طالبات بھی ایسی باتیں کرتی،لیکن کسی کو نہیں معلوم تھا کہ رومانس ومانس کچھ نہیں تھا گاڑی کا دروازہ خراب تھا اور وہ باہر سے ہی کھلتا تھا مختصر یہ کہ اب میں تین استانیوں کا شوہر ہوں، دروازہ اب تک ویسا ہی ہے، یہ دروازہ میرے لئے خیر کا دروازہ ثابت ہوا. (ایک خراب کار والے کا بیان)😝🤐😂
بسمل کا خُدا حافظ قاتل کا خُدا حافظ تم جس پہ نظر ڈالو اس دل کا خُدا حافظ آ جاؤ جو محفل میں اک جان سی آ جائے اُٹھ جاؤ جو محفل سے محفل کا خُدا حافظ ساتھی ہو اگر تم سا منزل کی تمنا کیا ہم کو تو سفر پیارا منزل کا خدا حافظ اب ہم بھی تمہارے ہیں کشتی بھی تمہاری ہے اب مڑ کے نہ دیکھیں گے ساحل کا خُدا حافظ