چہروں میں ایک چہرہ اس کا ایساحسیں تھا دل مدتوں سے اُسکی ہی آنکھوں کا مکیں تھا اب شہر میں جب پھر سے اُس کا تذکرہ ہو گا کیسے میں کہوں گا ، کبھی وہ میراہوا تھا اب پھر سے دل کے کہنے پر میں کیسے چلوں گا یہ دل تو کبھی پہلے بھی کسی کا ہوا تھا کیسے اب تیری باتیں ، پھر مُجھ کو لبھائیں گی وہ میں ہی تھا تو جس سے بہت دور ہوا تھا اب وقت اور حالات میری دسترس میں ہیں وہ شخص کوئی اور تھا جو تُجھ پر لُٹا تھا ایک عمر کی ریاضت تھی جو لمحے میں کھو گئی پوچھا جب تم نے مُجھ سے کہ میں تیرا کون تھا سعدیہ چوہدری
"میرے گھر کے راستوں میں گلی تیری بھی ہوتی" قربانی بھی ہوتی ہے محبت میں اے دوست پھر محبت کے قبیلے میں جگہ تیری بھی ہوتی تو ایک کے ہی ساتھ کبھی رہتا جو مخلص پھر عشق کے امتحاں میں جیت تیری بھی ہوتی انا کی دیواروں کو کبھی توڑتے جو تم میرے دل میں کوئی جگہ، پھر تیری بھی ہوتی زبان سے اپنی روز ہی مکر جاتے تھے تم تو اور چاہتے تھے ہمیں آرزو تیری بھی ہوتی اور خواہش اب سمٹ کر فقط اتنی سی رہ گئی میرے گھر کے راستوں میں گلی تیری بھی ہوتی سعدیہ چوہدری
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
آج کا دن کیسے گزرے گا کل گزرے گا کیسے کل جو پریشانی میں بیتا وہ بھولے گا کیسے کتنے دن ہم اور جییں گے کام ہیں کتنے باقی کتنے دکھ ہم کاٹ چکے ہیں اور ہیں کتنے باقی خاص طرح کی سوچ تھی جس میں سیدھی بات گنوا دی چھوٹے چھوٹے وہموں ہی میں ساری عمر بتا دی منیر نیازی