رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
ڈوبتا سوُرج دیکھ کے ____ خوش ہو رہنا کس کو راس آیا دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا ____ دل نے پھر محسوس کیا اور بھی گہری چوٹ لگی ہے ، درد میں شدّت اور بھی ہے
وہ ناراض بھی نہیں ہے اور بات بھی نہیں کرتا مجھ پہ اک نظر کی خیرات بھی نہیں کرتا وہ سننا ہی نہیں چاہتا ہے کسی سے مرا ذکر اب وہ مجھ پہ پہلی سی برسات بھی نہیں کرتا جانے وہ کیوں رہتا ہے مجھ سے خفا خفا جانے وہ کیوں مری جانب التفات بھی کرتا نہیں کرتا زین وہ مجھ پہ وصل کی صبح وہ مجھ پہ ہجر کی رات بھی نہیں کرتا