ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے اب جو آرام بہت ہے تو سکوں کچھ کم ہے رنگ گریہ نے دکھائی نہیں اگلی سی بہار اب کے لگتا ہے کہ آمیزش خوں کچھ کم ہے اب ترا ہجر مسلسل ہے تو یہ بھید کھلا غم دل سے غم دنیا کا فسوں کچھ کم ہے اس نے دکھ سارے زمانے کا مجھے بخش دیا پھر بھی لالچ کا تقاضا ہے کہوں کچھ کم ہے راہ دنیا سے نہیں دل کی گزر گاہ سے آ فاصلہ گرچہ زیادہ ہے پہ یوں کچھ کم ہے تو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو بھلے وقتوں میں یہ خرابی کہ میں جس حال میں ہوں کچھ کم ہے آگ ہی آگ مرے قریۂ تن میں ہے فرازؔ پھر بھی لگتا ہے ابھی سوز دروں کچھ کم ہے
یہ تری زلف کا کنڈل تو مجھے مار چلا جس پہ قانون بھی لاگو ہو وہ ہتھیار چلا پیٹ ہی پھول گیا اتنے خمیرے کھا کر تیری حکمت نہ چلی اور ترا بیمار چلا بیویاں چار ہیں اور پھر بھی حسینوں سے شغف بھائی تو بیٹھ کے آرام سے گھر بار چلا اجرت عشق نہیں دیتا نہ دے بھاڑ میں جا لے ترے دام سے اب تیرا گرفتار چلا سنسنی خیز اسے اور کوئی شے نہ ملی میری تصویر سے وہ شام کا اخبار چلا یہ بھی اچھا ہے کہ صحرا میں بنایا ہے مکاں اب کرائے پہ یہاں سایۂ دیوار چلا اک اداکار رکا ہے تو ہوا اتنا ہجوم مڑ کے دیکھا نہ کسی نے جو قلم کار چلا چھیڑ محبوب سے لے ڈوبے گی کشتی جیدیؔ آنکھ سے دیکھ اسے ہاتھ سے پتوار چلا
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں