رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لئے یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی یہ سانحہ بھی محبّت میں بارہا گزرا کہ اس نے حال بھی پوچھا توآنکھ بھر آئی دلِ فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اُٹھا یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی میں سوتے سوتے کئی بار چونک پڑا تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی کھُلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا وہ لوگ تھے، نہ وہ جلسے، نہ شہرِ رعنائی پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی
کبھی ممکن ،کبھی نہیں ممکن ہر گھڑی تو خوشی نہیں ممکن ہم نے یہ زندگی سے سیکھا ہے سب ہے ممکن، سبھی نہیں ممکن کون ٹوٹے ہمیشہ قسمت پر جس کو چاہو وہی نہیں ممکن خواب ہم نے بھی صرف وہ دیکھا جس کی تعبیر نہیں ممکن توڑ پاتا نہیں میں وعدے وہ اور تکمیل بھی نہیں ممکن