تیرے دل کو تو ہزاروں کی لگن رہتی ہے میرے دل میں تری حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں تیری عادت میں عداوت کی فراوانی ہے میری عادت میں مروت کے سوا کچھ بھی نہیں تیرے عالم میں تخیل ہے حسیں باتوں کا میرے عالم میں تو حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں حسن میں تیرے ہے اک نور کی دنیا رقصاں اور مرے عشق میں ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں تیری قسمت میں ہیں تحریر طرب گوں لمحے میری قسمت میں مصیبت کے سوا کچھ بھی نہیں تیری فطرت تو ہے باتوں سے بتانا دل کا میری فطرت میں صداقت کے سوا کچھ بھی نہیں
تکبّر پارہ پارہ ہو گیا نا؟ تمھارا دل ہمارا ہو گیا نا؟ کہا بھی تھا کہ واپس لوٹ جاؤ، نہیں مانے خسارا ہو گیا نا؟ بہت محتاط تھے لیکن بالآخر، کوئی اب جان سے پیارا ہو گیا نا؟ جنوں کی دیکھ لو معجز نمائی، جو دریا تھا کنارا ہو گیا نا؟ فضا میں خوشبوئیں پھیلی ہوئی ہیں، کوئی آنکھ کا تارا ہو گیا نا؟ ہمارے تذکرے کی بات چھوڑو، تمھارا ذکر سارا ہو گیا نا؟ تمہیں بھی بے نیازی راس آئی، ہمارا بھی گزارا ہو گیا نا؟
اجاڑ راہوں میں جو ملیں گے وہ خار سارے سنبھال رکھنا جو میری یادوں کا مرحلہ ہو، تو میرے دامن میں ڈال رکھنا نہ چھو سکو گے بلندیوں کو، یوں خواہشوں کو نہ طُول دینا نصیب تم کو دغا ہی دے گا، محبتوں میں زوال رکھنا وفا کی دنیا میں ہم رہیں گے، دغا کی دنیا میں تم اگر ہو ہر ایک دل کی یہ آرزو ہے، کہ منفرد سا کمال رکھنا ہوائیں بھی اب زہر رساں ہیں، جو روز ہم پہ تماشبیں ہیں ازل سے دل کا یہ مشغلہ ہے، ملن کی خواہش کو پال رکھنا نہ ان کے آنے کی آس رکھنا، نہ دل کو اپنے اداس رکھنا کہیں یہ سپنے جھلس نہ جائیں، نہ اب کسی سے وصال رکھنا زمانہ بدلا ہے، تم بھی بدلو، وفا شعاری کا ذوق چھوڑو سنبھل اے محسن یوں بے سبب ہی نہ زندگی کو نڈھال رکھنا
اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہوتی خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی ستاروں کے دلکش فسانے نہ ہوتے بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی جبینوں پہ نور مسرت نہ کھلتا نگاہوں میں شان مروت نہ ہوتی گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی فقیروں کو عرفان ہستی نہ ملتا عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی مسافر صدا منزلوں پر بھٹکتے سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی ہر اک پھول کا رنگ پھیکا سا رہتا نسیم بہاراں میں نکہت نہ ہوتی خدائی کا انصاف خاموش رہتا سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی