مَضْرُوْبَةٌۢ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَنْ دُوْنَهُمْ حُجُبُ الْعِزَّةِ، وَ اسْتَارُ القُدْرَةِ، لَا یَتَوَهَّمُوْنَ رَبَّهُمْ بِالتَّصْوِیْرِ، وَ لَا یُجْرُوْنَ عَلَیْهِ صِفَاتِ الْمَصْنُوْعِیْنَ، وَ لَا یَحُدُّوْنَهٗ بِالْاَمَاكِنِ، وَ لَا یُشِیْرُوْنَ اِلَیْهِ بِالنَّظَآئِرِ.
ان میں کچھ تو وحی الٰہی کے امین، اس کے رسولوں کی طرف پیغام رسانی کیلئے زبانِ حق اور اس کے قطعی فیصلوں اور فرمانوں کو لے کر آنے جانے والے ہیں، کچھ اس کے بندوں کے نگہبان اور جنت کے دروازوں کے پاسبان ہیں، کچھ وہ ہیں جن کے قدم زمین کی تہ میں جمے ہوئے ہیں (اور ان کی گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باہر نکلی ہوئی ہیں) اور ان کے پہلو اطراف عالم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں، ان کے شانے عرش کے پایوں سے میل کھاتے ہیں،
کچھ صفیں باندھے ہوئے ہیں جو اپنی جگہ نہیں چھوڑتے اور کچھ پاکیزگی بیان کر رہے ہیں جو اکتاتے نہیں، نہ ان کی آنکھوں میں نیند آتی ہے، نہ ان کی عقلوں میں بھول چوک پیدا ہوتی ہے، نہ ان کے بدنوں میں سستی و کاہلی آتی ہے، نہ ان پر نسیان کی غفلت طاری ہوتی ہے۔
وَ مِنْهُمْ اُمَنَآءُ عَلٰى وَحْیِهٖ، وَ اَلْسِنَةٌ اِلٰى رُسُلِهٖ، وَ مُخْتَلِفُوْنَ بِقَضَآئِهٖ وَ اَمْرِهٖ. وَ مِنْهُمُ الْحَفَظَةُ لِعِبَادِهٖ، وَ السَّدَنَةُ لِاَبْوَابِ جِنَانِهٖ. وَ مِنْهُمُ الثَّابِتَةُ فِی الْاَرَضِیْنَ السُّفْلٰى اَقْدَامُهُمْ، وَ الْمَارِقَةُ مِنَ السَّمَآءِ الْعُلْیَا اَعْنَاقُهُمْ، وَ الْخَارِجَةُ مِنَ الْاَقْطَارِ اَرْكَانُهُمْ، وَ الْمُنَاسِبَةُ لِقَوَآئِمِ الْعَرْشِ اَكْتَافُهُمْ، نَاكِسَةٌ دُوْنَهٗ اَبْصَارُهُمْ، مُتَلَفِّعُوْنَ تَحْتَهٗ بِاَجْنِحَتِهِمْ،
پھر ان کو ستاروں کی سج دھج اور روشن تاروں کی چمک دمک سے آراستہ کیا اور ان میں ضوپاش چراغ اور جگمگاتا چاند رواں کیا جو گھومنے والے فلک، چلتی پھرتی چھت اور جنبش کھانے والی لوح میں ہے۔
ثُمَّ فَتَقَ مَا بَیْنَ السَّمٰوٰتِ الْعُلَا، فَمَلَاَهُنَّ اَطْوَارًا مِّنْ مَلٰٓئِكَتِهٖ: مِنْهُمْ سُجُوْدٌ لَّا یَرْكَعُوْنَ، وَ رُكُوْعٌ لَّا یَنْتَصِبُوْنَ، وَ صَآفُّوْنَ لَا یَتَزَایَلُوْنَ، وَ مُسَبِّحُوْنَ لَا یَسْاَمُوْنَ، لَا یَغْشَاهُمْ نَوْمُ العُیُوْنِ، وَ لَا سَهْوُ الْعُقُوْلِ، وَ لَا فَتْرَةُ الْاَبْدَانِ، وَ لَا غَفْلَةُ النِّسْیَانِ.
پھر خداوند عالم نے بلند آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کئے اور ان کی وسعتوں کو طرح طرح کے فرشتوں سے بھر دیا۔ کچھ ان میں سر بسجود ہیں جو رکوع نہیں کرتے، کچھ رکوع میں ہیں جو سیدھے نہیں ہوتے،
پھر اس ہوا کو مامور کیا کہ وہ پانی کے ذخیرے کو تھپیٹرے دے اور بحر بے کراں کی موجوں کو اچھالے۔ اس ہوا نے پانی کو یوں متھ دیا جس طرح دہی کے مشکیزے کو متھا جاتا ہے اور اسے دھکیلتی ہوئی تیزی سے چلی جس طرح خالی فضا میں چلتی ہے اور پانی کے ابتدائی حصے کو آخری حصے پر اور ٹھہرے ہوئے کو چلتے ہوئے پانی پر پلٹانے لگی، یہاں تک کہ اس متلاطم پانی کی سطح بلند ہو گئی اور وہ تہ بہ تہ پانی جھاگ دینے لگا، اللہ نے وہ جھاگ کھلی ہوا اور کشادہ فضا کی طرف اٹھائی اور اس سے ساتوں آسمان پیدا کئے۔ نیچے والے آسمان کو رکی ہوئی موج کی طرح بنایا اور اوپر والے آسمان کو محفوظ چھت اور بلند عمارت کی صورت میں اس طرح قائم کیا کہ نہ ستونوں کے سہارے کی حاجت تھی، نہ بندھنوں سے جوڑنے کی ضرورت۔
وَ سَاجِیَهٗ اِلٰی مَآئِرِهٖ حَتّٰى عَبَّ عُبَابُهٗ، وَ رَمٰى بِالزَّبَدِ رُكَامُهٗ، فَرَفَعَهٗ فِیْ هَوَآءٍ مُّنْفَتِقٍ، وَ جَوٍّ مُّنْفَهِقٍ، فَسَوّٰى مِنْهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ، جَعَلَ سُفْلَاهُنَّ مَوْجًا مَكْفُوْفًا وَ عُلْیَاهُنَّ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا،وَ سَمْكًا مَّرْفُوْعًا بِغَیْرِ عَمَدٍ یَّدْعَمُهَا، وَ لَا دِسَارٍ یَّنْظِمُهَا. ثُمَّ زَیَّنَهَا بِزِیْنَةِ الْكَوَاكِبِ، وَ ضِیَآءِ الثَّوَاقِبِ وَ اَجْرٰى فِیْهَا سِرَاجًا مُّسْتَطِیْرًا، وَ قَمَرًا مُّنِیْرًا فِیْ فَلَكٍ دَآئِرٍ، وَ سَقْفٍ سَآئِرٍ، وَ رَقِیْمٍ مَآئِرٍ.
پھر اللہ سبحانہ نے اس پانی کے اندر ایک ہوا خلق کی جس کا چلنا بانجھ (بے ثمر) تھا اور اسے اس کے مرکز پر قرار رکھا، اس کے جھونکے تیز کر دیئے اور اس کے چلنے کی جگہ دور و دراز تک پھیلا دی،
پھر یہ کہ اس نے کشادہ فضا، وسیع اطراف و اکناف اور خلا کی وسعتیں خلق کیں اور ان میں ایسا پانی بہایا جس کے دریائے مواج کی لہریں طوفانی اور بحر زخار کی موجیں تہ بہ تہ تھیں، اسے تیز ہوا اور تند آندھی کی پشت پر لادا، پھر اسے پانی کے پلٹانے کا حکم دیا اور اسے اس کے پابند رکھنے پر قابو دیا اور اسے پانی کی سرحد سے ملا دیا۔ اس کے نیچے ہوا دور تک پھیلی ہوئی تھی اور اوپر پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
ثُمَّ اَنْشَاَ سُبْحَانَهٗ رِیْحَا اِعْتَقَمَ مَهَبَّهَا، وَ اَدَامَ مُرَبَّهَا، وَ اَعْصَفَ مَجْرَاهَا، وَ اَبْعَدَ مَنْشَاهَا، فَاَمَرَهَا بِتَصْفِیْقِ الْمَآءِ الزَّخَّارِ، وَ اِثَارَةِ مَوْجِ الْبِحَارِ، فَمَخَضَتْهُ مَخْضَ السِّقَآءِ، وَ عَصَفَتْ بِهٖ عَصْفَهَا بِالْفَضَآءِ، تَرُدُّ اَوَّلَهٗ اِلٰۤی اٰخِرِهٖ،
ان کی حد و نہایت پر احاطہ کئے ہوئے تھا اور ان کے نفوس و اعضاء کو پہچانتا تھا۔
ثُمَّ اَنْشَاَ ـ سُبْحَانَهٗ ـ فَتْقَ الْاَجْوَآءِ، وَ شَقَّ الْاَرْجَآءِ، وَ سَكَـآئِكَ الْهَوَآءِ، فَاَجْرٰی فِیْهَا مَآءً مُّتَلَاطِمًا تَیَّارُهٗ، مُتَرَاكِمًا زَخَّارُهٗ، حَمَلَهٗ عَلٰى مَتْنِ الرِّیْحِ الْعَاصِفَةِ، وَ الزَّعْزَعِ الْقَاصِفَةِ، فَاَمَرَهَا بِرَدِّهٖ، وَ سَلَّطَهَا عَلٰى شَدِّهٖ، وَ قَرَنَهَا اِلٰى حَدِّهٖ، الْهَوَآءُ مِنْ تَحْتِهَا فَتِیْقٌ وَّ الْمَآءُ مِنْ فَوْقِهَا دَفِیْقٌ.
اَحَالَ الْاَشْیَآءَ لِاَوْقَاتِهَا، وَ لَـئَمَ بَیْنَ مُخْتَلِفَاتِهَا، وَ غَرَّزَ غَرَآئِزَهَا وَ اَلْزَمَهَا اَشْبَاحَهَا، عَالِمًۢا بِهَا قَبْلَ ابْتِدَآئِهَا، مُحِیْطًۢا بِحُدُوْدِهَا وَ انْتِهَآئِهَا، عَارِفًۢا بِقَرَآئِنِهَا وَ اَحْنَآئِهَا.
اس نے پہلے پہل خلق کو ایجاد کیا بغیر کسی فکر کی جولانی کے اور بغیر کسی تجربہ کے جس سے فائدہ اٹھانے کی اسے ضرورت پڑی ہو اور بغیر کسی حرکت کے جسے اس نے پیدا کیا ہو اور بغیر کسی ولولہ اور جوش کے جس سے وہ بیتاب ہوا ہو۔ ہر چیز کو اس کے وقت کے حوالے کیا، بے جوڑ چیزوں میں توازن و ہم آہنگی پیدا کی، ہر چیز کو جداگانہ طبیعت اور مزاج کا حامل بنایا اور ان طبیعتوں کیلئے مناسب صورتیں ضروری قرار دیں۔ وہ ان چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے جانتا تھا،
فَاعِلٌ لَّا بِمَعْنَى الْحَرَكَاتِ وَ الْاٰلَةِ، بَصِیْرٌ اِذْ لَا مَنْظُوْرَ اِلَیْهِ مِنْ خَلْقِهٖ، مُتَوَحِّدٌ اِذْ لَا سَكَنَ یَسْتَاْنِسُ بِهٖ وَ لَا یَسْتَوْحِشُ لِفَقْدِهٖ.
وہ ہے ہوا نہیں، موجود ہے مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا، وہ ہر شے کے ساتھ ہے نہ جسمانی اتصال کی طرح، وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے نہ جسمانی دوری کے طور پر، وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں، وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا جب کہ مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی، وہ یگانہ ہے اس لئے کہ اس کا کوئی ساتھی ہی نہیں ہے کہ جس سے وہ مانوس ہو اور اسے کھو کر پریشان ہو جائے۔
اَنْشَاَ الْخَلْقَ اِنْشَآءً، وَ ابْتَدَاَهُ ابْتِدَآءً، بِلَا رَوِیَّةٍ اَجَالَهَا، وَ لَا تَجْرِبَةٍ اسْتَفَادَهَا، وَ لَا حَرَكَةٍ اَحْدَثَهَا، وَ لَا هَمَامَةِ نَفْسٍ اضْطَرَبَ فِیْهَا.
لہٰذا جس نے ذاتِ الٰہی کے علاوہ صفات مانے اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا اس نے دوئی پیدا کی اور جس نے دوئی پیدا کی اس نے اس کیلئے جز بنا ڈالا اور جو اس کیلئے اجزا کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا اور جو اس سے بے خبر رہا اس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اور جس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کر دی اور جو اسے محدود سمجھا وہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا اور جس نے یہ کہا کہ ’’وہ کس چیز میں ہے‘‘؟ اس نے اسے کسی شے کے ضمن میں فرض کر لیا اور جس نے یہ کہا کہ ’’وہ کس چیز پر ہے؟‘‘ اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں۔
كَآئِنٌ لَّا عَنْ حَدَثٍ، مَّوْجُوْدٌ لَّا عَنْ عَدَمٍ، مَعَ كُلِّ شَیْءٍ لَا بِمُقَارَنَةٍ، وَ غَیْرُ كُلِّ شَیْءٍ لَّا بِمُزَایَلَةٍ،
وَ شَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوْفٍ اَنَّهٗ غَیْرُ الصِّفَةِ.
دین کی ابتدا [۱] اس کی معرفت ہے، کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے، کمالِ تصدیق توحید ہے، کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمالِ تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے، کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے۔
فَمَنْ وَّصَفَ اللهَ سُبْحَانَهٗ فَقَدْ قَرَنَهٗ، وَ مَنْ قَرَنَهٗ فَقَدْ ثَنَّاهُ، وَ مَنْ ثَنَّاهُ فَقَدْ جَزَّاَهٗ، وَ مَنْ جَزَّاَهٗ فَقَدْ جَهِلَهٗ، وَ مَنْ جَهِلَهٗ فَقَدْ اَشَارَ اِلَیْهِ، وَ مَنْ اَشَارَ اِلَیْهِ فَقَدْ حَدَّهٗ، وَ مَنْ حَدَّهٗ فَقَدْ عَدَّهٗ، وَ مَنْ قَالَ: «فِیْمَ؟» فَقَدْ ضَمَّنَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: «عَلَامَ؟» فَقَدْ اَخْلٰى مِنْهُ.
نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کے کمالِ ذات کی کوئی حد معین نہیں، نہ اس کیلئے توصیفی الفاظ ہیں، نہ اس (کی ابتدا) کیلئے کوئی وقت ہے جسے شمار میں لایا جا سکے، نہ اس کی کوئی مدت ہے جو کہیں پر ختم ہو جائے۔
فَطَرَ الْخَلَاۗئِقَ بِقُدْرَتِهٖ، وَ نَشَرَ الرِّیَاحَ بِرَحْمَتِهٖ، وَ وَتَّدَ بِالصُّخُوْرِ مَیَدَانَ اَرْضِهٖ.
اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا، اپنی رحمت سے ہواؤں کو چلایا اور تھرتھراتی ہوئی زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑیں۔
اَوَّلُ الدِّیْنِ مَعْرِفَتُهٗ، وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِیْقُ بِهٖ، وَ كَمَالُ التَّصْدِیْقِ بِهٖ تَوْحِیْدُهٗ، وَ كَمَالُ تَوْحِیْدِهِ الْاِخْلَاصُ لَهٗ، وَ كَمَالُ الْاِخْلَاصِ لَهٗ نَفْیُ الصِّفَاتِ عَنْهُ، لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ اَنَّها غَیْرُ الْمَوْصُوْفِ،
وَ مِن خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
یَذْكُرُ فِیْهَا ابْتِدَاءَ خَلْقِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ خَلْقِ اٰدَمَ ؑ
اس میں ابتدائے آفرینش زمین و آسمان اور پیدائش آدم علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا یَبْلُغُ مِدْحَتَهُ الْقَآئِلُوْنَ، وَ لَا یُحْصِیْ نَعْمَآئَهُ الْعَادُّوْنَ وَ لَا یُؤَدِّیْ حَقَّهٗ الْمُجْتَهِدُوْنَ، الَّذِیْ لَا یُدْرِكُهٗ بُعْدُ الْهِمَمِ، وَ لَا یَنَالُهٗ غَوْصُ الْفِطَنِ، الَّذِیْ لَیْسَ لِصِفَتِهٖ حَدٌّ مَّحْدُوْدٌ، وَ لَا نَعْتٌ مَّوْجُوْدٌ، وَ لَا وَقْتٌ مَّعْدُوْدٌ،وَ لَاۤ اَجَلٌ مَّمْدُوْدٌ.
تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے،جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں،جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے، نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں،نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں،
خلاصہ:
اسلام میں پردہ عورت کی عزت و حرمت اور معاشرتی پاکیزگی کا ضامن ہے۔ قرآن و حدیث کے واضح احکام کے مطابق عورتوں کو پردے کا اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اللہ کا حکم اور نبی ﷺ کی تعلیمات کا حصہ ہے۔
2. زینت چھپانا:
زیور کی جھنکار یا دیگر زینت کو غیر محرموں کے سامنے ظاہر نہ کیا جائے۔
3. خوشبو لگانے سے گریز:
عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ خوشبو لگا کر غیر محرموں کے درمیان نہ جائیں۔
4. نظروں کی حفاظت:
پردے کا مطلب صرف جسم کا ڈھانپنا نہیں، بلکہ نظریں جھکانا بھی ضروری ہے۔
5. گفتگو کا انداز:
عورتوں کو نرمی سے بات کرنے سے منع کیا گیا تاکہ کسی کے دل میں غلط خیالات پیدا نہ ہوں۔
پردے کے فوائد:
1. عزت اور وقار کا تحفظ:
پردہ عورت کو معاشرتی برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے باعزت مقام دیتا ہے۔
2. معاشرے میں پاکیزگی:
پردے کے ذریعے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
3. خاندانی نظام کی مضبوطی:
پردہ خاندانوں کو فتنہ و فساد سے بچاتا ہے اور خاندانی اقدار کو محفوظ رکھتا ہے۔
2. عورت سراپہ پردہ ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "عورت سراپہ پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف لوگوں کو مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔"
(ترمذی، مشکوٰۃ)
3. خوشبو کے استعمال پر منع:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "جو عورت خوشبو لگا کر (گھر سے) باہر نکلے تاکہ لوگ اس کی خوشبو محسوس کریں، وہ زانیہ ہے۔"
(مسند احمد، ابوداؤد)
4. عورت کی آواز کا پردہ:
نبی ﷺ نے فرمایا:
> "عورت کی آواز بھی پردہ ہے۔ اس لیے نرم لہجے میں بات نہ کرے کہ کوئی بیمار دل والا تمہاری طرف مائل ہو جائے۔"
(سورۃ الاحزاب 33:32)
پردے کے بنیادی اصول:
1. لباس کا معیار:
لباس اتنا ڈھیلا ہو کہ جسم کے خدوخال ظاہر نہ ہوں۔
اتنا موٹا ہو کہ اندر کا جسم نہ دکھائی دے۔
ایسا لباس نہ ہو جو مردوں کے لباس سے مشابہ ہو۔
3. سورۃ الاحزاب:
آیت 32-33:
> "اور (اے نبی کی بیویو) اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور پہلی جاہلیت کی طرح زینت نہ دکھاتی پھرو۔"
(سورۃ الاحزاب 33:32-33)
وضاحت:
یہاں عورتوں کو بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنی زینت نہ دکھائیں۔
یہ حکم نبی کی ازواج کے لیے خاص طور پر ہے، لیکن اس میں تمام عورتوں کے لیے بھی رہنمائی ہے۔
احادیث مبارکہ میں پردے کے احکام:
1. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث:
نبی ﷺ نے فرمایا:
> "جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ (نامحرم مردوں کے سامنے) ظاہر نہ ہو، سوائے چہرے اور ہاتھوں کے۔"
(ابوداؤد، ترمذی)
وضاحت:
عورتوں کو نظریں نیچی رکھنے، اپنی زینت چھپانے اور اپنے سینوں کو ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔
"زینت" میں خوبصورتی، زیور، اور جسم کے وہ حصے شامل ہیں جو دلکشی کا باعث ہوں۔
بعض علماء کے مطابق "جو ظاہر ہو" سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں، جبکہ بعض نے اس میں مزید سختی کی رائے دی ہے۔
2. سورۃ الاحزاب:
آیت 59:
> "اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مؤمن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں تکلیف نہ دی جائے۔"
(سورۃ الاحزاب 33:59)
وضاحت:
یہاں چادر اوڑھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ عورتیں باپردہ رہیں اور غیر محرم ان سے بد نیتی نہ کریں۔
پردے کا مقصد عورت کی عزت و وقار کی حفاظت اور برائی سے بچاؤ ہے۔
اسلام میں پردے کا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہے، لیکن عورتوں کے لیے خاص تاکید کی گئی ہے تاکہ معاشرے میں پاکیزگی اور عزت و وقار کو یقینی بنایا جا سکے۔ قرآن و حدیث میں پردے کے احکام کی مکمل تفصیل درج ذیل ہے:
قرآن کریم میں پردے کے احکام:
1. سورۃ النور:
آیت 30-31:
اللہ تعالیٰ نے پہلے مردوں کو نظریں جھکانے کا حکم دیا اور پھر عورتوں کے لیے پردے کا حکم دیا:
> "مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔
اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہو، اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں۔"
(سورۃ النور 24:30-31)
سب سے آخر میں نجات پانے والا شخص:
نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں اس شخص کا ذکر کیا جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا اور جنت میں داخل ہوگا۔ یہ حدیث اللہ کی رحمت کا عظیم مظہر ہے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
خلاصہ:
1. کافروں اور مشرکوں کے لیے جہنم کا عذاب ہمیشہ کے لیے ہوگا۔
2. گناہ گار مسلمانوں کے لیے عذاب عارضی ہوگا اور وہ بالآخر اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے۔
3. عذاب کی شدت جسمانی، نفسیاتی اور روحانی ہوگی۔
4. اللہ کی رحمت اور شفاعت جہنم کے عذاب سے نجات کا ذریعہ بنے گی۔
یہ سب کچھ ہمیں نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain