چنانچہ شہر ستانی نے تحریر کیا ہے کہ:
قَالَ اَبُو الْحَسَنِ: الْبَارِیْ تَعَالٰى عَالِمٌۢ بِعِلْمٍ، قَادِرٌۢ بِقُدْرَةٍ، حَیٌّۢ بِحَيَاةٍ، مُرِيْدٌۢ بِاِرَادَةٍ، مُتَكَلِّمٌۢ بِكَلَامٍ، سَمِيْعٌۢ بِسَمْعٍ، بَصِيْرٌۢ بِبَصَرٍ.
ابوالحسن اشعری کہتے ہیں کہ: باری تعالیٰ علم، قدرت ، حیات، ارادہ، کلام اور سمع و بصر کے ذریعہ عالم، قادر، زندہ، مرید، متکلم اور سمیع و بصیر ہے۔ (الملل و النحل، شہرستانی، ج۱، ص۹۳)
اگر صفتوں کو اس طرح زائد بر ذات مانا جائے گا تو دو حال سے خالی نہیں: یا تو یہ صفتیں ہمیشہ سے اس میں ہوں گی یا بعد میں طاری ہوئی ہوں گی۔ پہلی صورت میں جتنی اس کی صفتیں مانی جائیں گی اتنے ہی قدیم اور ماننا پڑیں گے جو قدامت میں اس کے شریک ہوں گے ﴿تَعٰلَى اللہُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾۔
فَلَمَّاۤ اَحْدَثَ الْاَشْيَآءَ وَ كَانَ الْمَعْلُوْمُ وَقَعَ الْعِلْمُ مِنْهُ عَلَى الْمَعْلُوْمِ وَ السَّمْعُ عَلَى الْمَسْمُوْعِ وَ الْبَصَرُ عَلَى الْمُبْصَرِ وَ الْقُدْرَةُ عَلَى الْمَقْدُوْرِ.
ہمارا خدائے بزرگ و بر تر ہمیشہ سے عینِ علم رہا حالانکہ معلوم ابھی کتم عدم میں تھا، اور عین سمع و بصر رہا حالانکہ نہ کسی آواز کی گونج بلند ہوئی تھی اور نہ کوئی دکھائی دینے والی چیز تھی، اور عین قدرت رہا،حالانکہ قدرت کے اثرات کو قبول کرنے والی کوئی شے نہ تھی۔ پھر جب اس نے ان چیزوں کو پیدا کیا اور معلوم کا وجود ہوا تو اس کا علم معلومات پر پوری طرح منطبق ہوا،خواہ وہ سنی جانے والی صدائیں ہوں یا دیکھی جانے والی چیزیں ہوں اور مقدور کے تعلق سے اس کی قدرت نمایاں ہوئی۔
(توحید صدوق، ص۱۳۹)
یہ وہ عقیدہ ہے جس پر آئمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے،
قرآن نے اس استدلال کی طرف ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے:
﴿اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِؕ﴾
کیا اللہ کے وجود میں شک ہو سکتا ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے۔ (۱)
لیکن یہ درجہ بھی ناکافی ہے، جبکہ اس کی تصدیق میں غیر کی الوہیت کے عقیدہ کی آمیزش ہو۔
لَمْ يَزَلِ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ رَبَّنَا وَ الْعِلْمُ ذَاتُهٗ وَ لَا مَعْلُوْمَ وَ السَّمْعُ ذَاتُهٗ وَ لَا مَسْمُوْعَ وَ الْبَصَرُ ذَاتُهٗ وَ لَا مُبْصَرَ وَ الْقُدْرَةُ ذَاتُهٗ وَ لَا مَقْدُوْرَ،
چنانچہ انسان جب اپنے گرد و پیش نظر دوڑاتا ہے تو اسے ایسی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی کہ جو کسی صانع کی کا فرمائی کے بغیر موجود ہو گئی ہو، یہاں تک کہ کوئی نقشِ قدم بغیر راہرو کے اور کوئی عمارت بغیر معمار کے کھڑی ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا تو کیونکر یہ باور کر سکتا ہے کہ یہ فلک نیلگوں اور اس کی پہنائیوں میں آفتاب و مہتاب کی تجلیاں اور یہ زمین اور اس کی وسعتوں میں سبزہ و گل کی رعنائیاں بغیر کسی صانع کی صنعت طرازی کے موجود ہو گئی ہوں گی۔ لہٰذا موجودات عالم اور نظم کائنات کو دیکھنے کے بعد کوئی انسان اس نتیجہ تک پہنچنے سے اپنے دل و دماغ کو نہیں روک سکتا کہ اس جہان رنگ وبو کا کوئی بنانے سنوارنے والا ہے، کیونکہ تہی دامانِ وجود سے فیضانِ وجود نہیں ہو سکتا اور نہ عدم سے وجود کا سرچشمہ پھوٹ سکتا ہے۔
یہ تصور در حقیقت فکر و نظر کی ذمہ داری اور تحصیل معرفت کا حکم عائد ہونے کا عقلاً پیش خیمہ ہے، لیکن تساہل پسند یا ماحول کے دباؤ میں اسیر ہستیاں اس تصور کے پیدا ہونے کے باوجود طلب کی زحمت گوارا نہیں کرتیں تو وہ تصور تصدیق کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ اس صورت میں وہ معرفت سے محروم ہو جاتی ہیں اور باوجودِ تصور بمنزل تصدیق سے ان کی محرومی چونکہ بالاختیار ہوتی ہے، اس لئے وہ اس پر مواخذہ کی مستحق ہوتی ہیں، لیکن جو اس تصور کی تحریک سے متاثر ہو کر قدم آگے بڑھاتا ہے وہ غور و فکر ضروری سمجھتا ہے۔
اور اس طرح دوسرا درجہ اِدراک کا حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مخلوقات کی بو قلمونیوں اور مصنوعات کی نیرنگیوں سے صانع عالم کا کھوج لگایا جائے۔ کیونکہ ہر نقش نقاش کے وجود پر اور ہر اثر مؤثر کی کارفرمائی پر ایک ٹھوس اور بے لچک دلیل ہے۔
البتہ انسان کی عقل و فطرت اس کا سر رشتہ کسی مافوق الفطرت طاقت سے جوڑ دیتی ہے اور اس کا ذوقِ پرستاری و جذبۂ عبودیت اسے کسی معبود کے آگے جھکا دیتا ہے تو وہ من مانی کر گزرنے کے بجائے اپنی زندگی کو مختلف قسم کی پابندیوں میں جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے اور انہی پابندیوں کا نام ’’دین‘‘ ہے جس کا نقطۂ آغاز صانع کی معرفت اور اس کی ہستی کا اعتراف ہے۔
معرفت کی بنیادی حیثیت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اس کے ضروری ارکان و شرائط بیان فرمائے ہیں اور عموماً افرادِ انسانی جن ناقص مراتب ادراک کو اپنی منزل آخر بنا کر قانع ہو جاتے ہیں ان کے ناکافی ہونے کا اظہار فرمایا ہے۔
اور اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ فطرت کے وجدانی احساس اور ضمیر کی راہنمائی سے یا اہلِ مذاہب کی زبان سے سن کر اُس اَن دیکھی ہستی کا تصور ذہن میں پیدا ہو جائے جو ’’خدا‘‘ کہی جاتی ہے۔
اس کا حج فرض اور ادائیگی حق کو واجب کیا ہے اور اس کی طرف راہ نوردی فرض کر دی ہے۔ چنانچہ اللہ نے قرآن میں فرمایا:’’اللہ کا واجب الادا حق لوگوں پر یہ ہے کہ وہ خانہ کعبہ کا حج کریں جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو اور جس نے کفر کیا تو جان لے کہ اللہ سارے جہان سے بے نیاز ہے‘‘۔
--***--
[۱] دین کی اصل و اساس خدا شناسی ہے۔ ’’دین‘‘ کے لغوی معنی اطاعت اور عرفی معنی شریعت کے ہیں۔ یہاں خواہ لغوی معنی مراد لئے جائیں یا عرفی دونوں صورتوں میں اگر ذہن کسی معبود کے تصور سے خالی ہو تو نہ اطاعت کا سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ کسی آئین کی پابندی کا، کیونکہ جب کوئی منزل ہی سامنے نہ ہو گی تو منزل کے رخ پر بڑھنے کے کیا معنی؟ اور جب کوئی مقصد ہی پیشِ نظر نہ ہو گا تو اس کیلئے تگ و دو کرنے کا کیا مطلب؟
اس نے اپنی مخلوق میں سے سننے والے لوگ چن لئے جنہوں نے اس کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے کلام کی تصدیق کی، وہ انبیاء علیہم السلام کی جگہوں پر ٹھہرے، عرش پر طواف کرنے والے فرشتوں سے شباہت اختیار کی، وہ اپنی عبادت کی تجارت گاہ میں منفعتوں کو سمیٹتے ہیں اور اس کی وعدہ گاہ ِمغفرت کی طرف بڑھتے ہیں۔
جَعَلَهٗ سُبْحَانَهٗ وَ تَعَالٰی لِلْاِسْلَامِ عَلَمًا، وَ لِلْعَآئِذِیْنَ حَرَمًا، فَرَضَ حَجَّهٗ، وَ اَوْجَبَ حَقَّهٗ، وَ كَتَبَ عَلَیْكُمْ وِفَادَتَهٗ، فَقَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿وَ لِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ﴾.
اللہ سبحانہ نے اس گھر کو اسلام کا نشان (اور) پناہ چاہنے والوں کیلئے حرم بنایا ہے،
وَ یَاْلَهُوْنَ اِلَیْهِ وُلُوْهَ الْحَمَامِ.
اللہ نے اپنے گھر کا حج تم پر واجب کیا جسے لوگوں کا قبلہ بنایا ہے، جہاں لوگ اس طرح کھنچ کر آتے ہیں جس طرح پیاسے حیوان پانی کی طرف اور اس طرح وارفتگی سے بڑھتے ہیں جس طرح کبوتر اپنے آشیانوں کی جانب۔
جَعَلَهٗ سُبْحَانَهٗ عَلَامَةً لِّتَوَاضُعِهِمْ لِعَظَمَتِهٖ، وَ اِذْعَانِهِمْ لِعِزَّتِهٖ، وَ اخْتَارَ مِنْ خَلْقِهٖ سُمَّاعًا اَجَابُوْۤا اِلَیْهِ دَعْوَتَهٗ، وَ صَدَّقُوْا كَلِمَتَهٗ، وَ وَقَفُوْا مَوَاقِفَ اَنْۢبِیَآئِهٖ، وَ تَشَبَّهُوْا بِمَلٰٓئِكَتِهِ الْمُطِیْفِیْنَ بِعَرْشِهٖ، یُحْرِزُوْنَ الْاَرْبَاحَ فِیْ مَتْجَرِ عِبَادَتِهٖ، وَ یَتَبَادَرُوْنَ عِنْدَ مَوْعِدِ مَغْفِرَتِهٖ.
اللہ جل شانہ نے اس کو اپنی عظمت کے سامنے ان کی فروتنی و عاجزی اور اپنی عزت کے اعتراف کا نشان بنایا ہے۔
کچھ احکام ایسے ہیں جن کا وجوب کتاب سے ثابت ہے اور حدیث سے ان کے منسوخ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور کچھ احکام ایسے ہیں جن پر عمل کرنا حدیث کی رُو سے واجب ہے لیکن کتاب میں ان کے ترک کی اجازت ہے۔ اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہ آئندہ میں ان کا وجوب برطرف ہو جاتا ہے۔
قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہے: کچھ کبیرہ ہیں جن کیلئے آتش جہنم کی دھمکیاں ہیں اور کچھ صغیرہ ہیں جن کیلئے مغفرت کے توقعات پیدا کئے ہیں، کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا تھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کی گنجائش رکھی ہے۔
[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ الْحَجِّ]
[اسی خطبہ میں حج کے سلسلہ میں فرمایا:]
وَ فَرَضَ عَلَیْكُمْ حَجَّ بَیْتِهِ الْحَرَامِ، الَّذِیْ جَعَلَهٗ قِبْلَةً لِّلْاَنَامِ، یَرِدُوْنَهٗ وُرُوْدَ الْاَنْعَامِ،
اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔
بَیْنَ مَاْخُوْذٍ مِّیْثَاقُ عِلْمِهٖ، وَ مُوَسَّعٍ عَلَى الْعِبَادِ فِیْ جَهْلِهٖ، وَ بَیْنَ مُثْبَتٍ فِی الْكِتَابِ فَرْضُهٗ، وَ مَعْلُوْمٍ فِی السُّنَّۃِ نَسْخُهٗ، وَ وَاجِبٍ فِی السُّنَّةِ اَخْذُهٗ، وَ مُرَخَّصٍ فِی الْكِتَابِ تَرْكُهٗ. وَ بَیْنَ وَاجِبٍۭ بِوَقْتِهٖ، وَ زَآئِلٍ فِیْ مُسْتَقْبَلِهٖ، وَ مُبَایَنٍۭ بَیْنَ مَحَارِمِهٖ، مِنْ كَبِیْرٍ اَوْعَدَ عَلَیْهِ نِیْرَانَهٗ، اَوْ صَغِیْرٍ اَرْصَدَ لَهٗ غُفْرَانَهٗ، وَ بَیْنَ مَقْبُوْلٍ فِیْۤ اَدْنَاهُ، وَ مُوَسَّعٍ فِیْۤ اَقْصَاهُ.
اس میں کچھ آیتیں وہ ہیں جن کے جاننے کی پابندی عائد کی گئی ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے ناواقف رہیں تو مضائقہ نہیں۔
حضرتؐ تم میں اسی طرح کی چیز چھوڑ گئے جو انبیاءؑ اپنی اُمتوں میں چھوڑتے چلے آئے تھے۔ اس لئے کہ وہ طریق واضح و نشانِ محکم قائم کئے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔
كِتَابَ رَبِّكُمْ فِیْکُمْ مُبَیِّنًا حَلَالَهٗ وَ حَرَامَهٗ، وَ فَرَآئِضَهٗ وَ فَضَآئِلَهٗ، وَ نَاسِخَهٗ وَ مَنْسُوْخَهٗ، وَ رُخَصَهٗ وَ عَزَآئِمَهٗ، وَ خَاصَّهٗ وَ عَامَّهٗ، وَ عِبَرَهٗ وَ اَمْثَالَهٗ، وَ مُرْسَلَهٗ وَ مَحْدُوْدَهٗ، وَ مُحْكَمَهٗ وَ مُتَشَابِهَهٗ، مُفَسِّرًا مُجْمَلَهٗ، وَ مُبَیِّنًا غَوَامِضَهٗ.
پیغمبر ﷺ نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے۔ اس حالت میں کہ انہوں نے کتاب [۲] کے حلال و حرام، واجبات و مستحبات،ناسخ و منسوخ،رخص و عزائم،خاص و عام،عبر و امثال، مقید و مطلق،محکم و متشابہ کو واضح طور سے بیان کر دیا،مجمل آیتوں کی تفسیر کر دی،
خداوند عالم نے آپؐ کی وجہ سے انہیں گمراہی سے ہدایت کی راہ پر لگایا اور آپ کے وجود سے انہیں جہالت سے چھڑایا۔
ثُمَّ اخْتَارَ سُبْحَانَهٗ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِہٖ لِقَآئَهٗ،وَ رَضِیَ لَهٗ مَا عِنْدَهٗ، وَ اَكْرَمَهٗ عَنْ دَارِ الدُّنْیَا، وَ رَغِبَ بِهٖ عَنْ مُّقَارَنَةِ الْبَلْوٰى، فَقَبَضَهٗ اِلَیْهِ كَرِیْمًا ﷺ، وَ خَلَّفَ فِیْكُمْ مَا خَلَّفَتِ الْاَنْۢبِیَآءُ فِیْۤ اُمَمِهَا، اِذْ لَمْ یَتْرُكُوْهُمْ هَمَلًا، بِغَیْرِ طَرِیْقٍ وَّاضِحٍ، وَ لَا عَلَمٍ قَآئِمٍ:
پھر اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو اپنے لقاء و قرب کیلئے چنا، اپنے خاص انعامات آپؐ کیلئے پسند فرمائے اور دارِ دنیا کی بود و باش سے آپؐ کو بلند تر سمجھا اور زحمتوں سے گھری ہوئی جگہ سے آپؐ کے رخ کو موڑا اور دنیا سے با عزت آپؐ کو اٹھا لیا۔
وَ اَهْلُ الْاَرْضِ یَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُّتَفَرِّقَةٌ، وَ اَهْوَآءٌ مُّنْتَشِرَةٌ، وَ طَرَآئِقُ مُتَشَتِّتَةٌ، بَیْنَ مُشَبِّهٍ لِّلّٰهِ بِخَلْقِهٖ، اَوْ مُلْحِدٍ فِی اسْمِهٖ، اَوْ مُشِیْرٍ اِلٰى غَیْرِهٖ، فَهَدَاهُمْ بِهٖ مِنَ الضَّلَالَةِ، وَ اَنْقَذَهُمْ بِمَكَانِهٖ مِنَ الْجَهَالَةِ.
یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد و اِتمام نبوت کیلئے محمد ﷺ کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد و پیمان لیا جا چکا تھا، جن کے علاماتِ (ظہور) مشہور، محل ولادت مبارک و مسعود تھا۔ اس وقت زمین پر بسنے والوں کے مسلک جدا جدا، خواہشیں متفرق و پراگندہ اور راہیں الگ الگ تھیں۔ یوں کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے، کچھ اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے۔
اللہ سبحانہ نے اپنی مخلوق کو بغیر کسی فرستادہ پیغمبرؑ یا آسمانی کتاب یا دلیلِ قطعی یا طریق روشن کے کبھی یونہی نہیں چھوڑا۔ ایسے رسولؑ، جنہیں تعداد کی کمی اور جھٹلانے والوں کی کثرت درماندہ و عاجز نہیں کرتی تھی، ان میں کوئی سابق تھا جس نے بعد میں آنے والے کا نام و نشان بتایا، کوئی بعد میں آیا جسے پہلا پہچنوا چکا تھا۔
عَلٰى ذٰلِكَ نَسَلَتِ الْقُرُوْنُ، وَ مَضَتِ الدُّهُوْرُ، وَ سَلَفَتِ الْاٰبَآءُ، وَ خَلَفَتِ الْاَبْنَآءُ.
اسی طرح مدتیں گزر گئیں، زمانے بیت گئے، باپ داداؤں کی جگہ پر ان کی اولادیں بس گئیں۔
اِلٰۤى اَنْۢ بَعَثَ اللهُ سُبْحَانَهٗ مُحَمَّدًا رَّسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لِاِنْجَازِ عِدَتِهٖ وَ تَمَامِ نُبُوَّتِهٖ، مَاْخُوْذًا عَلَى النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقُهٗ، مَشْهُوْرَةً سِمَاتُهٗ، كَرِیْمًا مِیْلَادُهٗ۔
اللہ نے ان میں اپنے رسولؑ مبعوث کئے اور لگاتار انبیاءؑ بھیجے تاکہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیں، اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں، پیغامِ ربانی پہنچا کر حجت تمام کریں، عقل کے دفینوں کو ابھاریں اور انہیں قدرت کی نشانیاں دکھائیں: یہ سروں پر بلند بام آسمان، ان کے نیچے بچھا ہوا فرشِ زمیں، زندہ رکھنے والا سامانِ معیشت، فنا کرنے والی اجلیں، بوڑھا کر دینے والی بیماریاں اور پے در پے آنے والے حادثات۔
وَ لَمْ یُخْلِ اللهُ سُبْحَانَهٗ خَلْقَهٗ مِنْ نَّبِیٍّ مُّرْسَلٍ، اَوْ كِتَابٍ مُّنْزَلٍ، اَوْ حُجَّةٍ لَّازِمَةٍ، اَوْ مَحَجَّةٍ قَآئِمَةٍ، رُسُلٌ لَّا تُقَصِّرُ بِهِمْ قِلَّةُ عَدَدِهِمْ، وَلَا كَثْرَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ لَهُمْ، مِنْ سَابِقٍ سُمِّیَ لَهٗ مَنْۢ بَعْدَهٗ، اَوْ غَابِرٍ عَرَّفَهٗ مَنْ قَبْلَهٗ.
وَ یُذَكِّرُوْهُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِهٖ، وَ یَحْتَجُّوْا عَلَیْهِمْ بِالتَّبْلِیْغِ، وَ یُثِیْرُوْا لَهُمْ دَفَآئِنَ الْعُقُوْلِ، وَ یُرُوْهُمْ الْاٰیَاتِ الْمُقَدَّرَةَ: مِنْ سَقْفٍ فَوْقَهُمْ مَرْفُوْعٍ، وَ مِهَادٍ تَحْتَهُمْ مَوْضُوْعٍ، وَ مَعَایِشَ تُحْیِیْهِمْ، وَ اٰجَالٍ تُفْنِیْهِمْ، وَ اَوْصَابٍ تُهْرِمُهُمْ، وَ اَحْدَاثٍ تَتَابَعُ عَلَیْهِمْ.
اللہ سبحانہ نے ان کی اولاد سے انبیاء علیہم السلام چنے، وحی پر ان سے عہد و پیمان لیا، تبلیغ رسالت کا انہیں امین بنایا، جبکہ اکثر لوگوں نے اللہ کا عہد بدل دیا تھا، چنانچہ وہ اس کے حق سے بے خبر ہو گئے اوروں کو اس کا شریک بنا ڈالا، شیاطین نے اس کی معرفت سے انہیں روگرداں اور اس کی عبادت سے الگ کر دیا۔
وَ وَعَدَهُ الْمَرَدَّ اِلٰى جَنَّتِهٖ، فَاَهْبَطَهٗ اِلٰى دَارِ الْبَلِیَّةِ، وَ تَنَاسُلِ الذُّرِّیَّةِ.
پھر اللہ نے آدم علیہ السلام کیلئے توبہ کی گنجائش رکھی، انہیں رحمت کے کلمے سکھائے، جنت میں دوبارہ پہنچانے کا ان سے وعدہ کیا اور انہیں دارِ ابتلا و محل افزائشِ نسل میں اتار دیا۔
وَ اصْطَفٰى سُبْحَانَهٗ مِنْ وَّلَدِهٖ اَنْۢبِیَآءَ، اَخَذَ عَلَى الْوَحْیِ مِیْثَاقَهُمْ، وَ عَلٰى تَبْلِیْغِ الرِّسَالَةِ اَمَانَتَهُمْ، لَمَّا بَدَّلَ اَكْثَرُ خَلْقِهٖ عَهْدَ اللهِ اِلَیْهِمْ، فَجَهِلُوْا حَقَّهٗ، وَ اتَّخَذُوا الْاَنْدَادَ مَعَهٗ، وَ اجْتَالَتْهُمُ الشَّیٰطِیْنُ عَنْ مَّعْرِفَتِهٖ، وَ اقتَطَعَتْهُمْ عَنْ عِبَادَتِهٖ، فَبَعَثَ فِیْهمْ رُسُلَهٗ، وَ وَاتَرَ اِلَیْهِمْ اَنْۢبِیَآئَهٗ، لِیَسْتَاْدُوْهُمْ مِیْثَاقَ فِطْرَتِهٖ،
وَ حَذَّرَهٗۤ اِبْلِیْسَ وَ عَدَاوَتَهٗ، فَاغْتَرَّهٗ عَدُوُّهٗ نَفَاسَةً عَلَیْهِ بِدَارِ الْمُقَامِ، وَ مُرَافَقَةِ الْاَبْرَارِ، فَبَاعَ الْیَقِیْنَ بِشَكِّهٖ، وَ الْعَزِیْمَةَ بِوَهْنِهٖ، وَاسْتَبْدَلَ بِالْجَذَلِ وَجَلًا، وَ بِالْاِغْتِرَارِ نَدَمًا.
پھر اللہ نے آدم علیہ السلام کو ایسے گھر میں ٹھہرایا جہاں ان کی زندگی کو خوشگوار رکھا، انہیں شیطان اور اس کی عداوت سے بھی ہوشیار کر دیا، لیکن ان کے دشمن نے ان کے جنت میں ٹھہرنے اور نیکو کاروں میں مل جل کر رہنے پر حسد کیا اور آخر کار انہیں فریب دے دیا۔ آدم علیہ السلام نے یقین کو شک اور ارادے کے استحکام کو کمزوری کے ہاتھوں بیچ ڈالا، مسرت کو خوف سے بدل لیا اور فریب خوردگی کی وجہ سے ندامت اٹھائی۔
ثُمَّ بَسَطَ اللهُ سُبْحَانَهٗ لَهٗ فِیْ تَوْبَتِهٖ، وَ لَقَّاهُ كَلِمَةَ رَحْمَتِهٖ،
پھر اللہ نے فرشتوں سے چاہا کہ وہ اس کی سونپی ہوئی ودیعت ادا کریں اور اس کے پیمانِ وصیت کو پورا کریں جو سجدۂ آدمؑ کے حکم کو تسلیم کرنے اور اس کی بزرگی کے سامنے تواضع و فروتنی کیلئے تھا۔ اس لئے اللہ نے کہا کہ: ’’آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو، ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا‘‘، اسے عصبیت نے گھیر لیا، بدبختی اس پر چھا گئی، آگ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اپنے کو بزرگ و برتر سمجھا، اور کھنکھناتی ہوئی مٹی کی مخلوق کو ذلیل جانا، اللہ نے اسے مہلت دی تاکہ وہ پورے طور پر غضب کا مستحق بن جائے اور (بنی آدمؑ) کی آزمائش پایۂ تکمیل تک پہنچے اور وعدہ پورا ہو جائے۔ چنانچہ اللہ نے اس سے کہا کہ: ’’تجھے وقت معین کے دن تک کی مہلت ہے‘‘۔
ثُمَّ اَسْكَنَ سُبْحَانَهٗ اٰدَمَ ؑ دَارًا اَرْغَدَ فِیْهَا عِیْشَتَهٗ، وَ اٰمَنَ فِیْهَا مَحَلَّتَهٗ،
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain