Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

The Messenger of Allah (PBUH) said:
"Remember death, for it softens the heart and reminds you of the afterlife." – (Ibn Majah)
Remembering death directs a person towards their true reality and reminds them that the purpose of life is to seek Allah’s pleasure and prepare for the afterlife.
Ali (RA) said:
"Death is the greatest truth of your life. Remember it so that both your worldly and eternal life may improve."
4. The Temporary Nature of This World:
The Qur'an and Hadith describe this world as transient and fleeting. Allah says:
"Your wealth and children are but the adornment of this worldly life, but the lasting good deeds are better with your Lord for reward and better for hope." – (Qur'an, Surah At-Taghabun, 64:15)

MAKT_PAK
 

Hadith:
Narrated by Muadh ibn Jabal (RA), the Messenger of Allah (PBUH) said:
"A person will not move from their place on the Day of Judgment until they have answered five questions: How did they spend their life? How did they use their body? How did they acquire and spend their wealth? What knowledge did they acquire and how did they use it?" – (Ibn Majah)
This Hadith teaches us that our actions will be judged, and it is crucial to understand the purpose of our lives.
3. The Benefit of Remembering Death:
The importance of remembering death is emphasized in the Qur'an and Hadith.

MAKT_PAK
 

Hadith:
Abu Huraira (RA) reported that the Messenger of Allah (PBUH) said:
"When a person’s time comes, they cannot delay death." – (Sahih Muslim)
This Hadith acknowledges that death is a fact from which no one can escape.
2. Life After Death:
Both the Qur'an and Hadith give great importance to the concept of life after death. Allah says:
"And whatever you do, you will be held accountable for it." – (Qur'an, Surah Al-Imran, 3:185)
This means every person will be held accountable for their actions, and the results will be revealed on the Day of Judgment.

MAKT_PAK
 

"Every soul will taste death" – (Qur'an, Surah Al-Imran, 3:185)
This verse highlights one of the most crucial truths in the Qur'an: death is an inevitable reality, and every person must face it. In both the Qur'an and Hadith, the topic of death and the afterlife is emphasized repeatedly. Let’s explore this subject in more detail.
The Reality of Death in the Light of the Qur'an and Hadith:
1. The Inevitability of Death:
There are several verses in the Qur'an that discuss the inevitability of death. One such verse is:
"Death will certainly come to you, even if you hide in fortresses." – (Qur'an, Surah An-Nisa, 4:78)
In this verse, Allah makes it clear that death is unavoidable, no matter how much a person tries to protect themselves.

MAKT_PAK
 

That's a powerful mindset, Jan! Here are some of the best motivational quotes to fuel your drive:
1. "The way to get started is to quit talking and begin doing." – Walt Disney
2. "Don’t let yesterday take up too much of today." – Will Rogers
3. "Success usually comes to those who are too busy to be looking for it." – Henry David Thoreau
4. "The only limit to our realization of tomorrow will be our doubts of today." – Franklin D. Roosevelt
5. "Do what you can, with what you have, where you are." – Theodore Roosevelt
6. "You miss 100% of the shots you don’t take." – Wayne Gretzky
7. "Believe you can and you’re halfway there." – Theodore Roosevelt

MAKT_PAK
 

چیٹ جی پی ٹی کا ایک تو فائدہ ہوا
پہلے جن موٹی موٹی کتابوں کو پڑھنے کیلئے اور جواب ڈھونڈنے کیلئے انسان کے منہ کا تھوک اور جیب سے پیسے ختم ہوجاتے تھے ویسا اب بالکل نہیں ہوتا ہے۔
😂🤣😂🤣😂🤣😂🤣

MAKT_PAK
 

(۱۸) سورۂ بقرہ، آیت ۱۰۹۔
(۱۹) سورۂ طہ، آیت ۵۔
(۲۰) سورۂ بقرہ، آیت ۸۳۔
(۲۱) سورۂ آل عمران، آیت ۷۔
(۲۲) سورۂ محمد، آیت ۱۹۔
(۲۳) سورۂ نساء، آیت ۱۵۔
(۲۴) سورۂ بقرہ، آیت ۱۴۴۔
(۲۵) سورۂ جمعہ، آیت ۹۔
(۲۶) سورۂ نور، آیت ۳۰۔
(۲۷) سورۂ نساء، آیت ۹۳۔
(۲۸) سورۂ مزمل، آیت ۲۰۔

MAKT_PAK
 

اس میں ان اعمال کا بھی ذکر ہے جنہیں تھوڑا سا بجا لانا بھی کفایت کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بجا لانے کی بھی گنجائش ہے. جیسے: ﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾ (۲۸) : ’’جتنا بآسانی قرآن پڑھ سکو اتنا پڑھ لیا کرو‘‘۔ [↑]
(۱) سورۂ ابراہیم، آیت ۱۰۔
(۲) سورۂ انبیاء، آیت ۲۲۔
(۳) سورۂ اخلاص، آیت ۱-۴۔
(۴) سورۂ انعام، آیت ۱۰۳۔
(۵) سورۂ نحل، آیت ۷۴۔
(۶) سورۂ شوریٰ آیت، ۱۱۔
(۷) سورۂ بقرہ، آیت ۲۷۵۔
(۸) سورۂ نساء، آیت ۱۰۳۔
(۹) سورۂ بقرہ، آیت ۲۳۴۔
(۱۰) سورۂ بقرہ، آیت ۱۷۳۔
(۱۱) سورۂ کہف، آیت ۱۱۰۔
(۱۲) سورۂ بقرہ، آیت ۱۲۲۔
(۱۳) سورۂ نور، آیت ۳۵۔
(۱۴) سورۂ نازعات، آیت ۲۵-۲۶۔
(۱۵) سورۂ بقرہ، آیت ۲۶۱۔
(۱۶) سورۂ بقرہ، آیت ۶۷۔
(۱۷) سورۂ بقرہ، آیت ۷۱۔

MAKT_PAK
 

اس میں ایسے احکام بھی ہیں جو صرف مقررہ وقت پر واجب ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کا وجوب باقی نہیں رہتا، جیسے: ﴿اِذَا نُوْدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ﴾ (۲۵) : ’’جب جمعہ کے دن نماز کیلئے پکارا جائے تو ذکر الٰہی کی طرف جلدی سے بڑھو‘‘۔
اس میں حرام کردہ چیزوں کی تفریق بھی قائم کی گئی ہے،جیسے گناہوں کا صغیرہ و کبیرہ ہونا۔ صغیرہ جیسے: ﴿قُلْ لِّـلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُـضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ﴾ (۲۶) : ’’ایمان والوں سے کہو کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں‘‘۔ اور کبیرہ جیسے: ﴿وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَـنَّمُ خَالِدًا فِيْهَا﴾ (۲۷) : ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘۔

MAKT_PAK
 

جیسے: ﴿وَالّٰتِىْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآٮِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِى الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰٮهُنَّ الْمَوْتُ﴾ (۲۳) : ’’تمہاری عورتوں میں سے جو بد چلنی کی مرتکب ہوں ان کی بدکاری پر اپنے آدمیوں میں سے چار کی گواہی لو، اگر وہ گواہی دیں تو ایسی عورتوں کو گھروں میں بند کر دو، یہاں تک کہ موت ان کی زندگی ختم کر دے‘‘۔ یہ سزا اوائل اسلام میں تھی لیکن بعد میں شوہر دار عورتوں کیلئے اس حکم کو حکم رجم سے منسوخ کر دیا گیا۔ اس میں کچھ احکام ایسے ہیں جن سے سنت پیغمبرؐ منسوخ ہو گئی، جیسے: ﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَـرَامِؕ﴾ (۲۴) : ’’چاہئے کہ تم اپنا رخ مسجد حرام کی طرف موڑ لو‘‘۔ اس سے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔

MAKT_PAK
 

س میں بعض احکام مجمل ہیں، جیسے: ﴿وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ (۲۰) :‘‘ نماز قائم کرو‘‘۔
اس میں گہرے مطالب بھی ہیں جیسے وہ آیات کہ جن کے متعلق قدرت کا ارشاد ہے کہ: ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِى الْعِلْمِ﴾ (۲۱) : ’’ان کی تاویل کو اللہ اور رسولؐ اور علم کی گہرائیوں میں اترے ہوئے لوگوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا‘‘۔
پھر ایک دوسرے عنوان سے تفصیل بیان فرماتے ہیں کہ:
اس میں کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا جاننا ضروری ہے، جیسے: ﴿فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ﴾ (۲۲) : ’’اس بات کو جانے رہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں‘‘۔ اور کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا جاننا ضروری نہیں ہے، جیسے: ﴿الٓمّٓۚ﴾ (سورۂ بقرہ، آیت۱)وغیرہ۔
اور اس میں کچھ احکام ایسے ہیں جو سنت پیغمبرؐ سے منسوخ ہو گئے ہیں،

MAKT_PAK
 

کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ تمہیں اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم کوئی سی گائے ذبح کرو‘‘۔ اور ’’مقید‘‘ وہ کہ جس میں تشخص و قیود کی پابندی ہو، جیسے: ﴿اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِيْرُ الْاَرْضَ وَلَا تَسْقِى الْحَـرْثَ﴾ (۱۷) : ’’اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو . جو نہ ہل میں جوتی گئی ہو اور نہ اس سے کھیتوں کو سینچا گیا ہو‘‘۔
اس میں محکم و متشابہہ بھی ہیں۔ ’’محکم‘‘ وہ کہ جس میں کوئی گنجلک نہ ہو جیسے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى کُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ﴾ (۱۸) : ’’بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ اور ’’متشابہ‘‘ وہ کہ جس کے معنی الجھے ہوئے ہوں جیسے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (۱۹) جس کے ظاہر مفہوم سے یہ توہم بھی ہوتا ہے کہ وہ جسمانی طور سے عرش پر برقرار ہے، لیکن مقصود غلبہ و تسلط ہے۔
(بقیہ نماز کے بعد)

MAKT_PAK
 

’’عبرتیں‘‘ جیسے: ﴿فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَڪَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى ؕ ۝ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰىؕ ۝﴾ (۱۴) : ’’خدا نے اسے دنیا و آخرت کے عذاب میں دھر لیا، جو اللہ سے ڈرے اس کیلئے اس میں عبرت کا سامان ہے‘‘۔ اور ’’مثالیں‘‘ جیسے: ﴿ مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِىْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ﴾ (۱۵) : ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس بیج کی سی ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں‘‘۔
اس میں مطلق و مقید ہیں۔ ’’مطلق‘‘ وہ کہ جس میں کسی قسم کی تقیید و پابندی نہ ہو، جیسے: ﴿وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً ؕ﴾ (۱۶) : ’’اس موقعہ کو یاد کرو

MAKT_PAK
 

جیسے: ﴿وَّلَايُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا ۝﴾ (۱۱) : ’’چاہئے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے‘‘۔
اس میں خاص و عام بھی ہیں۔ ’’خاص‘‘ وہ کہ جس کے لفظ میں وسعت ہو اور معنی مقصود کا دائرہ محدود ہو، جیسے: ﴿وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ۝﴾ (۱۲) : ’’اے بنی اسرائیل ہم نے تمہیں عالمین پر فضیلت دی ہے‘‘۔ اس میں ’’عالمین‘‘ سے صرف انہی کا زمانہ مراد ہے، اگرچہ لفظ تمام جہانوں کو شامل ہے، اور ’’عام‘‘ وہ ہے جو اپنے معنی میں پھیلاؤ رکھتا ہو، جیسے: ﴿وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ ۙ۝﴾ (۱۳) : ’’اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے‘‘۔
اس میں عبرتیں اور مثالیں بھی ہیں:

MAKT_PAK
 

اور جب (دشمن کی طرف سے) مطمئن ہو جاؤ تو پھر (معمول کے مطابق) نماز پڑھا کرو‘‘۔ نماز فرض ہے اور دوسرے اذکار مستحب ہیں۔
اس میں ناسخ و منسوخ بھی ہیں۔ ’’ناسخ‘‘ جیسے عدہ وفات میں: ﴿اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا﴾ (۹) : ’’چار مہینے دس دن‘‘ اور ’’منسوخ‘‘ جیسے: ﴿مَتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ۝۰ۚ﴾ (سورۂ بقرہ، آیت۲۴۰) جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدہ وفات ایک سال ہے۔
اس میں مخصوص مواقع پر حرام چیزوں کیلئے رخصت و اجازت بھی ہے، جیسے: ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِؕ ﴾ (۱۰) : ’’اگر کوئی شخص بحالت مجبوری (حرام چیزوں میں سے) کچھ کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، درآں صورتیکہ حدود شریعت کو توڑنا اور ان سے متجاوز ہونا نہ چاہتا ہو‘‘۔
اس میں اٹل احکام بھی ہیں

MAKT_PAK
 

اور دوسری صورت میں اس کی ذات کو محلِ حوادث قرار دینے کے علاوہ یہ لازم آئے گا کہ وہ ان صفتوں کے پیدا ہونے سے پہلے نہ عالم ہو، نہ قادر، نہ سمیع ہو اور نہ بصیر ۔اور یہ عقیدہ اساسی طور پر اسلام کے خلاف ہے۔ [↑]
[۲] ۲قرآن مجید کے احکام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ:
اس میں حلال و حرام کا بیان ہے، جیسے: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ﴾ (۷) : ’’اللہ نے خرید و فروخت کو جائز کیا ہے اور سود کو حرام کر دیا ہے‘‘۔
اس میں فرائض و مستحبات کا ذکر ہے، جیسے: ﴿فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِيَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِكُمْ ۚؕ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ۚ﴾ (۸) : ’’جب نماز (خوف) ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ کو یاد کرو

MAKT_PAK
 

چنانچہ شہر ستانی نے تحریر کیا ہے کہ:
قَالَ اَبُو الْحَسَنِ: الْبَارِیْ تَعَالٰى عَالِمٌۢ بِعِلْمٍ، قَادِرٌۢ بِقُدْرَةٍ، حَیٌّۢ بِحَيَاةٍ، مُرِيْدٌۢ بِاِرَادَةٍ، مُتَكَلِّمٌۢ بِكَلَامٍ، سَمِيْعٌۢ بِسَمْعٍ، بَصِيْرٌۢ بِبَصَرٍ.
ابوالحسن اشعری کہتے ہیں کہ: باری تعالیٰ علم، قدرت ، حیات، ارادہ، کلام اور سمع و بصر کے ذریعہ عالم، قادر، زندہ، مرید، متکلم اور سمیع و بصیر ہے۔ (الملل و النحل، شہرستانی، ج۱، ص۹۳)
اگر صفتوں کو اس طرح زائد بر ذات مانا جائے گا تو دو حال سے خالی نہیں: یا تو یہ صفتیں ہمیشہ سے اس میں ہوں گی یا بعد میں طاری ہوئی ہوں گی۔ پہلی صورت میں جتنی اس کی صفتیں مانی جائیں گی اتنے ہی قدیم اور ماننا پڑیں گے جو قدامت میں اس کے شریک ہوں گے ﴿تَعٰلَى اللہُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾۔

MAKT_PAK
 

فَلَمَّاۤ اَحْدَثَ الْاَشْيَآءَ وَ كَانَ الْمَعْلُوْمُ وَقَعَ الْعِلْمُ مِنْهُ عَلَى الْمَعْلُوْمِ وَ السَّمْعُ عَلَى الْمَسْمُوْعِ وَ الْبَصَرُ عَلَى الْمُبْصَرِ وَ الْقُدْرَةُ عَلَى الْمَقْدُوْرِ.
ہمارا خدائے بزرگ و بر تر ہمیشہ سے عینِ علم رہا حالانکہ معلوم ابھی کتم عدم میں تھا، اور عین سمع و بصر رہا حالانکہ نہ کسی آواز کی گونج بلند ہوئی تھی اور نہ کوئی دکھائی دینے والی چیز تھی، اور عین قدرت رہا،حالانکہ قدرت کے اثرات کو قبول کرنے والی کوئی شے نہ تھی۔ پھر جب اس نے ان چیزوں کو پیدا کیا اور معلوم کا وجود ہوا تو اس کا علم معلومات پر پوری طرح منطبق ہوا،خواہ وہ سنی جانے والی صدائیں ہوں یا دیکھی جانے والی چیزیں ہوں اور مقدور کے تعلق سے اس کی قدرت نمایاں ہوئی۔
(توحید صدوق، ص۱۳۹)
یہ وہ عقیدہ ہے جس پر آئمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے،

MAKT_PAK
 

قرآن نے اس استدلال کی طرف ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے:
﴿اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِؕ۝﴾
کیا اللہ کے وجود میں شک ہو سکتا ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے۔ (۱)
لیکن یہ درجہ بھی ناکافی ہے، جبکہ اس کی تصدیق میں غیر کی الوہیت کے عقیدہ کی آمیزش ہو۔
لَمْ يَزَلِ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ رَبَّنَا وَ الْعِلْمُ ذَاتُهٗ وَ لَا مَعْلُوْمَ وَ السَّمْعُ ذَاتُهٗ وَ لَا مَسْمُوْعَ وَ الْبَصَرُ ذَاتُهٗ وَ لَا مُبْصَرَ وَ الْقُدْرَةُ ذَاتُهٗ وَ لَا مَقْدُوْرَ،

MAKT_PAK
 

چنانچہ انسان جب اپنے گرد و پیش نظر دوڑاتا ہے تو اسے ایسی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی کہ جو کسی صانع کی کا فرمائی کے بغیر موجود ہو گئی ہو، یہاں تک کہ کوئی نقشِ قدم بغیر راہرو کے اور کوئی عمارت بغیر معمار کے کھڑی ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا تو کیونکر یہ باور کر سکتا ہے کہ یہ فلک نیلگوں اور اس کی پہنائیوں میں آفتاب و مہتاب کی تجلیاں اور یہ زمین اور اس کی وسعتوں میں سبزہ و گل کی رعنائیاں بغیر کسی صانع کی صنعت طرازی کے موجود ہو گئی ہوں گی۔ لہٰذا موجودات عالم اور نظم کائنات کو دیکھنے کے بعد کوئی انسان اس نتیجہ تک پہنچنے سے اپنے دل و دماغ کو نہیں روک سکتا کہ اس جہان رنگ وبو کا کوئی بنانے سنوارنے والا ہے، کیونکہ تہی دامانِ وجود سے فیضانِ وجود نہیں ہو سکتا اور نہ عدم سے وجود کا سرچشمہ پھوٹ سکتا ہے۔