پاکستان کے کروڑوں غریبوں کا پیسہ ملک پہ لگنے کی بجائے ادارے کے لوگوں کی جیبوں میں جاتا ہے نیچے سے اوپر تک
اور نہ پاکستان میں مہنگائی ختم ہورہی ہے جسکی وجہ بھی یہ ہی ادارے اور انکی حرام خور اولادیں ہیں جو اس وقت سب سے بڑے شیطان ابلیس وغیرہ کا کام کر رہے ہیں،سود پہ سود لیے جارہے ہیں اور کھا رہے ہیں پھر بھی عام غریب عوام کو آنکھیں نکالتے ہیں اور اور خود کو مسلمان کہتے ہیں ہیں شیطان مردود کی نسلیں اور پورے پاکستان کو بےوقوف الگ بناتے ہیں اور انکے سامنے ایسے مظلوم بنتے ہیں جیسے حقیقت میں اصل مظلوم بھی نہیں ہوتے ہیں۔
یہ جنکو سب بچارے سمجھتے ہیں مثلآ فوج،پولیس وغیرہ یہ کروڑوں،اربوں ڈالرز کے مالک ہوتے ہیں ان کروڑوں اربوں ڈالرز کے مالک جو پاکستان پہ اس وقت قرض چڑھا ہوا ہے بہت سے بینکوں کا جن میں ورلڈ بینک،آئی ایم ایف،دیگر نجی پرائیویٹ بینک اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی غریب عوام
پھر بھی بہت سے گدھے انکو سلوٹ مارتے ہیں یہ جانتے بوجھتے کہ انہوں نے صرف اور صرف پاکستان کو نقصان پہنچایا اگر یہ ادارے فوج وغیرہ ٹھیک ہوتی تو آج پاکستان سپر پاور ہوتا مگر ان مکاروں نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا بلکہ بدمعاش بن کر دن رات مختلف بہانوں سے ملک اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں لگیں ہیں۔
ایک جگہ تین دوست لڑکوں نے ایک سیکورٹی گارڈ کو گن سے گولی مار دی
جسکے بارے میں یہ مشہور کر دیا
دہشتگردوں کی کاروائی تھی
بعد میں پتہ چلا کہ سیکورٹی گارڈ لونڈے باز تھا اور وہ ایک کالونی کے لڑکے کو گھیر رہا تھا غلط کام کرنے کے لیے لڑکے کے سمجھانے کے باوجود گارڈ نہیں مان رہا پھر لڑکے نے اپنے دوست کو بتایا اور پھر اسکے ساتھ اور دو لڑکے آئے اور پستول سے گارڈ کو گولی مار کر قتل کر دیا۔
بہت سے لوگوں کو میں نے دیکھا ہے اپنی اوقات میں نہیں رہتے ہیں اور ہر کسی کی یا تو اولاد بننے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر باپ
جو اوقات ہوتی ہے اس میں رہو کبھی پریشانی یا لڑائی جھگڑے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
یہ دو ہزار چوبیس چل رہا ہے انیس سو سینتالیس نہیں
اس دور میں بعض دفعہ سگی اولاد بھی باپ کو بچہ کہتی ہے پرایا تو پھر پرایا ہوتا ہے۔