ان میں اعلیٰ ذات کی عورتیں ادنی درجہ کے مردوں سے بھی شادیاں کرلیتی تھیں ۔ اس ظاہر ہوتا ہے کہ ذاتوں کی بندش پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا تھا جو بعد میں راءج ہو گئی تھی ۔ اگرچہ بڑی تعداد میں ان شادیوں کا واقع ہونا مشتبہ ہے ۔ لیکن مغرور کشتری ذلیل چنڈال کے درمیان کو خلیج واضح نہ تھی ۔ اس طرح شمالی ہند میں آریا ، کولاری اور دراڑی اقوام کے درمیان بدھ مت کے ظہور تک کوئی امتیازت یا تفریق کے واضح شواہد نہیں ملے ہیں ۔ یعنی ذاتوں کی تفریق سے پہلے ان کے درمیان میل جو و اختلاط قائم تھا اور یہ اختلافات اور اجتناب و پرہیز بعد کے دور میں وجود میں آئے ہیں ۔
پسے ندی کے خاندان ساکیہ کی ایک لڑکی کے ساتھ شادی کے قصہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک کشتری اپنی بیٹی جو لونڈی سے پیدا ہو کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے ۔ اس طرح ہ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ ذاتوں کی خلاف ورزی پر سزا بھی دی جاتی تھی ۔ ایک جاٹکا میں ایک برہمن کو اس کے برہمن بھائیوں نے اس بات پر برہمنوں کی حثیت سے محروم کر دیا کہ اس نے پانی کے ساتھ اس پیچ کو جسے استعمال کیا تھا پی لیا تھا اور اسے مار بیٹ کر شہر سے نکال دیا تھا ۔
ایک جاتکہ میں ایک برہمن نے ایک کشتری کی متعلقہ سے شادی کرلی ۔ مگر اس کی شادی پر اعتراض نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس برہمن کی بدصورتی کا مزاق اڑاتا ہے اور لگتا یہ کہ یہ ایک عام بات ہے ۔ بدھ جاتکاؤں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ذات کی عورتوں اور مردوں کے درمیان شادی ہوا کرتی تھیں ۔
چنانچہ ایک بدھ جاتکا میں ہے کہ ایک کشتری عاشق اپنی معشوقہ کے لیے پہلے کمھار ، پھر ٹوکری ساز ، پھر دھوبی اور اس کے بعد مالی اور باوچی کا پیشہ اختیار کرتا ہے ۔ ایک اور جاتکہ میں ایک امیر شخص پہلے درزی ، پھر کمھار کا کام کرتا ہے ، لیکن اس سے ان کے نسب کوئی اثر نہیں ہوتا ہے ۔
ان جاتکاؤں سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ برہمن زراعت ، گوالے اور گڈریے کی خدمات اجرت پر انجام دیتے تھے ۔ اس طرح آپس میں شادی بیاہ کی مثالیں بھی ملتی ہیں ۔ پست ذاتوں کے ساتھ کھانے یا نہ کھانے بارے میں بھی مثالیں ملتی ہیں ۔ مثلاً ایک برہمن نے کشتری کے ساتھ کھانا کھایا اور ایک دوسری جاٹکا میں ایک چنڈال کے ساتھ ہم پیالہ ہوتا ہے اور بعد میں افسوس کرتا ہے ۔
پہلے تین طبقات جو اعلیٰ طبقہ تھے اور یہ اپنا مقام بدل کر دوسرے طبقہ میں شامل ہو سکتے تھے ۔ ایسی بہت سی مثالیں جو کسی نہ کسی وجہ سے محفوظ رہ گئیں ہیں ۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ رنگوں اور طبقوں کے درمیاں کوئی حد فاضل نہیں تھی ۔ اس میں شک نہیں ہے کہ قدیم قبائل مثلاً دراوڑی ، کولاری اور دوسری قوموں کے امرا اور دوسرے لوگ بھی کسی نہ کسی وجہ سے یا سیاسی اہمت حاصل کرکے ان ذاتوں میں شامل ہو گئے تھے ۔ ان ذاتوں کے بارے میں ہمارے پاس اس کا سب سے بہتر ماخذ بدھ جاتکا (بدھوں کے قصے) ہیں ۔ جس میں بدھوں سے پہلے کی ذاتوں اور پیشوں کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔
ان جاتکاؤں سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کے لوگوں کو پوری آزادی تھی کہ وہ چاہے ذلیل پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار کر لیں اور ان کے نسب پر کوئی حروف نہیں آتا تھا۔
آبادی کی یہ تقسیم مکمل نہ تھی اور شودروں سے بھی زیادہ پست ، نیچ اور ذلیل ذاتیں (ہنا جاتیو اور ہتا سپتانی) تھیں ۔ جن میں چڑی مار ، گھسیارے ، رتھ ساز کمھار ، جلاہے اور چمڑہ ساز شامل تھے ۔ بدھ اور جینوں کی کتابوں میں ان قوموں کو چنڈال اور پکس اقوام بتایا گیا ہے جو نہایت حقیر اور پست سمجھے جاتے تھے ۔ ہ میں غلاموں کا ذکر ملتا ہے جو نہایت قلیل تھے جو مختلف وجوہ کی بنا پر غلام بنائے جاتے تھے اور ان کی اولاد بھی غلام ہوتی تھی ۔ مگر ان پر یونانیوں ، رومیوں یا عیسائیوں کی طرح ظلم و ستم نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا ۔ یہ عموماً گھروں میں کام کرتے تھے۔
ویدی دور میں ذاتوں ماخذ ملتے ہیں صرف برہمنی ہیں ۔ جس کے مطابق آریا بار بار اپنی گوری رنگت پر نازاں تھے اور چار طبقات یعنی کشتری جو امرا تھے اور اپنی شرافت کا نسب کا جو سات پشتوں تک شمار ہوتا تھا خیال رکھتے تھے ۔ یہ رنگ کے گورے ، چہرے مہرے پاکیزہ ، دیکھنے میں وجیہ اور شاندار ۔ اس کے بعد برہمن تھے جو بھینٹ چڑھانے والے پرہتوں کی نسل سے تھے ۔ یہ بھی کشتریوں کی طرح شرافت و نسب اور گورے چٹے ہونے کی وجہ سے عوام میں ممتاز تھے ۔ تیسرے اہل زراعت کا ویش طبقہ تھا اور سب سے نچلا طبقہ شوردوں کا تھا ۔ جن میں بڑا حصہ غیر آریا نسل کا تھا جو مزدوری ، دستکاری اور ملازمت کرتا تھا اور ان کا رنگ سانولا تھا ۔ لیکن ان چاروں طبقات میں بھی اندونی مراتب تھے ۔ جو قدر مبہم اور قدر تغیر پیزیر اور غیر متعین تھے۔
لیکن یہ طریقہ کار ایک زمانے میں پوری دنیا میں جاری تھا۔
ویدوں میں ذات کے لیے ورن کا کلمہ استعمال آیا ہے ۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ رنگ ہی ذات کی بنیاد بنا ۔ مگر ویدی زمانے میں ذاتوں کا بندھن بہت ڈھیلا ڈھالا تھا اور کوئی پیشہ کسی ذات کے لیے مخصوص نہیں تھا ۔ ہر شخص آزاد تھا کہ وہ کسی بھی پیشہ کو اختیار کرسکتا تھا ۔ ویدوں میں ایسے بہت سے اشلوک ایسے ملتے ہیں جن میں بڑھی اور کمھار جیسے پیشوں کو جو بعد میں حقیر اور ان کی ذات کو پست بتایا گیا ہے عزت و توقیر کی نظر سے دیکھا ہے ۔ ساتویں صدی قبل مسیح تک کچھ ایسا ہی دستور ہندوستان میں بھی راءج تھیں ۔ برصغیر کی آبادی میں بڑے نسلی گروہ آریا ، دراوڑی اور کولاری شامل تھے ۔ اس لیے ان کا آپس میں اختلاف رکھنا قدرتی امر تھا۔
اوائل میں آدمی کی قربانی بھی رائج تھی۔ جانوروں کی قربانی کو اہمیت حاصل ہے، آج بھی کالی کو سیکڑوں بھنسوں چڑھائے جاتے ہیں۔ ہون ہردیگیہ کا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
ستی بھی مذہبی رسم تھی، ہندو عہد میں رائج رہی۔ اس کے علاوہ روزانہ غسل کرنا، صبح شام سورج کی پوجا کرنا، مقدس مقامات کی زیارت کرنا اور دیوتاؤں کے سامنے ناچنا گانا اہم مذہبی رسوم ہیں۔
قدیم زمانے میں شادی و بیاہ اور کھانے پینے کے متعلق ہر قوم میں کچھ نہ کچھ بندشیں تھیں اور اب بھی مختلف بندشیں ملتی ہیں جنہیں رواج کا نام دیا جاتا ہے ۔ ان ان کی بعض دعوتوں کے کھانے میں اجنبیوں کو بالکل نہیں اور مخصوص لوگوں کو شریک نہیں کیا جاتا ہے ۔ بعض جگہ دعوت کے موقع پر غیروں کو ذات یا رشتہ کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ ہر برادری و قبیلہ اگرچہ مختلف طریقہ کار رکھتے ہیں۔
اس عقیدے کے مطابق انسان کو صرف ایک زندگی نہیں ملتی ہے، چنانچہ وہ مرنے کے بعد پھر جنم لیتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ہر موت کے بعد اس کا اعمال نامہ یم یعنی موت کے دیوتا کے سامنے پیش ہوتا ہے، جو اسے جانچتا ہے اور روح کو صفائی پیش کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر روح کو اس کے اعمال کے مطابق نرک میں کچھ دنوں کے لیے بھیج دیتا ہے۔ جب یہ میعاد ختم ہوجاتی ہے، تو اسے دوبارہ جنم لینے کے لیے بھیج دیتا ہے اور یہ چکر اس وقت تک چلتا رہتا ہے۔ جب تک انسان اچھے اور معقول اعمال کا ذخیرہ کرلیتا ہے، تو اس کی مکتی نہیں ہوجاتی ہے۔ مگر مکتی (نجات) کیا ہے، معلوم نہیں ہے۔
ہندو رسوم میں یجن یا یگیہ یعنی قربانی کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ یہ آریاؤں کی رسم تھی، جو ہندو عہد تک جاری رہی۔ مختلف راجاؤں کے عہد میں گھوڑے کی قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔
بقیہ ہندو مذہب کے بارے میں
۔
۔
۔
ہندو مت کے عقائد اور رسوم
ہندو مت کا پہلا عقیدہ مخلوق پرستی ہے جس کی تفصیل گذر چکی ہے۔ اس کے علاہ کرم و تناسخ کا عقیدہ ہے جنہیں بہت اہمیت حاصل ہے۔ کرم کے عقیدے کے مطابق ہر عمل چھوٹا بڑا، اچھا برُا انسانی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور انسان اپنے عمل (کرم) کے لحاظ سے سزا اور جزا کا عمل مستحق ہوتا ہے۔ یعنی کرم کے مطابق اچھا یا برُا جنم لیتا ہے۔
ان کا دوسرا عقیدہ تناسخ (آوا گون) کے متعلق ہے، جو ویدی عہد میں کچھ مبہم تھا۔ پھر بھگود گیتا میں کرشن نے متعدد جنم کی تعلیم نے اس کے لیے مواد فراہم کیا کہ یہاں تک ہندو عہد میں پوری طرح مستحکم ہو گیا۔
یہ آٹھ سمتوں کے نام ہیں ۔ یہ مندروں میں پوجی جاتی ہیں اور اکثر مندر میں اپنی ترتیب سے لگی ہوئیں ہیں ان سمتوں کی پوجا قدیم ہے ۔ پتنجلی نے اپنے مہابھاشہ میں دھن پتی (کبیر) کے مندر میں مردنگ ، سنکھ اور بانسری بجانے کا زکر کیا ہے ۔
اس کے دیوتاؤں کے بعد گرہ ، نچھتر ، صبح ، دوپہر ، شام ، ہتھیارو ، کلی ، یوگوں کی ، راگوں کی بھی موتیاں بنائی گئیں ہیں ۔ آخر میں ہندووَں کے پانچ پوجنے والے دیوتا سورج ، وشنو ، دیبی ، رودر اور شیور رہ گئے اور ان کی مشترک مورتیاں پنچاءتن کہلاتی ہیں ۔ ایسے پنچاتین مندروں میں بھی ملتے ہیں اور گھروں میں بھی ان کی پوجا ہوتی ہے ۔ جس دیوتا کا مندر ہوتا ہے اس کی مورتی وسط میں اور باقی چاروں کی مورتیاں کونوں پر بنی ہوتی ہیں ۔
۔
۔
۔
بقیہ جاری ہے بعد میں یہاں بھیجوں گا
GOOD BYE 🙂
اس طرح سورج مندر میں سرکے سامنے چوکور کھمبے کے اوپر ایک کنول کی شکل کا پیہہ ہوتا ہے ، یہی سورج کی سواری ۔ سورج کے رتھ کو ساتھ گھوڑے گھنچتے ہیں ۔ اسے سپتاشو (سات گھوڑون کا سوار) کہتے ہیں اور کئی مندرون میں سورج کے نیچے سات گھوڑے بھی بنے ہوتے ہیں ۔ ایک مندر میں نیچے سورج بوٹ پہنے ہوئے ہے اور اوپر برہما ، وشنو اور شیو بنے ہوئے ہیں ۔ سورج کا سب سے پرانا مندر منڈسور میں پانچویں صدی کا بنا ہوا ہے ۔ ملتان کا سورج کا مندر مشہور ہے ۔ اسے مہر کلا نے بنوایا تھا ۔ ہن سورج کی پوجا کرتے ۔ ہرش کے بزرگ بھی سورج کی پوجا کرتے تھے ۔ سورج کے بیٹے ریونٹ کی بھی گھوڑے پر بیٹھی موتیاں ملتی ہیں اور وہ گھوڑوں کا دیوتا ماتا جاتا اور اس کے پیروں میں بھی لمبے لمبے بوٹ ہوتے ہیں۔آٹھ دگپالیں اندر ، اگنی ، یم نیرت ، برن ، مرت ، کبیر اور ایش (شیو) کی بھی مورتیں ملتی ہیں۔
پھوشیہ پران میں لکھا ہے کہ سورج کے پیر کھلے نہیں ہونے چاہیے ۔ اس پران میں ہے کہ راجا سانب جو کرشن اور جامونتی کا بیٹا تھا سورج کی وجہ سے بیماری سے شفا پائی ۔ اس نے سورج کا مندر بنانا چاہا مگر برہمنوں نے نہیں مانا ۔ اس نے ایران سے مگ قوم کے برہمنوں بلوایا ۔ یہ لوگ اپنی پیدائش برہمن کنیا اور سورج سے مانتے تھے اور سورج کی پوجا کرتے تھے ۔ سورج پوجا برصغیر مین کب سے راءج ہے یہ کہنا مشکل ہے ۔ براہ مہر نے لکھا ہے سورج کی مورتیوں کی پوجا مگ قوم کے لوگوں نے راءج کی ہے ۔ البیرونی لکھتا ہے ہندوستان کے تمام سورج مندروں کے پجاری ایرانی مگ ہوتے ہیں ۔ راجپوتانہ میں سورج کے ہزاروں مندر بنے ہوئے ہیں اور ان کے پجاریوں کو سیوک اور بھوجک کہتے ہیں ۔ شیو مندر میں بیل ، وشنو مندر میں گروڑ ان کی سواری ہوتے ہیں۔
رامائن میں اسے کنگا کا بیٹا کہا گیا ہے اور بعد میں یہ شیو اور پاربتی کا بیٹا مشہور ہو گیا۔یہ دیوتاؤں کی فوج کا سپہ سالار ہے۔ پتنجای نے مہابھاشیہ میں شو اور اسکندر کی مورتیوں کا زکر کیا ہے۔کنشک کے سکوں پر اسکند،مہاسین آدی کمار کے نام ملتے۔ہیمادری کے ورت کھنڈ میں اسکند کی پوجا کا حال ملتا ہے اور یہ پوجا آج بھی جاری ہے۔
برصغیر میں سورج کی پوجا کا رواج بھی رہا ہے۔سورج کو ایشور کا روپ مانا جاتا تھا اور اس کا درجہ بہت اونچا ہے۔سورج کی مورتی دو ہاتھوں والی اور دونوں ہاتھوں میں کنول، سر پر تاج،سینہ پر زرہ اور پیروں میں گھٹنے سے کچھ نیچے لمبے بوٹ ہوتے ہیں۔ہندووَں کی پوجنے والی مورتیوں میں صرف سورج کی مورتی کے بوٹ ہوتے ہیں۔شاید یہ ایران سے آئی ہو،جہاں بوٹوں کا رواج تھا اور اس کے پجاری مگ ایرانی ہوتے ہیں۔
ان دیویوں میں انند بھیروی،تری پور سندری اور للتا وغیرہ زیادہ مشہورہیں۔انکےماننےوالوں کے خیال میں شیواورتری پور سندری کے اختلات سے دنیا وجود میں آئی ہے۔انکے مطابق ناگری رسم الخط کے پہلےحرووف سےشیواورآخری حروف سے تری پور سندری مراد ہیں۔اس طرح دو حروفوں مل کر اختلات کا اشارہ کرتے ہیں۔
گنیش اور اس کی ماں امیکا کی پوجا کا تذکرہ ملتا ہے مگر چوتھی صدی سے پہلے کی گنیش کی کوئی مورتی ملی ہے اور نہ کوئی کتبہ ملا ہے۔ایلورا کے غاروں میں دوسرے دیوتاؤں کے ساتھ گنیش کی مورتیاں ملیں وہ بعد کی ہیں۔نویں صدی کے گھٹیالا کے ستون میں گنیش کی چارمورتیاں ملی ہیں۔گنیش کے منہ پر سونڈ کب لگائی گئی اس بارےمعلومات نہیں ہیں۔مگر ایلورااورگھتیالےکی موتیوں پر سونڈ بنی ملی ہے۔مالتی مادھوناٹک میں گنیش کی سونڈکاذکرہے۔اسکندیاکارتکیہ کی پوجابھی قدیم زمانےسےپوجاجاری ہے۔
شیو اور پاربتیوں کی بعض مورتیوں میں آدھا جسم شیو کا اورآدھاپاربتی کا۔ایسی تینوں کی مجموعی مورتی بھی ملتی ہیں۔شیواوروشنو کی مشترک مورتی کی ہر ہر اور تینوں کی مشترک مورتی کو ہری پتامہ کہتے ہیں۔
ابتدا میں پرتما کے دیوتاؤں کی الگ الگ پوجا نہیں ہوتی تھی۔الگ الگ پوجابعدکی پیداوارہیں۔بلکہ ایشور کی مختلف شکتیوں اور دیوتاؤں کی بیویوں کی بھی مورتیاں بنادی گئیں اور انکی بھی پوجاہونےلگی۔قدیم ادبیات میں ایسی کتنی دیویوں کے نام ملتےہیں۔ان میں براہمی،ماہیشوری،کوماری،ویشنوی،باراہی،نارسنگھی اور ایندری کی ان سات شکتیوں کو ماترکا کہتے ہیں۔کچھ خوفناک اورغضبناک شکتیاں بھی ایجاد کی گئیں۔ان میں کالی،کرالی،کاپانی،چامنڈٓ اورچنڈی،بھوانی زیادہ مشہورہیں اورانکاتعلق کاپالکوں اور کالامکھوں سےہے۔کچھ ایسی شکتیوں کی بھی ایجادہوئیں جونفس پروری کی طرف لےجانےوالی ہیں۔
برہما کی یگیوں (قربانی) کا بانی اور وشنو کا اوتار مانا جاتا ہے۔برہما کی جو مورتی دیوار سے ملی ہوتی تھی اس کے تین منہ ہوتے اور جس مورتی کے چاروں طرف طواف کیا تھا اس کے چار منہ دیکھائے جاتے ہیں۔ایسی چومکھی مورتیاں بہت کم ہیں۔برہما کے ایک ہاتھ میں سرود ہوتا ہے جو یگیہ کرانے کی علامت ہے۔شیو اور پارپتی ک مشترک مورتیوں میں جو کئی جگہ ملی ہیں ان میں برہما پروہت بنایا گیا ہے۔مورتیوں کے تخیل میں برہما ،وشنو اور شیو تینوں ایک پرماتما کی مختلف صورتیں مانی گئی ہیں۔برہما کی کئی مورتیں ایسی ملی ہیں جن کے کنارے پر وشنو اور دوسرے پر شیو کی چھوٹی چھوٹی مورتیاں ہیں۔اس طرح وشنو کی مورتیوں پر شیو اور برہما کی مورتیں اور شیو کی مورتیون پر وشنو اور برہما کی مورتیاں ہوتی ہیں۔بعد میں ان تینوں دیوتاؤں کی الگ الگ مورتیاں بنبے لگیں۔
داہنی طرف کے دو ہاتھوں میں ایک میں سانپ اور دوسرے میں پیالہ۔بائیں طرف کے دو ہاتھوں میں ایک میں پتلی چھڑی اور دوسرے میں ڈھال یا آئینہ کی شکل کی کوئی گول چیز ہوتی ہے۔تثلیث مورتی جپوترے کے اوپر اس میں صرف جسم کا بالائی دیوار سے ملا ہوتا ہے۔اس کے سامنے زمین پر اکثر شیو لنگ ہوتا ہے۔ایسی تری مورتیان بمبئی سے چھ میل دور ایلنٹٹا،چتور کے قلعے،سررہی راج وغیرہ کئی مقامات پر دیکھنے میں آئی ہیں۔جن میں سب سے پرانی ایلفنٹا والی۔شیو کی رقص کرتی موریتان دھات یا پتھر کی کئی سے جگہ ملی ہیں۔
اسطرح لکولیش یا نکولیش فرقہ کی مورتیاں راجپوتانہ،گجرات،کاٹھیاوار،دکھن،بنگال اور اڑیسہ ملی ہیں۔ام مورتیوں میں شیوں کے سر پر اکثر لمبے بال ہوتے تھے۔دو پاتھ ہوتے تھے جس میں دائین ہاتھ میں ہیجورا اور بائیں ہاتھ میں ڈنڈا یعنی لکولیش ہوتا تھا۔اس کی نشست پدماسن ہوتی تھی۔
عموماً یہ ایک چھوتے گول ستوں کی صورت کی ہوتی تھیں یا اوپر کے حصہ گول کر کے چاروں طرف چار منہ بنا دیے جاتے تھے۔اوپر کے گول حصے برہمانڈ (کائناتٌ) اور چاروں منہ میں پورپ والے سورج،پچھم والے سے وشنو،اتر والے سے برہما اور دکھن والے سے رودر مراد ہوتے تھے۔کچھ مورتیں ایسی ملی ہیں جن کے چاروں طرف منہ ہیں۔ان چاروں دیوتاؤں کی مورتیاں ہی بنی ہیں۔ان چاروں کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا بنانے کا منشا یہ تھا کہ کونین کا خالق شیو ہے اور چاروں طرف دیوتا اس کی صفات کی مختلف صورتین ہیں۔شیو کی عظیم الجثہ تری مورتی (تثلیث) کہیں کہیں پائی گئی ہیں۔اس کے چھ ہاتھ تین منہ بڑی بڑی چٹاؤں سے مزیں تین سر ہوتے ہیں۔ایک منہ روتا ہوا جو شیو کو رودر کہلانے کی دیلیل ہے۔اس کے وسط کے دو ہاتھوں میں ایک میں بجورا اور دوسرے میں مالا ہے۔
البتہ کشان فرمانروا کڈفسس کے سکوں پر پہلی صدی میں شیو کی مورتی بنی ہوئی ہے۔ دلجسپ بات یہ ہے جو آج ہندو دیوتاؤں کی مورتیوں میں دو سے زیادہ سے زیادہ ہاتھ دیکھائے جاتے ہیں پہلے اس کا رواج نہیں۔پہلے پہل بدھ کی مورتی میں چتر بھیج (چار ہاتھوں والی) بنائی گئی تھی۔بعد میں وشنو اور شیو کی مورتیاں کو بھی چتر بھیج بنانے لگے۔یہاں تک وشنو کی مورتیوں 41 اور 42 ہاتھوں والی بھی مورتیاں بھی بنائی جانے لگیں اور ان ہاتھوں میں مختلف طرح کے اسلحے تھما دیے گئے۔وشنو کی تین منہ والی موتیاں بھی ملی ہیں۔ان میں مکھٹ (تاج) کے ساتھ تین چہرے بنائے گئے ہیں یا بیچ میں وشنو کا تاجدار سر ہے اور دونوں طرد براہ اور نرسنگھ کی موتیاں بنی ہوئی ہیں۔غالباً یہ مورتیاں بھی شیو کی تثلیث کی نقل ہیں۔شیو فرقے کے لوگ شیو کی مختلف شکلوں میں مورتیاں بناتے اور پوجنے لگے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain