بس ترا اسم مناجات میں رکھا ہوا ہے
گردش وقت کو اوقات میں رکھا ہوا ہے
یہ ترے عدل و مساوات میں رکھا ہوا ہے
تو نے تو اجر بھی درجات میں رکھا ہوا ہے
اب مجھے جا کے ہر اک در پہ صدا دینی ہے
جب مرا رزق ہی خیرات میں رکھا ہوا ہے
اپنی ہر بات پہ ہوتا ہے ولایت کا گماں
عشق نے کیسے طلسمات میں رکھا ہوا ہے
تو نے جو آخری مکتوب مجھے بھیجا تھا
میں نے اک عمر سے برسات میں رکھا ہوا ہے
رونق شہر کبھی راس نہیں آئی ذکیؔ
دل کو بہلا کے مضافات میں رکھا ہوا ہے
ارشد عباس ذکی
میں نے بننا تھا کیا، بنا جنگل
ایسا ویسا نہیں، گھنا جنگل
ایک وحشت نئی ملی مجھکو
لوگ کہنے لگے نیا جنگل
ایک دل میں ہزار غم یعنی
دشت ہی دشت سے بھرا جنگل
مجھ پہ فلمیں بنائی جائیں گی
لوگ لکھیں گے ایک تھا جنگل
تیرے آنے سے ہو گئے آباد
میرے گاؤں کے بے بہا جنگل
ایک جنگل کو مل گئی وحشت
ایک وحشت کو بھا گیا جنگل
اُن بزرگوں کو ڈھونڈتا ہوں میں
جن کا مسلک ہے دل، خدا ، جنگل
تجھ سے صحرا ہزار پھرتے ہیں
کوئی مجھ سا ہے سر پھرا جنگل؟
اسامہ عندلیب
جو کارِ عشق میں عرصہ لگا کے بیٹھے ہیں
ہم ان کے سامنے چشمہ لگا کے بیٹھے ہیں
تمہارے جسم میں اتنا لہو نہیں ہو گا
ہم ایک نظم پہ جتنا لگا کے بیٹھے ہیں
میں ان کی جیت کی خوشیاں منایا کرتا تھا
جو میری ہار پہ پیسا لگا کے بیٹھے ہیں
خدا سے آگے کوئی آرزو بھی باقی نہیں
سو کوہِ طور پہ خیمہ لگا کے بیٹھے ہیں
مرے دماغ میں کچھ بد تمیز سینا پتی
تمہاری یاد کا جھنڈا لگا کے بیٹھے ہیں
لگی ہوئی ہیں جبینیں یہاں پہ سجدوں میں
سو ہم جبین پہ سجدہ لگا کے بیٹھے ہیں
نظارو آؤ زیارت کرو نظارے کی
حضور آنکھ میں سُرمہ لگا کے بیٹھے ہیں
اسامہ آپ یہ چپرہ اتارئیے خود سے
یہ کیا عجیب سا چہرہ لگا کے بیٹھے ہیں
اسامہ عندلیب
میں کل خدا سے ملوں گا اسی بیان کے ساتھ
ہماری بن نہ سکی تھی ترے جہان کے ساتھ
کوئی گلی نہیں آتی مری گلی کی طرف
کوئی مکان نہیں ہے مرے مکان کے ساتھ
کسی کا رزق نہ چھیینو بھئی رقیب میاں
نئی دکان نہ کھولو مری دکان کے ساتھ
مری پتنگِ تخیل زرا سی ڈھیل تو مانگ
میں اس جہاں کو بدل دوں تری اُڑان کے ساتھ
ہماری پہلی محبت تھا وہ زبان دراز
پھر اس کے بعد محبت ہوئی زبان کے ساتھ
اسامہ عندلیب
آنکھ میں خواب نہیں خواب کا ثانی بھی نہیں
کنج لب میں کوئی پہلی سی کہانی بھی نہیں
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں اک شہر تخیل میں تجھے
اور مرے پاس ترے گھر کی نشانی بھی نہیں
بات جو دل میں دھڑکتی ہے محبت کی طرح
اس سے کہنی بھی نہیں اس سے چھپانی بھی نہیں
آنکھ بھر نیند میں کیا خواب سمیٹیں کہ ابھی
چاندنی رات نہیں رات کی رانی بھی نہیں
لیلی حسن ذرا دیکھ ترے دشت نژاد
سر بسر خاک ہیں اور خاک اڑانی بھی نہیں
کچے ایندھن میں سلگنا ہے اور اس شرط کے ساتھ
تیز کرنی بھی نہیں آگ بجھانی بھی نہیں
اب تو یوں ہے کہ ترے ہجر میں رونے کے لئے
آنکھ میں خون تو کیا خون سا پانی بھی نہیں
ایوب خاور
ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا
میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا