https://youtu.be/VAZxSoKb65o?si=_sc8Kj4fV-i41MSo
.
.
.
Taaron Ky Shehar
https://youtu.be/y_RHQ4mBDKA?si=oMub5_5dthPLkiGK
.
.
.
Bedardi Sy Pyar Ka

دل نے کیا ہے قصد سفر گھر سمیٹ لو
جانا ہے اس دیار سے منظر سمیٹ لو
آزادگی میں شرط بھی ہے احتیاط کی
پرواز کا ہے اذن مگر پر سمیٹ لو
حملہ ہے چار سو در و دیوار شہر کا
سب جنگلوں کو شہر کے اندر سمیٹ لو
بکھرا ہوا ہوں صرصر شام فراق سے
اب آ بھی جاؤ اور مجھے آ کر سمیٹ لو
رکھتا نہیں ہے کوئی نگفتہ کا یاں حساب
جو کچھ ہے دل میں اس کو لبوں پر سمیٹ لو
گئی چھاؤں اس تیغ کی سر سے جب کی
جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی
پڑی خرمن گل پہ بجلی سی آخر
مرے خوش نگہ کی نگاہ اک غضب کی
کوئی بات نکلے ہے دشوار منہ سے
ٹک اک تو بھی تو سن کسی جاں بہ لب کی
تو شملہ جو رکھتا ہے خر ہے وگرنہ
ضرورت ہے کیا شیخ دم اک وجب کی
یکایک بھی آ سر پہ واماندگاں کے
بہت دیکھتے ہیں تری راہ کب کی
دماغ و جگر دل مخالف ہوئے ہیں
ہوئی متفق اب ادھر رائے سب کی
تجھے کیونکے ڈھونڈوں کہ سوتے ہی گزری
تری راہ میں اپنے پیے طلب کی
دل عرش سے گزرے ہے ضعف میں بھی
یہ زور آوری دیکھو زاری شب کی
عجب کچھ ہے گر میرؔ آوے میسر
گلابی شراب اور غزل اپنے ڈھب کی
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی
بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے
ایسی گئی بہار مگر آشنا نہ تھی
کب تھا یہ شور نوحہ ترا عشق جب نہ تھا
دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی
وہ اور کوئی ہوگی سحر جب ہوئی قبول
شرمندۂ اثر تو ہماری دعا نہ تھی
آگے بھی تیرے عشق سے کھینچے تھے درد و رنج
لیکن ہماری جان پر ایسی بلا نہ تھی
دیکھے دیار حسن کے میں کارواں بہت
لیکن کسو کے پاس متاع وفا نہ تھی
آئی پری سی پردۂ مینا سے جام تک
آنکھوں میں تیری دختر رز کیا حیا نہ تھی
اس وقت سے کیا ہے مجھے تو چراغ وقف
مخلوق جب جہاں میں نسیم و صبا نہ تھی
پژمردہ اس قدر ہیں کہ ہے شبہ ہم کو میرؔ
تن میں ہمارے جان کبھو تھی بھی یا نہ تھی
اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی
اپنی جگہ بہار میں کنج قفس رہی
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
لطف قبائے تنگ پہ گل کا بجا ہے ناز
دیکھی نہیں ہے ان نے تری چولی چس رہی
دن رات میری آنکھوں سے آنسو چلے گئے
برسات اب کے شہر میں سارے برس رہی
خالی شگفتگی سے جراحت نہیں کوئی
ہر زخم یاں ہے جیسے کلی ہو بکس رہی
دیوانگی کہاں کہ گریباں سے تنگ ہوں
گردن مری ہے طوق میں گویا کہ پھنس رہی
جوں صبح اس چمن میں نہ ہم کھل کے ہنس سکے
فرصت رہی جو میرؔ بھی سو یک نفس رہی
جمالؔ اب تو یہی رہ گیا پتہ اس کا
بھلی سی شکل تھی اچھا سا نام تھا اس کا
پھر ایک سایہ در و بام پر اتر آیا
دل و نگاہ میں پھر ذکر چھڑ گیا اس کا
کسے خبر تھی کہ یہ دن بھی دیکھنا ہوگا
اب اعتبار بھی دل کو نہیں رہا اس کا
جو میرے ذکر پر اب قہقہے لگاتا ہے
بچھڑتے وقت کوئی حال دیکھتا اس کا
مجھے تباہ کیا اور سب کی نظروں میں
وہ بے قصور رہا یہ کمال تھا اس کا
سو کس سے کیجیئے ذکر نزاکت خد و خال
کوئی ملا ہی نہیں صورت آشنا اس کا
جو سایہ سایہ شب و روز میرے ساتھ رہا
گلی گلی میں پتہ پوچھتا پھرا اس کا
جمالؔ اس نے تو ٹھانی تھی عمر بھر کے لیے
یہ چار روز میں کیا حال ہو گیا اس کا
سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ
دشت اب اپنی جگہ باقی نہ گھر اپنی جگہ
میں بھی نادم ہوں کہ سب کے ساتھ چل سکتا نہیں
اور شرمندہ ہیں میرے ہم سفر اپنی جگہ
کیوں سمٹتی جا رہی ہیں خود بہ خود آبادیاں
چھوڑتے کیوں جا رہے ہیں بام و در اپنی جگہ
جو کچھ ان آنکھوں نے دیکھا ہے میں اس کا کیا کروں
شہر میں پھیلی ہوئی جھوٹی خبر اپنی جگہ
میں جمالؔ اپنی جگہ سے اس لیے ہٹتا نہیں
وہ گھڑی آ جائے شاید لوٹ کر اپنی جگہ
نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے
دل برباد کو اس طرح سے آباد رکھا ہے
جھمیلے اور بھی سلجھانے والے ہیں کئی پہلے
اور اس کے وصل کی خواہش کو سب سے بعد رکھا ہے
رکا رہتا ہے چاروں سمت اشک و آہ کا موسم
رواں ہر لحظہ کاروبار ابر و باد رکھا ہے
پھر اس کی کامیابی کا کوئی امکان ہی کیا ہو
اگر اس شوخ پر دعویٰ ہی بے بنیاد رکھا ہے
خزاں کے خشک پتے جس میں دن بھر کھڑکھڑاتے ہیں
اسی موسم کا نام اب کے بہار ایجاد رکھا ہے
یہ کیا کم ہے کہ ہم ہیں تو سہی فہرست میں اس کی
بھلے نا شاد رکھا ہے کہ ہم کو شاد رکھا ہے
جسے لفظ محبت کے معانی تک نہیں آتے
اسے اپنے لیے ہم نے یہاں استاد رکھا ہے
جواب اپنے کو چاہے جو بھی وہ ملبوس پہنائے
سوال اس دل نے اس کے آگے مادر زاد رکھا ہے
ظفرؔ اتنا ہی کافی ہے جو وہ راضی رہے ہم پر
کمر اپنی پہ کوئی بوجھ ہم نے لاد رکھا ہے
نہ کوئی زخم لگا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے
یہ گھر بہار کی راتوں میں بے چراغ پڑا ہے
عجب نہیں یہی کیف آفریں ہو شام ابد تک
جو طاق سینہ میں اک خون کا ایاغ پڑا ہے
کبھی رلائے گی اس یار بے وفا کی تمنا
جو زندگی ہے تو صد لمحۂ فراغ پڑا ہے
یہ ایک شاخچۂ غم سے اتنے پھول جھڑے ہیں
کبھی قریب سے گزرو تو ایک باغ پڑا ہے
پسِ خیالِ ملاقات شرم ساری تھی
سو ہم نے عمر ترے ہجر میں گزاری تھی
بزعمِ خود ترے پہلو میں آن بیٹھے تھے
وہ خود فریبی تھی جو دل کی بے قراری تھی
یہ چار سانس کی لذّت اُٹھا کے دیکھ لیا
کہ دوستوں کی رَوِش بھی ستم شعاری تھی
کچھ ایسا بوجھ تو نہ تھا یہ بار خوابوں کا
یہ بات اور ہے تعبیر سخت بھاری تھی
لپٹ کے ہم سے یہ زار و قطار روتی ہے
وصال شام کہ پلکوں سے جو بُہاری تھی
حقیقت آج یہ اعزاز کھُل گئی ہم پر
ستم گری تھی وہ اُن کی جو غم گساری تھی


انتیس لاکھ گائے زبح کردیں پاکستان میں عید کے دن
انڈیا والوں تم کچھ نہیں کر سکے صرف باتوں کے سوا
😂🤣😂🤣😂🤣😂
29 lac cow zibha kr di pakistan maien eid ky din
India walon tum kuch nahi kr saky srif baaton ky siwa
😂🤣😂🤣😂🤣😂





submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain