جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفہ کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
احمد سلمان
شبنم ہے کہ دھوکا ہے کہ جھرنا ہے کہ تم ہو
دل دشت میں اک پیاس تماشہ ہے کہ تم ہو
اک لفظ میں بھٹکا ہوا شاعر ہے کہ میں ہوں
اک غیب سے آیا ہوا مصرع ہے کہ تم ہو
دروازہ بھی جیسے مری دھڑکن سے جڑا ہے
دستک ہی بتاتی ہے پرایا ہے کہ تم ہو
اک دھوپ سے الجھا ہوا سایہ ہے کہ میں ہوں
اک شام کے ہونے کا بھروسہ ہے کہ تم ہو
میں ہوں بھی تو لگتا ہے کہ جیسے میں نہیں ہوں
تم ہو بھی نہیں اور یہ لگتا ہے کہ تم ہو
احمد سلمان
گزرتے وقت کی کوئی نشانی ساتھ رکھتا ہوں
کہ میں ٹھہراؤ میں بھی اک روانی ساتھ رکھتا ہوں
سمجھ میں خود مری آتا نہیں حالات کا چکر
مکاں رکھتا نہیں ہوں لا مکانی ساتھ رکھتا ہوں
گزرنا ہے مجھے کتنے غبار آلود رستوں سے
سو اپنی آنکھ میں تھوڑا سا پانی ساتھ رکھتا ہوں
فنا ہونا اگر لکھا گیا ہے میرے ہونے میں
تو میں تجھ کو بھی اے دنیائے فانی ساتھ رکھتا ہوں
آفتاب حسین
وہ سر سے پاؤں تک ہے غضب سے بھرا ہوا
میں بھی ہوں آج جوش طلب سے بھرا ہوا
شورش مرے دماغ میں بھی کوئی کم نہیں
یہ شہر بھی ہے شور و شغب سے بھرا ہوا
ہاں اے ہوائے ہجر ہمیں کچھ خبر نہیں
یہ شیشۂ نشاط ہے جب سے بھرا ہوا
ملتا ہے آدمی ہی مجھے ہر مقام پر
اور میں ہوں آدمی کی طلب سے بھرا ہوا
ٹکراؤ جا کے صبح کے ساغر سے آفتابؔ
دل کا یہ جام وعدۂ شب سے بھرا ہوا
آفتاب حسین
بس ایک بات کی اس کو خبر ضروری ہے
کہ وہ ہمارے لیے کس قدر ضروری ہے
دلوں میں درد کی دولت بچا بچا کے رکھو
یہ وہ متاع ہے جو عمر بھر ضروری ہے
نہیں ضرور کہ مقدور ہو تو ساتھ رکھیں
کبھی کبھار مگر نوحہ گر ضروری ہے
کبھی تو کھیل پرندے بھی ہار جاتے ہیں
ہوا کہیں کی بھی ہو مستقر ضروری ہے
یہ کیا ضرور کہ مست اپنے آپ ہی میں رہیں
ادھر ادھر کی بھی کچھ کچھ خبر ضروری ہے
مفر نہیں غم دنیا سے آفتاب حسینؔ
بہت کٹھن ہے یہ منزل مگر ضروری ہے
آفتاب حسین
جب سفر سے لوٹ کر آنے کی تیاری ہوئی
بے تعلق تھی جو شے وہ بھی بہت پیاری ہوئی
چار سانسیں تھیں مگر سینے کو بوجھل کر گئیں
دو قدم کی یہ مسافت کس قدر بھاری ہوئی
ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں
ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی
اس طرح چالیں بدلتا ہوں بساط دہر پر
جیت لوں گا جس طرح یہ زندگی ہاری ہوئی
کن طلسمی راستوں میں عمر کاٹی آفتابؔ
جس قدر آساں لگا اتنی ہی دشواری ہوئی
آفتاب حسین
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بہت کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستان گلاب لکھنا
میں جب چلوں گا تو ریگزاروں میں الفتوں کے کنول کھلیں گے
ہزار تم میرے راستوں میں محبتوں کے سراب لکھنا
فراق موسم کی چلمنوں سے وصال لمحے چمک اٹھیں گے
اداس شاموں میں کاغذ دل پہ گزرے وقتوں کے باب لکھنا
وہ میری خواہش کی لوح تشنہ پہ زندگی کے سوال ابھرنا
وہ اس کا حرف کرم سے اپنے قبولیت کے جواب لکھنا
گئے زمانوں کی درد کجلائی بھولی بسری کتاب پڑھ کر
جو ہو سکے تم سے آنے والے دنوں کے رنگین خواب لکھنا
آفتاب حسین
تِیر اِس بار نشانے کی طرف سے آیا
یعنی اِک زخم نہ آنے کی طرف سے آیا
کارِ دُنیا نے اب اُلجھایا ہے ایسا کہ مجھے
دھیان اپنا بھی زمانے کی طرف سے آیا
ہر گُلِ تازہ میں خُوشبُوئے گُزشتہ پائی
ہر نیا خواب ، پُرانے کی طرف سے آیا
راستہ دیکھتے رہتے تھے کہ آئے گا کوئی
اور جسے آنا تھا ، جانے کی طرف سے آیا
اب تو بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ شخص
یاد کُچھ اور بُھلانے کی طرف سے آیا
آفتاب حسین
عجیب زہر کا نشّہ ہے میرے ہونٹوں پر
کہ جس کی لَو سے مری پتلیاں سُلگتی ہیں
وہ آگ ہے مرے اندر عذاب کی ، جس سے
مَیں اپنی ذات میں گلزار ہوتا جاتا ہُوں
(یہ آگ وہ ہے جو سیراب کرنا جانتی ہے)
یہ کون ہاتھ تھپکتا ہے رات بھر مجھ کو؟
یہ میرے زہر میں پانی ملا دیا کس نے؟
عجب طرح کا سکوں میرے اِضطراب میں ہے!
آفتاب حسین
اِک شخص کو نڈھال کیا اور چل پڑے
شب ہم نے بھی کمال کیا اور چل پڑے
پتھر بنے ہوئے تھے ہمیں اپنی راہ کا
سو ، خود کو پایمال کیا اور چل پڑے
کیا کیا حقیقتیں نہ لپٹتی تھیں پاؤں سے
اِک خواب کا خیال کیا اور چل پڑے
دیکھا کہ رفتگاں کے نشاں تک کہیں نہیں
کچھ سوچ کر ملال کیا اور چل پڑے
ایسا سفر کہ سینے میں اُڑتی تھی گرد سی
پھر سانس کو بحال کیا اور چل پڑے
اِک ہجر تھا کہ راہ کی دِیوار بن گیا
اُس ہجر سے وصال کیا اور چل پڑے
آفتاب حسین
تلاش اپنی تھی ہم کو کہ جستجو تری تھی
مقابل آئنہ تھا ، شکل ہو بہو تری تھی
خبر نہیں کوئی اٹھ کر کدھر کو دوڑ پڑا
کہ دشتِ خواب میں آواز چار سو تری تھی
ہم ایسے لوگ تو بس آنکھ بن کے دیکھتے تھے
نمِ نگاہ تھا تُو، ہر طرف نمو تری تھی
نجانے کون زمیں پر تھا رقص بسمل کا
بس اتنا یاد رہا تیغ بر گلو تری تھی
یہ بات سچ سہی ، قاتل ہمارے اندر تھا
مگر وہ چشم کہ تھی اپنے روبرو ، تری تھی
تجھے تو یہ بھی نہیں یاد ، بانوئے خوش پوش!
کہ کس کے خون سے چادر لہُو لہُوتری تھی
آفتاب حسین
پیسہ بولتا ہے ماں باپ گھر والوں کو راحت دے جبکہ ماں باپ گھر والے کہتے ہیں جا جاکر ہمارے لیے پیسے کما کر لا۔
اپنی خود کی ہی بڑی پریشانیاں ہیں ادھر
اسلیئے ہمارے پاس وقت نہیں جو کسی کے بھی بارے میں سوچے۔
ایک لڑکی کو بہت سالوں پہلے میں نے دوستی کے لیے بولا
اس وقت اس نے کہا تھا
کل تک سوچ کر بتاؤں گی۔
آجکل دوہزار چوبیس چل رہا ہے مگر اس لڑکی کی کل نہیں ہوئی ابھی تک۔
بےوفا لوگوں کی دنیا ہے یہ
یہاں وفا کم بےوفائی ذیادہ ملے گی
https://vt.tiktok.com/ZSFQ7XtK4/
.
.
.
very funny video
اک تو اسے ہر بات میں حد چاہئے میری
پھر اِس پہ محبت بھی اشد چاہئے میری
پہلے اسے درکار تھی شام اور یہ شانہ
اب مجھ کو بھلانے میں مدد چاہئے میری
بُو آنے لگی تجھ سے بھی دنیا کی مرے یار
کچھ روز مجھے صحبتِ بد چاہئے میری
کہتی ہے فرشتوں کی طرح ٹوکوں نہ روکوں
اور آدمی والی بھی سند چاہئے میری
کیا دن میں ضروری ہے کہ اوروں میں رہو تم؟
کیا رات میں بس نیتِ بد چاہئے میری؟
آلِ عمر

قول حضرت آدم علیہ السلام
اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر معافی مانگنے پر اللّٰہ تعالی معاف فرماتے ہیں۔
Boy apni girl friend sy
janu kb mily?
Girl:Ammi ki tabiyt kharab hai
Boy:To maien ny bhi aap sy milna hai aapki Ammi sy nahi
😂
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain