نوٹ:چھوٹے گھر اور سستی پرانی گاڑیاں میں فروخت نہیں کرتا اس لیے مہربانی فرما کر چھوٹے گھر اور سستی پرانی گاڑیاں خریدنے کے لیے کسی اور سے رابطہ کریں۔
شکریہ



آجکل ہر کوئی خود فتنے پیدا کر کے کہتا کہتی ہے فتنے بہت بڑھ چکے ہیں۔
😂
دستک اور آواز تو کانوں کے لئے ہے
جو روح کو سنائی دے اسے خاموشی کہتے ہیں۔



https://www.facebook.com/reel/786283483351595?mibextid=clAStenag2xWjlf4
.
.
.
Bouth achi video hai zarur suno
جس کڑی دا پیو اس نوں بیس روپے پاپڑ کھانے کے لیے نہیں دیتا
وہ بھی آجکل اپنے بوائے فرینڈ کو اس لارے میں لگا کے رکھے ہوئے ہے
جانو،عید کی شاپنگ میں آپکو اپنے پیسوں سے کراؤں گی۔
😂
BF to bouth sari girls ka hoon me
koi hansband bhi bna ly mujh ko.
🙂
مجھے تو کوئی لڑکی یہ بھی کہنے والی نہیں ہے چلیں آئے شادی کر لیتے ہیں اب تو آپ میرا سارا خرچ بھی اٹھا لیں گے جان۔
🙂
شاید اب تمہیں سامنے دیکھوں تو پہچان بھی نہ پاؤں
اتنی مدت گزر گئی تم سے بچھڑے
🙂
نور ہی نور سے مکھڑے پہ وہ نوری آنکھیں
اُس کے اِنجیل سے چہرے پہ ضبوری آنکھیں
چھوڑ آیا ہوں کسی آنکھ میں بینائی کو
بچا لایا ہوں چہرے پہ ادھوری آنکھیں
اُس کو پہلو میں بٹھا کر اُسے تکنے کا نشہ
کس قدر ہو گئیں چہرے پہ ضروری آنکھیں
احمد سلمان
کبھی تو بیعت فروخت کردی کبھی فصیلیں فروخت کر دیں
میرے وکیلوں نے میرے ہونے کی سب دلیلیں فروخت کر دیں
وہ اپنے سورج تو کیا جلاتے، میرے چراغوں کو بیچ ڈالا
فرات اپنے بچا کے رکھے، میری سبیلیں فروخت کر دیں
احمد سلمان
شاخ امکان پر، کوئی کانٹا اُگا، کوئی غنچہ کھلا، میں نے غزلیں کہیں
زعمِ عیسیٰ گریزی میں جو بھی ہوا، میں نے ہونے دیا، میں نے غزلیں کہیں
لوگ چیخا کئے، وہ جو معبود ہے، بس اسی کی ثناء، بس اسی کی ثناء
میری شہ رگ سے میرے خدا نے کہا، مجھ کو اپنی سنا، میں نے غزلیں کہیں
حبسِ بیجا میں تھی شہر کی جب ہوا، آپ جیتے رہے، آپ کا حوصلہ
میں اصولوں وغیرہ کا مارا ہوا، مجھ کو مرنا پڑا، میں نے غزلیں کہیں
کوئی دُکھ بھی نہ ہو، کوئی سُکھ بھی نہ ہو، اور تم بھی نہ ہو، اور مصرعہ کہیں
ایسا ممکن نہیں، ایسا ہوتا نہیں، لیکن ایسا ہوا، میں نے غزلیں کہیں
عشق دوہی ملے، میں نے دونوں کیے، اک حقیقی کیا، اک مجازی کیا
میں مسلمان بھی، اور سلمان بھی، میں نے کلمہ پڑھا، میں نے غزلیں کہیں
احمد سلمان
جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے
جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے
یہ شہر سارا تو روشنی میں کھلا پڑا ہے سو کیا لکھوں میں
وہ دور جنگل کی جھونپڑی میں جو اک دیا ہے وہ شاعری ہے
دلوں کے مابین گفتگو میں تمام باتیں اضافتیں ہیں
تمہاری باتوں کا ہر توقف جو بولتا ہے وہ شاعری ہے
تمام دریا جو ایک سمندر میں گر رہے ہیں تو کیا عجب ہے
وہ ایک دریا جو راستے میں ہی رہ گیا ہے وہ شاعری ہے
احمد سلمان
کالی رات کے صحراؤں میں نور سپارا لکھا تھا
جس نے شہر کی دیواروں پر پہلا نعرہ لکھا تھا
لاش کے ننھے ہاتھ میں بستہ اور اک کھٹی گولی تھی
خون میں ڈوبی اک تختی پر غین غبارہ لکھا تھا
آخر ہم ہی مجرم ٹھہرے جانے کن کن جرموں کے
فرد عمل تھی جانے کس کی نام ہمارا لکھا تھا
سب نے مانا مرنے والا دہشت گرد اور قاتل تھا
ماں نے پھر بھی قبر پہ اس کی راج دلارا لکھا تھا
احمد سلمان
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain