اک تو اسے ہر بات میں حد چاہئے میری
پھر اِس پہ محبت بھی اشد چاہئے میری
پہلے اسے درکار تھی شام اور یہ شانہ
اب مجھ کو بھلانے میں مدد چاہئے میری
بُو آنے لگی تجھ سے بھی دنیا کی مرے یار
کچھ روز مجھے صحبتِ بد چاہئے میری
کہتی ہے فرشتوں کی طرح ٹوکوں نہ روکوں
اور آدمی والی بھی سند چاہئے میری
کیا دن میں ضروری ہے کہ اوروں میں رہو تم؟
کیا رات میں بس نیتِ بد چاہئے میری؟
آلِ عمر

قول حضرت آدم علیہ السلام
اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر معافی مانگنے پر اللّٰہ تعالی معاف فرماتے ہیں۔
Boy apni girl friend sy
janu kb mily?
Girl:Ammi ki tabiyt kharab hai
Boy:To maien ny bhi aap sy milna hai aapki Ammi sy nahi
😂
یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور
کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی
کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر
جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور
امید سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور
کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور
اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور
اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور
شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور
آنس معین
وہ کچھ گہری سوچ میں ایسے ڈوب گیا ہے
بیٹھے بیٹھے ندی کنارے ڈوب گیا ہے
آج کی رات نہ جانے کتنی لمبی ہوگی
آج کا سورج شام سے پہلے ڈوب گیا ہے
وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے
میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں
میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے
شور تو یوں اٹھا تھا جیسے اک طوفاں ہو
سناٹے میں جانے کیسے ڈوب گیا ہے
آخری خواہش پوری کر کے جینا کیسا
آنسؔ بھی ساحل تک آ کے ڈوب گیا ہے
آنس معین
باہر بھی اب اندر جیسا سناٹا ہے
دریا کے اس پار بھی گہرا سناٹا ہے
شور تھمے تو شاید صدیاں بیت چکی ہیں
اب تک لیکن سہما سہما سناٹا ہے
کس سے بولوں یہ تو اک صحرا ہے جہاں پر
میں ہوں یا پھر گونگا بہرا سناٹا ہے
جیسے اک طوفان سے پہلے کی خاموشی
آج مری بستی میں ایسا سناٹا ہے
نئی سحر کی چاپ نہ جانے کب ابھرے گی
چاروں جانب رات کا گہرا سناٹا ہے
سوچ رہے ہو سوچو لیکن بول نہ پڑنا
دیکھ رہے ہو شہر میں کتنا سناٹا ہے
محو خواب ہیں ساری دیکھنے والی آنکھیں
جاگنے والا بس اک اندھا سناٹا ہے
ڈرنا ہے تو انجانی آواز سے ڈرنا
یہ تو آنسؔ دیکھا بھالا سناٹا ہے
آنس معین
عجب تلاش مسلسل کا اختتام ہوا
حصول رزق ہوا بھی تو زیر دام ہوا
تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی
نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا
ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا
کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا
ذرا سی عمر عداوت کی لمبی فہرستیں
عجیب قرض وراثت میں میرے نام ہوا
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
ہم اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہیں پچھتاوا
خیال لوٹ کے جانے کا گام گام ہوا
آنس معین
یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا
نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا
تعلقات میں آئی ہے بس یہ تبدیلی
ملیں گے اب بھی مگر انتظار کم ہوگا
میں سوچتا رہا کل رات بیٹھ کر تنہا
کہ اس ہجوم میں میرا شمار کم ہوگا
پلٹ تو آئے گا شاید کبھی یہی موسم
ترے بغیر مگر خوش گوار کم ہوگا
بہت طویل ہے آنسؔ یہ زندگی کا سفر
بس ایک شخص پہ دار و مدار کم ہوگا
آنس معین
کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے
کچھ برگ سبز وقت سے پہلے ہی جھڑ گئے
کچھ آندھیاں بھی اپنی معاون سفر میں تھیں
تھک کر پڑاؤ ڈالا تو خیمے اکھڑ گئے
اب کے مری شکست میں ان کا بھی ہاتھ ہے
وہ تیر جو کمان کے پنجے میں گڑ گئے
سلجھی تھیں گتھیاں مری دانست میں مگر
حاصل یہ ہے کہ زخموں کے ٹانکے اکھڑ گئے
نروان کیا بس اب تو اماں کی تلاش ہے
تہذیب پھیلنے لگی جنگل سکڑ گئے
اس بند گھر میں کیسے کہوں کیا طلسم ہے
کھولے تھے جتنے قفل وہ ہونٹوں پہ پڑ گئے
بے سلطنت ہوئی ہیں کئی اونچی گردنیں
باہر سروں کے دست تسلط سے دھڑ گئے
آنس معین
جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے کس سے کہانی کہتے
سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے ورنہ
شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے
وقت گزرتا جاتا اور یہ زخم ہرے رہتے تو
بڑی حفاظت سے رکھی ہے تیری نشانی کہتے
وہ تو شاید دونوں کا دکھ اک جیسا تھا ورنہ
ہم بھی پتھر مارتے تجھ کو اور دیوانی کہتے
تبدیلی سچائی ہے اس کو مانتے لیکن کیسے
آئینے کو دیکھ کے اک تصویر پرانی کہتے
تیرا لہجہ اپنایا اب دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تو اپنی زبانی کہتے
چپ رہ کر اظہار کیا ہے کہہ سکتے تو آنسؔ
ایک علاحدہ طرز سخن کا تجھ کو بانی کہتے
آنس معین
وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی
یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی
میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشم دریا میں
لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایا بھی
بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا
مجھے دکھایا بھی تو نے مجھے چھپایا بھی
بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تمہارے نام کو لکھا بھی اور مٹایا بھی
آنس معین
وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی
یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی
میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشم دریا میں
لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایا بھی
بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا
مجھے دکھایا بھی تو نے مجھے چھپایا بھی
بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تمہارے نام کو لکھا بھی اور مٹایا بھی
آنس معین
ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور
پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور
تردید تو کر سکتا تھا پھیلے گی مگر بات
اس طور بھی ہوگی تری رسوائی ذرا اور
کیوں ترک تعلق بھی کیا لوٹ بھی آیا؟
اچھا تھا کہ ہوتا جو وہ ہرجائی ذرا اور
ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں
یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور
لڑنا وہیں دشمن سے جہاں گھیر سکو تم
جیتو گے تبھی ہوگی جو پسپائی ذرا اور
بڑھ جائیں گے کچھ اور لہو بیچنے والے
ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور
اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور
آنس معین
اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں
مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں
پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے
اس شہر خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں
ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے
سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کسے دیں
سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ
اور پاس ہے بس ایک ردا دیں تو کسے دیں
جب ہاتھ ہی کٹ جائیں تو تھامے گا بھلا کون
یہ سوچ رہے ہیں کہ عصا دیں تو کسے دیں
بازار میں خوشبو کے خریدار کہاں ہیں
یہ پھول ہیں بے رنگ بتا دیں تو کسے دیں
چپ رہنے کی ہر شخص قسم کھائے ہوئے ہے
ہم زہر بھرا جام بھلا دیں تو کسے دیں
آنس معین
اس نے پُر کیف اشاروں میں نکالی باتیں
میز پر چائے جو رکھّی تو اُٹھالی باتیں
ہم فقیروں کو کبھی وجد میں آ لینے دو
پھر سُنو بیٹھ کے پہلو میں دھمالی باتیں
اتنے دن بعد ملے ہیں تو گِلے رہنے دو
آؤ دو چار کریں خیر سگالی باتیں
بات پہلے تو نگاہوں سے کہی تھی اس نے
پھر تو ہر انگ سے پُر کیف اُچھالی باتیں
آج کھولا تو زمانے تھے کئی آنکھوں میں
ماں نے صندوق میں کتنی تھی سنبھالی باتیں
ایسے گزری تھیں دسمبر کی وہ راتیں انجم
اوڑھ لیں ہم نے, کبھی نیچے بِچھا لیں باتیں
آصف انجم
دُھند میں لپٹے ہوئے، دور سے آتے ہوئے لوگ
برف کے جسم لئے آگ جلاتے ہوئے لوگ
نقص تھا میری سماعت میں یا تنہائی کا خوف
کتنے خاموش لگے شور مچاتے ہوئے لوگ
ڈوبنے والے کی آنکھوں سے عیاں تھا منظر
تھے کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے ہوئے لوگ
ایک دنیا ہے مرے جسم کے اندر موجود
جس میں آباد، مجھے کاٹ کے کھاتے ہوئے لوگ
ہانک کر دشت بھی لے آئے مرے گھر کے پاس
میری دیوار سے جنگل کو ملاتے ہوئے لوگ
دھوپ کے ساتھ لڑے، سائے کی تلواریں لئے
موم کے گھر کو پگھلنے سے بچاتے ہوئے لوگ
اب بھی پیپل کی گھنی چھاؤں بلاتی ہے اُنھیں
کتنے پیارے تھے وہ چوپال سجاتے ہوئے لوگ
آصف انجم
گُم گشتہ وفاؤں کے گُنہگار پرندے
لپٹے ہیں کٹے پیڑ سے دو چار پرندے
کرتے نہیں ہیں پیاس میں بھی نقل مکانی
کچھ عمر رسیدہ , ہیں سمجھدار پرندے
اوڑھی تھی درختوں نے ہری شال بدن پر
آئے نہ مگر لوٹ کے اس بار پرندے
فرصت میں چلا جاتا ہوں دربار پہ اکثر
غم بانٹنے لگ جاتے ہیں غمخوار , پرندے
رہتے ہیں ندامت کی جلی شاخ سے لٹکے
ہجرت کے خطاوار , سزاوار, پرندے
خوابوں میں نظر آتا ہے اب ایک ہی منظر
ویران کنواں , جھولتے اشجار , پرندے
پالے تھے کبھی شوق سے اجداد نے انجم
غم کے یہ , سِیہ پوش , عزادار پرندے
آصف انجم
جو تیرے ساتھ گزاری، لپیٹ کر رکھ دی
وہ رات ہجر نے ساری، لپیٹ کر رکھ دی
بہت لگن سے چراغوں کو تھا کیا روشن
ہوا نے کار گزاری، لپیٹ کر رکھ دی
میں بھیگی رات کو کل دھوپ میں سکھاؤں گا
ابھی تو اشکوں کی ماری، لپیٹ کر رکھ دی
بس اک دوپٹہ تھا جو اُس گلے پہ ٹھہرا تھا
جو شال اوڑھی تھی بھاری، لپیٹ کر رکھ دی
تمہارا نام لیا ، واسطے دیئے اُس نے
شجر کو کاٹتی آری، لپیٹ کر رکھ دی
وہ اونچی ذات کا چھورا تھا صاف بچ نکلا
وہ نیچ ذات کی ناری ، لپیٹ کر رکھ دی
اُسی کے کہنے پہ پہنی تھی آج شرٹ بلیک
ملا نہیں وہ ، اُتاری ، لپیٹ کر رکھ دی
آصف انجم
گُلوں سا بانکپن, مہکی جوانی, ایک عورت ہے
محبت کی حسیں, دلکش کہانی, ایک عورت ہے
وجودِ ذات کی تکمیل کے اِسرار میں لپٹی
بقائے آدمیّت کی نشانی ایک عورت ہے
دھمالِ عشق کے پیروں سے اُڑتی خاک سے پوچھو
دیارِ ِ دل پہ کرتی حُکمرانی ایک عورت ہے
پسِ منظر میں صحرا ہے مگر تصویر کے اوپر
بہت ہی شوخ رنگوں سے بنانی ایک عورت ہے
یہ مریم بھی , سکینہ بھی ,ردائے فاطمہ بھی ہے
حیاء زینب, زلیخا کی جوانی ایک عورت ہے
ازل سے تا ابد سیرابی ء تشنہ لبی اس سے
محبت کے سمندر کی روانی ایک عورت ہے
گہے ماں ہے, گہے بہنا, گہے بیٹی ہے یہ انجم
مگر ہر روپ میں ہی جاودانی ایک عورت ہے
آصف انجم
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain