Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

اک تو اسے ہر بات میں حد چاہئے میری
پھر اِس پہ محبت بھی اشد چاہئے میری
پہلے اسے درکار تھی شام اور یہ شانہ
اب مجھ کو بھلانے میں مدد چاہئے میری
بُو آنے لگی تجھ سے بھی دنیا کی مرے یار
کچھ روز مجھے صحبتِ بد چاہئے میری
کہتی ہے فرشتوں کی طرح ٹوکوں نہ روکوں
اور آدمی والی بھی سند چاہئے میری
کیا دن میں ضروری ہے کہ اوروں میں رہو تم؟
کیا رات میں بس نیتِ بد چاہئے میری؟
آلِ عمر

💥 DJ TIME 💥 (MUSIC KA BLAST)
.
.
.
WELCOME TO IN MY WORLD ✌️
.
.
.
ALWAYS KEEP SMILE 🙂
.
.
.
TAKE CARE ❤️
.
.
.
LOVE YOU ALL 😘
.
.
.
AND RAMZAN MUBARAK TO MY ALL FAMILY ❤️
M  : 💥 DJ TIME 💥 (MUSIC KA BLAST) . . . WELCOME TO IN MY WORLD ✌️ . . .  - 
MAKT_PAK
 

قول حضرت آدم علیہ السلام
اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر معافی مانگنے پر اللّٰہ تعالی معاف فرماتے ہیں۔

MAKT_PAK
 

Boy apni girl friend sy
janu kb mily?
Girl:Ammi ki tabiyt kharab hai
Boy:To maien ny bhi aap sy milna hai aapki Ammi sy nahi
😂

MAKT_PAK
 

یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور
کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی
کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر
جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور
امید سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور
کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور
اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور
اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور
شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور
آنس معین

MAKT_PAK
 

وہ کچھ گہری سوچ میں ایسے ڈوب گیا ہے
بیٹھے بیٹھے ندی کنارے ڈوب گیا ہے
آج کی رات نہ جانے کتنی لمبی ہوگی
آج کا سورج شام سے پہلے ڈوب گیا ہے
وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے
میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں
میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے
شور تو یوں اٹھا تھا جیسے اک طوفاں ہو
سناٹے میں جانے کیسے ڈوب گیا ہے
آخری خواہش پوری کر کے جینا کیسا
آنسؔ بھی ساحل تک آ کے ڈوب گیا ہے
آنس معین

MAKT_PAK
 

باہر بھی اب اندر جیسا سناٹا ہے
دریا کے اس پار بھی گہرا سناٹا ہے
شور تھمے تو شاید صدیاں بیت چکی ہیں
اب تک لیکن سہما سہما سناٹا ہے
کس سے بولوں یہ تو اک صحرا ہے جہاں پر
میں ہوں یا پھر گونگا بہرا سناٹا ہے
جیسے اک طوفان سے پہلے کی خاموشی
آج مری بستی میں ایسا سناٹا ہے
نئی سحر کی چاپ نہ جانے کب ابھرے گی
چاروں جانب رات کا گہرا سناٹا ہے
سوچ رہے ہو سوچو لیکن بول نہ پڑنا
دیکھ رہے ہو شہر میں کتنا سناٹا ہے
محو خواب ہیں ساری دیکھنے والی آنکھیں
جاگنے والا بس اک اندھا سناٹا ہے
ڈرنا ہے تو انجانی آواز سے ڈرنا
یہ تو آنسؔ دیکھا بھالا سناٹا ہے
آنس معین

MAKT_PAK
 

عجب تلاش مسلسل کا اختتام ہوا
حصول رزق ہوا بھی تو زیر دام ہوا
تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی
نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا
ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا
کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا
ذرا سی عمر عداوت کی لمبی فہرستیں
عجیب قرض وراثت میں میرے نام ہوا
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
ہم اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہیں پچھتاوا
خیال لوٹ کے جانے کا گام گام ہوا
آنس معین

MAKT_PAK
 

یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا
نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا
تعلقات میں آئی ہے بس یہ تبدیلی
ملیں گے اب بھی مگر انتظار کم ہوگا
میں سوچتا رہا کل رات بیٹھ کر تنہا
کہ اس ہجوم میں میرا شمار کم ہوگا
پلٹ تو آئے گا شاید کبھی یہی موسم
ترے بغیر مگر خوش گوار کم ہوگا
بہت طویل ہے آنسؔ یہ زندگی کا سفر
بس ایک شخص پہ دار و مدار کم ہوگا
آنس معین

MAKT_PAK
 

کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے
کچھ برگ سبز وقت سے پہلے ہی جھڑ گئے
کچھ آندھیاں بھی اپنی معاون سفر میں تھیں
تھک کر پڑاؤ ڈالا تو خیمے اکھڑ گئے
اب کے مری شکست میں ان کا بھی ہاتھ ہے
وہ تیر جو کمان کے پنجے میں گڑ گئے
سلجھی تھیں گتھیاں مری دانست میں مگر
حاصل یہ ہے کہ زخموں کے ٹانکے اکھڑ گئے
نروان کیا بس اب تو اماں کی تلاش ہے
تہذیب پھیلنے لگی جنگل سکڑ گئے
اس بند گھر میں کیسے کہوں کیا طلسم ہے
کھولے تھے جتنے قفل وہ ہونٹوں پہ پڑ گئے
بے سلطنت ہوئی ہیں کئی اونچی گردنیں
باہر سروں کے دست تسلط سے دھڑ گئے
آنس معین

MAKT_PAK
 

جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے کس سے کہانی کہتے
سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے ورنہ
شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے
وقت گزرتا جاتا اور یہ زخم ہرے رہتے تو
بڑی حفاظت سے رکھی ہے تیری نشانی کہتے
وہ تو شاید دونوں کا دکھ اک جیسا تھا ورنہ
ہم بھی پتھر مارتے تجھ کو اور دیوانی کہتے
تبدیلی سچائی ہے اس کو مانتے لیکن کیسے
آئینے کو دیکھ کے اک تصویر پرانی کہتے
تیرا لہجہ اپنایا اب دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تو اپنی زبانی کہتے
چپ رہ کر اظہار کیا ہے کہہ سکتے تو آنسؔ
ایک علاحدہ طرز سخن کا تجھ کو بانی کہتے
آنس معین

MAKT_PAK
 

وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی
یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی
میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشم دریا میں
لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایا بھی
بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا
مجھے دکھایا بھی تو نے مجھے چھپایا بھی
بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تمہارے نام کو لکھا بھی اور مٹایا بھی
آنس معین

MAKT_PAK
 

وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی
یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی
میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشم دریا میں
لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایا بھی
بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا
مجھے دکھایا بھی تو نے مجھے چھپایا بھی
بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تمہارے نام کو لکھا بھی اور مٹایا بھی
آنس معین

MAKT_PAK
 

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور
پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور
تردید تو کر سکتا تھا پھیلے گی مگر بات
اس طور بھی ہوگی تری رسوائی ذرا اور
کیوں ترک تعلق بھی کیا لوٹ بھی آیا؟
اچھا تھا کہ ہوتا جو وہ ہرجائی ذرا اور
ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں
یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور
لڑنا وہیں دشمن سے جہاں گھیر سکو تم
جیتو گے تبھی ہوگی جو پسپائی ذرا اور
بڑھ جائیں گے کچھ اور لہو بیچنے والے
ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور
اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور
آنس معین

MAKT_PAK
 

اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں
مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں
پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے
اس شہر خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں
ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے
سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کسے دیں
سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ
اور پاس ہے بس ایک ردا دیں تو کسے دیں
جب ہاتھ ہی کٹ جائیں تو تھامے گا بھلا کون
یہ سوچ رہے ہیں کہ عصا دیں تو کسے دیں
بازار میں خوشبو کے خریدار کہاں ہیں
یہ پھول ہیں بے رنگ بتا دیں تو کسے دیں
چپ رہنے کی ہر شخص قسم کھائے ہوئے ہے
ہم زہر بھرا جام بھلا دیں تو کسے دیں
آنس معین

MAKT_PAK
 

اس نے  پُر کیف اشاروں میں نکالی باتیں
میز  پر  چائے  جو  رکھّی تو اُٹھالی باتیں
ہم  فقیروں  کو کبھی وجد میں آ لینے  دو
پھر سُنو بیٹھ کے پہلو  میں دھمالی باتیں
اتنے  دن  بعد  ملے  ہیں  تو  گِلے  رہنے  دو
آؤ    دو    چار    کریں   خیر  سگالی باتیں
بات پہلے  تو  نگاہوں سے  کہی تھی اس نے
پھر  تو  ہر  انگ  سے پُر کیف  اُچھالی باتیں
آج  کھولا   تو  زمانے  تھے  کئی  آنکھوں  میں
ماں نے صندوق میں کتنی تھی سنبھالی باتیں
ایسے  گزری تھیں دسمبر کی وہ راتیں انجم
اوڑھ لیں ہم نے, کبھی نیچے بِچھا لیں باتیں
آصف انجم

MAKT_PAK
 

دُھند میں لپٹے ہوئے، دور سے آتے ہوئے لوگ
برف  کے  جسم  لئے  آگ  جلاتے ہوئے لوگ
نقص تھا میری سماعت میں یا تنہائی کا خوف
کتنے خاموش لگے شور مچاتے ہوئے لوگ
ڈوبنے والے کی آنکھوں سے عیاں تھا منظر
تھے کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے ہوئے لوگ
ایک دنیا ہے مرے جسم کے اندر موجود
جس میں آباد، مجھے کاٹ کے کھاتے ہوئے لوگ
ہانک کر دشت بھی لے آئے مرے گھر کے پاس
میری دیوار سے جنگل کو ملاتے ہوئے لوگ
دھوپ کے ساتھ لڑے، سائے کی تلواریں لئے
موم کے گھر کو پگھلنے سے بچاتے ہوئے لوگ
اب بھی پیپل کی گھنی چھاؤں بلاتی ہے اُنھیں
کتنے پیارے تھے وہ چوپال سجاتے ہوئے لوگ
آصف انجم

MAKT_PAK
 

گُم  گشتہ  وفاؤں  کے گُنہگار پرندے
لپٹے ہیں کٹے پیڑ سے دو چار پرندے
کرتے نہیں ہیں پیاس میں بھی  نقل مکانی
کچھ عمر رسیدہ , ہیں سمجھدار پرندے
اوڑھی تھی  درختوں نے ہری شال بدن پر
آئے نہ مگر لوٹ کے اس بار پرندے
 
فرصت میں چلا جاتا ہوں دربار  پہ اکثر
غم بانٹنے لگ جاتے ہیں غمخوار , پرندے
رہتے ہیں ندامت کی جلی شاخ سے لٹکے
ہجرت کے خطاوار , سزاوار, پرندے
خوابوں میں نظر آتا ہے اب ایک ہی منظر
ویران کنواں ,  جھولتے اشجار ,  پرندے
پالے تھے کبھی شوق سے اجداد نے انجم
غم کے یہ ,  سِیہ پوش , عزادار  پرندے
آصف انجم

MAKT_PAK
 

جو تیرے ساتھ گزاری، لپیٹ کر رکھ دی
وہ رات ہجر نے ساری، لپیٹ کر رکھ دی
بہت لگن سے چراغوں کو تھا کیا روشن
ہوا نے کار گزاری، لپیٹ کر رکھ دی
میں بھیگی رات کو کل دھوپ میں سکھاؤں گا
ابھی تو اشکوں کی ماری، لپیٹ کر رکھ دی
بس اک دوپٹہ تھا جو اُس گلے پہ ٹھہرا تھا
جو شال اوڑھی تھی بھاری، لپیٹ کر رکھ دی
تمہارا نام  لیا ، واسطے دیئے اُس نے
شجر کو کاٹتی آری، لپیٹ کر رکھ دی
وہ اونچی ذات کا چھورا تھا صاف بچ نکلا
وہ نیچ ذات کی ناری ، لپیٹ کر رکھ دی
اُسی کے کہنے پہ پہنی تھی آج شرٹ بلیک
ملا نہیں وہ ، اُتاری ، لپیٹ کر رکھ دی
آصف انجم

MAKT_PAK
 

گُلوں سا بانکپن,  مہکی جوانی, ایک عورت ہے
محبت کی حسیں, دلکش کہانی, ایک عورت ہے
وجودِ ذات  کی تکمیل کے اِسرار میں لپٹی
بقائے آدمیّت کی نشانی ایک عورت ہے
دھمالِ عشق کے پیروں سے اُڑتی خاک سے پوچھو
دیارِ ِ دل پہ کرتی حُکمرانی ایک عورت ہے
پسِ منظر میں صحرا ہے مگر  تصویر کے اوپر
بہت ہی شوخ رنگوں سے بنانی ایک عورت ہے
یہ  مریم بھی , سکینہ بھی ,ردائے فاطمہ بھی ہے
حیاء زینب, زلیخا کی جوانی ایک عورت ہے
ازل سے تا ابد سیرابی ء تشنہ لبی اس سے
محبت کے سمندر کی روانی ایک عورت ہے
گہے ماں ہے, گہے بہنا, گہے بیٹی  ہے یہ انجم
مگر  ہر روپ میں ہی جاودانی ایک عورت ہے
آصف انجم