اک قیامت کا گھاؤ آنکھیں تھیں
عشق طوفاں میں ناؤ آنکھیں تھیں
راستہ دل تلک تو جاتا تھا
اس کا پہلا پڑاؤ آنکھیں تھیں
ایک تہذیب تھا بدن اس کا
اس پہ اک رکھ رکھاؤ آنکھیں تھیں
جن کو اس نے چراغ سمجھا تھا
اس کو یہ تو بتاؤ آنکھیں تھیں
دل میں اترا وہ دیر سے لیکن
میرا پہلا لگاؤ آنکھیں تھیں
قطرہ قطرہ جو بہہ گئیں کل شب
آؤ تم دیکھ جاؤ آنکھیں تھیں
سیما غزل
جگہ دے دو ذرا سی دیکھنے کو
مری آنکھیں ہیں پیاسی دیکھنے کو
انہیں آنے دو میرے آئنے تک
جو آئے ہیں اداسی دیکھنے کو
تری پوجا کو آیا ہے زمانہ
تری یہ ایک اداسی دیکھنے کو
تعفن ہے رکاوٹ ہے گھٹن ہے
یہاں ہے بس نکاسی دیکھنے کو
سڑک ہو گھر ہو یا دیوار خلوت
وہی منظر ہے باسی دیکھنے کو
یہاں سب پارسا بن پارسا ہیں
نہیں ہے کوئی عاصی دیکھنے کو
کسی نے کچھ نہیں دیکھا ابھی تک
لگی ہے بھیڑ خاصی دیکھنے کو
حمیدہ شاہین
بھنور بنتی ہوئی راتیں ہماری
کنارے پر مناجاتیں ہماری
نئی دنیا میں کس نے پوچھنا ہے
کہاں نسبت ہے کیا ذاتیں ہماری
کبھی ہم وقت سے آگے بھی تھے جب
ہمیں ازبر تھیں اوقاتیں ہماری
برسنے کی لگن میں بھول بیٹھے
ہیں کن خطوں پہ برساتیں ہماری
زمانے سے زمانہ کر رہا ہے
کبھی ہم سے کرے باتیں ہماری
شکاری بھی ہمی ہم ہی نشانہ
بڑی پر پیچ ہیں گھاتیں ہماری
سلاخیں چومنے آتے ہیں سارے
یہیں تک ہیں ملاقاتیں ہماری
حمیدہ شاہین
Haye ye barish bhi rukny ka naam nahi ly rahi
AOR
Ek taire yaad hai jo mitny ka naam nahi ly rahi
پیار ایثار وفا شعر و ہنر کی باتیں
اب تو لگتی ہیں کسی اور نگر کی باتیں
کوئی صورت نہ رہائی کی بنی تو جانا
ہم تو دیوار سے کرتے رہے در کی باتیں
وقت آیا تو زبانوں کو بھی جنبش نہ ہوئی
لوگ کرتے تھے بہت تیغ کی سر کی باتیں
یہ ہیں مغرور پرندے انہیں ڈرنے دو ابھی
بیٹھ جائیں گے اگر چھیڑ دیں گھر کی باتیں
خاک سے جوڑ لیا ہے وہ تعلق کہ ہمیں
راس آتی نہیں شمس و قمر کی باتیں
پاؤں ریشم کے گدیلوں سے اترتے ہی نہیں
اور ہر وقت ہیں کانٹوں پہ سفر کی باتیں
آسماں دیکھ کے شاہینؔ یہ دل چاہتا ہے
کوئی کرتا رہے پرواز کی پر کی باتیں
حمیدہ شاہین
تیرے ہر زخم کو ہم دل میں سجالیتے ہیں
چاند،جگنو تو کبھی تارا بنا لیتے ہیں
تو نہیں آتا تو ٹیبل پہ سجا کے کھانا
ہم ترے نام کا لقمہ ہی اٹھا لیتے ہیں
اب حقیقت تو تیری سب کو سنانے سے رہے
تجھ کو افسانے کا کردار بنا لیتے ہیں
جسطرح چاند کو کرتا ہے منور سورج
ہم بھی اک یار کے جلووں سے ضیا لیتے ہیں
سرخ قالین نہیں ہم سے بچھائے جاتے
تیری راہوں میں نگاہوں کو بچھا لیتے ہیں
حیاء غزل
چند گلے بھلا دئے چند سے درگزر کیا
قصۂ غم طویل تھا جان کے مختصر کیا
جھوٹ نہیں تھا عشق بھی زیست بھی تھی تجھے عزیز
میں نے بھی اپنی عمر کو اپنے لیے بسر کیا
جیسے بھی تیرے خواب ہوں جو بھی ترے سراب ہوں
میں نے تو ریت اوڑھ لی میں نے تو کم سفر کیا
تیری نگاہ ناز کا لطف و گریز ایک ساتھ
شوق تھا کچھ اگر رہا رنج تھا کچھ اگر کیا
ٹوٹ کے پھر سے جڑ گیا خواب کا زرد سلسلہ
میں نے ترے فراق کو نیند میں ہی بسر کیا
راہ بہت طویل تھی راہ میں اک فصیل تھی
اس کو بھی مختصر کیا اس میں بھی ایک در کیا
ہم تو عجیب لوگ تھے ہم کو ہزار روگ تھے
خوب کیا جو آپ نے غیر کو ہم سفر کیا
ثمینہ راجہ
والدین اور خاندان والوں کے لاڈلے اور لاڈلیاں دمادم،فیسبک وغیرہ پہ آکر رل جاتے ہیں اللہ جانتا ہے۔
آپ ذیادہ دور مت جاؤ مجھے ہی دیکھ لو۔
🙂
۔
۔
۔
🙂
ہمارے ہاں تو ایسا ہی ہوتا سردیوں میں امی ٹھنڈی قلفی نہیں دلاتیں تھیں اور یہ کہہ دیتیں تھیں مر جائے گا سردی میں قلفی نہیں کھاتے ہیں۔
سوچ رہا تھا سردیاں واپس آگئیں ہیں کیوں نا کھوئے والی ٹھنڈی ٹھنڈی قلفی کھا کر مر جاؤں
مگر اب وہ چاچا ہی نہیں آرہا جو کھوئے والی قلفی فروخت کرتا ہے ریڑھی پہ۔
🙂
دنیا میں ایسے ایسے بھی پڑھے لکھے میٹرک پاس جاہل ہیں جنہیں موبائل خاموشی پہ لگانا نہیں آتا ہے اور تحقیقی معاملات کی بحث و تکرار کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔
🙂
بابا جی کہتے ہیں
شیطان کا
مولوی کا
عورت کا
اور بچے کی کبھی کسی بات پہ یقین مت کرنا۔
ورنہ ہاتھ لگا لگا کے رو گے اور کوئی بچانے والا بھی نہیں ملے گا۔
کاش میرے بھی والدین زندہ ہوتے تو میں بھی باقی لوگوں کی طرح بہت خوشحال زندگی گزارتا۔
سنو! مجھ سے محبت ذیادہ آسان ہے کرنا یا پھر نفرت؟
یہ ڈیٹا ناں ہوتا تو میں بالکل سکون سے آنکھیں بند کر کے لیٹا ہوتا
مطلب سو گیا ہوتا۔
🙂
کسی نے مجھ سے پوچھا آپ پوری پوری رات کیسے جاگ لیتے ہیں؟
میں نے کہا موبائل کے ساتھ مختلف ویب سائٹ استعمال کرتے کرتے
ویسے جو بات آپ سوچ رہیں ہیں وہ بھی ٹھیک ہے۔
🙂
بہت سے لوگ کسی کی بھی بات کو نقل کر کے اس پہ عمل شروع کر دیتے ہیں اسکا بھی انجام انتہائی برا ہوتا ہے،جیسا کہ عام زندگی میں آپ اور ہم سب دیکھ اور بھگت بھی چکے ہونگے۔
کتاب آپ صرف راستہ بتاتی ہے مگر ضروری نہیں کہ آپ اس بات پہ عمل کریں گے تو منزل ملے گی،یہاں بہت سے لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے ساری زندگی کچھ نہیں کیا مگر سیٹھوں سے ذیادہ مزے کی زندگی گزارتے ہیں۔
کتابیں پڑھنے سے اپنی جگہ علم میں اضافہ ہوتا ہے مگر پریکٹیکل کام کچھ اور ہوتا ہے،جسکے لیے بہت ذیادہ تجربے کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو محنت اور ریاضت سے حاصل ہوتا ہے۔
کہیں کہیں پہ مریض کو صحیح کرنے کے لیے اپنے قیمتی اصولوں تک کی قربانی دینی پڑتی ہے،تب جاکر آپ مریض کے مرض کو پکڑ اور سمجھ سکتے ہیں،اسکے علاؤہ اگر کچھ کریں گے تو صرف خسارہ رہ جاتا ہے پانے کے لیے۔
میری شکل دیکھ کر لگتا ہے کسی کو کہ میں کالے،سفلی،نوری علم وغیرہ کا ماہر ہونگا؟
نہیں ناں،ایسے ہی ہر کسی کے چہرے پہ نہیں لکھا ہوتا کہ وہ کیا ہے۔
بعض بچے تو پیدائشی کالے علم جادو وغیرہ کے عالم ہوتے ہیں مطلب انہیں جادو کے بارے میں ہر بات پہلے سے پتہ ہوتی ہے اور بعض بڑھاپے تک پہنچ جاتے ہیں مگر انکو صحیح اصل علم کے بارے میں معلومات نہیں ہوتی ہے۔
میری عمر تو کم ہے مگر مجھے اللّٰہ نے بیشمار علم سے نوازا ہے
جہاں تک انسان کو بعض دفعہ پہنچتے پہنچتے کئی زندگیاں لگ جاتیں ہیں۔
کچھ علم کسی کسی انسان کو پیدائشی خدا کیطرف سے تحفے میں ملتا ہے۔
کچھ علم حاصل کرنے کے لیے انسان کو دنیا میں محنت کرنی پڑتی ہے۔
میری ایک بات یاد رکھنا
علم کو آپ کبھی جھوٹ،حسد،جلن اور لڑائی جھگڑے وغیرہ سے ختم نہیں کرسکتے ہیں بلکہ ایسا کرنے سے مسائل مذید بگڑ جاتے ہیں۔
کالا علم کتنا برا ہے،یہ سب ہی جانتے ہیں مگر یہ بات ہر کوئی نہیں جانتا کہ اسکی ابتداء کہا سے ہوئی،بہت سے لوگوں کو شاید علم ہو بھی اس بات کا مگر صحیح ٹھیک بات کوئی نہیں بتاتا اور نہ سمجھاتا ہے بلکہ ہر کوئی پیسے بٹورنے اور زندگیاں خراب کرنے کے چکر میں رہتا ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain