اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے
کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے
میں اس کے خیال سے گریزاں
وہ میری صدا جھٹک رہا ہے
تحریر اسی کی ہے مگر دل
خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے
ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں
اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے
صدیوں سے سفر میں ہے سمندر
ساحل پہ تھکن ٹپک رہا ہے
اک چاند صلیب شاخ گل پر
بالی کی طرح لٹک رہا ہے
پروین شاکر
اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا
مگر یہ دل تری جانب سے صاف بھی نہ ہوا
تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو
وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا
عجب تھا جرم محبت کہ جس پہ دل نے مرے
سزا بھی پائی نہیں اور معاف بھی نہ ہوا
ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ
کہ جن سے کوئے جفا کا طواف بھی نہ ہوا
عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی
بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا
ہوائے دہر ہمیں کس لیے بجھاتی ہے
ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہوا
پروین شاکر
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا
پروین شاکر
میرے اندر بھی مرے یار سی خاموشی ہے
یعنی اِس پار بھی اُس پار سی خاموشی ہے
دستکیں دیتی ہوں ناکام پلٹ آتی ہوں
ایک در ھے جہاں دیوار سی خاموشی ہے
کس مصور کا تراشا ہوا شہکار ھے تو
جو خدوخال میں کہسار سی خاموشی ہے
سارے احساس مسل دے گی،کچل جائے گی
اس کے لب پر جو گراں بار سی خاموشی ھے
بات سن کر بھی مری کوئی سمجھتا ہی نہیں
شور کی سطح پہ تہہ دار سی خاموشی ھے
کیوں نہ اس کو بھی کسی شکل میں ڈھالا جائے
یہ جو اطراف میں بے کار سی خاموشی ہے
باغ میں جھولا نہ صحرا میں بگولہ کوئی
سمت در سمت پراسرار سی خاموشی ھے
چپ کا مطلب کبھی اثبات لیا جاتا تھا
انکی اثبات میں انکار سی خاموشی ہے
فوزیہ شیخ
عکس ماضی کا نگاہوں میں چلا آتا ھے
ایک طوفان سا پاؤں میں چلا آتا ھے
عشق ایمان ھے شامل جو ذرا سا شک ھو
کفر کا رنگ وفاؤں میں چلا آتا ھے
اس کو بچھڑے ہو ئے کتنے ہی برس بیت گئے
ہاتھ اٹھتے ہیں ، دعاؤں میں چلا آتا ھے
دل نہ چاھے بھی تو سینے سے لگا لیتی ہوں
روز اک درد جو بانہوں میں چلا آتا ھے
چھوٹے آنگن میں ہوا کرتی ھے وسعت زیادہ
حبس شہروں کا بھی گاؤں میں چلا آتا ھے
ایسا لگتا ہے کہ تو چھو کے مجھے گزرا ہے
تیرا احساس ہواؤں میں چلا آتا ھے
ہم ترے شہر میں یوں کھینچے چلے آتے ہیں
کوئی جلتا ہوا چھاؤں میں چلا آتا ھے
فوزیہ شیخ
کب گوارہ تھی زمانے کی کوئی بات مجھے
وہ تو لے آئی یہاں گردشِ حالات مجھے
روک سکتی ہوں اسے روز ِ قیامت تک بھی ۔
سنگ تیرے جو ملے پیار کی اک رات مجھے
صرف چہرے سے محبت نہیں ہوتی مجھ کو
دل میسر ہی نہیں حسب ِ خیالات مجھے
زندگی ہجر کے بستر پہ سلاؤں کیسے
کھینچ لاتے ہیں محبت کے نشانات مجھے
آخری گام تلک جیت ہی سمجھی میں نے
بڑی تدبیر سے لائی ھے مری مات مجھے
لوگ جس کار ِ اذیت میں مرے جاتے ہیں
زندہ رکھتے ہیں وہی ہجر کے لمحات مجھے
تم سے ملنے کے لیے روز پڑھا کرتی تھی
اب بچھڑ نے ہی نہیں دیتیں یہ آیات مجھے
لفظ ہونٹوں سے نکلتے ھوئے مر جاتے ہیں
اس سے آتی ہی نہیں کرنی شکایات مجھے
فوزیہ شیخ
دل پر ترے ہجراں میں قیامت کی گھڑی ھے
احساس کے تابوت میں اک لاش پڑی ھے
کیچڑ کا تکلف نہ کرو شہر کے لوگو
آنچل پہ تو رسوائی کی اک چھینٹ بڑی ھے
سینے سے لگو ہنس کے ، رهے یاد یہ لمحہ
کھو کر ہمیں رونے کو تو اک عمر پڑی ھے
ممکن ھے تو اک بار اسے توڑ دے آ کر
برسوں ھوئے دہلیز پہ امید کھڑی ھے
کس طرح مری خاک سے نکلے گی وہ صورت
آنکھوں میں بسی ھے تو کہیں دل میں گڑی ھے
سینے میں نئی سانس اتاری ھے کسی نے
برسوں سے پڑی گرد مرے دل سے جھڑی ھے
کوشش تو بہت کی تھی کہ شیشے میں اتاروں
تصویر بھی جس شخص کی پتھر میں جڑی ھے
فوذیہ شیخ
دھوپ چھاؤں میں بٹ رہی ہوں میں
شاخ ہوں اور کٹ رہی ہوں میں
میرے رستے میں اب نہ آئے کوئی
اپنی جانب پلٹ رہی ہوں میں
سب کنــــاروں سے کھینچ کر دامن
اپنے اندر سمٹ رہی ہوں میں
پــڑھ چکی ہوں کتاب دنیا کی
اب تو صفحے الٹ رہی ہوں میں
آخر شب چلی ہوا کی طرح
کھڑکیوں سے لپٹ رہی ہوں میں
راستہ دے رہی ہوں سورج کو
دھند ہوں اور چھٹ رہی ہوں میں
در بدر کھوجتے پھرو گے تم
یعنی منظر سے ہٹ رہی ہوں میں
فوزیہ شیخ
ناصرؔ کے سہانے شعروں میں۔۔۔۔
کاغذ کے پرانے ٹکڑوں میں،
یہ چند اثاثے نکلے ہیں۔۔۔۔!!!
کچھ پھول کی سوکھی پتیاں ہیں،
کچھ رنگ اڑی سی تحریریں
یہ خط کے خالی لفافے ہیں،
اور میری تمہاری تصویریں،
یہ دیکھو کلائی کے گجرے۔۔۔۔
یہ ٹوٹے موتی مالا کے۔۔۔۔
لو آج کی ساری رات گئی!!!
فریحہ نقوی
بیتے خواب کی عادی آنکھیں کون انہیں سمجھائے
ہر آہٹ پر دل یوں دھڑکے جیسے تم ہو آئے
ضد میں آ کر چھوڑ رہی ہے ان بانہوں کے سائے
جل جائے گی موم کی گڑیا دنیا دھوپ سرائے
شام ہوئی تو گھر کی ہر اک شے پر آ کر جھپٹے
آنگن کی دہلیز پہ بیٹھے ویرانی کے سائے
ہر اک دھڑکن درد کی گہری ٹیس میں ڈھل جاتی ہے
رات گئے جب یاد کا پنچھی اپنے پر پھیلائے
اندر ایسا حبس تھا میں نے کھول دیا دروازہ
جس نے دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے
کس کس پھول کی شادابی کو مسخ کرو گے بولو!!!
یہ تو اس کی دین ہے جس کو چاہے وہ مہکائے
فریحہ نقوی
اسے بھی چھوڑوں اسے بھی چھوڑوں تمہیں سبھی سے ہی مسئلہ ہے؟
مری سمجھ سے تو بالاتر ہے یہ پیار ہے یا معاہدہ ہے
''جو تو نہیں تھی تو اور بھی تھے جو تو نہ ہوگی تو اور ہوں گے''
کسی کے دل کو جلا کے کہتے ہو میری جاں یہ محاورہ ہے
ہم آج قوس قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں
مجھے تو پہلے سے لگ رہا تھا یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے
وہ اپنے اپنے تمام ساتھی، تمام محبوب لے کے آئیں
تو میرے ہاتھوں میں ہاتھ دے دے ہمیں بھی اذن مباہلہ ہے
ارے او جاؤ!! یوں سر نہ کھاؤ!! ہمارا اس سے مقابلہ کیا؟
نہ وہ ذہین و فطین یارو نہ وہ حسیں ہے نہ شاعرہ ہے
فریحہ نقوی
مرے لفظوں کو خیالوں سے جلا دیتا ہے
کون ہے وہ جو مجھے مجھ سے ملا دیتا ہے
جب بھی گزرے مرے آنگن سے وفا کا موسم
تیری چاہت کا نیا پھول کھلا دیتا ہے
اس سے خلوت میں ملاقات کا عالم کیا ہو
جو نگاہوں سے سر بزم پلا دیتا ہے
میں معافی تو اسے دے دوں مگر سچ یہ ہے
جھوٹ ہر رشتے کی بنیاد ہلا دیتا ہے
فریحہ نقوی
اے مری ذات کے سکوں آ جا
تھم نہ جائے کہیں جنوں آ جا
رات سے ایک سوچ میں گم ہوں
کس بہانے تجھے کہوں آ جا
ہاتھ جس موڑ پر چھڑایا تھا
میں وہیں پر ہوں سر نگوں آ جا
یاد ہے سرخ پھول کا تحفہ؟
ہو چلا وہ بھی نیلگوں آ جا
چاند تاروں سے کب تلک آخر
تیری باتیں کیا کروں آ جا
اپنی وحشت سے خوف آتا ہے
کب سے ویراں ہے اندروں آ جا
اس سے پہلے کہ میں اذیت میں
اپنی آنکھوں کو نوچ لوں آ جا
دیکھ! میں یاد کر رہی ہوں تجھے
پھر میں یہ بھی نہ کر سکوں آ جا
فریحہ نقوی
وہ اگر اب بھی کوئی عہد نبھانا چاہے
دل کا دروازہ کھلا ہے جو وہ آنا چاہے
عین ممکن ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہ ہو
دل بہر طور اسے اپنا بنانا چاہے
دن گزر جاتے ہیں قربت کے نئے رنگوں سے
رات پر رات ہے وہ خواب پرانا چاہے
اک نظر دیکھ مجھے!! میری عبادت کو دیکھ!!
بھول پائے گا اگر مجھ کو بھلانا چاہے
وہ خدا ہے تو بھلا اس سے شکایت کیسی؟
مقتدر ہے وہ ستم مجھ پہ جو ڈھانا چاہے
خون امڈ آیا عبارت میں، ورق چیخ اٹھے
میں نے وحشت میں ترے خط جو جلانا چاہے
نوچ ڈالوں گی اسے اب کے یہی سوچا ہے
گر مری آنکھ کوئی خواب سجانا چاہے
فریحہ نقوی
ہم تحفے میں گھڑیاں تو دے دیتے ہیں
اک دوجے کو وقت نہیں دے پاتے ہیں
آنکھیں بلیک اینڈ وائٹ ہیں تو پھر ان میں کیوں
رنگ برنگے خواب کہاں سے آتے ہیں
خوابوں کی مٹی سے بنے دو کوزوں میں
دو دریا ہیں اور اکٹھے بہتے ہیں
چھوڑو جاؤ کون کہاں کی شہزادی
شہزادی کے ہاتھ میں چھالے ہوتے ہیں
درد کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
ہم بے کار حروف الٹتے رہتے ہیں
فریحہ نقوی
بعد سورج کے بھی ہم کو زندگی اچھی لگی
شب کی فطرت میں تھی جو اک بیکلی اچھی لگی
پہلے پہلے کچھ ہراساں سے تھے ہم تنہائی سے
چاند تارے آ گئے پھر خامشی اچھی لگی
بندشوں کو توڑنے کی کوششیں کرتی ہوئی
سر پٹکتی لہر تیری عاجزی اچھی لگی
رات بھر شبنم کے ہاتھوں بن سنور جانے کے بعد
پھول کے چہرے پہ بکھری تازگی اچھی لگی
اس کے شعروں میں محبت کے سوا کچھ بھی نہ تھا
پر علیناؔ کو یہی دیوانگی اچھی لگی
علینا عترت
زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی میں نے
اپنے ہونے کی خبر سب سے چھپا لی میں نے
جب زمیں ریت کی مانند سرکتی پائی
آسماں تھام لیا جان بچا لی میں نے
اپنے سورج کی تمازت کا بھرم رکھنے کو
نرم چھاؤں میں کڑی دھوپ ملا لی میں نے
مرحلہ کوئی جدائی کا جو درپیش ہوا
تو تبسم کی ردا غم کو اڑھا لی میں نے
ایک لمحے کو تری سمت سے اٹھا بادل
اور بارش کی سی امید لگا لی میں نے
بعد مدت مجھے نیند آئی بڑے چین کی نیند
خاک جب اوڑھ لی اور خاک بچھا لی میں نے
جو علیناؔ نے سر عرش دعا بھیجی تھی
اس کی تاثیر یہیں فرش پہ پا لی میں نے
علینا عترت
مجھے تم سے شکایت ہے
کہ تم نے عمر بھر مجھ کو
خبر یہ بھی نہ ہونے دی
تمہیں مجھ سے محبت تھی
.
.
.
بہت سفاک ہو تم بھی
محبت ایسے کرتے ہو
کہ جیسے گھر کے پنجرے میں
پرندہ پال رکھا ہو
سیما غزل
ہمارے سانحے ہم کو سنا رہے کیوں ہو
تم اتنا بوجھ بھی دل پر اٹھا رہے کیوں ہو
تمہاری چھاؤں میں بیٹھے اٹھا دیا تم نے
پھر اب پکار کے واپس بلا رہے کیوں ہو
جو بات سب سے چھپائی تھی عمر بھر ہم نے
وہ بات سارے جہاں کو بتا رہے کیوں ہو
جب ایک پل بھی گزرنا محال ہوتا ہے
پھر اتنی دیر بھی ہم سے جدا رہے کیوں ہو
تمہاری آنکھ میں آنسو دکھائی دیتے ہیں
تم اتنی زور سے ہنس کے چھپا رہے کیوں ہو
جو کر لیا ہے جدائی کا فیصلہ تم نے
تو یہ فضول بہانے بنا رہے کیوں ہو
نہ جانے کس لیے آنکھوں میں آ گئے آنسو
ذرا سی بات کو اتنا بڑھا رہے کیوں ہو
سیما غزل
بارش تھی اور ابر تھا دریا تھا اور بس
جاگی تو میرے سامنے صحرا تھا اور بس
آیا ہی تھا خیال کہ پھر دھوپ ڈھل گئی
بادل تمہاری یاد کا برسا تھا اور بس
ایسا بھی انتظار نہیں تھا کہ مر گئے
ہاں اک دیا دریچے میں رکھا تھا اور بس
تم تھے نہ کوئی اور تھا آہٹ نہ کوئی چاپ
میں تھی اداس دھوپ تھی رستہ تھا اور بس
یوں تو پڑے رہے مرے پیروں میں ماہ و سال
مٹھی میں میری ایک ہی لمحہ تھا اور بس
سیما غزل
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain