Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے
کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے
میں اس کے خیال سے گریزاں
وہ میری صدا جھٹک رہا ہے
تحریر اسی کی ہے مگر دل
خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے
ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں
اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے
صدیوں سے سفر میں ہے سمندر
ساحل پہ تھکن ٹپک رہا ہے
اک چاند صلیب شاخ گل پر
بالی کی طرح لٹک رہا ہے
پروین شاکر

MAKT_PAK
 

اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا
مگر یہ دل تری جانب سے صاف بھی نہ ہوا
تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو
وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا
عجب تھا جرم محبت کہ جس پہ دل نے مرے
سزا بھی پائی نہیں اور معاف بھی نہ ہوا
ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ
کہ جن سے کوئے جفا کا طواف بھی نہ ہوا
عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی
بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا
ہوائے دہر ہمیں کس لیے بجھاتی ہے
ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہوا
پروین شاکر

MAKT_PAK
 

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا
پروین شاکر

MAKT_PAK
 

میرے اندر بھی مرے یار سی خاموشی ہے
یعنی اِس پار بھی اُس پار سی خاموشی ہے
دستکیں دیتی ہوں ناکام پلٹ آتی ہوں
ایک در ھے جہاں دیوار سی خاموشی ہے
کس مصور کا تراشا ہوا شہکار ھے تو
جو خدوخال میں کہسار سی خاموشی ہے
سارے احساس مسل دے گی،کچل جائے گی
اس کے لب پر جو گراں بار سی خاموشی ھے
بات سن کر بھی مری کوئی سمجھتا ہی نہیں
شور کی سطح پہ تہہ دار سی خاموشی ھے
کیوں نہ اس کو بھی کسی شکل میں ڈھالا جائے
یہ جو اطراف میں بے کار سی خاموشی ہے
باغ میں جھولا نہ صحرا میں بگولہ کوئی
سمت در سمت پراسرار سی خاموشی ھے
چپ کا مطلب کبھی اثبات لیا جاتا تھا
انکی اثبات میں انکار سی خاموشی ہے
فوزیہ شیخ

MAKT_PAK
 

عکس ماضی کا نگاہوں میں چلا آتا ھے
ایک طوفان سا پاؤں میں چلا آتا ھے
عشق ایمان ھے شامل جو ذرا سا شک ھو
کفر کا رنگ وفاؤں میں چلا آتا ھے
اس کو بچھڑے ہو ئے کتنے ہی برس بیت گئے
ہاتھ اٹھتے ہیں ، دعاؤں میں چلا آتا ھے
دل نہ چاھے بھی تو سینے سے لگا لیتی ہوں
روز اک درد جو بانہوں میں چلا آتا ھے
چھوٹے آنگن میں ہوا کرتی ھے وسعت زیادہ
حبس شہروں کا بھی گاؤں میں چلا آتا ھے
ایسا لگتا ہے کہ تو چھو کے مجھے گزرا ہے
تیرا احساس ہواؤں میں چلا آتا ھے
ہم ترے شہر میں یوں کھینچے چلے آتے ہیں
کوئی جلتا ہوا چھاؤں میں چلا آتا ھے
فوزیہ شیخ

MAKT_PAK
 

کب گوارہ تھی زمانے کی کوئی بات مجھے
وہ تو لے آئی یہاں گردشِ حالات مجھے
روک سکتی ہوں اسے روز ِ قیامت تک بھی ۔
سنگ تیرے جو ملے پیار کی اک رات مجھے
صرف چہرے سے محبت نہیں ہوتی مجھ کو
دل میسر ہی نہیں حسب ِ خیالات مجھے
زندگی ہجر کے بستر پہ سلاؤں کیسے
کھینچ لاتے ہیں محبت کے نشانات مجھے
آخری گام تلک جیت ہی سمجھی میں نے
بڑی تدبیر سے لائی ھے مری مات مجھے
لوگ جس کار ِ اذیت میں مرے جاتے ہیں
زندہ رکھتے ہیں وہی ہجر کے لمحات مجھے
تم سے ملنے کے لیے روز پڑھا کرتی تھی
اب بچھڑ نے ہی نہیں دیتیں یہ آیات مجھے
لفظ ہونٹوں سے نکلتے ھوئے مر جاتے ہیں
اس سے آتی ہی نہیں کرنی شکایات مجھے
فوزیہ شیخ

MAKT_PAK
 

دل پر ترے ہجراں میں قیامت کی گھڑی ھے
احساس کے تابوت میں اک لاش پڑی ھے
کیچڑ کا تکلف نہ کرو شہر کے لوگو
آنچل پہ تو رسوائی کی اک چھینٹ بڑی ھے
سینے سے لگو ہنس کے ، رهے یاد یہ لمحہ
کھو کر ہمیں رونے کو تو اک عمر پڑی ھے
ممکن ھے تو اک بار اسے توڑ دے آ کر
برسوں ھوئے دہلیز پہ امید کھڑی ھے
کس طرح مری خاک سے نکلے گی وہ صورت
آنکھوں میں بسی ھے تو کہیں دل میں گڑی ھے
سینے میں نئی سانس اتاری ھے کسی نے
برسوں سے پڑی گرد مرے دل سے جھڑی ھے
کوشش تو بہت کی تھی کہ شیشے میں اتاروں
تصویر بھی جس شخص کی پتھر میں جڑی ھے
فوذیہ شیخ

MAKT_PAK
 

دھوپ چھاؤں میں بٹ رہی ہوں میں
شاخ ہوں اور کٹ رہی ہوں میں
میرے رستے میں اب نہ آئے کوئی
اپنی جانب پلٹ رہی ہوں میں
سب کنــــاروں سے کھینچ کر دامن
اپنے اندر سمٹ رہی ہوں میں
پــڑھ چکی ہوں کتاب دنیا کی
اب تو صفحے الٹ رہی ہوں میں
آخر شب چلی ہوا کی طرح
کھڑکیوں سے لپٹ رہی ہوں میں
راستہ دے رہی ہوں سورج کو
دھند ہوں اور چھٹ رہی ہوں میں
در بدر کھوجتے پھرو گے تم
یعنی منظر سے ہٹ رہی ہوں میں
فوزیہ شیخ

MAKT_PAK
 

ناصرؔ کے سہانے شعروں میں۔۔۔۔
کاغذ کے پرانے ٹکڑوں میں،
یہ چند اثاثے نکلے ہیں۔۔۔۔!!!
کچھ پھول کی سوکھی پتیاں ہیں،
کچھ رنگ اڑی سی تحریریں
یہ خط کے خالی لفافے ہیں،
اور میری تمہاری تصویریں،
یہ دیکھو کلائی کے گجرے۔۔۔۔
یہ ٹوٹے موتی مالا کے۔۔۔۔
لو آج کی ساری رات گئی!!!
فریحہ نقوی

MAKT_PAK
 

بیتے خواب کی عادی آنکھیں کون انہیں سمجھائے
ہر آہٹ پر دل یوں دھڑکے جیسے تم ہو آئے
ضد میں آ کر چھوڑ رہی ہے ان بانہوں کے سائے
جل جائے گی موم کی گڑیا دنیا دھوپ سرائے
شام ہوئی تو گھر کی ہر اک شے پر آ کر جھپٹے
آنگن کی دہلیز پہ بیٹھے ویرانی کے سائے
ہر اک دھڑکن درد کی گہری ٹیس میں ڈھل جاتی ہے
رات گئے جب یاد کا پنچھی اپنے پر پھیلائے
اندر ایسا حبس تھا میں نے کھول دیا دروازہ
جس نے دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے
کس کس پھول کی شادابی کو مسخ کرو گے بولو!!!
یہ تو اس کی دین ہے جس کو چاہے وہ مہکائے
فریحہ نقوی

MAKT_PAK
 

اسے بھی چھوڑوں اسے بھی چھوڑوں تمہیں سبھی سے ہی مسئلہ ہے؟
مری سمجھ سے تو بالاتر ہے یہ پیار ہے یا معاہدہ ہے
''جو تو نہیں تھی تو اور بھی تھے جو تو نہ ہوگی تو اور ہوں گے''
کسی کے دل کو جلا کے کہتے ہو میری جاں یہ محاورہ ہے
ہم آج قوس قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں
مجھے تو پہلے سے لگ رہا تھا یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے
وہ اپنے اپنے تمام ساتھی، تمام محبوب لے کے آئیں
تو میرے ہاتھوں میں ہاتھ دے دے ہمیں بھی اذن مباہلہ ہے
ارے او جاؤ!! یوں سر نہ کھاؤ!! ہمارا اس سے مقابلہ کیا؟
نہ وہ ذہین و فطین یارو نہ وہ حسیں ہے نہ شاعرہ ہے
فریحہ نقوی

MAKT_PAK
 

مرے لفظوں کو خیالوں سے جلا دیتا ہے
کون ہے وہ جو مجھے مجھ سے ملا دیتا ہے
جب بھی گزرے مرے آنگن سے وفا کا موسم
تیری چاہت کا نیا پھول کھلا دیتا ہے
اس سے خلوت میں ملاقات کا عالم کیا ہو
جو نگاہوں سے سر بزم پلا دیتا ہے
میں معافی تو اسے دے دوں مگر سچ یہ ہے
جھوٹ ہر رشتے کی بنیاد ہلا دیتا ہے
فریحہ نقوی

MAKT_PAK
 

اے مری ذات کے سکوں آ جا
تھم نہ جائے کہیں جنوں آ جا
رات سے ایک سوچ میں گم ہوں
کس بہانے تجھے کہوں آ جا
ہاتھ جس موڑ پر چھڑایا تھا
میں وہیں پر ہوں سر نگوں آ جا
یاد ہے سرخ پھول کا تحفہ؟
ہو چلا وہ بھی نیلگوں آ جا
چاند تاروں سے کب تلک آخر
تیری باتیں کیا کروں آ جا
اپنی وحشت سے خوف آتا ہے
کب سے ویراں ہے اندروں آ جا
اس سے پہلے کہ میں اذیت میں
اپنی آنکھوں کو نوچ لوں آ جا
دیکھ! میں یاد کر رہی ہوں تجھے
پھر میں یہ بھی نہ کر سکوں آ جا
فریحہ نقوی

MAKT_PAK
 

وہ اگر اب بھی کوئی عہد نبھانا چاہے
دل کا دروازہ کھلا ہے جو وہ آنا چاہے
عین ممکن ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہ ہو
دل بہر طور اسے اپنا بنانا چاہے
دن گزر جاتے ہیں قربت کے نئے رنگوں سے
رات پر رات ہے وہ خواب پرانا چاہے
اک نظر دیکھ مجھے!! میری عبادت کو دیکھ!!
بھول پائے گا اگر مجھ کو بھلانا چاہے
وہ خدا ہے تو بھلا اس سے شکایت کیسی؟
مقتدر ہے وہ ستم مجھ پہ جو ڈھانا چاہے
خون امڈ آیا عبارت میں، ورق چیخ اٹھے
میں نے وحشت میں ترے خط جو جلانا چاہے
نوچ ڈالوں گی اسے اب کے یہی سوچا ہے
گر مری آنکھ کوئی خواب سجانا چاہے
فریحہ نقوی

MAKT_PAK
 

ہم تحفے میں گھڑیاں تو دے دیتے ہیں
اک دوجے کو وقت نہیں دے پاتے ہیں
آنکھیں بلیک اینڈ وائٹ ہیں تو پھر ان میں کیوں
رنگ برنگے خواب کہاں سے آتے ہیں
خوابوں کی مٹی سے بنے دو کوزوں میں
دو دریا ہیں اور اکٹھے بہتے ہیں
چھوڑو جاؤ کون کہاں کی شہزادی
شہزادی کے ہاتھ میں چھالے ہوتے ہیں
درد کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
ہم بے کار حروف الٹتے رہتے ہیں
فریحہ نقوی

MAKT_PAK
 

بعد سورج کے بھی ہم کو زندگی اچھی لگی
شب کی فطرت میں تھی جو اک بیکلی اچھی لگی
پہلے پہلے کچھ ہراساں سے تھے ہم تنہائی سے
چاند تارے آ گئے پھر خامشی اچھی لگی
بندشوں کو توڑنے کی کوششیں کرتی ہوئی
سر پٹکتی لہر تیری عاجزی اچھی لگی
رات بھر شبنم کے ہاتھوں بن سنور جانے کے بعد
پھول کے چہرے پہ بکھری تازگی اچھی لگی
اس کے شعروں میں محبت کے سوا کچھ بھی نہ تھا
پر علیناؔ کو یہی دیوانگی اچھی لگی
علینا عترت

MAKT_PAK
 

زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی میں نے
اپنے ہونے کی خبر سب سے چھپا لی میں نے
جب زمیں ریت کی مانند سرکتی پائی
آسماں تھام لیا جان بچا لی میں نے
اپنے سورج کی تمازت کا بھرم رکھنے کو
نرم چھاؤں میں کڑی دھوپ ملا لی میں نے
مرحلہ کوئی جدائی کا جو درپیش ہوا
تو تبسم کی ردا غم کو اڑھا لی میں نے
ایک لمحے کو تری سمت سے اٹھا بادل
اور بارش کی سی امید لگا لی میں نے
بعد مدت مجھے نیند آئی بڑے چین کی نیند
خاک جب اوڑھ لی اور خاک بچھا لی میں نے
جو علیناؔ نے سر عرش دعا بھیجی تھی
اس کی تاثیر یہیں فرش پہ پا لی میں نے
علینا عترت

MAKT_PAK
 

مجھے تم سے شکایت ہے
کہ تم نے عمر بھر مجھ کو
خبر یہ بھی نہ ہونے دی
تمہیں مجھ سے محبت تھی
.
.
.
بہت سفاک ہو تم بھی
محبت ایسے کرتے ہو
کہ جیسے گھر کے پنجرے میں
پرندہ پال رکھا ہو
سیما غزل

MAKT_PAK
 

ہمارے سانحے ہم کو سنا رہے کیوں ہو
تم اتنا بوجھ بھی دل پر اٹھا رہے کیوں ہو
تمہاری چھاؤں میں بیٹھے اٹھا دیا تم نے
پھر اب پکار کے واپس بلا رہے کیوں ہو
جو بات سب سے چھپائی تھی عمر بھر ہم نے
وہ بات سارے جہاں کو بتا رہے کیوں ہو
جب ایک پل بھی گزرنا محال ہوتا ہے
پھر اتنی دیر بھی ہم سے جدا رہے کیوں ہو
تمہاری آنکھ میں آنسو دکھائی دیتے ہیں
تم اتنی زور سے ہنس کے چھپا رہے کیوں ہو
جو کر لیا ہے جدائی کا فیصلہ تم نے
تو یہ فضول بہانے بنا رہے کیوں ہو
نہ جانے کس لیے آنکھوں میں آ گئے آنسو
ذرا سی بات کو اتنا بڑھا رہے کیوں ہو
سیما غزل

MAKT_PAK
 

بارش تھی اور ابر تھا دریا تھا اور بس
جاگی تو میرے سامنے صحرا تھا اور بس
آیا ہی تھا خیال کہ پھر دھوپ ڈھل گئی
بادل تمہاری یاد کا برسا تھا اور بس
ایسا بھی انتظار نہیں تھا کہ مر گئے
ہاں اک دیا دریچے میں رکھا تھا اور بس
تم تھے نہ کوئی اور تھا آہٹ نہ کوئی چاپ
میں تھی اداس دھوپ تھی رستہ تھا اور بس
یوں تو پڑے رہے مرے پیروں میں ماہ و سال
مٹھی میں میری ایک ہی لمحہ تھا اور بس
سیما غزل