حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ
اللہ تعالیٰ کو رات دن ، بحر و بر ، سفر و حضر ، مالداری و مفلسی ، مرض و صحت ، ظاہر و نہاں غرض ہر حالت میں یاد کیا کرو۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ
ہم صرف ایمان ہی نہیں لا سکتے بلکہ اس کے لیے اپنی جانیں بھی قربان کر سکتے ہیں۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ
مسلمان اللہ کی راہ میں لڑنا جانتے ہیں اور نتیجے سے بے نیاز ہوتے ہیں۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ
خدا کی قسم! اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی لڑکے کو بھی سردار مقرر کر دیں تو میں اسکی بھی اطاعت کروں گا۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ
جب اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا فضل و کرم مجھ پر نازل کرنا چاہا تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ
تلوار جو ہماری عزت کا نشان ہے اسے ہم اپنے سے جدا نہیں کریں گے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ
بہترین ساعتوں میں بہترین ساعت وہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ
بہتری اور بزرگی اسلام کے علاوہ اور کہیں نہیں ہے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ
اس شخص پر اللّٰہ نے اپنی رحمت نازل کی جس نے اپنے ارادوں کو مضبوط کیا اسکی راہ میں تلوار نکالی اور اپنا نیزہ پڑھایا۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ
اپنے حوصلے بلند رکھیں اور یاد رکھیں کہ مسلمانوں کو اس وقت تک کسی چیز سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیئے جب تک کہ تائید الہٰی انکے ساتھ ہے۔
ہم نے کسی کو عہد وفا سے رہا کیا
اپنی رگوں سے جیسے لہو کو جدا کیا
اس کے شکستہ وار کا بھی رکھ لیا بھرم
یہ قرض ہم نے زخم کی صورت ادا کیا
اس میں ہماری اپنی خودی کا سوال تھا
احساں نہیں کیا ہے جو وعدہ وفا کیا
جس سمت کی ہوا ہے اسی سمت چل پڑیں
جب کچھ نہ ہو سکا تو یہی فیصلہ کیا
عہد مسافرت سے وہ منسوخ ہو چکی
جس رہ گزر سے تم نے مجھے آشنا کیا
اپنی شکستگی پہ وہ نادم نہیں ہوا
میری برہنہ پائی کا جس نے گلہ کیا
یاسمین حمید
مسلسل ایک ہی تصویر چشم تر میں رہی
چراغ بجھ بھی گیا روشنی سفر میں رہی
رہ حیات کی ہر کشمکش پہ بھاری ہے
وہ بیکلی جو ترے عہد مختصر میں رہی
خوشی کے دور تو مہماں تھے آتے جاتے رہے
اداسی تھی کہ ہمیشہ ہمارے گھر میں رہی
ہمارے نام کی حق دار کس طرح ٹھہرے
وہ زندگی جو مسلسل ترے اثر میں رہی
نئی اڑان کا رستہ دکھا رہی ہے ہمیں
وہ گرد پچھلے سفر کی جو بال و پر میں رہی
یاسمین حمید
پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی
ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی
نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہوتا کوئی شخص
خود کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی
ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں
وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی
آگ ہی آگ تھی اور لوگ بہت چاروں طرف
اپنا تو دھیان ہی آنے میں بہت دیر لگی
جس طرح ہم کبھی ہونا ہی نہیں چاہتے تھے
خود کو پھر ویسا بنانے میں بہت دیر لگی
یہ ہوا تو کہ ہر اک شے کی کشش ماند پڑی
مگر اس موڑ پہ آنے میں بہت دیر لگی
یاسمین حمید
دولت درد سمیٹو کہ بکھرنے کو ہے
رات کا آخری لمحہ بھی گزرنے کو ہے
خشت در خشت عقیدت نے بنایا جس کو
ابر آزار اسی گھر پہ ٹھہرنے کو ہے
کشت برباد سے تجدید وفا کر دیکھو
اب تو دریاؤں کا پانی بھی اترنے کو ہے
اپنی آنکھوں میں وہی عکس لیے پھرتے ہیں
جیسے آئینۂ مقسوم سنورنے کو ہے
جو ڈبوئے گی نہ پہنچائے گی ساحل پہ ہمیں
اب وہی موج سمندر سے ابھرنے کو ہے
کنج تنہائی میں کھلتا ہے تخیل میرا
اور میں خوش ہوں کہ یہ گل پھر سے نکھرنے کو ہے
یاسمین حمید
ایک اک حرف سمیٹو مجھے تحریر کرو
مری یکسوئی کو آمدۂ زنجیر کرو
سب خد و خال مرے دھند ہوئے جاتے ہیں
صبح کے رنگ سے آؤ مجھے تصویر کرو
جیتنا میرے لیے کرب ہوا جاتا ہے
مرے پندار کو توڑو مجھے تسخیر کرو
اس عمارت کو گرا دو جو نظر آتی ہے
مرے اندر جو کھنڈر ہے اسے تعمیر کرو
اب مری آنکھ سے لے لو خلش بینائی
یا مرے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرو
یاسمین حمید
کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا
بچھڑا تو خیال اس کا حق تھا
وہ رات بھی دن سی تازہ رکھتا
شبنم کا جمال اس کا حق تھا
وہ طرز بیاں میں چاندنی تھا
تاروں سے وصال اس کا حق تھا
تھا اس کا خرام موج دریا
لہروں کا جلال اس کا حق تھا
بارش کا بدن تھا اس کا ہنسنا
غنچے کا خصال اس کا حق تھا
رکھتا تھا سنبھال شیشہ جاں
تجسیم کمال اس کا حق تھا
بادل کی مثال اس کی خو تھی
تعبیر ہلال اس کا حق تھا
اجلا تھا چنبیلیوں کے جیسا
یوسف سا جمال اس کا حق تھا
کشور ناہید
کبھی بھلایا نہیں یاد بھی کیا نہیں ہے
یہ کیسا جرم ہے جس میں کوئی سزا نہیں ہے
میں بات بات پہ رونے کا ماجرا پوچھوں
وہ ہنس رہا ہے بتانے کو کچھ رہا نہیں ہے
زمیں پہ آہ و بکا اور خون ناحق بھی
زبان خلق یہ پوچھے ہے کیا خدا نہیں ہے
کلام کرنے کو ناصح رہا نہ واعظ ہے
میں کیا کہوں کہ مرے پاس بد دعا نہیں ہے
بس اب تو آنکھ میں صحرا ہی جم گیا آ کے
سمجھ لو خواب بھی دہلیز پہ رکھا نہیں ہے
قدم قدم پہ وہی تلملاتی خواہش ہے
پیام لانے کو کوئی بھی دل ربا نہیں ہے
مری اداسی مرے کام آ سکی نہ کبھی
بس اب سوال بھی کرنے کا حوصلہ نہیں ہے
رقیب خواہش موجودہ سن لیا تو نے
چمن بہت ہیں مگر کوئی دیکھتا نہیں ہے
کشور ناہید
بگڑی بات بنانا مشکل بگڑی بات بنائے کون
کنج تمنا ویرانہ ہے آ کر پھول کھلائے کون
تن کی دولت من کی دولت سب خوابوں کی باتیں ہیں
نو من تیل نہ ہو تو گھر میں رادھا کو نچوائے کون
اپنا غم اب خود ہی اٹھا لے ورنہ رسوائی ہوگی
تیرا بھید چھپا کر دل میں ناحق بوجھ اٹھائے کون
چلتی گاڑی نام کا رشتہ کیا موہن کیا رادھا آج
بن کے سنور کے راس رچا کے موہن آج منائے کون
ساگر پار کی خبریں دیکھے ہمسائے کا پتا نہیں
آج کا انساں عالم فاضل اس کو اب سمجھائے کون
ناامیدی نام تمنا اپنا مقدر ہجر مسلسل
درد کے خارستان میں آ کے دامن دل الجھائے کون
رات بھی کالی چادر اوڑھے آ پہنچی ہے زینے میں
مہندی لگائے بیٹھی سوچے لٹ الجھی سلجھائے کون
کشور ناہید
تجھ سے وعدہ عزیز تر رکھا
وحشتوں کو بھی اپنے گھر رکھا
اپنی بے چہرگی چھپانے کو
آئینے کو ادھر ادھر رکھا
اک ترا غم ہی اپنی دولت تھی
دل میں پوشیدہ بے خطر رکھا
آرزو نے کمال پہچانا
اور تعلق کو طاق پر رکھا
اس قدر تھا اداس موسم گل
ہم نے آب رواں پہ سر رکھا
اپنی وارفتگی چھپانے کو
شوق نے ہم کو در بہ در رکھا
کلمۂ شکر کہ محبت نے
ہم کو تمہید خواب پر رکھا
ان کو سمجھانے اپنا حرف سخن
آنسوؤں کو پیام پر رکھا
کشور ناہید
جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی
ہو گئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
میں نے پھر تیرے تصور کے کسی لمحے میں
تیری تصویر پہ لب رکھ دیے آہستہ سے
پروین شاکر
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain