پہلے دو پاگل ہوتے ہیں لڑکا اور لڑکی پھر ان دو پاگلوں کی باقی پاگل ملکر شادی کرا دیتے ہیں پھر وہ دو پاگل ملکر کئی پاگل پیدا کر لیتے ہیں۔ اسی طرح پوری دنیا وجود میں آئی ہے۔
دو نمبر کو دو نمبر ہی کہوں گا ناں میں کوئی اچھی عورت تو نہیں بولوں گا ناں میں آپ خود بتاؤ جو چکلہ چلاتی ہو وہ کدھر سے شریف عورت ہوئی؟ اور جو چکلہ چلاتی ہے اسے میں چکلہ چلانے والی ہی کہوں گا ناں حرام کھانے والوں کو حرام خور ہی بولوں گا ناں۔ یہ باتیں انہیں بری لگتیں ہیں ظالموں کو۔
یہ لوگ اتنے ظالم ہیں ان لوگوں نے میرے ہاتھ پاؤں خود دوبارہ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ لوگ مجھ سے بھیک منگوائے اور پھر میری بھیک سارے ملکر کھائیں۔ کوئی ان ظالموں کو پکڑو یہ لوگ بہت خطرناک اور ظالم ہیں ان لوگوں نے اور بھی چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنا قیدی بنا کر رکھا ہے اور انکو بھی بہت پریشان کرتے ہیں اور ساتھ میں انکے ساتھ غلط کام مطلب بدفعلی بھی کرتے ہیں۔
ایک وقت کی روٹی پتہ ہے کب ملتی ہے جب جب دس گالیاں سن لیتا ہوں اور ایک کپ چائے پتا ہے کب ملتی ہے جب بیس گالیاں سنتا ہوں۔ اپنی مرضی سے کچھ بھی کھا پی نہیں سکتا ہوں بہت ظالم لوگ ہیں یہ جدھر میں ابھی رہتا ہوں،اور ایک روپیہ بھی نہیں دیتے ہیں بلکہ الٹا کہتے ہیں کما کر لاؤ اور خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ ہم نے تمہارا ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا ہے،جبکہ میں اپاہج بھی ہوں۔
مجھے کوئی کام نہیں آتا ہے اور نا میں پڑھا لکھا ہوں،کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے،جاؤں تو کدھر جاؤں،جہاں رہتا ہوں ان لوگوں نے بھی طعنے دینے شروع کر دیئے ہیں،کبھی کھانے پہ کبھی نہانے پہ کبھی سونے پہ کبھی جاگنے پہ وغیرہ وغیرہ،کیوں کہ میں نے انکا قرض دینا ہے بقول انکے بہت سارا۔ یار کوئی مجھے آسان سا کام کہیں بھی لگوا دو،یہاں تو دھوبی والے کتے سے بھی برا حال ہے اور اوپر سے میں ہوں بھی،یتیم،مسکین،غریب،کمزور اور بہت غریب
یہ آنکھیں بالکل ویسی ہیں جیسی مرے خواب میں آتی تھیں پیشانی تھوڑی ہٹ کر ہے پر ہونٹوں پر مسکان کی بنتی مٹتی لہریں ویسی ہیں آواز کا زیر و بم بھی بالکل ویسا ہے اور ہاتھ جنہیں میں خواب میں بھی چھونا چاہوں تو کانپ اٹھوں یہ ہاتھ بھی بالکل ویسے ہیں یہ چہرہ بالکل ویسا ہے پر اس پر چھائی خاموشی کچھ ان دیکھی اور اس چہرے پر شام ذرا سی گہری ہے ان شانوں کا پھیلاؤ تھوڑا کم ہے لیکن قامت بالکل ویسی ہے اور تم سے مل کر میرے دل کی حالت بالکل ویسی ہے ثمینہ راجہ
چند گلے بھلا دئے چند سے درگزر کیا قصۂ غم طویل تھا جان کے مختصر کیا جھوٹ نہیں تھا عشق بھی زیست بھی تھی تجھے عزیز میں نے بھی اپنی عمر کو اپنے لیے بسر کیا جیسے بھی تیرے خواب ہوں جو بھی ترے سراب ہوں میں نے تو ریت اوڑھ لی میں نے تو کم سفر کیا تیری نگاہ ناز کا لطف و گریز ایک ساتھ شوق تھا کچھ اگر رہا رنج تھا کچھ اگر کیا ٹوٹ کے پھر سے جڑ گیا خواب کا زرد سلسلہ میں نے ترے فراق کو نیند میں ہی بسر کیا راہ بہت طویل تھی راہ میں اک فصیل تھی اس کو بھی مختصر کیا اس میں بھی ایک در کیا ہم تو عجیب لوگ تھے ہم کو ہزار روگ تھے خوب کیا جو آپ نے غیر کو ہم سفر کیا ثمینہ راجہ
وہ غم قبول ہے جو تری چشم سے ملے ہم کو ہنر تمام اسی زخم سے ملے روشن ہے ساری زندگی اس دل کی آگ سے اور دل کو آنچ اک سخن گرم سے ملے جب رنگ و نور و نغمہ نہیں اختیار میں اک اعتبار شوق ہی اس بزم سے ملے دل کو لپیٹ لیتا ہے اک ریشمیں خیال جب بھی نگاہ اس نگہ نرم سے ملے اس دل کے سارے خواب محبت کے سب گلاب اک شعر سے کھلے کبھی اک نظم سے ملے ہم راہ چل رہا تھا فلک بھی تمام شب یوں اہل خاک و خواب مہ و نجم سے ملے دل میں تو ان کی آب کوئی دیکھتا نہ تھا در ثمین تھے جو در چشم سے ملے ثمینہ راجہ
رہ فراق کسی طور مختصر کیجے جو ہو سکے تو کبھی خواب سے گزر کیجے ہمارے دل میں بھی منظر عجیب سیر کا ہے نہ آ سکیں تو بلندی سے ہی نظر کیجے یہاں پہ چاروں طرف ہے سراغ رستوں کا پر اختیار کوئی راہ دیکھ کر کیجے یہ شہر و کوہ و بیابان و دشت و دریا تھے اب آگے خواب ہے رک جائیے بسر کیجے بنے تھے خاک سے ہم کو قیام کرنا تھا ہوا ہیں آپ اڑا کیجئے سفر کیجے ہم اپنے عہد تمنا پہ اب بھی قائم ہیں ذرا شریک تمنا کو بھی خبر کیجے ثمینہ راجہ
میرا تو دل لرز جاتا ہے آجکل کے بعض لوگوں کے حالات دیکھ کر مگر ایک وہ کافر ہیں جنکو ذرا خوف خدا نہیں یار اپنی پوتی،نواسی جتنی عمر کی بچیوں کے ساتھ بھی زنا کرتے ہیں۔
نکاح وٹہ سٹہ کو شرعی طور پر شغار کہا جاتا ہے اور شغار کی ممانعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ایک احادیث میں موجود ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ( لا شِغَارَ فِي الإِسْلامِ ) "اسلام میں نکاح شغار (وٹہ سٹہ)نہیں ہے۔" (صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار وبطلانہ 2/1035،(1415)مسند احمد 2/91،35) یہ روایت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح بھی مروی ہے کہ: "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الشِّغَارِ " (صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار وبطلانہ 2/1034،(1415) مؤطا الامام مالک ،باب جامع مالا یجوز من النکاح (124)کتاب الام للشافعی 5/76صحیح بخاری ، کتاب النکاح باب الشغار (5112) و کتاب الحیل (6960)اب
"حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے "نکاحِ شغار" سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم، باب تحريم نكاح الشغار وبطلانه، ج:2، ص:1034، ط:داراحیاء التراث العربی)،
بدلے کی شادی میں،جسے وٹہ سٹہ بھی کہا جاتا ہے،جس خاندان میں اپنی لڑکی بیاہی جاتی ہے اسی گھر کی لڑکی سے اپنے بیٹے کا رشتہ جوڑا جاتا ہے۔یہ رواج پاکستان کے علاوہ جنوبی بھارت،چین اور مغربی افریقہ کے کئی ممالک میں عام ہے۔لیکن پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہونے والی ہر تین شادیوں میں سے ایک وٹہ سٹہ کے تحت ہوتی ہے۔
خشک ہوگئیں نہریں پیڑجل چکےہیں کیا کچھ چمن تھےرستےمیں دشت ہوگئےہیں کیا ایک ایک سےپوچھاہم نےایک وحشت میں زندگی کےبارےمیں آپ جانتےہیں کیا التفات مشکل ہے بات تو کیا کیجے ہم نہیں برے اتنے اتنے ہی برے ہیں کیا اپنی زندگانی کو اور رائیگانی کو ہم اٹھائے پھرتے ہیں لوگ دیکھتے ہیں کیا یوں ہی آتے جاتے ہو بے سبب ستاتے ہو سنگ تو نہیں ہیں ہم راہ میں پڑے ہیں کیا خواب دیکھنے والے معتبر ہوئے کیسے یہ پرانے سکے یاں پھر سے چل رہے ہیں کیا صبر کر لیا جائے اب بھی جانے والوں پر پہلے جانے والے بھی واپس آ سکے ہیں کیا ہم نے اک تمنا کا راستہ چنا تو ہے ایک راستے میں بھی اور راستے ہیں کیا اشتیاق کتنا تھا اور فراق کتنا تھا جانے پوچھتے ہیں کیوں جانے پوچھتے ہیں کیا جب رہا نہ کچھ چارہ ہم نے ہار مانی تھی بس یہی کہانی تھی آپ روپڑے ہیں کیا