Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

✅ جواب آپ کا سوال:
آپ کے سوال "چینی کی کہیں کمی ہے؟" کے جواب میں:
جی ہاں، Rawalpindi میں فوری طور پر سپلائی کی کمی محسوس کی جا رہی ہے، کیونکہ اسٹاک ختم ہو چکا ہے یا مارکیٹ میں دستیابی نا ہونے کے برابر ہے۔
قیمتوں میں بے قابو اضافہ ہوا ہے، جو سرکاری نرخوں سے کافی اوپر ہے۔

MAKT_PAK
 

ضلع انتظامیہ نے خلاف ورزی کرنے والے دکانداروں پر بھاری جرمانہ، چند گرفتاریاں، اور دوکانیں سیل کرنے کے اقدامات کیے۔
🔍 خلاصہ جدول
پہلو موجودہ صورتحال — Rawalpindi / Islamabad
سپلائی تقریباً گھٹ چکی، زیادہ تر ریٹیلرز اسٹاک ختم
**ریٹیل قیمت (فی kg)** Rs 190–200 عام حد، بعض علاقے Rs 210–220 تک
ہول سیل قیمت 50 kg تھیلا: Rs 9,300 تک
سرکاری نرخ Rs 165 (ex-mill), Rs 173 (ریٹیل)
کنٹرول اقدامات جرمانے، گرفتاریاں، دوکانوں کی سیل

MAKT_PAK
 

یہاں Rawalpindi (اور Islamabad) کی موجودہ چینی (سفید شکر) کی صورتحال کی جامع معلومات پیشِ خدمت ہے:
🧾 موجودہ صورتحال:
1. سپلائی اور اسٹاک
تاجر تنظیموں، سرکاری اور ریٹیل شعبے کے درمیان شدید تصادم کے باعث چینی کی سپلائی تقریباً بند ہے اور بیشتر دکانوں میں اسٹاک ختم ہو چکا ہے۔
2. قیمتیں (رِٹیل اور ہول سیل)
ریٹیل میں: چینی کی قیمت فی کلو Rs 190 سے Rs 200 تک یا بعض علاقوں میں Rs 210–220 تک پہنچ چکی ہے۔
ہول سیل میں: 50-کلو کا تھیلا سب سے زیادہ Rs 9,300 تک پہنچ گیا ہے۔
3. سرکاری نرخ اور طاقتور اقدامات
وفاقی حکومت نے ex‑mill ریٹ Rs 165/kg اور ریٹیل قیمت Rs 173/kg مقرر کی، مگر مارکیٹ میں قیمتیں ان حدود سے تجاوز کر گئیں۔

MAKT_PAK
 

خلاصہ:
پہلو موجودہ صورت حال
چینی کی قلت نہیں ہے (افواہیں ہیں)
میلتی چینی کا اسٹاک 5.8 ملین ٹن تقریباً، 8 نومبر 2025 تک کے لیے کافی
ثابت شدہ چیلنجز مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، سپلائی ڈسکنکشن
حکومتی اقدامات قیمتوں کا کنٹرول، اسٹاک پر کریک ڈاؤن، FBR تعیناتی
✅ کیا چینی کی کمی ہے؟
نہیں: عوام کو نظر نہ آنے والی اسٹاک کافی موجود ہے۔
ہاں: لیکن قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور روانی سے دستیاب نہیں ہو رہی۔

MAKT_PAK
 

فروخت کنندگان اور ریٹیلرز نے چینی کی خریداری روک دی ہے، وہ موجودہ اسٹاک بیچنے کے لیے کہہ رہے ہیں، اس سے اگلے ہفتوں میں قلت یا فراہمی میں دشواری کی نوید سنائی دیتی ہے۔
عوامی اکاونٹس کمیٹی (PAC) نے شوگر سیکٹر میں بڑے بے ضابطگیاں،قرض دہی اور اسٹاک بفر کی عدم موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔ انہوں نے حکومت کو 500,000 ٹن چینی درآمد کر کے مارکیٹ میں شفافیت لانے کی سفارش بھی کی۔
🚨 حالیہ اقدام:
یکم اگست 2025 کو وفاقی حکومت نے 1.9 ملین ٹن چینی اسٹاک کا کنٹرول خود سنبھال لیا اور ہر مل کے گودام میں FBR اہلکار تعینات کر دیے گئے تاکہ ذخیرہ اندوزی کو روکا جا سکے اور قیمتوں پر قابو پایا جا سکے۔

MAKT_PAK
 

پاکستان میں حالیہ صورتحال کے مطابق چینی کی کوتاہی (shortage) نہیں بلکہ شدید مہنگائی, ذخیرہ اندوزی اور سپلائی چین کی خرابی ہے**۔
🔍 تفصیلی صورتحال:
مرکزی حکومت، خوراکی سیکورٹی کے وزیر رانا تنویر حسین نے مارچ 2025 میں واضح اعلان کیا کہ ملک میں چینی کی کوئی قلت نہیں، اور افواہوں کو سٹے بازی و ذخیرہ اندوز قوتیں پھیلا رہی ہیں .
مسودہ جواب میں بتایا گیا کہ چینی کی کل پیداوار سیزن 2024‑25 میں تقریباً 5.769 ملین ٹن تھی، جو ملکی ضرورت تقریباً سات ماہ کے لیے کافی ہے، یعنی 8 نومبر 2025 تک دستیاب رہنی چاہیے .
⚠️ موجودہ چیلنجز:
مارکیٹ میں قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں: ریٹیل پر قیمتیں Rs 165–170 فی کلو تک پہنچ چکی ہیں، کچھ جگہوں پر Rs 200 بھی ہونے کی پیش گوئیاں ہیں۔

MAKT_PAK
 

اگر آپ کے CNIC میں کوئی غلط معلومات ہیں، تو NADRA کی موجودہ امنیٹی اسکیم کے تحت خود رپورٹ کریں۔ اس صورت میں آپ کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

MAKT_PAK
 

مثلاً:
غلط CNIC معلومات attestation کرنے پر NADRA قانونی کارروائی کر سکتا ہے، جس میں 5 سال قید اور 100,000 روپے جرمانہ تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
اگر کوئی دوسرا CNIC بغیر اطلاع یا غلط معلومات کے بناتا ہے تو NADRA AFIS ٹیکنالوجی کے ذریعے اسے شناخت کر کے کارروائی کر سکتا ہے۔
✅ خلاصہ
صورت قانونی اثرات
18 سال کی عمر پر 90 دن کے اندر CNIC نہ بنوائی جائے 6 ماہ تک قید، 50,000 روپے جرمانہ، یا دونوں
غلط یا جعلی معلومات کے ساتھ CNIC حاصل کرنا 5 سال قید + 100,000 روپے جرمانہ تک
CNIC موجود نہ ہونے کی صورت میں عام خدمات استعمال نہ ہوسکنا ووٹ، بینک، پاسپورٹ، سم وغیرہ استعمال نہ ہونے کی صورتیں
💡 سفارشات
اگر آپ یا آپ کے کسی خاندان کے فرد نے 18 سال کی عمر پوری کی اور اب تک CNIC کے لیے درخواست نہیں دی ہے، تو جلد از جلد درخواست دیں۔

MAKT_PAK
 

📝 مثالیں
Pakistan Times اور Pakistan Observer سمیت مختلف مؤثّق ذرائع نے واضح طور پر تصدیق کی ہے کہ **اگر کسی نے 18ویں سالگرہ کے 90 دنوں میں CNIC کے لیے درخواست نہ دی تو اسے چھ ماہ قید یا 50 ہزار روپے جرمانے یا دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔**
❗ CNIC کی عدم موجودگی کے ممکنہ اثرات
جب تک CNIC قانونی طور پر فرضاً نہیں ہوتی، نذرہ خود اس کو جرم یا سزا کے طور پر نہیں دیکھتا—یعنی صرف CNIC نہ رکھنے پر فوری قانونی کارروائی نہيں ہوتی۔ البتہ:
آپ ووٹ نہیں دے سکتے
بینک اختیار نہیں کھول سکتے
پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، موبائل سم، یوٹیلیٹی کنکشن وغیرہ کے لیے CNIC ضروری ہے
اگر آپ دیر سے درخواست دیتے ہیں، تو N अدرہ ممکنہ late fee عائد کر سکتا ہے، اور اگر غلط معلومات بشمول جال سازی شامل ہوں تو مزید سنگین قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے۔

MAKT_PAK
 

پاکستان میں نیشنل شناختی کارڈ (CNIC/NIC) نہ لینے یا کوئی ضرورت کے مطابق CNIC نہ رکھنے کی صورت میں ممکنہ سزاؤں کی قانونی تفصیلات درج ذیل ہیں:
🔍 قانونی فریم ورک
1. NADRA Ordinance 2000 کے تحت:
Section 9(1): ہر پاکستانی شہری کو 18 سال کی عمر تک **90 دن کے اندر CNIC کے لیے درخواست دینا ضروری ہے۔**
Section 30(e): 90 دن کے اندر درخواست نہ دینے پر **6 ماہ تک قید، یا 50,000‑روپے تک جرمانہ، یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔**

MAKT_PAK
 

🕌 7. اسلام میں سود کا حکم:
> سورۃ البقرہ آیت 275 تا 279:
"جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ قیامت کے دن شیطان کے اثر سے پاگل ہونے والے شخص کی طرح اٹھیں گے۔"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "سود کے ستر گناہ ہیں، اور سب سے چھوٹا گناہ ایسا ہے جیسے آدمی اپنی ماں سے زنا کرے!"
(ابن ماجہ: 2274)
📘 نتیجہ:
✅ پہلا قرض:
27 ملین ڈالر (1952)
سوچا گیا: "ترقی کا راستہ ہے"
حقیقت: پہلا قدم تھا تباہی کی طرف
❌ آج:
اربوں ڈالر صرف سود بھرنے میں جا رہے ہیں
قوم زکوٰۃ دینے کے بجائے سود دے رہی ہے
معیشت غلام، قوم مفلوج

MAKT_PAK
 

📉 5. آج کی صورت حال — 2025 کے اعداد و شمار
عنصر تفصیل
کل قومی قرضہ 75,000 ارب روپے سے زائد
غیر ملکی قرض تقریباً 270 ارب ڈالر
ہر پاکستانی کا حصہ تقریباً 3 لاکھ روپے فی فرد
ماہانہ سود کی ادائیگی کھربوں روپے
قومی بجٹ کا بڑا حصہ صرف سود کی ادائیگی پر چلا جاتا ہے
نئے ترقیاتی منصوبے قرض پر ہی شروع ہوتے ہیں
⚠️ 6. پاکستان اب کہاں کھڑا ہے؟
📌 خطرناک نکات:
حکومت، افواج، تعلیم، صحت… سب سودی قرضوں پر چل رہے ہیں
بجٹ خسارہ ہر سال بڑھتا ہے
سودی نظام کی وجہ سے زکوٰۃ، خیرات، برکت سے قوم محروم ہو چکی

MAKT_PAK
 

📊 3. قرض کا فریم ورک — کیسا سود تھا؟
سود کی شرح تقریباً 3.5٪ سے 5٪ کے درمیان تھی
واپس کرنے کی مدت 20 سے 30 سال
سود کمپاؤنڈ (یعنی سود پر بھی سود)
> ❗ یہ وہی کمپاؤنڈ سسٹم ہے جس نے پاکستان جیسے ملکوں کو نسل در نسل مقروض بنا دیا
🧨 4. نتائج — نقصان کیا ہوا؟
❌ اصل قرض تو چھوٹا تھا، مگر:
سود بڑھتا رہا
پھر مزید قرضے لیے گئے صرف سود کی قسطیں بھرنے کے لیے
یوں قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہو گیا

MAKT_PAK
 

لیکن قائداعظمؒ کی وفات (11 ستمبر 1948) کے بعد حالات تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔
💰 2. پہلا سودی قرض — کب اور کس نے لیا؟
📅 سال:
1952
🏛️ قرض دینے والا ادارہ:
International Bank for Reconstruction and Development (IBRD)
یعنی: ورلڈ بینک (World Bank)
💵 قرض کی رقم:
27 ملین ڈالر
🎯 مقصد:
کراچی پورٹ اور ریلوے نظام کی بہتری
📌 اہم شخصیات:
عہدہ نام
وزیرِ خزانہ غلام محمد
وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین
گورنر جنرل (1951) لیاقت علی خان (پہلے)
ورلڈ بینک مشیر مغربی اقتصادی ماہرین

MAKT_PAK
 

عنوان:
"سود کا پہلا قدم – 27 ملین ڈالر سے لے کر 75 ہزار ارب تک"
بنام: حکیم الامت ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
---
🧱 1. پس منظر: قیام پاکستان کے بعد حالات
⚫ پاکستان کا مالی بحران (1947-1950)
آزادی کے وقت پاکستان کے پاس کوئی مضبوط بینکنگ سسٹم نہیں تھا۔
قومی خزانے میں رقم نہ ہونے کے برابر تھی۔
بھارت نے تقسیم کے وقت پاکستان کا مالی حصہ (55 کروڑ روپے) روک لیا، جس پر قائداعظمؒ ناراض ہوئے۔
⚫ قائداعظمؒ کی سوچ:
1. انہوں نے اسلامی معیشت کی بنیاد پر نظام بنانے کی ہدایت دی۔
2. 1 جولائی 1948 کو اسٹیٹ بینک کے افتتاحی خطاب میں فرمایا:
> "میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کا معاشی نظام مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر قائم ہو۔"

MAKT_PAK
 

❖ دلچسپ اور اہم پہلو:
1. قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی زندگی میں اسٹیٹ بینک کے قیام کے وقت 1 جولائی 1948 کو واضح فرمایا تھا کہ:
> "پاکستان کا مالی نظام اسلامی اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے اور مغربی سودی نظام کو رد کرنا ہوگا۔"
(حوالہ: قائداعظم کا اسٹیٹ بینک افتتاحی خطاب)
2. لیکن قائداعظم کی وفات (11 ستمبر 1948) کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے مغربی دباؤ، مالی مشکلات اور کمزور معیشت کی بنا پر سودی قرضے لینے شروع کیے۔
❖ نتیجہ:
پاکستان کے لیے سب سے پہلا عالمی سودی قرضہ 1952 میں لیا گیا۔
اس وقت کے مرکزی کردار تھے:
وزیر خزانہ: غلام محمد
وزیر اعظم: خواجہ ناظم الدین
یہ قرض ورلڈ بینک سے لیا گیا تھا، سودی بنیادوں پر۔

MAKT_PAK
 

ادارہ: International Bank for Reconstruction and Development (IBRD) — یعنی ورلڈ بینک کا حصہ
مقصد: کراچی بندرگاہ کی ترقی اور ریل سسٹم
رقم: تقریباً 27 ملین ڈالر
قرض کی شرائط: سودی بنیاد پر معاہدہ ہوا
اس وقت کے وزیرِ خزانہ: غلام محمد
وزیرِ اعظم: خواجہ ناظم الدین
📌 اہم افراد:
عہدہ نام
وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین
وزیرِ خزانہ غلام محمد
گورنر جنرل (1951 تک) لیاقت علی خان (شہادت: 1951)
اسٹیٹ بینک کا پہلا گورنر (1948) زاہد حسین
عالمی مالی رابطہ کاری کے مشیر بعض غیر مسلم و غیر ملکی ماہرین شامل تھے

MAKT_PAK
 

پاکستان کیلئے "سود پر قرض" لینے والا پہلا شخص دراصل قائداعظم محمد علی جناحؒ نہیں تھے، کیونکہ اُنہوں نے پاکستان کے ابتدائی ایام میں سود سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کی تھی۔
بلکہ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد سودی قرض لینے کا عمل اُس وقت کی حکومت نے عالمی اداروں سے شروع کیا، لیکن باقاعدہ سودی قرض لینے کا پہلا معروف معاہدہ 1950 کی دہائی میں ہوا، اور اُس وقت وزیرِ خزانہ غلام محمد اور بعد ازاں وزیرِاعظم لیاقت علی خان اس پورے عمل میں شریک رہے۔
❖ مکمل تفصیل:
📌 پہلا سودی قرض کب لیا گیا؟
پاکستان نے پہلا باقاعدہ غیر ملکی قرضہ 1948-1949 میں انفرادی ملکوں سے لیا، تاہم
پہلا باقاعدہ سودی قرضہ عالمی ادارے "ورلڈ بینک" سے 1952 میں لیا گیا۔
📌 پہلا بین الاقوامی قرض (سودی) — 1952:
سال: 1952

MAKT_PAK
 

阿布·胡莱赖(愿主喜悦他)传述,安拉的使者(愿主赐福他)说:
> 不怜悯他人的人,将不会被怜悯。
(《穆斯林圣训集》2319)

MAKT_PAK
 

据欧麦尔·本·哈塔布(愿主喜悦他)传述:
> 我听到安拉的使者(愿主赐福之)说:
“一切行为只凭意图,
每个人都将根据他的意图获得回报。”
📚 出自《布哈里圣训集》第1则(Sahih al-Bukhari 1)