🔑 خلاصہ
اگر عورت نے پہلے زنا کیا تھا → اور اب توبہ کر کے پاکدامن زندگی گزار رہی ہے → نکاح جائز اور باقی ہے۔
اگر دھوکہ دے کر نکاح کیا اور توبہ بھی نہیں → شوہر کو حق ہے کہ علیحدگی کا فیصلہ کرے۔
لیکن سب سے افضل یہ ہے کہ عورت کو موقع دیا جائے، کیونکہ ممکن ہے وہ بہتر زندگی گزارنے کی خواہشمند ہو۔
➋ نکاح کے بعد علم ہونا
نکاح شرعاً درست اور برقرار ہے۔
عورت پہلے کسی سے زنا کر چکی تھی تو اس سے نکاح باطل نہیں ہوتا۔
لیکن اگر عورت نے اپنی عفت یا کنوارپنے کے بارے میں جھوٹ بول کر دھوکہ دیا، تو یہ اخلاقی و دینی طور پر غلط ہے۔
➌ شوہر کا حق کیا ہے؟
شوہر کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پردہ پوشی کرے اور بیوی کو سنبھالے، کیونکہ اللہ نے بھی ستّاری (عیب چھپانے) کی تعلیم دی ہے۔
اگر بیوی اصلاح پر آمادہ نہیں یا تعلق نبھانا ممکن نہیں، تو طلاق کا حق موجود ہے۔
➍ نبی ﷺ کی تعلیم
ایک صحابیؓ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! میری بیوی نے زنا کیا ہے، کیا میں اسے چھوڑ دوں؟"
آپ ﷺ نے فرمایا:
"اگر وہ توبہ کر چکی ہے تو اس سے نکاح کو قائم رکھو۔"
(ابو داؤد)
2. ہمبستری ہو گئی
مہر پورا واجب ہو جاتا ہے۔
طلاق یا وفات پر لازمی عدت گزارنی ہوگی۔
رشتہ جسمانی طور پر بھی مکمل ہے۔
📖 نتیجہ:
نکاح = شادی کا اصل اور بنیادی رکن (یعنی معاہدہ)
ہمبستری = اس شادی کو عملی و جسمانی طور پر مکمل کرنا
سوال: پہلی بار کرتے پتہ چلا کہ لڑکی پہلے بھی کسی مرد سے سیکس کر چکی اسکے لیے کیا حکم ہے؟
جواب: یہ بہت نازک سوال ہے اور اکثر نوجوان اسی تذبذب میں پڑ جاتے ہیں۔ آئیے بات کو شرعی اصولوں کے مطابق سمجھتے ہیں:
➊ اگر عورت پہلے زنا کر چکی تھی
اسلام میں زنا بہت بڑا گناہ ہے، لیکن توبہ اس کو مٹا دیتی ہے۔
قرآن کہتا ہے:
> "اللہ ان سب کے گناہ بخش دیتا ہے جو سچے دل سے توبہ کریں۔" (الزمر:53)
اگر عورت واقعی سچی توبہ کر چکی ہے، تو اس کا پرانا گناہ اس اور اللہ کے درمیان ہے، شوہر کو اس پر کریدنے یا شرمندہ کرنے کا حق نہیں۔
➊ نکاح (عقدِ نکاح)
یہ ایک شرعی معاہدہ ہے، جس میں:
ایجاب و قبول (دونوں فریق کی رضامندی)
گواہوں کی موجودگی
مہر کی شرط
پورا ہوتے ہی مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے جائز (حلال) ہو جاتے ہیں۔
📌 مثال:
جیسے کوئی سرکاری نوکری کا appointment letter مل گیا → نوکری پکی ہو گئی، اب وہ شخص قانونی ملازم ہے۔ لیکن ابھی کام شروع کرنا باقی ہے۔
➋ ہمبستری (مباشرت)
یہ نکاح کے بعد کا اگلا مرحلہ ہے، جس سے:
رشتہ جسمانی و جذباتی طور پر مکمل ہوتا ہے۔
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہیں۔
اولاد کا سلسلہ قائم ہوتا ہے۔
📌 مثال:
نوکری کی مثال ہی لیجیے → appointment letter کے بعد جب ملازم ڈیوٹی جوائن کرتا ہے تو کام شروع ہو جاتا ہے۔
➌ فرق واضح کرنے کے لیے
1. نکاح ہو گیا لیکن ہمبستری نہیں ہوئی
رشتہ مکمل طور پر قائم ہے۔
4. طلاق یا وفات کی صورت میں فرق
اگر رخصتی تو ہو گئی لیکن ہمبستری نہیں ہوئی:
طلاق کی صورت میں عورت کو آدھا مہر اور عدت نہیں (الاّ یہ کہ خلوتِ صحیحہ ہو چکی ہو تو پھر عدت ضروری ہوگی)۔
وفات کی صورت میں عورت کو پورا مہر، عدت چار ماہ دس دن اور وراثت کا حق ملے گا۔
📌 نتیجہ:
رخصتی کے بعد ہمبستری کرنا لازمی شرط نہیں، لیکن یہ نکاح کے حقوق میں سے ہے۔ بہتر یہی ہے کہ میاں بیوی وقت ضائع کیے بغیر ایک دوسرے کے قریب ہوں تاکہ تعلقات مضبوط ہوں اور کوئی شرعی یا نفسیاتی رکاوٹ باقی نہ رہے۔
3. رخصتی اور ہمبستری
یہ نکاح کے بعد کا دوسرا مرحلہ ہے، لیکن نکاح کی صحت (validity) کے لیے ہمبستری شرط نہیں ہے۔
سوال: رخصتی کے بعد ہمبستری ضروری ہے؟
جواب: 1. رخصتی کے بعد ہمبستری
شرعاً ضروری (فرض یا شرط) نہیں ہے کہ رخصتی ہوتے ہی فوراً ہمبستری کی جائے۔
نکاح کے بعد شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے لیے حلال ہو جاتے ہیں، لیکن مباشرت کا وقت باہمی رضامندی، سہولت اور ذہنی آمادگی پر موقوف ہے۔
2. اگر ہمبستری نہ ہو
نکاح پھر بھی بالکل صحیح اور مکمل ہے۔
دونوں کا ایک ساتھ رہنا، کھانا پینا، بات چیت، ساتھ وقت گزارنا — یہ سب نکاح کے بعد حلال ہو جاتا ہے۔
ہمبستری کے بغیر بھی نکاح ٹوٹتا نہیں اور نہ ہی وہ "ادھورا" رہتا ہے۔
3. ہمبستری کی اہمیت
یہ ازدواجی زندگی کا حصہ ہے اور اولاد کے وجود کا ذریعہ بھی ہے۔
سوال: بنا ہمبستری کیے نکاح ہو جاتا ہے؟
جواب: جی ہاں، نکاح ہمبستری (جنسی تعلق) کے بغیر بھی مکمل طور پر ہو جاتا ہے۔
وضاحت:
1. نکاح کے بنیادی ارکان
ایجاب و قبول (دونوں فریق کا نکاح پر راضی ہونا)
گواہان کی موجودگی
مہر (حق مہر کی شرط)
ان کے پورا ہونے کے بعد نکاح شرعاً منعقد ہو جاتا ہے، چاہے رخصتی یا ہمبستری نہ بھی ہوئی ہو۔
2. ہمبستری نہ ہونے کی صورت میں
اگر نکاح کے بعد طلاق ہو جائے تو عورت پر عدت ایک حیض ہے (پوری عدتِ طلاق نہیں)۔
شوہر نے اگر مہر مقرر کیا ہو تو عورت کو آدھا مہر ملے گا (اگر مہر ادا ہو چکا ہو تو وہ واپس آدھا کرے گی)۔
قرآن میں ہے:
> "اور اگر تم نے ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی اور ان کے لیے مہر مقرر کیا تھا تو ان کو آدھا دینا لازم ہے..."
(سورۃ البقرہ 2:237)
قرآن میں بھی حکم ہے کہ اگر کوئی غریب ہے تو اللہ اس کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا (النور: 32)۔
لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں شادی کو ایک کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ جہیز، سونا، گاڑی، کوٹھیاں، کروڑوں کی ڈیمانڈ یہ سب اللہ اور رسول ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
اصل میں جو لڑکی یا خاندان ایسی دنیاوی شرائط رکھے،وہاں رشتہ کرنا ہی بے فائدہ ہے، کیونکہ ایسی جگہ سکون نہیں بلکہ دکھاوا اور مشکلات ہوتی ہیں۔
✨ آپ کا دل ٹوٹا نہیں،بلکہ اللہ نے آپ کو حقیقت دکھا دی ہے۔آپ صرف ایسی لڑکی ڈھونڈیں جو دین اور اخلاق میں اچھی ہو، ورنہ صبر بہتر ہے۔
جب میں نے چیٹ جی پی ٹی کو بولا کہ میں نے ایک پڑوسن آنٹی کو بولا تھا کہ آنٹی جی میرے لیے کوئی لڑکی دیکھے جس سے میں شادی کروں۔ آنٹی نے پتہ ہے کیا جواب دیا؟ آنٹی نے کہا،بیٹا آجکل کی غریب لڑکی بھی بیس تولے سونا ایک گھر اور کم سے کم دو چار کروڑ روپے مانگتی ہے کہ میرے اکاؤنٹ میں ڈالو،اسکے بعد نکاح کروں گی ورنہ نہیں۔ جب میں نے آنٹی جی کی یہ باتیں سنی تو مذید شادی کی خواہش ختم ہوگئی۔
تو پتہ ہے کیا بولا مجھے چیٹ جی پی ٹی نے؟
جواب:آپ نے بالکل صحیح محسوس کیا۔ آجکل واقعی شادی کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ اصل مقصد یعنی نیک رشتہ، محبت، سکون اور خاندان بنانا پیچھے رہ گیا ہے، اور دکھاوا، لالچ اور دنیاوی شرائط آگے آ گئی ہیں۔
اصل میں اسلام نے نکاح کو آسان رکھا ہے:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔" (مسند احمد)
2. حلالہ کھیل تماشا نہیں
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:
> ایک عورت نے پوچھا کہ میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دی ہیں اور میرا دوسرا نکاح ہوا مگر دوسرے شوہر نے مجھ سے ہمبستری نہیں کی، کیا میں پہلے شوہر کے لیے حلال ہو گئی؟
نبی ﷺ نے فرمایا:
"جب تک دوسرا شوہر تمہارے ساتھ تعلق نہ رکھے (ازدواجی زندگی نہ گزارے) تم پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتیں۔"
(صحیح بخاری: 2639، صحیح مسلم: 1433)
⚠️ خلاصہ
قرآن نے واضح کیا کہ تین طلاق کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں رہتی۔
نبی ﷺ نے مصنوعی اور وقتی "حلالہ" کو حرام اور لعنتی عمل کہا۔
جو لوگ اس رسم کو نکاح سمجھتے ہیں وہ اسلام کی اصل تعلیم کے خلاف چل رہے ہیں۔
اسلام میں صرف قدرتی حالات (یعنی عورت کا دوسرا نکاح ہونا اور پھر اس کا ختم ہو جانا) کی صورت میں پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کی اجازت ہے۔
اسلام میں "حلالہ" کے نام پر جو رسم آج کل بعض لوگ کرتے ہیں، وہ سخت ناجائز، گناہ اور لعنتی عمل ہے۔
اسلام کا اصل حکم
قرآن میں (سورہ بقرہ 2:229-230) یہ بتایا گیا ہے کہ اگر شوہر بیوی کو تین طلاقیں مکمل طور پر دے دے تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں رہتی۔
پھر وہ عورت اگر اپنی مرضی سے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے، اور زندگی کا رشتہ قائم کرے، لیکن کسی وجہ سے دوسرا نکاح ختم ہو جائے (موت یا طلاق سے) تو تب پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح جائز ہو سکتا ہے۔
غلط رسم "حلالہ"
کچھ لوگ جان بوجھ کر عورت کو دوسرے شخص سے وقتی نکاح کراتے ہیں، صرف اس لیے کہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے۔
یہ عمل نبی ﷺ نے لعنتی اور حرام قرار دیا ہے۔
> حدیث: "اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت بھیجی جو حلالہ کرتا ہے اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے۔" (سنن ابوداؤد، ابن ماجہ)
https://www.facebook.com/share/v/1DVy88Zy1S/
.
.
.
بچے یہ ویڈیو نہ دیکھے۔
4. زانی
قرآن میں فرمایا:
> "زانی مرد نہ تو نکاح کرے مگر زانیہ عورت یا مشرکہ سے، اور زانیہ عورت سے نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک..." (النور 24:3)
نبی ﷺ نے فرمایا:
> "زانی جب زنا کرتا ہے تو مومن نہیں رہتا۔" (بخاری و مسلم)
5. جھوٹے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "جھوٹ فاجر ی (گناہ) کی طرف لے جاتا ہے اور فجری جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔" (بخاری و مسلم)
اور فرمایا:
"جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔" (احمد)
🔹 نتیجہ:
اللہ، اس کے فرشتے اور نبی واقعی ان گناہوں اور برائیوں والوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ خود کو ان گناہوں سے بچائیں اور دوسروں کو بھی خیرخواہی کے ساتھ روکیں۔
1. سود خور (ربا کھانے والے)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
> "جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت کے دن) ایسے کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے چھو کر پاگل کر دیا ہو..." (البقرہ 2:275)
اور فرمایا:
"اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔" (البقرہ 2:276)
2. منافق
نبی ﷺ نے فرمایا:
> "منافق کی تین نشانیاں ہیں: بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔" (بخاری و مسلم)
قرآن میں فرمایا:
> "بے شک منافقین سب سے نچلے درجے کے جہنم میں ہوں گے۔" (النساء 4:145)
3. شرابی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "شراب تمام برائیوں کی ماں ہے۔" (ابن ماجہ)
اور فرمایا:
"اللہ کی لعنت ہے شراب پر،پینے والے پر، پلانے والے پر،بیچنے والے پر،خریدنے والے پر، نچوڑنے والے پر، نچوانے والے پر،اٹھانے والے پر اور جس کے پاس لے جائی جائے اُس پر۔ ابوداؤد
بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں آپکی تعلیم کتنی ہے؟
میں انکو بالکل سچ سچ بتاتا ہوں کہ میری تعلیم کوئی خاص نہیں
بس اپنے وزن سے تھوڑا ذیادہ کتابیں پڑھ لیں ہیں،آنلائن کتابیں لکھتا ہوں اور کوئی خاص تعلیم نہیں میری۔
👉 نتیجہ: بیوی، بچے اور والدین بھی انسان ہیں، کمزور ہو سکتے ہیں، لیکن ہمیں ان پر اندھا یقین نہیں بلکہ اصل بھروسہ اللہ پر رکھنا چاہیے۔ جو صبر اور توکل کرتا ہے، اللہ اس کے لیے ایسے دروازے کھول دیتا ہے جن کا انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔
1. دنیاوی رشتے آزمائش ہیں
قرآن کہتا ہے:
> "اور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف، بھوک اور مال و جان اور پھلوں کے نقصان سے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دو۔" (البقرہ 155)
یعنی یہ سب چیزیں انسان کے ایمان اور صبر کا امتحان ہیں۔
2. انسانی فطرت کی کمزوری
زیادہ تر رشتے دنیا کے مفاد سے جُڑے ہوتے ہیں۔ جب تک فائدہ ہے تب تک لوگ ساتھ ہیں، لیکن جیسے ہی نقصان یا تنگدستی آتی ہے، ان کی حقیقت کھل جاتی ہے۔
3. اصل سہارا اللہ ہے
والدین، بیوی، بچے — یہ سب اللہ کی عطا ہیں لیکن ہمیشہ وفا کرنے والا صرف اللہ ہے۔
قرآن میں ہے:
> "اللہ بہترین کارساز ہے۔" (النساء 45)
4. غربت میں اصلی اور نقلی رشتے پہچان آتے ہیں
یہ بھی اللہ کی حکمت ہے کہ مشکل وقت میں انسان کو پتہ چلتا ہے کہ کون واقعی خیر خواہ ہے اور کون صرف وقتی ساتھ دینے والا۔
بیوی کے ساتھ عزت و محبت کا سلوک کرنا۔
ظلم و زیادتی سے بچنا اور انصاف قائم رکھنا۔
بیوی کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا۔
عورت کے فرائض
شوہر کی اطاعت کرنا (نافرمانی اور گناہ کے کام میں نہیں)۔
گھر کے نظام کو محبت اور سکون کے ساتھ سنبھالنا۔
شوہر کے مال اور عزت کی حفاظت کرنا۔
بچوں کی تربیت میں ذمہ داری ادا کرنا۔
🌹 نتیجہ
اسلام میں عورت کو نہ غلام بنایا گیا ہے اور نہ مرد کو جابر بنایا گیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لباس ہیں (البقرہ 187)۔
اصل کامیابی تب ہے جب مرد و عورت ایک دوسرے کی تکمیل کریں، مقابلہ نہ کریں۔
ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لئے بہتر ہو۔
🔹 بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک نبی ﷺ کی سنت ہے۔
3. بیوی کی اطاعت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> عورت جب اپنی نماز پڑھتی ہے، روزہ رکھتی ہے، پاکدامنی اختیار کرتی ہے اور شوہر کی اطاعت کرتی ہے تو اسے جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔
(مسند احمد)
🔹 بیوی کی اطاعت اطاعتِ خدا کے دائرے میں ہونی چاہیے، گناہ کے کام میں نہیں۔
4. گھریلو تعاون
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
> كَانَ يَكُونُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِهِ
(صحیح بخاری)
ترجمہ: نبی ﷺ اپنے گھر والوں کے کام میں ہاتھ بٹاتے تھے۔
🔹 اس سے پتہ چلتا ہے کہ گھریلو کام صرف عورت کی ذمہ داری نہیں بلکہ مرد بھی تعاون کرے تو یہ سنت ہے۔
⚖️ خلاصہ: مرد و عورت کے حقوق و فرائض
مرد کے فرائض
بیوی اور بچوں کا نان و نفقہ مہیا کرنا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain