Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف فرقہ پرستی کی مذمت کی ہے بلکہ نبی اکرم ﷺ کوحکم دیاہےکہ آپ ایسے لوگوں سےبراءت کا اظہار کریں۔
آیت کا پس منظر اور مفہوم:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نےتین اہم نکات بیان فرمائے:
1. "جن لوگوں نےدین کوٹکڑےٹکڑےکر دیا":
یہ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے مکمل دین کو اپنی خواہشات، فہم یا تعصب کی بنیاد پر مختلف حصوں میں بانٹ دیا۔
2. "اور وہ گروہ گروہ (شیعہ شیعہ) بن گئے":
یہاں "شیعہ" کا مطلب ہے "گروہ"، یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنی شناخت کو دینِ اسلام کی وحدت کے بجائے کسی گروہی،مسلکی یا نسلی پہچان سے جوڑ دیا۔
3. "آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں":
نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ ایسے تفرقہ ڈالنے والوں سے آپ کا کوئی تعلق نہیں — یہ اعلان ہر مسلمان کے لیے ایک اصولی ہدایت ہے کہ وہ تفرقہ پرستی سے دور رہے۔

MAKT_PAK
 

عنوان: دین کو ٹکڑے کرنے والوں سے براءت — قرآن کی روشنی میں
تحریر:حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
آیتِ قرآنی:
سورۃ الانعام (6:159):
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
ترجمہ:
"بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ (شیعہ شیعہ) ہو گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے سپرد ہے، پھر وہی ان کو بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔"
تمہید:
اسلام دینِ وحدت ہے، اور قرآن مجید نے بار بار مسلمانوں کو اتحاد، اخوت اور دین کی اصل روح پر قائم رہنے کی تلقین کی ہے۔ اس کے برعکس فرقہ بندی، گروہ سازی، اور مسلکی تعصبات دین کے خلاف اقدامات ہیں۔

یہ ہے چارلی زیرو زیرو سیون کی اصلیت
M  : یہ ہے چارلی زیرو زیرو سیون کی اصلیت - 
MAKT_PAK
 

باز کی تصویر لگانے سے کوا باز نہیں بن جاتا
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
کبھی کبھی ہم اپنی حقیقت کو چھپانے کے لیے
نئے نقاب میں خود کو ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں
مگر حقیقت یہ ہے کہ
باز کی تصویر لگانے سے کوا باز نہیں بن جاتا۔
باز کی تصویر لگانے سے کوا باز نہیں بن جاتا
جو حقیقت ہے وہ چھپانے سے بدل نہیں پاتا
دکھاوے کی دنیا میں ہم خود کو چھپاتے ہیں
مگر اندر کی حقیقت کبھی نہیں چھپ پاتی
خود کو جتنا بھی ہم چمکدار دکھائیں
آخرکار حقیقت،اپنی اصل صورت میں آ جاتی ہے
خود کو جتنا بھی ہم اونچا دکھائیں
اگر اندر کوا ہو تو وہ کبھی باز نہیں بن جاتا

MAKT_PAK
 

خدا حافظ کہنے کا بھی دل نہیں کرتا
شاعری: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
خدا حافظ کہنے کا بھی دل نہیں کرتا،
یادوں کے سائے میں کہیں دل نہیں کرتا۔
ہم نے تو دل لگا کر تمہیں چاہا تھا،
اب تم سے جدا ہو کر، یہ عمل نہیں کرتا۔
آنکھوں میں آنسو ہیں، مگر زباں خاموش ہے،
یہ جو دل کا دکھ ہے، وہ بھی کم نہیں کرتا۔
دور جا کر تمہیں میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا،
مگر جدا ہو کر بھی دل نہیں ہار سکتا۔
خدا حافظ کہنا، ایک وعدہ تھا جسے نبھایا،
مگر دل کی گہرائیوں میں یہ بات نہیں کرتا۔

MAKT_PAK
 

دھوکہ دینے والے کا چہرہ
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
میں نے محبت کو عبادت سمجھا تھا،
یقین کیا تھا، دل کی گہرائیوں سے۔
لیکن جب وہی محبت دھوکہ بن گئی،
تو دنیا کے تمام رنگ سیاہ پڑ گئے۔
دھوکہ دینے والے کبھی نہیں دکھاتے
کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔
وہ ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ رکھتے ہیں،
اور دل میں ہزاروں راز چھپائے ہوتے ہیں۔
محبت کا درد تو سہہ لیا،
مگر وہ دھوکہ…
جو بھروسے کے ساتھ دیا گیا تھا،
وہ آج بھی دل میں گڑھا ہوا ہے۔
اب میں کسی کے سامنے اپنا دل نہیں رکھتا،
کیونکہ جس نے مجھے اپنا سمجھا تھا،
وہ خود ہی کبھی میرا نہیں تھا۔

MAKT_PAK
 

خود کو کھو دینا
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
محبت نے کبھی نہ پوچھا
کہ کیا تم تیار ہو؟
پھر بھی میں نے دل دیا،
خود کو اس کے سپرد کر دیا۔
لیکن جب وہ محبت میرا حصہ نہ بنی،
تو احساس ہوا کہ میں نے خود کو کھو دیا ہے۔
جب تک محبت میں بھروسہ تھا،
سب کچھ روشن تھا،
لیکن جب بھروسہ ٹوٹا،
تو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
اب محبت کرنے سے ڈرتا ہوں،
کیونکہ اب میں جان چکا ہوں
کہ محبت سے زیادہ
خود کو کھو دینا تکلیف دہ ہے۔

MAKT_PAK
 

دھوکہ اور حقیقت
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
محبت میں ہر شخص اپنا دل دیتا ہے،
لیکن کبھی کبھی ہم بھروسے کو بھی دل دے بیٹھتے ہیں۔
میں نے بھی یہی کیا تھا،
دل کے تمام دروازے کھولے،
اور بھروسہ کیا۔
لیکن جب حقیقت سامنے آئی،
تو دل کا دروازہ بھی ٹوٹ گیا،
اور وہ بھروسہ… جو میں نے دیا تھا،
صرف ایک دھوکہ بن کر رہ گیا۔
اب میں محبت پر شک نہیں کرتا،
کیونکہ محبت تو دل کی حالت ہے،
مگر بھروسہ…
وہ دل کی حقیقت ہوتی ہے جو کبھی واپس نہیں آتی۔

MAKT_PAK
 

بھروسے کی لاش
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
محبت تو ایک خواب تھی…
لیکن میں نے اُسے حقیقت مانا۔
میں نے اُسے دل دیا، وقت دیا، دعائیں دیں…
اور جب سب کچھ دے چکا،
تو ایک دن اچانک… سب کچھ چھن گیا۔
لوگ کہتے ہیں محبت بےوفا نکلی،
لیکن اصل دکھ یہ ہے…
کہ محبت سے زیادہ، بھروسہ بےوفا نکلا۔
جس پہ میں نے آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا،
اُسی نے میری آنکھیں کھول دیں…
لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
اب دل میں صرف ایک لاش ہے،
بھروسے کی لاش…
جو ہر رشتہ، ہر جذبے کو دفن کر چکی ہے۔
میں آج بھی زندہ ہوں،
لیکن وہ شخص… وہ بھروسہ… مر چکا ہے۔

MAKT_PAK
 

میں نے دل دیا تھا… سودے بازی نہیں کی تھی
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
میں نے جب محبت کی…
تو ہر خوشی، ہر خواب، ہر خواہش اُس کے نام کر دی۔
میری دنیا وہی تھی،
میرا سکون، میرا جنون… بس وہی چہرہ تھا۔
پھر میں نے بھروسہ کیا،
اور وہی لمحہ میری زندگی کا سب سے بڑا نقصان بن گیا۔
جسے میں نے دل دیا،
اُس نے اُسے ٹھکرا دیا۔
جسے میں نے اپنا سمجھا،
وہ کبھی میرا تھا ہی نہیں۔
میں نے دل دیا تھا… سودے بازی نہیں کی تھی۔
مگر بدلے میں جو ملا،
وہ نہ محبت تھی، نہ خلوص، نہ وفا… صرف تنہائی، پچھتاوا اور آنسو۔
اب محبت سے نہیں ڈرتا،
لیکن بھروسہ کرنے سے خوف آتا ہے۔

MAKT_PAK
 

محبت کا مول
تحریر: حکیم الامت ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
میں نے محبت کو عبادت سمجھا،
ہر دعا میں اس کا نام لیا،
ہر خوشی میں اُس کی خوشی مانگی۔
میں نے اپنا سب کچھ دے کر،
اُس کا ایک لمحہ خریدا تھا…
لیکن افسوس!
محبت کے بازار میں خلوص کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
میری سب سے بڑی بھول یہی تھی،
کہ میں نے سمجھا، جو سچا ہو،
وہی جیتتا ہے۔
لیکن یہاں تو جھوٹ ہنستا ہے،
اور سچ تنہا رو پڑتا ہے۔
محبت کی قیمت شاید ایک مسکراہٹ ہو،
لیکن بھروسے کی قیمت…
اک عمر کا پچھتاوا ہوتی ہے۔

MAKT_PAK
 

بھروسے کا انجام
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
محبت کرنا میرا جرم نہ تھا،
میں نے تو دل دیا تھا… بےغرض، بےلوث، خلوص سے۔
لیکن شاید میں وہ نادان تھا،
جس نے محبت کے ساتھ بھروسہ بھی کر لیا۔
محبت نے تو آزمائش لی،
لیکن بھروسے نے سزا دے دی۔
جس پر یقین کیا،
اسی نے میری آنکھوں میں خواب بُنے…
اور پھر اُنہیں آنسوؤں سے دھو دیا۔
سچ کہوں؟
محبت کا زخم بھر جاتا ہے،
لیکن بھروسے کی چوٹ…
عمر بھر کا روگ بن جاتی ہے۔
اب جو بھی قریب آتا ہے،
میں مسکرا تو لیتا ہوں…
مگر دل کے دروازے بند رکھتا ہوں۔
کیونکہ اب نہ محبت پر بھروسہ ہے،
نہ بھروسے پر محبت۔

MAKT_PAK
 

محبت کا قرض
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
میں نے محبت کی دل سے،جان سے،خلوص سے۔
پھر اُس محبت پر بھروسہ کیا اپنی دنیا لٹا دی،خواب بُن لیے،وفاؤں کے چراغ جلا دیے۔
لیکن شاید میں بھول گیا تھا…
کہ محبت اگر امتحان ہے تو بھروسہ سب سے مشکل سوال۔
میں نے جسے اپنا سب کچھ سمجھا
اُس نے ہی مجھے کچھ نہ سمجھا
محبت نے مجھے توڑ دیا
اور بھروسے نے مجھے مٹی میں ملا دیا۔
اب دل میں ایک خاموشی ہے
ایسی خاموشی جو چیختی ہے
ایسا سکوت جو سوال کرتا ہے
کیا قصور صرف اتنا تھا کہ میں نے سچّا پیار کیا؟
محبت مجھے آج بھی یاد ہے
لیکن بھروسہ وہ کبھی دوبارہ نہیں آئے گا۔

MAKT_PAK
 

میری زندگی کا سب سے بڑا نقصان
میں نے محبت کی
اور محبت سے بھی بڑا نقصان
کہ اس محبت پہ بھروسہ کیا

MAKT_PAK
 

محبت اور پونکا
تحریر: Hakim-ul-Ummat Alama Dr.Muhammad Owais Khan Tarin
پہلا دن دیکھا، وہ آئی گلی میں
دل نے کہا،یہ ہے ملکہ دلی میں!
نہ بات ہوئی،نہ کچھ تعارف ہوا
دل پونکے کی طرح بجا اور خراب ہوا!
سوچا چلو آج اظہارِ وفا ہو
وہ بولی دفع ہو،یہ کیا مذاق ہوا؟
پھر بھی نہ مانے ہم تھے بضد
دل تھما جیسے پنکچر شدہ ٹائر کا رد!
محبت کو سمجھا تاج محل جیسا
نکلی وہ جنگل اور ہم بندر جیسا!

MAKT_PAK
 

آجکے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ شاعری کو صرف تفریح کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ اسے اصلاحِ معاشرہ اور تبلیغِ دین کا وسیلہ بنائیں۔

MAKT_PAK
 

خود قرآنِ مجید نے شاعری کو ایک فن کے طور پر تسلیم کیا ہے،لیکن اس کے منفی استعمال کی مذمت بھی کی گئی ہے۔حضور نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام میں حضرت حسان بن ثابتؓ جیسے عظیم شاعر موجود تھے،جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلام کا دفاع کیا۔
شاعری کا معاشرتی کردار:
شاعری محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ اصلاح کا ہتھیار بھی ہے۔شاعری قوموں کو بیدار کرتی ہے،جوانوں کے لہو میں حرارت پیدا کرتی ہے، مظلوموں کو حوصلہ دیتی ہے اور ظالموں کے خلاف احتجاج بن کر ابھرتی ہے۔علامہ اقبال کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں میں نئی روح پھونکی۔
نتیجہ:
شاعری ایک جامع فن ہے جو انسان کی روح، دل اور دماغ پر یکساں اثر انداز ہوتا ہے۔یہ علم و فہم کا خزانہ بھی ہے اور احساس و جذبات کا آئینہ بھی۔شرط صرف یہ ہے کہ اسے مثبت،بامقصد اور سچائی کے اظہار کے لیے استعمال کیا جائے۔

MAKT_PAK
 

اسلام کے بعد بھی اس فن کو نئی جہتیں ملیں اور نعت،منقبت،حمد،مرثیہ اور دینی شاعری نے مسلمانوں کے دلوں کو روشن کیا۔ اردو شاعری میں ولی دکنی،میر،غالب،اقبال اور فیض جیسے عظیم شعراء نے اس فن کو کمال تک پہنچایا۔
شاعری کی اقسام:
شاعری کئی اقسام پر مشتمل ہے جن میں چند اہم درج ذیل ہیں:
1. غزل – محبت اور جذبات کا نازک اظہار
2. نظم – کسی موضوع پر مربوط انداز میں اظہار خیال
3. نعت – حضور اکرم ﷺ کی مدح سرائی
4. منقبت – اولیائے کرام کی تعریف
5. مرثیہ – شہداء کی یاد میں
6. حمد – اللہ تعالیٰ کی تعریف
7. مزاحیہ شاعری – طنز و مزاح کے ذریعے اصلاح
شاعری اور دین اسلام:
اسلام شاعری کے اس پہلو کو پسند کرتا ہے جو فصاحت، بلاغت اور حق کی حمایت کا ذریعہ بنے۔

MAKT_PAK
 

عنوان: شاعری – ایک جامع فن اور اظہارِ خیال کا مؤثر ذریعہ
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
تعارف:
شاعری ادب کی وہ خوبصورت صنف ہے جس میں الفاظ کو جذبات،خیالات اور احساسات کا روپ دے کر قاری یا سامع کے دل میں اتارا جاتا ہے۔یہ محض الفاظ کا میل نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا وہ پیغام ہوتا ہے جو انسانی فطرت کے ہر پہلو کو چھوتا ہے۔شاعری خوشی،غم،عشق،نفرت،حقیقت،خواب،دین،اخلاق، سیاست اور فلسفے سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ شاعری ایک جامع فن ہے۔
شاعری کا تاریخی پس منظر:
شاعری کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی تہذیب کی۔عرب میں قبل از اسلام دور میں شاعری کو عزت و وقار کا پیمانہ سمجھا جاتا تھا۔

MAKT_PAK
 

بہت خوبصورت شعر ہے:
"تو آئے باغ میں تو تیرے احترام میں
واجب ہے کوئی پھول کسی شاخ پر نہ ہو"
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب یا کسی نہایت محترم شخصیت سے مخاطب ہے اور اس کے لیے انتہائی ادب، محبت اور عظمت کا اظہار کر رہا ہے۔
شاعر کا مطلب یہ ہے کہ:
جب تو (یعنی محبوب یا معزز شخصیت) باغ میں آئے تو تیرے اتنے بڑے احترام میں یہ زیب نہیں دیتا کہ کوئی اور خوبصورتی (جیسے پھول) تیرے سامنے نمایاں ہو۔
لہٰذا واجب ہے کہ سارے پھول جھک جائیں، چھپ جائیں یا موجود ہی نہ ہوں تاکہ تیری عظمت کے سامنے کوئی اور چیز نہ چمکے۔
یہ ایک تشبیہی اور علامتی اظہار ہے، جس میں محبوب کی موجودگی کو اتنی خوبصورت، اتنی باوقار اور اتنی مکمل قرار دیا گیا ہے کہ باقی ہر حسن غیر ضروری محسوس ہو۔