یااللّٰہ! پاک غزہ،فلسطین،شام،عراق،ایران اور کشمیر وغیرہ کے مسلمانوں کی مدد فرما۔
آمین ثم آمین
یاربّ العالمین
نعرے تکبیر اللّٰہ اکبر
تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ:
کچھ لوگ صرف فیس بُک کی پوسٹوں میں غزہ کے ساتھ کھڑے تھے، جبکہ حقیقت میں وہ کاروبار میں مگن تھے…
کچھ نے آنکھیں بند کیں، کچھ نے زبان بند کی، اور کچھ نے دل بند کر لیے…
لیکن…
تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ:
غزہ کے لوگ گِرے نہیں، جھکے نہیں، بکے نہیں۔
ان کے بچے بھی شہادت کو مسکرا کر گلے لگاتے رہے…
انہوں نے ہمیں آئینہ دکھا دیا کہ اصل غیرت، اصل ایمان، اصل اسلام کیا ہوتا ہے۔
ہم بچ جائیں گے یا نہیں، یہ اللہ جانے،
مگر تاریخ بچ جائے گی… اور سب کچھ لکھ دے گی۔
> "تاریخ لکھے گی کہ ظالم طاقتور تھے،
مگر مظلوم باوقار تھے۔
تاریخ لکھے گی کہ ہم نے ظلم دیکھا،
اور خاموش رہے۔
اور یہ خاموشی… ہماری نسلوں کے ماتھے پر بدنما داغ بن جائے گی۔"
باب ہفتم (آخری): تاریخ کیا لکھے گی؟
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
تاریخ خاموش نہیں رہتی۔
وہ صرف واقعات کو محفوظ نہیں کرتی، بلکہ کرداروں کو ننگا بھی کرتی ہے۔
تاریخ نہ کسی شہنشاہ سے ڈرتی ہے،
نہ کسی ایوان سے،
نہ کسی کرسی سے۔
تاریخ صرف سچ بولتی ہے—اور جب بولتی ہے، تو زمین بھی شرما جاتی ہے۔
تاریخ لکھے گی کہ:
پاکستان ایٹمی طاقت تھا، لیکن فلسطین کو ایک ایٹم بم تک نہ دے سکا…
مصر کے پاس دریائے نیل تھا، اور غزہ پیاس سے مر گیا…
سعودی عرب اور عرب امارات کے پاس تیل کے سمندر تھے، مگر غزہ کے اسپتالوں کے جنریٹر بند ہو گئے…
امت کے پاس پچاس لاکھ فوجی تھے، ٹینک، جہاز، میزائل اور ایٹم بم تھے—مگر غزہ کی حفاظت کے لیے کوئی ایک قدم نہ اُٹھ سکا…
حکمران خاموش تھے، علما مصلحتوں میں گم، عوام فیس بُک پر مصروف، اور غزہ قبرستان بنتا رہا…
یہ وہ لمحہ ہے جب ہماری صفوں میں اتحاد نہیں،
زبانوں میں سچائی نہیں،
دلوں میں غیرت نہیں۔
غزہ کے بچوں کی لاشیں امت کے ضمیر پر سوال ہیں:
> "اگر یہی مسلمان ہیں… تو انسان کون؟
اگر یہی امت ہے… تو رحمت کہاں گئی؟"
تاریخ لکھے گی:
> "امت کے ضمیر نے غزہ کے جنازے پر بھی آنکھ نہ کھولی۔"
باب ششم: امت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر نیند یا موت؟
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
کبھی اُمت ایک جسم ہوا کرتی تھی،ایک عضو میں تکلیف ہوتی تو سارا جسم بے چین ہو جاتا۔
آج وہی اُمت ٹکڑوں میں بٹی ہے۔ دل مردہ، آنکھیں بے نم، اور ضمیر خاموش۔
غزہ جلتا رہا،
لہو بہتا رہا،
معصومیت روندی جاتی رہی،
مگر امت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر… خاموش رہا۔
یہ خاموشی نیند نہیں،
یہ بے خبری نہیں…
یہ روح کی موت ہے،
یہ ایمان کی قبر ہے،
یہ ضمیر کا جنازہ ہے۔
جب حکمران خاموش ہوں،
جب علما مصلحتوں کا شکار ہوں،
جب عوام صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کریں،
جب مسجدوں میں بھی مظلوموں کے لیے آہ نہ ہو،
تو سمجھ لو…امت کا ضمیر سو نہیں گیا، مر گیا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب دشمن بیدار ہے،
اور ہم خواب غفلت میں ہیں۔
اگر یہ فوجیں محض حکومتوں کے تحفظ کے لیے ہیں،
اگر یہ طاقتیں صرف کرسیوں اور محلوں کے دفاع کے لیے ہیں،
تو پھر ان کے ہونے کا کیا فائدہ؟
کیا قرآن نے نہیں فرمایا:
> "وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ..."
(تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے؟)
— النساء: 75
غزہ کی فریاد قیامت تک گونجے گی، اور یہ سوال بھی:
> "تم سب تھے، مگر ہم اکیلے تھے۔"
باب پنجم: پچاس لاکھ فوجی اور ایک نہتی قوم
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
امتِ مسلمہ کے پاس پچاس لاکھ سے زائد فوجی ہیں۔ یہ فوجیں جدید ترین تربیت، جدید اسلحے، بکتر بند گاڑیوں، میزائل سسٹمز، جنگی جہازوں، اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان کے پاس دنیا کے مہنگے ترین فوجی اڈے، خفیہ سیٹلائٹ، اور عسکری اتحاد موجود ہیں۔
مگر… دوسری طرف، غزہ ہے۔
نہ فوج، نہ میزائل، نہ ایئر ڈیفنس سسٹم، نہ ایٹم بم…
صرف ایمان، پتھر، اور دعائیں۔
ایک طرف عسکری طاقت کا پہاڑ،
دوسری طرف نہتے بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا قافلہ۔
سوال یہ ہے:
پچاس لاکھ فوجیوں میں سے کوئی ایک بھی غزہ کی حفاظت کو نہ جا سکا؟
کوئی ٹینک اُن دیواروں تک نہ پہنچا جو معصوموں کے سروں پر گرائی جا رہی تھیں؟
کیا وہ سب فوجیں صرف پریڈ کے لیے ہیں؟
یہ وہ منظر ہے جب فرشتے سوال کرتے ہیں:
> "یہ وہی عرب ہیں نا جو کعبہ کے وارث کہلاتے ہیں؟
یہ وہی مسلم اُمراء ہیں نا جن کی زبان پر امت کی باتیں ہوتی ہیں؟"
جب معصوم بچوں کی سانسیں ایندھن کے بغیر بند ہو رہی ہوں،
جب مائیں اپنے بچوں کو مرتے دیکھیں صرف اس لیے کہ ایمبولینس نہ چل سکی—
تو وہ تیل، وہ دولت، وہ حکومت… سب لعنت بن جاتے ہیں۔
تاریخ لکھے گی:
> "تیل کے سمندر تھے،
مگر غزہ کی اسپتالوں میں اندھیرا چھایا رہا۔"
باب چہارم: تیل کی سلطنتیں اور خالی ایمبولینسیں
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، بحرین…
یہ وہ خطے ہیں جن کی زمینوں سے تیل پھوٹتا ہے۔ تیل نہیں بلکہ سونا نکلتا ہے۔ وہ سونا جس نے ان ممالک کو جدید ترین طیارے، محلات، فائیو اسٹار ہوٹل، پرتعیش زندگی، اور اربوں ڈالر کی معیشت دی۔
لیکن جب غزہ کے اسپتالوں میں مریض تڑپتے ہیں، جب ایمبولینسیں پٹرول کی کمی سے رک جاتی ہیں، جب جنریٹر بند ہو جاتے ہیں، جب آپریشن تھیٹر اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں تو تیل کی ان سلطنتوں میں خاموشی چھا جاتی ہے۔
وہ ممالک جنہوں نے دنیا کے مہنگے ترین مالز بنائے،
وہ حکمران جن کے کتے بھی ایئر کنڈیشن کمروں میں رہتے ہیں،
وہ محل جن کے فرش سونے کے ہیں…
وہاں سے غزہ کے لیے ایک ڈرم ایندھن تک نہیں نکلتا۔
یہ وہ لمحہ ہے جب انسانیت روتی ہے۔
کیا مصر کو یاد نہیں کہ جب بنی اسرائیل نے مدد مانگی تو موسیٰ علیہ السلام نے دریا پر عصا مارا تھا؟
کیا ہمیں یاد نہیں کہ پیاسا صرف انسان نہیں ہوتا، اس کی فریاد بھی عرش تک جاتی ہے؟
غزہ کی پیاس سے زمین تو شرمندہ ہے،
کیا نیل کے کنارے بستے دل بھی شرمندہ ہیں؟
کیا اُن کے ضمیر زندہ ہیں جو پانی کے دریا پر حکومت کرتے ہیں، مگر غزہ کو ایک قطرہ نہیں دے سکتے؟
تاریخ اب لکھ رہی ہے:
> “نیل بہتا رہا، غزہ مرتا رہا…
اور ہم چپ رہے۔”
باب سوم: نیل کے کنارے،غزہ کی پیاس
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
دریا نیل…جسے قرآن نے آیاتِ الٰہی میں شامل کیا، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جھولنا بنی، جو صدیاں گواہ رہا ہے مصر کی طاقت، عظمت اور تہذیب کا…آج اسی دریا کے کنارے بیٹھا غزہ پیاس سے مر رہا ہے۔
مصر کے پاس دنیا کا سب سے قدیم دریا ہے۔ پانی کی فراوانی، زرعی زمینیں، اور وسائل کی بہتات ہے، مگر دوسری طرف،اسی خطے کے مسلمان،غزہ کے فلسطینی،بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔
نہ پینے کا صاف پانی،
نہ زخموں کو دھونے کے لیے ایک قطرہ،
نہ وضو کے لیے سہولت،
نہ بچوں کے لیے دودھ۔
یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا ہے، جب صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر دریا نیل پوری آب و تاب سے بہہ رہا ہے۔سوال یہ نہیں کہ نیل کا پانی غزہ کو کیوں نہیں ملا…سوال یہ ہے کہ دل کیوں پتھر ہو گئے؟
اور پورا عالم اسلام جدید ہتھیاروں، افواج، اور وسائل سے مالا مال ہے۔
پھر سوال یہ ہے:
کیا غزہ کی مائیں مسلمان نہیں؟
کیا ان کے بچے انسان نہیں؟
کیا ان کا خون اتنا سستا ہے کہ کوئی ایٹمی ملک ان کے لیے ایک بیان تک نہیں دیتا؟
غزہ آج بھی پکار رہا ہے:
> "ہم نے تمہیں اپنا محافظ مانا تھا…
تم نے ہمیں تماشا بنا دیا۔"
یہ خاموشی، یہ بے حسی، صرف زمینی تاریخ نہیں لکھے گی، بلکہ قیامت کے دن بھی سوال اٹھے گا: جب تمہارے بھائی جل رہے تھے، تم کہاں تھے؟
باب دوم: غزہ کی پکار، ایٹمی طاقتوں کی خاموشی
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
غزہ… وہ مظلوم خطہ جو زمین پر جنت کے ٹکڑے جیسا تھا، مگر اب ہر طرف سے جہنم کا منظر پیش کر رہا ہے۔
جہاں زندگی کی رمق باقی ہے،وہاں صرف آنکھوں سے بہتے آنسو اور دلوں سے ٹپکتے آہیں ہیں۔
ہر طرف سے ظلم برستا ہے۔ بچوں کے جسموں کے پرخچے اُڑ رہے ہیں،عورتیں اپنے خاوندوں، بھائیوں اور بیٹوں کی لاشیں اُٹھا رہی ہیں، اور نوجوان ملبے سے اپنے ماں باپ کی لاشیں نکال رہے ہیں۔ مگر...
کوئی آواز نہیں آتی۔
کوئی فریاد کرنے والا نہیں پہنچتا۔
کوئی مددگار نہیں اُترتا۔
یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا ہے جب:
پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔
ایران میزائلوں کا فخر کرتا ہے۔
ترکی عسکری قوت دکھاتا ہے۔
سعودی عرب تیل کا بادشاہ ہے۔
عرب امارات مال و دولت میں ڈوبا ہوا ہے۔
کہاں ہیں وہ جنہوں نے بیت اللہ اور مسجد نبوی کے سائے میں حکومتیں بنائیں؟
کہاں ہیں وہ جو خلافت، غیرت، اور وحدت کا نعرہ لگاتے ہیں؟"
ہم سب نے اپنی بند آنکھوں اور بند زبان سے گویا یہ اعلان کر دیا ہے: ہمیں صرف اپنی معیشت عزیز ہے، مظلوموں کی لاشوں سے زیادہ ہمیں اپنے کاروبار کی قیمتیں پیاری ہیں۔ ہم وہ امت بن چکے ہیں جو صرف سوشل میڈیا پر آنسو بہاتی ہے اور حقیقی دنیا میں خاموشی اختیار کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب تاریخ ہماری طرف بھی قلم اٹھا رہی ہے…اور شاید لکھنے جا رہی ہے:
> "یہ وہ امت تھی جو سب کچھ رکھتی تھی، مگر کچھ بھی نہ کر سکی۔"
باب اول: تمہید — خاموش تماشائیوں کی تاریخ
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
تاریخ صرف فتوحات کی داستان نہیں لکھتی، وہ شکست، غفلت، اور بےحسی کو بھی یاد رکھتی ہے۔ جب کسی مظلوم قوم کا خون بہتا ہے، جب بچوں کی چیخیں فضاؤں میں گونجتی ہیں، جب ماں اپنی لاش اٹھاتی ہے اور جب شہر ملبے کا ڈھیر بن جاتا ہے—تو تاریخ قلم اٹھاتی ہے۔ لیکن صرف قاتلوں کے خلاف نہیں، بلکہ اُن کے خلاف بھی جو خاموش تماشائی بنے رہے۔
آج امت مسلمہ کے سینے میں کئی ایٹمی ہتھیار ہیں، لاکھوں کی تعداد میں تربیت یافتہ فوجیں موجود ہیں، وسائل کے خزانے بھرے پڑے ہیں، مگر… غزہ جل رہا ہے، بچے پیاسے ہیں، اسپتالوں میں بجلی نہیں، ایمبولینسوں میں ایندھن نہیں، اور انسانیت سسک رہی ہے۔
دنیا چیخ رہی ہے: "کہاں ہیں وہ جنہوں نے اللہ کے دین کے نام پر ملک بنائے؟
عنوان: تاریخ کیا لکھے گی؟
مصنف: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
تمہید:
تاریخ ہمیشہ گواہ رہتی ہے… نہ صرف کامیابیوں کی، بلکہ بےحسی، غفلت، اور ظالموں کے سامنے خاموش تماشائی بنے رہنے کی بھی۔ یہ کتابچہ امتِ مسلمہ کی موجودہ صورتِ حال اور غزہ جیسے مظلوم علاقوں کی بے کسی پر ایک آئینہ ہے۔
ابواب کی تجویز:
1. تمہید: خاموش تماشائیوں کی تاریخ
2. غزہ کی پکار، ایٹمی طاقتوں کی خاموشی
3. نیل کے کنارے، غزہ کی پیاس
4. تیل کی سلطنتیں اور خالی ایمبولینسیں
5. پچاس لاکھ فوجی اور ایک نہتی قوم
6. امت مسلمہ کی مردہ غیرت
7. کیا ہماری نسلیں ہمیں معاف کریں گی؟
8. ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ (اصلاحی پیغام)
9. قرآنی اور نبوی رہنمائی مظلوموں کے حق میں
10. آخری پکار: تاریخ کا فیصلہ آنے سے پہلے جاگ جاؤ
تیاری کا طریقہ:
اسلامیات کی معیاری کتابیں (مثلاً اسلامیات لازمی – مطالعہ)
دینی مسائل پر جدید کتابوں کا مطالعہ
اگر Comparative Religion منتخب کیا جائے تو دیگر مذاہب پر بھی عبور ہونا چاہیے
5. Pakistan Affairs – 100 نمبر
اہم موضوعات:
تحریکِ پاکستان
قیامِ پاکستان کے بعد کے مسائل
آئینی ارتقا
سیاسی، معاشی، تعلیمی مسائل
خارجہ پالیسی اور دفاع
تیاری کا طریقہ:
مطالعہ پاکستان (Intermediate + BA سطح کی)
"Pakistan: A Historical and Contemporary Perspective" جیسی کتابیں
نوٹس بنائیں اور سوالات کی مشق کریں
6. Islamic Studies / Comparative Religion – 100 نمبر
اہم موضوعات:
قرآن و سنت کا تعارف
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
اسلام کا معاشرتی، معاشی، اور سیاسی نظام
جدید چیلنجز اور اسلامی نقطہ نظر
تیاری کا طریقہ:
میٹرک اور انٹر کی جنرل سائنس کی کتابیں پڑھیں
ریاضی کی بنیادی مہارتیں یاد کریں (فیصد، تناسب، مساوات)
IQ اور ذہنی آزمائش والے سوالات کی مشق کریں
4. Current Affairs – 100 نمبر
اہم موضوعات:
پاکستان کی خارجہ پالیسی
اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی تنظیمیں
عالمی حالات (Middle East, South Asia, China-US)
موسمیاتی تبدیلی، انسانی حقوق، ٹیکنالوجی
تیاری کا طریقہ:
روزانہ اخبار کا مطالعہ کریں
"Jahangir World Times" اور "Current Affairs Digest" جیسے میگزین
اہم عالمی مسائل پر نوٹس بنائیں
2. English (Precis and Composition) – 100 نمبر
حصے:
1. Precis Writing
2. Grammar & Vocabulary
3. Comprehension
4. Sentence Correction
5. Pairs of Words
6. Translation (اردو سے انگریزی)
تیاری کا طریقہ:
روزانہ انگریزی میں لکھنے کی مشق کریں
Grammar کی بنیادی کتاب جیسے Wren & Martin کا مطالعہ کریں
Vocabulary یاد کریں اور استعمال میں لائیں
اردو اخبارات سے مختصر پیراگراف لے کر انگریزی میں ترجمہ کریں
3. General Science & Ability – 100 نمبر
حصے:
1. General Science (Biology, Physics, Chemistry, Environmental Science)
2. Basic Math & IQ
3. Analytical Reasoning
4. Logical Reasoning
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain