جب بھی کہیں کوئی مشکل پیش آ جائے تو اللّٰہ تعالیٰ سے مدد مانگا کریں،اللّٰہ تعالیٰ آپکے دل کی تمام پریشانیاں اور راہ میں حائل تمام درد کو دور فرما دیں گے اور راحتوں میں بدل دیں گے۔
اختتامی پیغام:
"اپنے بچے کو پہلے اپنا بنائیں ورنہ دنیا اور شیطان اسے اپنا بنا لیں گے۔"
اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اپنی اولاد کی صحیح اسلامی تربیت کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
4. والدین کے لیے عملی رہنمائی:
بچوں کے دوستوں سے تعارف حاصل کریں
انکے وقت کا شیڈول معلوم رکھیں
موبائل اور سوشل میڈیا پر نظر رکھیں
دینی ماحول میں وقت گزارنے کی ترغیب دیں
خود بچوں کے بہترین دوست بنیں
5. ایک سبق آموز مثال:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نیک ساتھی اور بُرے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے مشک (عطر) بیچنے والا اور بھٹی جھونکنے والا۔مشک بیچنے والا یا تو تمہیں عطر دے گا یا تم اس سے خرید لوگے، یا کم از کم تمہیں خوشبو ملے گی اور بھٹی والا یا تو تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں بدبو محسوس ہوگی۔" (صحیح بخاری)
6. نتیجہ:
صحبت انسان کی شخصیت اور عقیدہ دونوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔اگر والدین نے اس پہلو کو نظر انداز کیا تو اولاد دنیا و آخرت دونوں میں نقصان اٹھا سکتی ہے۔
(ب) حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
"الرجل على دين خليله، فلينظر أحدكم من يُخالل" (ابو داود، ترمذی)
ترجمہ: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس ہر شخص دیکھے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔
2. اچھی اور بری صحبت کے اثرات:
(الف) اچھی صحبت کے اثرات:
دین و ایمان کی مضبوطی
نیک عادات اور باکردار شخصیت
وقت کی قدر اور علم دوستی
ادب،حیا،سچائی اور عزت نفس
(ب) بری صحبت کے اثرات:
دین سے دوری
جھوٹ،چوری،فحاشی،بد زبانی
والدین سے چھپ کر تعلقات
سوشل میڈیا پر فحش مواد کی رغبت
3. جدید دور کی نئی صحبتیں (ڈیجیٹل خطرات):
موبائل فون اور انٹرنیٹ پر انجان لوگوں سے دوستی
فحش ویڈیوز،آن لائن رومانس اور بلیک میلنگ
بے حیائی پر مبنی ایپلی کیشنز اور گیمز
شخصیت کی تباہی اور ذہنی و روحانی کمزوری
اولاد کی تربیت اور صحبتوں کی نگرانی ایک اسلامی فریضہ تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
تمہید:
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم امانت اور ذمہ داری بھی ہے۔آج کے پرفتن دور میں جہاں ایمان،اخلاق اور کردار پر حملے ہو رہے ہیں، وہیں والدین کی یہ ذمہ داری کئی گنا بڑھ گئی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی اولاد کو دینی و دنیاوی تعلیم دیں بلکہ ان کی صحبتوں اور تعلقات پر گہری نظر بھی رکھیں۔
1. قرآن و حدیث کی روشنی میں صحبت کی اہمیت:
(الف) قرآن مجید:
"وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ" (الکہف: 28)
ترجمہ: اور ان لوگوں کے ساتھ صبر سے بیٹھا رہ جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں، صرف اس کی رضا کے لیے۔
مسلم ممالک میں تباہی صرف اس وجہ سے نہیں ہوئی اور ہورہی ہے کہ وہ کمزور تھے بلکہ اس وجہ سے ہوئی کہ بہت سارے مسلمانوں نے کافروں کی نقل کرنا شروع کی اور پھر اللّٰہ کا عذاب تو نازل ہونا ہی تھا کسی نا کسی شکل میں
3. غیراسلامی ثقافت سے دوری:
بچوں کو مغربی اور ہندوانہ تہذیب کے نقصانات سمجھائیں۔
4. سیرت النبیؐ اور صحابہؓ کی زندگیاں پڑھائیں:
تاکہ وہ اصل رول ماڈلز کو پہچان سکیں۔
5. میڈیا اور سوشل میڈیا پر کنٹرول:
فضول ویڈیوز،ناچ گانا اور فضولیات سے بچائیں۔
اختتامیہ:
والدین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بچوں کو دنیا میں کامیاب بنانے سے زیادہ اہم انہیں آخرت میں کامیاب بنانا ہے۔گاڑیاں،بنگلے اور کپڑے سب فانی ہیں،لیکن ایمان،عمل صالح اور دینی کردار ہمیشہ باقی رہیں گے۔
"اولاد کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے،نبی کی سنت پر چلے اور آخرت کی تیاری کرے۔"
نا کے مہدی حسن،عطااللہ وغیرہ کو گائے
اسلامی اصول:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من تشبہ بقوم فہو منہم"
(سنن ابی داود)
ترجمہ: جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے۔
یہ حدیث ہمیں متنبہ کرتی ہے کہ جس قوم کی نقل کریں گے، قیامت میں انہی کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔
4. نتائج:
ایسی سوچ کا انجام:
ایمان کا زوال
اخلاقی انحطاط
والدین کے لیے اولاد کا بوجھ بن جانا
معاشرے میں بگاڑ اور فتنہ
ایسی نسل جو دین سے بے بہرہ ہو، وہ دنیا میں بھی پریشان رہتی ہے اور آخرت میں بھی خسارے میں ہوگی۔
5. حل اور اصلاح:
اسلامی تربیت کے چند اصول:
1. بچوں کو بچپن سے دین سے جوڑیں:
نماز کی عادت ڈالیں۔
قرآن سے تعلق مضبوط کریں۔
2. اپنے عمل سے نمونہ بنیں:
بچے والدین کے عمل سے سیکھتے ہیں، صرف باتوں سے نہیں۔
ترجمہ: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
والدین سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی اولاد کو کس طرف لگایا؟دنیا کی طرف یا دین کی طرف؟کیا تم نے انہیں نماز سکھائی؟کیا انہیں قرآن سے جوڑا؟کیا حلال و حرام کا شعور دیا؟
3. غیر مسلموں کی اندھی تقلید:
ثقافتی غلامی:
بدقسمتی سے آجکے مسلم بچے بلکہ ان کے والدین بھی ہندوؤں،عیسائیوں اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید میں مصروف ہیں:
ان کے تہوار مناتے ہیں (جیسے ویلنٹائن، ہولی، کرسمس وغیرہ)،
ان کے گانوں پر ڈانس اور ویڈیوز بناتے ہیں،
انکے لباس،اندازِ گفتگو،حتیٰ کہ ان کی خرافات بھی فخر سے اپناتے ہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک مکمل دین عطا کیا،جس میں لباس،کردار،اخلاق اور طرز زندگی کے بارے میں مکمل رہنمائی موجودہے
ایسے والدین کے نزدیک اگر ان کا بچہ نمازی نہیں،قرآن نہیں پڑھتا یا حلال و حرام کی تمیز نہیں رکھتا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ان کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ "دنیا میں کامیاب نظر آنا چاہیے"۔
2. دینی پہلو سے غفلت:
قرآن کی روشنی میں:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا"
(التحریم: 6)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ والدین کی سب سے پہلی ذمہ داری اپنے بچوں کو جہنم سے بچانے کی ہے، یعنی ان کی دینی تربیت کرنا۔دنیاوی تعلیم اور مال کمانا ثانوی چیزیں ہیں۔
حدیث کی روشنی میں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کُلُّکُمْ رَاعٍ، وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ"
(صحیح بخاری و مسلم)
موضوع: آج کے والدین کی سوچ اور بچوں کی دینی تربیت کا فقدان
مقدمہ:
آج کا مسلمان معاشرہ ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ خصوصاً والدین کی سوچ اور تربیت کے انداز میں ایسی تبدیلیاں آ چکی ہیں جو امت مسلمہ کی دینی بنیادوں کو کمزور کر رہی ہیں۔ والدین کی اکثریت اپنی اولاد کو کامیاب، خوشحال اور بااثر دیکھنا چاہتی ہے، لیکن ان کے نزدیک کامیابی کا معیار صرف دنیاوی مال و دولت، شہرت، گاڑی، بنگلہ، برانڈڈ کپڑے اور انگریزی بولنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
1. والدین کی موجودہ سوچ:
دنیاوی معیار کا غلبہ:
آج کے والدین بچوں کے لیے جو خواب دیکھتے ہیں وہ کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں:
بچے کی انگریزی بہترین ہو،
وہ جدید یونیورسٹی سے پڑھے،
بڑی کمپنی میں جاب کرے،
لمبی گاڑی چلائے،
فلیٹ یا بنگلہ خریدے،
مہنگے کپڑے پہنے اور ہر وقت سوشل میڈیا پر “اچھا” لگے۔
"وہ کون سی قوم ہے جن سے یاجوج ماجوج بھی پناہ مانگیں گے؟"
نتیجہ:
اگر ہم صرف نعرے اور لیبلز پر گزارا کرتے رہے، تو زوال مقدر رہے گا۔سچائی یہ ہے کہ "پاکستان اسلامی ملک نہیں رہا" اور جب ہم یہ مان لیں گے تبھی اصلاح کا دروازہ کھلے گا۔
آئیے! سچ کا سامنا کریں اور تبدیلی کا آغاز خود سے کریں۔
میڈیا بے حیائی کا پرچار
دین کو فرقہ واریت میں تقسیم کر دیا گیا
تو پھر ہم کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ یہ ایک "اسلامی" ریاست ہے؟
3. دھوکے کا تسلسل:
ہم نے "اسلامی جمہوریہ" کا لیبل تو لگا رکھا ہے،مگر نہ یہاں خلافت ہے،نہ اسلامی قانون،نہ حکمرانوں میں تقویٰ۔
یہ خود سے دھوکہ ہے اور خود فریبی سب سے خطرناک دھوکہ ہے۔
4. حل کیا ہے؟
جھوٹ بولنا بند کریں: خود کو اسلامی کہنے کے بجائے، اسلامی بننے کی کوشش کریں۔
شعور پیدا کریں: عوام میں تعلیم،دین اور آئینی حقوق کا شعور عام کریں۔
اصلاحی تحریکات کو سپورٹ کریں: ایسے افراد اور اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں جو واقعی اسلامی نظام کے لیے کام کر رہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عنوان:
"پاکستان جب اسلامی ملک نہیں رہا… تو لوگوں سے اور خود سے جھوٹ بولنا چھوڑ دو"
از: ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
تمہید:
پاکستان کا قیام "لا الٰہ الا اللہ" کے نام پر ہوا، ایک اسلامی فلاحی ریاست کے خواب کے ساتھ۔ لیکن آج، جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں، تو دل یہ سوال کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے: کیا ہم واقعی اسلامی ریاست ہیں؟ اگر نہیں… تو پھر ہم کب تک خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟
1. اسلامی ریاست کے بنیادی اصول:
اسلامی ریاست کا مطلب صرف نماز، روزہ یا اسلامی نام رکھنا نہیں، بلکہ:
عدل و انصاف کا بول بالا
سود سے پاک معیشت
اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ
عورتوں کی عزت و وقار
حکمران کا جواب دہ ہونا
2. آج کا پاکستان – ایک کھلا تضاد:
عدالتیں طاقتور کے قدموں میں
تعلیم بے روح اور مغرب زدہ
معیشت سود اور قرض پر کھڑی

بہت دیکھے ہیں ہم نے محبت کے ہنگامے
آغاز بھی رسوائی اور انجام بھی رسوائی
اے موت تو ہی آجا
اس نے تو نہیں آنا
علمائے اہل سنت کا موقف:
قادیانی: متفقہ طور پر مرتد،کافر،دائرہ اسلام سے خارج۔انکے ساتھ شادی،وراثت،جنازہ، سلام کچھ بھی جائز نہیں۔
شیعہ:
عام شیعہ مسلمان لیکن گمراہ فرقہ۔
غالی شیعہ (جو قرآن کی تحریف یا حضرت علیؓ کی الوہیت کے قائل ہوں): کافر۔
انکے ساتھ اصلاح و تبلیغ کا دروازہ اکثر علماء نے کھلا رکھا ہے۔
نتیجہ:
قادیانی فتنہ عقیدے،سازش اور دھوکہ دہی کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہے۔
کیونکہ:
وہ اسلام کے سب سے اہم عقیدے (ختمِ نبوت) کا انکار کرتے ہیں۔
وہ اسلام کا چہرہ اوڑھ کر اندر سے اس کو توڑتے ہیں۔
عالمی طاقتوں کی سرپرستی بھی ان کے ساتھ ہے۔
جبکہ شیعہ حضرات میں سے اکثریت عقیدے میں غلطی یا گمراہی کا شکار ہو سکتی ہے، لیکن وہ اسلام کے بنیادی عقائد کا انکار نہیں کرتے جیسے ختمِ نبوت،قرآن،رسالت۔
لیکن تمام شیعہ فرقے کافر نہیں سمجھے جاتے؛ اکثریتی فقہاء نے عام شیعوں کو مسلمان گمراہ فرقہ کہا ہے، نہ کہ مکمل کافر۔
2. کس سے خطرہ زیادہ؟
قادیانی:
اسلام کے بنیادی عقیدے ختمِ نبوت پر حملہ ہے۔
مسلمان بن کر اسلام کو اندر سے نقصان پہنچاتے ہیں۔
جھوٹی نبوت کا دعویٰ امت کے اتحاد اور ایمان کی جڑ پر ضرب ہے۔
یہ دجل، فریب اور ظاہری اسلام کے ساتھ اندرونی کفر کا خطرناک امتزاج ہیں۔
غیر مسلم ہونے کے باوجود خود کو مسلمان کہہ کر دنیا کو گمراہ کرتے ہیں۔
شیعہ:
عقائد میں شدید اختلافات ہیں، لیکن اسلام کی بنیادی شہادت کو مانتے ہیں۔
ان کے ہاں بعض غلط عقائد اور صحابہ کرامؓ کی گستاخی پائی جاتی ہے، لیکن نبی کریم ﷺ کو نبی آخر الزمان مانتے ہیں۔
ان کے ساتھ مکالمہ اور اصلاح کی گنجائش بعض اوقات باقی رہتی ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain