آخری بات
محبت تب ہی کامیاب ہوتی ہے جب اس میں ربّ کی رضا شامل ہو،ورنہ یہ صرف ایک کھیل بن کر رہ جاتی ہے۔
اگر محبت میں قربانی ہے تو امید بھی ہو کہ وہ قربانی رائیگاں نہ جائے۔
اگر محبت میں وفا ہے تو دعا بھی ہو کہ دوسرا بھی اس وفا کو سمجھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی محبت عطا فرمائے جو ہمیں اُس کے قریب کر دے اور ایسی صحبت عطا فرمائے جو وفا،امانت اور سچائی کا پیکر ہو۔
آمین
ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو زیادہ بولتے نہیں، اپنے جذبات کو شاعری یا تحفوں میں ظاہر نہیں کرتے، مگر ان کے عمل،وفا،خلوص اور مستقل مزاجی ان کی محبت کی گواہی دیتے ہیں۔
ایسے لوگ شاید اظہار میں پیچھے ہوں لیکن نبھانے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔
کچھ محبتیں سب کچھ قربان کر دیتی ہیں، پھر بھی دھوکہ کھاتی ہیں
دل دکھتا ہے اُن کہانیوں پر جہاں محبت نے ہر حد پار کی ہر چیز وار دی خود کو مٹا دیا لیکن بدلے میں بے وفائی،سرد مہری اور تماشہ ہی ملا۔
یہ اس دنیا کا تلخ سچ ہے کہ بعض اوقات محبت سب کچھ دے کر بھی خالی ہاتھ رہ جاتی ہے۔
محبت کے تقاضے
محبت:
خلوص مانگتی ہے
وفاداری چاہتی ہے
وقت،توجہ اور احترام کی طلبگار ہوتی ہے
دوسروں کی عزت نفس کا لحاظ سکھاتی ہے
اور سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا دل مانگتی ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محبت: صرف جذبہ نہیں، ایک عظیم ذمہ داری
تحریر: ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
محبت ایک ایسا لفظ ہے جو سننے میں میٹھا لگتا ہے،مگر اس کے اندر ایک پوری دنیا چھپی ہوتی ہے۔لوگ اکثر اسے صرف دل کی ایک کیفیت،ایک وقتی جذبہ یا ایک حسین خواب سمجھ بیٹھتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ محبت محض جذبات کا نام نہیں بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
محبت میں قربانی ہوتی ہے
سچی محبت وہی ہوتی ہے جو اپنی ذات کو مٹا کر دوسرے کی خوشی میں خوشی ڈھونڈے۔ جو محبوب کی راحت کے لیے اپنی نیندیں، سکون،حتیٰ کہ خواب تک قربان کر دے۔
لیکن آج کے دور میں محبت کو صرف وقتی تسکین اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔سچی محبت کرنے والے کم رہ گئے ہیں، اور دھوکہ دینے والے عام ہو چکے ہیں۔
کچھ لوگ کم محبت کرتے ہیں مگر پوری زندگی نبھاتے ہیں۔
ذرا دھیرے بولو
ذرا زور سے بولو
ذرا مستا کے بولو
ذرا کھل کر بولو
نام کے مومن حرکتوں سے کافر
طلب تو آپکو بھی بہت ہے ہماری
وہ الگ بات ہے شرماتی بہت ہیں آپ ہم سے
تفسیر خزائن العرفان:
اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جنہوں نے دینِ اسلام میں تفرقہ پیدا کیا اور مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔
یہاں "شیعاً" کا مطلب ہے گروہ،فرقے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین کے اصل پیغام کو چھوڑ کر اپنے ذاتی نظریات،خواہشات اور قیاسات کی بنیاد پر دین کو تقسیم کر دیا اور مختلف فرقوں،گروہوں یا مسلکوں میں بٹ گئے۔
"لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ" کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تفرقہ کرنے والوں سے کوئی تعلق نہیں۔
یعنی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اس اصل گروہ سے خارج ہو جاتے ہیں جو صراط مستقیم پر قائم ہے۔
اس آیت میں ان لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ ان کا انجام اللہ کے سپرد ہے اور اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن ان کے اعمال کی خبر دے گا اور ان پر جزا یا سزا دے گا۔
آیت قرآنی:
سورۃ الانعام (6:159):
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
ترجمہ:
"بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ (شیعہ شیعہ) ہو گئے آپکا ان سے کوئی تعلق نہیں۔انکا معاملہ تو اللہ ہی کے سپرد ہے،پھر وہی انکو بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔"
3. جنس کی تبدیلی کا حکم:
اگر پیدائشی بیماری یا غیر واضح شناخت ہو تو ڈاکٹرز کی رہنمائی میں تبدیلی جائز ہو سکتی ہے۔
مگر تفریح،فیشن یا فتنہ کےلیےجنس بدلناحرام اورگناہ کبیرہ ہے۔
باب چہارم: معاشرتی پہلو
اکثر خواجہ سرا افراد کو تعلیم،روزگار اور عزت سے محروم رکھا جاتا ہے۔
اُن کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھاکرانہیں ناچ، گانے یا بدکاری پر مجبور کیا جاتا ہے۔
اسلام انہیں رحم،ہمدردی اورعزت کےساتھ جینے کا حق دیتا ہے،بشرطیکہ وہ شریعت کی حدود میں رہیں۔
نتیجہ اور پیغام
خواجہ سرا کوئی مذاق نہیں،یہ ایک حقیقت ہے جسے علم، شعور اور رحم دلی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ہر انسان کا جسم اس کی آزمائش ہے۔ہمیں نہ صرف اپنے نفس کی اصلاح کرنی ہے،بلکہ ایسے افراد کے ساتھ بھی شریعت کے مطابق سلوک کرنا ہے۔
تحریر:
علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
(اسلامی، سائنسی اور سماجی محقق)
2. Transgender Women:
پیدائشی طور پر مرد ہوتے ہیں (یعنی عضوِ تناسل اور خصیے رکھتے ہیں)۔
بعض ہارمون تھراپی یا سرجری سے چھاتی بنوا لیتے ہیں یا جنسی تبدیلی کروا لیتے ہیں۔
3. Transgender Men:
پیدائشی عورت ہوتے ہیں (یعنی بچہ دانی، اندام نہانی اور چھاتی رکھتے ہیں)۔
بعض سرجری سے ظاہری طور پر مرد کی شکل اختیار کرلیتےہیں۔
باب سوم: اسلامی نقطۂ نظر
اسلام نے "مخنث" کا ذکر کیا ہے:
1. حدیث شریف:
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک مخنث شخص عورتوں میں آتا جاتا تھا،جب اس نے عورتوں کے جسمانی اوصاف بیان کیے، تو آپ ﷺ نے اسے عورتوں سے علیحدہ کر دیا۔
(صحیح بخاری)
2. فقہی تقسیم:
مخنثِ خَلقی: جو پیدائشی طور پر غیر واضح صنفی اعضا رکھتا ہے،اس سے ہمدردی،حکمت اور عدل کا برتاؤ کرنے کا حکم ہے۔مخنثِ مُتکلّف:جو جان بوجھ کر دوسری صنف کی نقالی کرے،اس پر سخت ممانعت ہے۔
باب اول: خواجہ سرا کون ہوتے ہیں؟
خواجہ سرا ایک وسیع اصطلاح ہے جو ان افراد کے لیے استعمال ہوتی ہے:
1. جو پیدائشی طور پر مرد یا عورت نہیں ہوتے بلکہ اُن میں دونوں صفات کا امتزاج ہوتا ہے (Intersex)۔
2. جو پیدائش کے لحاظ سے مرد یا عورت ہوتے ہیں مگر اپنی صنفی شناخت مختلف محسوس کرتے ہیں (Transgender)۔
3. جو جنس کی تبدیلی (Gender Reassignment Surgery) سے گزر کر دوسری صنف اختیار کرتے ہیں۔
باب دوم: جسمانی ساخت اور سائنسی وضاحت
1. Intersex افراد (پیدائشی مخنث):
ان کے اندر مرد اور عورت دونوں کے جنسی اعضاء ہو سکتے ہیں۔
بعض میں عضوِ تناسل موجود ہوتا ہے مگر خصیے مکمل نہیں ہوتے۔
بعض میں بیرونی طور پر عورت کے اعضا، لیکن اندرونی طور پر مردانہ خصوصیات ہوتی ہیں۔
خواجہ سرا کے جسمانی حقائق
(سائنسی، اسلامی اور معاشرتی تجزیہ)
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
تمہید
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور مختلف صفات، شناختوں اور فطرتوں سے نوازا۔ مرد و عورت کی تخلیق ایک واضح اور فطری نظام کے تحت ہوتی ہے، مگر کچھ انسانوں کی جسمانی ساخت اور صنفی شناخت دیگر انسانوں سے مختلف ہوتی ہے۔ ایسے افراد کو ہمارے معاشرے میں "خواجہ سرا" یا "مخنث" کہا جاتا ہے۔ اس کتابچے میں خواجہ سرا کے جسمانی حقائق کو سائنس، طب، اسلام اور معاشرت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے تاکہ عام فہم اور باوقار انداز میں ایک حساس موضوع پر شعور بیدار کیا جا سکے۔
جب وہ خود کو سنوارے،نکھارے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کرے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غارِ حرا میں کی گئی عبادت،روحانی تنہائی کی سب سے خوبصورت مثال ہے۔وہ تنہائی انسانیت کے لیے پیغامِ رحمت بن گئی۔
تنہائی کا مثبت علاج
1. نماز و ذکر: دل کو سکون کا راستہ ملتا ہے
2. مطالعہ و سوچ: فکر کی وسعت بڑھتی ہے
3. دوسروں کی خدمت: تنہائی میں برکت آتی ہے
4. اپنے جذبات کو لکھنا: دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے
5. فطرت کے قریب جانا: قدرت کی خاموشی، دل کی چیخ سن لیتی ہے
اختتامیہ:
تنہائی کو صرف بوجھ نہ سمجھو،یہ رب کا دروازہ کھٹکھٹانے کا سنہری موقع بھی ہو سکتا ہے۔اگر تمہاری آنکھوں سے خاموش آنسو بہہ رہے ہیں تو یاد رکھو،اللہ خاموشیوں کو بھی سنتا ہے۔
تنہائی سزا نہیں،اگر تم رب کو پکارنا سیکھ لو،
یہ نعمت ہے،اگر تم خود کو پہچان لو۔
لیکن اگر یہ تنہائی انسان کو خود شناسی، اللہ کی قربت اور روحانی سکون کی طرف لے جائے، تو یہ نعمت بن جاتی ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے:
> "جب دل میں وحشت ہو، تو اُسے اللہ کی یاد سے آباد کرو۔"
تنہائی کب خطرناک بنتی ہے؟
جب دل میں امید کی شمع بجھنے لگے
جب انسان اپنی ذات سے بیزار ہونے لگے
جب زندگی بے معنی محسوس ہونے لگے
جب انسان دعا کرنا چھوڑ دے
جب انسان کو لگے کہ وہ کسی کے لیے اہم نہیں رہا
یہ لمحے خطرناک نہیں، اگر انسان ان سے سبق لے۔ کیونکہ ہر اندھیرے میں روشنی کا ایک سرا ضرور ہوتا ہے، بس اُسے تھامنے کا ہنر چاہیے۔
---
تنہائی کب نعمت بنتی ہے؟
جب انسان تنہائی میں اللہ سے راز و نیاز کرتا ہے
جب دل میں گریہ ہو، مگر زبان پر شکر ہو
جب انسان دنیا سے کٹ کر دل میں رب کو بسا لے
جب تنہائی میں انسان اپنی اصل پہچان تلاش کرے
تنہائی: سزا یا نعمت؟
تحریر: ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
دنیا کی بھیڑ میں رہ کر بھی اگر دل تنہا ہو جائے، تو یہ تنہائی صرف اکیلے ہونے کا نام نہیں، بلکہ ایک خاموش چیخ ہے… ایک بے آواز پکار، جو سننے والے کو ترستی ہے۔ یہ تنہائی انسان کے ظاہر میں نہیں، باطن میں جاگتی ہے۔
تنہائی کیا ہے؟
تنہائی ایک ایسی کیفیت ہے جہاں انسان بظاہر موجود تو ہوتا ہے، مگر اس کا دل، اس کا احساس، اس کی روح کسی خلا میں بھٹک رہی ہوتی ہے۔ یہ کیفیت کبھی زخم دیتی ہے، اور کبھی زخموں کا علاج بھی بن سکتی ہے۔ یہ اُس آئینے کی مانند ہے جو انسان کو خود اُس کا چہرہ دکھاتا ہے—نقابوں سے ہٹا کر، سچائی کے ساتھ۔
تنہائی: ایک راز، ایک راستہ
تنہائی کبھی سزا نہیں ہوتی، مگر انسان جب خود کو بے مقصد، بے سہارا اور غیر اہم سمجھنے لگتا ہے، تب یہی تنہائی بوجھ بن جاتی ہے۔
مصر کے اہرام کے نیچے دریافت ہونے والا زیرِ زمین شہر
ایک تحقیقی جائزہ
تحقیق و تالیف: ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
https://www.facebook.com/share/v/1QAeJfbbou/
.
.
.
مرتب:
ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
https://www.facebook.com/majubroh/videos/1326629351974313/?mibextid=rS40aB7S9Ucbxw6v
.
.
.
Baby Why you made me addicted 🤗
عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو مکمل بدل کر رکھ دیتا ہے۔
یہ کسی منطق،دلیل یا قاعدے کا پابند نہیں ہوتا۔
کبھی سکون دیتا ہے تو کبھی بے قراری
کبھی روح کو بلند کرتا ہے تو کبھی زمین پر گرا دیتا ہے۔
اور یہی اس کی خوبصورتی ہے
عشق جتنا تکلیف دہ ہوتا ہے
اتنا ہی پاک،گہرا اور سچا بھی ہوتا ہے۔
جو رات کی فطری تاریکی کو بدل دے گی۔
اسکے اثرات جانوروں،پرندوں اور انسانوں کے نیند کے نظام (circadian rhythm) پر منفی ہو سکتے ہیں۔
ناقدین کے خدشات:
یہ منصوبہ ماحولیاتی توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔
فطری نظامِ دن و رات میں مداخلت سے جسمانی و ذہنی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔
ماہرین فلکیات (astronomers) کہتے ہیں کہ یہ آسمان کے مشاہدے میں بھی خلل ڈال سکتا ہے۔
کیا یہ کامیاب ہوگا؟
مصنوعی سورج کے میدان میں بڑی پیش رفت ہو چکی ہے،مگر ابھی یہ تجارتی سطح پر نہیں پہنچا۔
مصنوعی چاند فی الحال تجرباتی مرحلے میں ہے اور کئی ماحولیاتی،سائنسی اور اخلاقی سوالات کا سامنا کر رہا ہے۔
توانائی کی پیداوار سے زیادہ توانائی اسے چلانے میں خرچ ہو جاتی ہے فی الحال۔
ٹیکنالوجی اور بجٹ بہت زیادہ درکار ہے۔
منصوبہ: روشنی سے بجلی کی بچت
چینی سائنسدانوں نے یہ منصوبہ پیش کیا کہ وہ ایک مصنوعی چاند خلا میں بھیجیں گے جو سورج کی روشنی کو زمین پر واپس منعکس کرے گا۔اسکی مدد سے خاص طور پر شہری علاقوں میں بجلی کی روشنی پر انحصار کم ہو جائے گا۔
کیسا ہوگا یہ چاند؟
یہ ایک سیٹلائٹ کی شکل میں ہوگا جس کے ساتھ عکاسی کرنے والے بڑے آئینے (reflective panels) ہوں گے۔
یہ مدار (orbit) میں ہوگا اور مخصوص زاویے سے روشنی زمین پر مرکوز کرے گا۔
اسکا دائرہ کار 10 سے 80 کلومیٹر تک ہو سکتا ہے یعنی پورے شہر کو روشن کر سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی اور مشکلات:
روشنی کو مخصوص مقام پر ٹھیک سے فوکس کرنا بہت پیچیدہ ہے۔
اس روشنی کی شدت قدرتی چاند سے 8 گنا زیادہ ہوگی۔
اہم خصوصیات:
درجہ حرارت: 70 ملین °C تک پہنچ چکا ہے، جو قدرتی سورج کے مرکز سے بھی زیادہ گرم ہے (سورج کا مرکز تقریباً 15 ملین °C ہوتا ہے)۔
وقت: 2021 میں 1056 سیکنڈ (تقریباً 17 منٹ) تک یہ درجہ حرارت برقرار رکھا گیا۔
پلازما: گیس کو اتنا گرم کیا جاتا ہے کہ وہ پلازما میں تبدیل ہو جاتی ہے جو چوتھی حالتِ مادہ ہے۔
میگنیٹک فیلڈ: اس شدید گرم پلازما کو کنٹرول کرنے کے لیے مقناطیسی میدان استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ کوئی مادی چیز اتنی گرمی برداشت نہیں کر سکتی۔
فائدے:
صاف توانائی کوئی کاربن اخراج نہیں۔
ایندھن کی ضرورت نہ ہونے کے برابر (ڈیوٹیریم جو سمندری پانی میں موجود ہے)۔
حادثات کا خطرہ بہت کم کیونکہ فیوژن میں فِشن کے برعکس زہریلا ایندھن نہیں ہوتا۔
چیلنجز:
فیوژن کو مسلسل اور مستحکم رکھنا انتہائی مشکل ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain