Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

4. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں پیش گوئی فرمائی تھی
اگرچہ قرآن خاموش ہے، لیکن احادیثِ نبویہ میں:
امام حسینؓ کی شہادت کی خبر،
جنت کے سردار ہونے کا ذکر،
اور ان سے محبت کو ایمان کی علامت قرار دینا
یہ سب واضح الفاظ میں موجود ہے۔ گویا قرآن نے اصول دیے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریح کر دی۔
نتیجہ:
سانحہ کربلا کی اہمیت بہت بڑی ہے، مگر یہ قرآن کے نزول کے بعد پیش آیا۔ اس لیے قرآن میں اس کی صراحت موجود نہیں، مگر قرآنی اصولوں اور نبوی احادیث کے ذریعے اس واقعے کی روح پوری طرح واضح ہے۔

MAKT_PAK
 

2. سانحہ کربلا قرآن کے نزول کے بعد پیش آیا
قرآن 23 سال میں مکمل نازل ہوا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 11 ہجری میں ہوئی،
جبکہ سانحہ کربلا 61 ہجری میں ہوا۔
یعنی یہ واقعہ قرآن کے نزول اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 50 سال بعد پیش آیا۔
تو ظاہر ہے، قرآن میں اس کا تذکرہ موجود نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ واقعہ بعد میں پیش آیا۔
3. اہلِ بیت اور شہداء کی فضیلت کے اصول قرآن میں موجود ہیں
اگرچہ امام حسین کا نام اور سانحہ کربلا براہِ راست قرآن میں نہیں ہے، لیکن:
شہداء کی فضیلت،
اہلِ بیت کی عظمت،
ظلم کے خلاف جہاد،
صبر و استقامت،
اور حق کی خاطر قربانی
یہ سب بنیادی اصول قرآن میں موجود ہیں اور انہی اصولوں پر امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی اور شہادت کی بنیاد رکھی۔

MAKT_PAK
 

سانحہ کربلا کا واقعہ کتنا بڑا ہے مگر قرآن مجید میں اس واقعے کے بارے میں کچھ نہیں لکھا آخر کیوں؟
سانحہ کربلا اسلام کی تاریخ کا ایک عظیم، دل دہلا دینے والا اور درس آموز واقعہ ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے ظلم و باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں قربان کیں، تاکہ دینِ اسلام کی اصل روح باقی رہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ:
> اتنا بڑا واقعہ، پھر بھی قرآن میں کیوں نہیں؟
آئیے اس کی کچھ عقلی اور دینی وجوہات سمجھتے ہیں:
---
1. قرآن کا اصل مقصد "اصولی ہدایت" دینا ہے، نہ کہ مکمل تاریخی کتاب بننا
قرآن مجید کا مقصد "ہر فرد، ہر قوم، ہر دور" کے لیے رہنمائی فراہم کرنا ہے، نہ کہ تاریخ کا مکمل ریکارڈ فراہم کرنا۔ اس لیے قرآن میں صرف وہ تاریخی واقعات شامل کیے گئے جو دینی اصولوں کی وضاحت کرتے ہیں۔

MAKT_PAK
 

https://youtu.be/H59ZXUhv80M?si=lC07H9ngHo3YE7zv
.
.
.
Super Hit Nasheed 2023 | Super Hit Tarana 2023 | Labaik Ya Aqsa | Galba e Islam | Al Jihad | Ya Aqsa

MAKT_PAK
 

3. معاشی بائیکاٹ
اسرائیل کی کئی کمپنیوں اور ان سے منسلک اداروں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ عوامی سطح پر بائیکاٹ ایک طاقتور ہتھیار ہے۔
4. تعلیم اور شعور
مسلمانوں کو تاریخ،سیاست اور دینی شعور دیا جائے تاکہ وہ جذباتی نہیں بلکہ علمی اور دانشمندانہ طریقے سے دشمن کی چالوں کو سمجھ سکیں۔
5. دعا اور روحانی طاقت
مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت اللہ سے تعلق ہے۔اگر ہم سچے دل سے توبہ کریں نماز قائم کریں اور مظلوموں کے لیے دعا کریں تو اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔
6. میڈیا کا مؤثر استعمال
ہمیں سوشل میڈیا،یوٹیوب اور دوسرے پلیٹ فارمز پر حقائق پیش کرنے چاہئیں۔اسرائیل کی مظالم کو عالمی ضمیر تک پہنچانا ضروری ہے۔

MAKT_PAK
 

اسرائیل کو کیسے روکے پھر؟
یہ ایک بہت گہرا اور پیچیدہ سوال ہے، اور اس کا جواب صرف ایک نکتہ پر نہیں دیا جا سکتا۔اسرائیل کو روکنے کے لیے صرف جذباتی نعرے بازی نہیں بلکہ حکمت،اتحاد،شعور، اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔چند اہم نکات ملاحظہ کریں:
1. امت مسلمہ کا اتحاد
اسرائیل کی اصل طاقت صرف اسلحہ نہیں بلکہ مسلمانوں کا انتشار ہے۔اگر مسلم ممالک واقعی متحد ہو جائیں تو اسرائیل کا ظلم زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔
قرآن میں ہے:
> وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
(سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو)
2. سفارتی دباؤ اور عالمی پلیٹ فارمز پر آواز اٹھانا
مسلم ممالک کو اقوام متحدہ،او آئی سی اور دیگر عالمی اداروں میں بھرپور آواز اٹھانی چاہیے اور اسرائیل کے مظالم کو دنیا کے سامنے لانا چاہیے۔

MAKT_PAK
 

4. اسلامی تعلیمات کی روشنی میں:
اسلام میں جنگ کی اجازت صرف دفاعی صورت میں ہے نہ کہ حملہ آور بننے میں۔
اگر کوئی قوم مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی ہو، تب بھی فیصلہ خلافت یا اسلامی قیادت کو کرنا ہوتا ہے، انفرادی یا جذباتی طور پر نہیں۔
عام شہریوں کا قتل،حتیٰ کہ دشمن ملک کے بھی،اسلام میں حرام ہے۔
نتیجہ:
اسرائیل پر حملہ کرنا نہ صرف عسکری لحاظ سے خطرناک بلکہ بین الاقوامی طور پر خودکشی کے مترادف ہوگا۔
اسلامی نقطہ نظر سے بھی یہ درست راستہ نہیں۔ اگر واقعی کسی ظلم یا دشمنی کا سامنا ہو، تو اس کا حل سفارت کاری،اتحاد،مضبوط دفاع، اور اسلامی اخوت ہے نہ کہ فوری جنگ۔

MAKT_PAK
 

2. عملی اور جغرافیائی رکاوٹیں:
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی زمینی سرحد نہیں، درمیان میں کئی ممالک (مثلاً ایران،عراق،سعودی عرب،اردن) آتے ہیں۔انکی فضا سے گزرنے کے بغیر حملہ ممکن نہیں۔
ان ممالک میں سے بیشتر پاکستان کے اتحادی ہیں یا اسرائیل کے مخالف مگر پھر بھی فضائی راہ میں رکاوٹ ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کی انٹیلیجنس (موساد) دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں سے ایک ہے جو ایسے کسی بھی حملے کا پیشگی پتہ لگا سکتی ہے۔
3. بین الاقوامی ردِ عمل:
اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین، روس، چین جیسے ممالک فوری مداخلت کریں گے۔
اسرائیل پر حملہ کرنے سے پاکستان شدید عالمی پابندیوں، تنہائی اور حتیٰ کہ جوابی عالمی حملوں کی زد میں آ سکتا ہے۔
مسلم ممالک کی بڑی اکثریت بھی ایسے حملے کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ وہ جنگ سے بچنے کے حق میں ہیں۔

MAKT_PAK
 

اگر ہم پاکستان سے بیٹھ کر اسرائیل پہ حملہ کرتے ہیں تو کیا اس میں کامیابی ہو سکتی ہے؟
یہ ایک نہایت حساس اور پیچیدہ سوال ہے اور اس کا جواب صرف عسکری طاقت کی بنیاد پر دینا درست نہیں ہوگا کیونکہ اس میں کئی جغرافیائی،سیاسی،سفارتی،اخلاقی اور مذہبی پہلو شامل ہیں۔لیکن اگر ہم صرف عسکری اور تکنیکی لحاظ سے تجزیہ کریں تو اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
1. تکنیکی لحاظ سے:
پاکستان کے پاس جوہری اور بیلسٹک میزائل صلاحیت موجود ہے (مثلاً شاہین-3) جو اسرائیل تک پہنچ سکتی ہے۔
اسرائیل کے پاس بھی جدید ترین دفاعی نظام ہیں، جیسے:
Iron Dome (چھوٹے میزائلوں کو روکنے کے لیے)
David's Sling اور Arrow Missile Defense Systems (بیلسٹک میزائلوں کے لیے)
دونوں ممالک جوہری طاقتیں ہیں اسلیے جوہری حملہ ایک خودکشی کے مترادف ہوگا کیونکہ اسرائیل بھی شدید جوابی حملہ کر سکتا ہے۔

MAKT_PAK
 

خلاصہ:
اصل مالک فلسطین کے وہ لوگ ہیں جو صدیوں سے وہاں آباد ہیں یعنی فلسطینی مسلمان،عیسائی اور دیگر مقامی اقوام۔
اسلامی لحاظ سے یہ زمین مسلمانوں کے قبضے میں خلافتِ راشدہ کے دور سے ہے اور موجودہ دور میں اسرائیلی قبضہ ناجائز اور ظلم پر مبنی ہے۔

MAKT_PAK
 

2. مذہبی نقطۂ نظر سے (اسلامی تعلیمات):
قرآن کے مطابق: اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو "مبارک" کہا ہے (سورۃ الإسراء: 1) اور یہ بنی اسرائیل کو ان کی اطاعت کے وقت دی گئی تھی۔ لیکن جب انہوں نے سرکشی کی، تو اللہ نے ان سے یہ زمین واپس لے لی۔
اسلامی حکومت: حضرت عمرؓ کے بعد یہ زمین اسلامی حکومت کے زیر انتظام آئی اور مسلمان اس کے محافظ بنے۔
3. جدید سیاسی اور قانونی پہلو:
برطانوی دور کے بعد: پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا اور پھر 1948 میں اسرائیل کا قیام ہوا جس سے فلسطینیوں کی زمین چھینی گئی۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق: غزہ اور مغربی کنارے کو فلسطینیوں کا حق تسلیم کیا گیا ہے،مگر اسرائیل مسلسل قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔

MAKT_PAK
 

فلسطین اور خاص طور پر غزہ کی سرزمین کا اصل مالک کون تھا یہ سوال تاریخی،مذہبی اور سیاسی زاویوں سے مختلف جوابات رکھتا ہے۔ ذیل میں تینوں پہلوؤں سے مختصر وضاحت دی گئی ہے:
1. تاریخی نقطۂ نظر سے:
قدیم اقوام: غزہ کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔سب سے پہلے یہاں کنعانی (Canaanites) اور فلسطینی (Philistines) آباد ہوئے،جو حضرت نوحؑ کے بیٹے حام کی نسل سے تھے۔
یعقوبؑ اور بنی اسرائیل: بعد میں حضرت ابراہیمؑ اور ان کی اولاد،خاص طور پر حضرت یعقوبؑ (اسرائیل) اور ان کے بیٹے،فلسطین میں آباد ہوئے۔حضرت موسیٰؑ کے بعد بنی اسرائیل کو یہ سرزمین دی گئی تھی لیکن اس وقت بھی یہاں دوسری اقوام بھی آباد تھیں۔
فتح اسلام: 7ویں صدی میں حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں اسلامی لشکر نے فلسطین کو فتح کیا، اور پھر یہ زمین اسلامی ریاست کا حصہ بن گئی۔

MAKT_PAK
 

"دعا مومن کا ہتھیار ہے" درحقیقت ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے۔
اصل حدیث یوں ہے:
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الدُّعَاءُ سِلَاحُ الْمُؤْمِنِ،وَعِمَادُ الدِّينِ،وَنُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ"
(رواہ الحاکم،صحیح الجامع: 3409)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا مومن کا ہتھیار ہے،دین کا ستون ہے، اور آسمانوں و زمین کا نور ہے۔
یہ حدیث مومن کے لیے دعا کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔دعا صرف حاجت کے وقت مانگنے کا نام نہیں بلکہ یہ اللہ سے تعلق قائم کرنے، اس پر توکل کرنے اور بندگی کا اظہار کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔

MAKT_PAK
 

خلاصہ:
ہر یہودی کا ٹارگٹ ایک جیسا نہیں ہوتا۔لیکن اگر بات "صیہونی ایجنڈے" کی ہو تو اس کا اصل ہدف:
اسلام اور اسلامی اقدار
فلسطین اور مسجد اقصیٰ
مسلمان اقوام کی وحدت اور طاقت
اور بعض اوقات عیسائی دنیا بھی (خاص طور پر یورپ میں) ہو سکتا ہے۔

MAKT_PAK
 

3. اسلامی نکتۂ نظر سے:
قرآن و حدیث میں بنی اسرائیل (یعنی یہودیوں) کی تاریخ،رویے اور انکے انبیاء کے ساتھ سلوک کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا:
> "أَشَدُّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا"
(سورۃ المائدہ، آیت 82)
ترجمہ: "اہل ایمان کے سب سے بڑے دشمن تم یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے۔"
یہ آیت عمومی رویے کی نشاندہی کرتی ہے، مگر ہر فرد یا گروہ پر نہیں چسپاں کی جا سکتی۔
4. عالمی طاقتوں اور معیشت پر اثر:
بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ کچھ یہودی خاندان جیسے "روتھ چائلڈ" وغیرہ عالمی مالیاتی نظام پر اثر انداز ہیں، اور ان کا مقصد دنیا پر بالادستی قائم کرنا ہے۔اس نظریہ کو "نیو ورلڈ آرڈر" سے بھی جوڑا جاتا ہے مگر اس میں سازشی نظریات کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔

MAKT_PAK
 

اگر ہم "یہودیوں کا اصل ٹارگٹ" کے سوال کو ایک عمومی نظریہ کے طور پر لیں تو مختلف زاویے سامنے آتے ہیں:
1. مذہبی پہلو سے:
یہودی مذہب میں بعض روایات اور تحریریں (جیسے تلمود) ایسی ہیں جنہیں بعض لوگ مسلمانوں یا غیر یہودی اقوام کے خلاف سمجھتے ہیں، مگر یہ تمام یہودیوں کا عمومی مؤقف نہیں۔ اکثر یہودی خود بھی اپنے مذہبی نظریات میں اختلاف رکھتے ہیں۔
2. سیاسی پہلو سے:
صیہونیت (Zionism) ایک سیاسی تحریک ہے جو ایک علیحدہ "یہودی ریاست" کے قیام اور تحفظ کے لیے کوشاں رہی ہے۔اس تحریک نے فلسطین میں ریاستِ اسرائیل کے قیام کو ممکن بنایا، اور فلسطینی مسلمانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ:
صیہونی تحریک کا اصل ٹارگٹ: فلسطینی مسلمان اور اسلام کے مرکزاتی تصورات (مثلاً مسجد اقصیٰ)۔

Dusri photo dekhy Palestine Gaza ka manzr
M  : Dusri photo dekhy Palestine Gaza ka manzr - 
Dekhy aik nzr Gaza Palestine ka manzr
M  : Dekhy aik nzr Gaza Palestine ka manzr - 
MAKT_PAK
 

خلاصہ:
خانہ کعبہ کی اصل اور ابتدائی تعمیر کے حوالے سے اختلاف موجود ہے:
بعض روایات فرشتوں بعض حضرت آدمؑ اور بعض حضرت ابراہیمؑ کی طرف نسبت کرتی ہیں۔
لیکن قرآن نے حضرت ابراہیم و اسماعیلؑ کی تعمیر کا ذکر واضح کیا ہے اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ تاریخی طور پر معروف اور محفوظ ترین تعمیر حضرت ابراہیمؑ کی ہے۔

MAKT_PAK
 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی بنیادوں کو بلند کیا، یعنی ممکن ہے پہلے سے بنیادیں موجود ہوں۔
3. دورِ قریش کی تعمیر (نبی اکرم ﷺ کی جوانی میں)
جب رسول اللہ ﷺ کی عمر تقریباً 35 سال تھی، تو قریش نے کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا کیونکہ سیلاب اور وقت کی وجہ سے اس کی دیواریں کمزور ہو چکی تھیں۔
اسی وقت حجر اسود کی تنصیب پر قبائل میں جھگڑا ہوا، جسے آپ ﷺ نے بڑی حکمت سے حل کیا۔
4. عبداللہ بن زبیر، حجاج بن یوسف اور دیگر حکمرانوں کی تعمیرات
عبداللہ بن زبیر نے کعبہ کو نبی کریم ﷺ کی خواہش کے مطابق دوبارہ بنایا۔
بعد میں حجاج بن یوسف نے عبدالملک بن مروان کے حکم سے اس کی دوبارہ تعمیر کی اور پچھلی شکل بحال کی۔