کم نسلوں سے وفا کی امید کیسی
جولوگ اپنےنہیں ہوتےوہ کسی کےکیاہونگے؟
🙂
اصل والوں کی پہچان وفا سے ہوتی ہے
کم ظرف تو ہر بات کا مطلب نکال لیتے ہیں
"ہم نے بھی وفا کی،مگر وہ کم ظرف تھا،
جسکی فطرت ہی خراب ہو،اسے الزام نہیں دیا کرتے!"
یہ شرابی،زانی وغیرہ لوگوں کا کام ہے فیک اکاؤنٹ سے آکر اپنے اپنے دین کی بات کرنا،اگر یہ اتنے شریف ہو تو اصل اکاؤنٹ سے بات کریں دمادم پہ،کیوں فیک اکاؤنٹ بنائے؟
سب کو بےوقوف بنا کر پیسے یا چندہ اکٹھے کرتے ہیں پھر ان پیسوں سے لڑکیاں اور شرابیں پیتے ہیں اور جو اصل علم والے انکی باتوں کی نقل کر کے سب کو الجھن میں ڈال دیتے ہیں۔اگر یہ اتنے ہی شریف ہیں تو انکو بولو اصل نمبر لگا کر اصل نام سے دمادم استعمال کریں،سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائےگا۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اللّٰہ کے نام پہ فیک اکاؤنٹ یا اصلی اکاؤنٹ سے کبھی ٹک ٹاک پہ بھیک مانگتے ہیں کبھی کس ایپ پہ،کبھی سڑکوں پہ کبھی دوسرے ملک جاکر،تو اب جب انکو بھیک نہیں مل رہی اللّٰہ کے نام پہ اور رسول کے نام پہ تو ادھر مجھ پہ اپنے بنائے ہوئے اسلام کے فتویٰ لگانے جاہل اکھٹے ہوگئے۔کتنے تو ٹی وی چینل پہ بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں،یہ اصل اوقات ہے ان فیک اکاؤنٹ چلانے والوں کی۔تبھی تو انکو مرچیں لگتی ہیں جب جب میں سچی بات لکھتا ہوں۔انکو معلوم ہی نہیں اللّٰہ کون ہے؟اسلام مذہب کیا کہتا ہے؟رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے کیا احکامات ہیں۔
نتیجہ:
زندگی ہم سے چاہتی ہے کہ ہم:
اللہ کو پہچانیں اور اس کی بندگی کریں
اپنے اندر علم، حلم، صبر، اور شکر پیدا کریں
محبت اور خدمتِ خلق کو اپنائیں
دکھوں سے نہ گھبرائیں، بلکہ انہیں نکھار کا ذریعہ سمجھیں
آخرت کی تیاری کریں
جو انسان یہ باتیں سمجھ کر جیتا ہے، وہی دراصل کامیاب زندگی گزارنے والا ہے۔ زندگی ایک نعمت ہے آئیں اسے اللہ کی رضا کے لیے استعمال کریں۔
5. زندگی چاہتی ہے کہ ہم آزمائشوں سے نہ گھبرائیں
دکھ، درد، ناکامی، تنہائی یہ سب زندگی کا حصہ ہیں۔لیکن یہ ہمیں توڑنے نہیں بلکہ سنوارنے آتے ہیں۔قرآن ہمیں بتاتا ہے:
> "الذی خلق الموت والحیاة لیبلوکم أیکم أحسن عملا"
(سورۃ الملک: 2)
ترجمہ: وہی (اللہ) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔
6. زندگی چاہتی ہے کہ ہم آخرت کو یاد رکھیں
یہ دنیا ایک وقتی قیام گاہ ہے۔ اصل زندگی، ابدی زندگی ہے یعنی آخرت۔اگر ہم دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیں تو ہم زندگی کی اصل حقیقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
> "وإن الدار الآخرۃ لهی الحیوان لو كانوا يعلمون"
(سورۃ العنکبوت: 64)
ترجمہ: اور آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے، کاش وہ جانتے۔
ترجمہ: صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔
3. زندگی چاہتی ہے کہ ہم محبت، اخلاص اور خدمت بانٹیں
زندگی خودغرضی سے نہیں، ایثار سے خوبصورت بنتی ہے۔دوسروں کی مدد،محبت کا اظہار، چھوٹے چھوٹے عملِ خیر یہی وہ روشنی ہے جو ہماری زندگی کو بامقصد بناتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے:
> "الخلق عیال اللہ،فأحب الخلق إلى اللہ من أحسن إلى عیالہ"
(مشکوٰۃ)
ترجمہ: تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اُس کے کنبے سے حسن سلوک کرے۔
4. زندگی چاہتی ہے کہ ہم شکر گزار ہوں
ہر سانس، ہر لمحہ ہر نعمت ایک تحفہ ہے۔ ناشکری انسان کو بے سکون کر دیتی ہے جبکہ شکر انسان کے دل میں سکون اور اللہ کے قرب کا ذریعہ بنتی ہے۔
> "لئن شکرتم لأزیدنکم"
(سورۃ ابراہیم: 7)
ترجمہ: اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔
آئیے اس پر تفصیل سے غور کریں:
1. زندگی چاہتی ہے کہ ہم مقصد کو پہچانیں
انسان اس دنیا میں یوں ہی نہیں بھیجا گیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا:
> "وما خلقت الجن والانس إلا لیعبدون"
(سورۃ الذاریات: 56)
ترجمہ: اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
زندگی چاہتی ہے کہ ہم اپنی اصل پہچان کو سمجھیں کہ ہم صرف مٹی کے پتلے نہیں بلکہ روحانی مخلوق ہیں جن کا مقصد دنیا کے مادی فریب میں کھو جانا نہیں،بلکہ رب کی رضا حاصل کرنا ہے۔
2. زندگی چاہتی ہے کہ ہم سیکھتے رہیں
زندگی ایک مسلسل سیکھنے کا عمل ہے۔ہر لمحہ ہر واقعہ ہر شخص ہمارے لیے ایک استاد بن سکتا ہے۔مشکلات آئیں تو صبر سیکھیں،کامیابی ملے تو شکر سیکھیں،نقصان ہو تو سبق حاصل کریں۔
> "انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب"
(سورۃ الزمر: 10)
زندگی ہم سے کیا چاہتی ہے؟
مصنف: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
زبان: اردو
طبع: اسلامی،سماجی و فکری انداز میں مکمل تفصیل کے ساتھ
زندگی ہم سے کیا چاہتی ہے؟
زندگی ایک عظیم نعمت ہے ایک موقع ہے ایک راستہ ہے اور ایک امتحان ہے۔یہ نہ صرف ہمارے وجود کی علامت ہے بلکہ ہمارے رب کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم امانت بھی ہے۔ انسان جب آنکھ کھولتا ہے تو وہ ایک مکمل نظامِ حیات کا حصہ ہوتا ہے جس میں ہر شے بامقصد، بامعنی اور باقاعدہ ترتیب کے ساتھ رواں دواں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ زندگی ہم سے چاہتی کیا ہے؟کیا صرف سانس لیتے رہنا ہی زندگی ہے؟ کیا صرف روٹی،کپڑا،مکان یا دنیا کی بھاگ دوڑ ہی سب کچھ ہے؟نہیں!زندگی ہم سے کہیں زیادہ گہری،بامقصد اور روحانی بات چاہتی ہے۔
اسلام میں عقیدۂ توحید، رسالت، آخرت اور وحی کی بنیاد پر فلاح کی ضمانت ہے۔
اختتامیہ:
بھگوت گیتا کا مطالعہ بین المذاہب مکالمے، دعوت و حکمت، اور علمی ترقی کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔مسلمان محققین کو چاہیے کہ وہ اس جیسی کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ غیر مسلموں کے عقائد کو بہتر سمجھ سکیں اور حکمت و بصیرت کے ساتھ اسلام کی دعوت دے سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے،اپنانے اور باطل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔
مرتب و مصنف: ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
باب ہشتم: موکش اور اسلامی نجات
گیتا میں نجات (موکش) کا مطلب ہے: دوبارہ جنم سے نجات پا کر الوہی وحدت میں ضم ہو جانا۔
اسلام میں نجات کا مطلب ہے اللہ کی رضا حاصل کر کے جنت میں جانا۔یہاں اللہ اور بندے کے درمیان ہمیشہ کا رشتہ باقی رہتا ہے، نہ کہ بندہ خدا میں ضم ہو جائے۔
باب نہم: فلسفیانہ اثرات اور اسلام
گیتا کا فلسفہ انسان کو خود شناسی، قربانی، اور ذہنی سکون کی طرف لے جاتا ہے۔اسلام میں بھی تزکیہ نفس،تقویٰ اور ذکر الٰہی کے ذریعے انسان کی اصلاح کی جاتی ہے۔
باب دہم: تجزیہ اور خلاصہ
بھگوت گیتا ایک عظیم فلسفیانہ اور فکری کتاب ہے،جو انسان کو باطنی طور پر جگانے کی کوشش کرتی ہے۔اس میں کئی مقامات پر وہ تعلیمات ملتی ہیں جو اسلام سے قریب ہیں، مثلاً:
نیک نیتی سے عمل
نفس کی درجہ بندی
روحانیت کی اہمیت
لیکن گیتامیں توحیدکاوہ تصورنہیں جو اسلام میں ہے۔
جذبہ
3. تمسگن: جہالت، سستی، ظلمت
اسلام میں بھی نفس کی تین اقسام بیان کی گئی ہیں:
نفسِ مطمئنہ
نفسِ لوّامہ
نفسِ امّارہ
یہ ایک فکری مماثلت ہے جس پر علمی تحقیق کی جا سکتی ہے۔
باب ششم: کرما اور اسلام میں عمل کا تصور
گیتا میں کرما یعنی عمل پر زور دیا گیا ہے: "عمل کرو، نتیجہ کی پروا مت کرو"۔
اسلام بھی اسی طرح کہتا ہے:
> "وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ" (النجم: 39)
یعنی انسان کو وہی ملے گا جو اُس نے کوشش کی۔ مگر اسلام میں نیت (اخلاص) اور ثواب آخرت پر یقین بھی شرط ہے۔
باب ہفتم: روح اور حیات بعد الموت
گیتا میں روح کو ابدی اور غیر فانی مانا گیا ہے، جو بار بار جنم لیتی ہے۔ اسلام میں روح بھی ابدی ہے، لیکن جنم کا تصور نہیں بلکہ حیات بعد الموت اور قیامت پر یقین ہے:
> "كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ" (آل عمران: 185)
یہی درس بعد میں بھگوت گیتا کے طور پر مشہور ہوا۔
باب سوم: بھگوت گیتا کےبنیادی عقائد
1. دھرم: ہر انسان کاایک فطری اور معاشرتی فرض ہے اسے بغیر لالچ کے نبھانا چاہیے۔
2. کرما: انسان کو عمل کرتے رہنا چاہیے، نتیجہ خدا کے حوالے کرنا چاہیے۔
3. آتمن: روح ابدی،غیر فانی اور ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
4. موکش: جنم و مرگ کے چکر سے نجات حاصل کرنا اعلیٰ مقصد ہے۔
5. مایا: دنیا ایک فریب ہے،حقیقت صرف روحانی ہے۔
باب چہارم: شری کرشن کی حیثیت
گیتا میں شری کرشن کو بعض مقامات پر ایک دوست،رہبر اور استاد دکھایا گیا ہے،مگر کئی مقامات پر انہیں الوہیت کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ شرک کے زمرے میں آتا ہے اور اسلامی عقائد کے خلاف ہے۔
باب پنجم: تین گُنا اور اسلامی نفس
گیتا کے مطابق ہر انسان میں تین طبعی صفات (گُنا) ہوتی ہیں:
1. ستوگن: علم،سکون،پاکیزگی
2. رجسگن: خواہش،سرگرمی
عنوان: بھگوت گیتا - ایک تقابلی و فلسفیانہ مطالعہ (اسلامی نقطہ نظر سے)
مصنف: ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
باب اول: تعارف
بھگوت گیتا ہندو مذہب کی نہایت اہم اور مقدس کتاب ہے جو "مہابھارت" کے ایک حصے میں شامل ہے۔اس کا مطلب ہے: "اللہ کی گیت"۔یہ شری کرشن اور ارجن کے درمیان میدانِ جنگ میں ہونے والے مکالمے پر مشتمل ہے۔ گیتا صرف ایک مذہبی کتاب ہی نہیں بلکہ روحانیت،عمل،فلسفہ اور قیادت کا ایک اہم خزانہ سمجھی جاتی ہے۔
باب دوم: پس منظر اور تاریخی حیثیت
مہابھارت کے مطابق،پانڈو اور کورو خاندان کے درمیان جنگ چھڑنے کو ہے۔ارجن،پانڈو خاندان کا عظیم جنگجو میدان میں آ کر اپنے رشتہ داروں کو مخالفین میں دیکھ کر جنگ سے رکنے لگتا ہے۔اس پر شری کرشن جو اس کا رتھ بان ہے اسے فرض،روحانیت اور فلسفے کا درس دیتے ہیں۔
5. بھگتی یوگ (عبادت اور عقیدت کا راستہ)
کرشن کہتے ہیں:
> "اگر کوئی شخص مجھے سچے دل سے یاد کرے،میرا بھکت (محب) بنے،تو میں اس کو قبول کرتا ہوں۔"
6. موکش (نجات)
گیتا کا مقصد انسان کو جنم اور مرنے کے چکر (punarjanm) سے نجات دینا ہے۔
اسلامی نکتہ نظر:
توکل علی اللہ: اسلام میں بھی عمل کی تلقین ہے اور نتیجہ اللہ کے سپرد کرنے کا حکم ہے۔
فرائض کی ادائیگی: نماز،روزہ،زکٰوۃ وغیرہ جیسے فرائض پر استقامت کا حکم۔
روح کا عقیدہ: قرآن میں بھی روح کو امر ربی (اللہ کا حکم) قرار دیا گیا ہے۔
شرک کا انکار: اسلام میں اللہ کے سوا کسی کو معبود ماننا جائز نہیں،جبکہ گیتا میں کرشن کو "بھگوان" مانا جاتا ہے،جو شرعی اعتبار سے شرک ہے۔
بھگوت گیتا کا مرکزی پیغام:
1. فرائض کی ادائیگی (دھرم)
شری کرشن کہتے ہیں:
> "ارجن! تمہارا فرض (دھرم) ہے کہ تم نیکی کی خاطر جنگ کرو،چاہے سامنے کوئی بھی ہو۔فرض کی ادائیگی میں رکاوٹ مت ڈالو۔"
یہ فلسفہ ہندو "کرما یوگ" کہلاتا ہے۔
2. کرما (عمل)
کرشن کہتے ہیں:
> "کرما کرو، نتیجے کی فکر مت کرو۔تم صرف عمل کے ذمہ دار ہو،پھل دینے والا میں ہوں۔"
یہ تعلیم انسان کو دنیا میں نیک عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
3. روح (آتمن) کا فلسفہ
گیتا میں روح کو:
ابدی (نہ فنا ہونے والی)
غیر مادی
لا محدود کہا گیا ہے۔
کرشن کہتے ہیں:
> "جسکو تم مارنے جا رہے ہو،وہ جسم ہے،روح نہیں۔روح نہ جلتی ہے،نہ کٹتی ہے،نہ مرتی ہے۔"
4. گیان یوگ (علم کا راستہ)
علم حاصل کر کے انسان اپنے آپ کو پہچان سکتا ہے اور "موکش" (نجات) پا سکتا ہے۔
بھگوت گیتا کیا ہے؟
بھگوت گیتا ہندو مذہب کی ایک مرکزی مقدس کتاب ہے جو مہابھارت کے "بھسم پرَو" نامی حصے میں شامل ہے۔یہ کتاب ارجن اور بھگوان شری کرشن کے درمیان مکالمہ پر مشتمل ہے، جو میدانِ جنگ کُرُکشیتر میں ہوتا ہے۔
پس منظر:
مہابھارت میں دو خاندان ہیں:
پانڈو (نیک لوگ)
کورو (ظالم لوگ)
دونوں کے درمیان سلطنت کے جھگڑے پر جنگ چھڑنے والی ہے۔ارجن (پانڈو کا بہادر جنگجو) میدانِ جنگ میں آ کر اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور اساتذہ کو دشمنوں میں دیکھ کر دل شکستہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے:
> "میں ان کو کیسے ماروں؟
یہ تو میرے اپنے ہیں!"
اسی وقت شری کرشن (جو اس کا رتھ بان ہے اور ہندوؤں کے مطابق بھگوان ہے) اسے فلسفیانہ اور روحانی باتیں سمجھانا شروع کرتا ہے،جو بھگوت گیتا کہلاتی ہیں۔
کل میرا ایک دوست کسی گلی سے گزرا تو وہاں ایک گھر کے دروازے پہ ایک عورت کھڑی تھی،جو بولی چکنے ادھر آ ایک چما دے جا دوست بولا چڑھو میرے اس پہ
آگے سے عورت بولی،اس پہ بھی چڑھ جاؤنگی مگر اس سے پہلے جو مانگا وہ تو دے اور ادھر آ میرے پاس گھر پہ،تو پیسے بھی مت دینا۔
😂
محبت کا سفر باہمی احترام،قربانی اور خیال رکھنے پر مبنی ہوتا ہے۔اگر محبوبہ تھک جائے تو اُسے سہارا دینا، اس کے لیے وقت نکالنا اور اس کی تھکن بانٹنا یقیناً محبت کی خوبصورت علامت ہے اور اگر خود تھک جائیں تو محبوبہ کی موجودگی،اُس کی باتیں اور اُس کا ساتھ تھکن کو مٹانے کا سبب ہونا چاہیے نہ کہ اُس کے وقار کو مجروح کیا جائے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain