مساجد، مدارس اور منبروں کو نفرت کی بجائے علم و اخلاق کا مرکز بنائیں۔
اختلاف کو برکت سمجھیں،فساد نہیں۔
مشترکہ مقاصد (اسلامی اخلاق،دین کی خدمت،فلاحی کام) پر مل کر کام کریں۔
5. امام علیؓ کا فرمان:
> "لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں یا تمہارے دینی بھائی یا انسانیت میں برابر"
یہی وہ وسیع ظرفی ہے جو ہمیں صحابہ اور اہل بیت سے سیکھنی ہے۔
اختتامی پیغام:
یہ کتابچہ اس لیے تیار کیا گیا ہے تاکہ ہم صرف اختلافات کو نہ دیکھیں بلکہ اُن قدروں کو سمجھیں جو ہمیں جوڑتی ہیں۔اگر ہم واقعی اسلام سے محبت رکھتے ہیں تو ہمیں اتحادِ امت کو اپنا مشن بنانا ہوگا۔
"اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو، اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔"
(سورہ آل عمران: 103)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہم قرآن اور سنت کو مضبوطی سے پکڑ لیں تو ہم ایک ہو سکتے ہیں۔
2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشن
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوث اور خزرج جیسے خونخوار قبیلوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔
اگر عرب کے مشرک،دشمن قبیلے ایک امت بن سکتے تھے تو آج کے سنی اور شیعہ کیوں نہیں؟
3. فرقہ واریت: دشمنانِ اسلام کا ہتھیار
دشمن قوتیں مسلمانوں کو شیعہ سنی،دیوبندی بریلوی،عربی عجمی کے نام پر لڑا کر کمزور کرنا چاہتی ہیں۔
ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں: ہم سب کلمہ گو قرآن و سنت کے پیروکار اور نبی کے اُمتی ہیں۔
4. عملی قدم: اتحاد کیسے ممکن؟
ایک دوسرے کے عقائد کو سمجھیں، گالی نہ دیں۔
4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان
> المسلم أخو المسلم، لا يَظلِمُهُ ولا يُسلِمُهُ
"مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے۔نہ اُس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اُس کو تنہا چھوڑتا ہے۔"
(صحیح بخاری)
نتیجہ:
شیعہ اور سنی دو الگ دین نہیں،بلکہ ایک دین (اسلام) کے دو فکری مکتب ہیں۔ہمیں ایک دوسرے کے عقائد کو سمجھنا ادب سے اختلاف کرنا اور مل کر دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کرنا چاہیے نہ کہ آپس میں دست و گریباں ہونا۔
باب ہشتم (آخری باب): اتحاد اُمت وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کا مسلمان انتشار،فرقہ بندی اور فتنوں کا شکار ہے۔ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور دوسرے کو باطل کہنے میں جلدی کرتا ہے حالانکہ اسلام ہمیں اتحاد،اخوت اور باہمی برداشت کا درس دیتا ہے۔
1. قرآن کا پیغام: اتحاد
> وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
اختلاف رائے صحابہ کرام کے درمیان بھی ہوتا تھا مگر وہ کبھی نفرت اور فتنہ کا ذریعہ نہیں بنتے تھے۔
شیعہ اور سنی دونوں قرآن،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوراہل بیت سےمحبت رکھتے ہیں اگرچہ اندازمختلف ہے۔
2. تاریخ کےزخم مگرحال کاعلاج
تاریخی واقعات جیسےکربلاجنگ جمل صفین نے مسلم اُمت کوصدمے دیے مگر ہمیں ان واقعات کو تعلیم،صبر اور اتفاق کا ذریعہ بنانا چاہیے نہ کہ نفرت کا۔
دشمنانِ اسلام ہمیشہ مسلمانوں کے اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ ہم آپس میں لڑیں۔
3. شیعہ اور سنی کا بنیادی اتحاد
دونوں اللہ کو واحد، قرآن کو آخری کتاب، اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔
دونوں نماز،روزہ،حج،زکٰوۃ کو اسلام کے ارکان مانتے ہیں۔
دونوں قیامت،جنت و دوزخ اور حساب و کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔
یہ سب بنیادی عقائدہمیں متحدکرتےہیں۔
یہ تمام اختلافات علمی ہیں اور اگر ادب و رواداری کے ساتھ گفتگو ہو تو دونوں مکاتب کے افراد ایک دوسرےکوسمجھ سکتے ہیں۔ اسلام میں اختلاف کے باوجود اتحاد کا دامن تھامنا زیادہ اہم ہے۔
باب ہفتم: شیعہ اور سنی اختلاف یا دشمنی؟
اسلام ایک ایسا دین ہے جو وحدت،اخوت اور رواداری کی تعلیم دیتاہے۔قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہمیں باربار اس بات کی دعوت دیتی ہیں کہ ہم اختلافات کےباوجود ایک امت بن کررہیں۔ شیعہ اور سنی کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اجتہادی،تاریخی اور فکری ہیں لیکن ان اختلافات کو دشمنی میں بدل دینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
1. اختلاف فطری ہے،دشمنی نہیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
> وَلا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ
"اور آپس میں جھگڑا نہ کرو،ورنہ کمزور ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔"



اور خاص طور پر یمن میں پایا جاتا ہے۔
خصوصیات:
یہ صرف انہی اماموں کو مانتے ہیں جو علم و تقویٰ کے ساتھ خروج (بغاوت) کے ذریعے قیادت کا دعویٰ کریں۔
انکا نظریہ اہل سنت کے بہت قریب ہے۔
وہ بارہ آئمہ کی معصومیت یا منصوص ہونے کو نہیں مانتے۔
3. اسماعیلیہ
اس فرقے کی نسبت حضرت اسماعیل بن جعفر صادق کی طرف ہے،جنہیں یہ ساتواں امام مانتے ہیں۔
خصوصیات:
یہ لوگ سات اماموں پر ایمان رکھتے ہیں (اسی لیے بعض اوقات انہیں "سبعیہ" بھی کہا جاتا ہے)۔
اسماعیلیہ میں بھی مختلف ذیلی شاخیں ہیں جیسے:
آغا خانی
بوہری
یہ امام کو روحانی پیشوا اور بعض اوقات روحانی نجات دہندہ بھی مانتے ہیں۔
باب پنجم: شیعہ فرقے کون سے ہیں؟
اہل تشیع (شیعہ) کے اندر وقت کے ساتھ مختلف فکری اور اعتقادی گروہ وجود میں آئے، جن میں سے تین بڑے اور معروف فرقے درج ذیل ہیں:
1. اثنا عشریہ (بارہ امامی شیعہ)
یہ شیعہ کا سب سے بڑا فرقہ ہے اور اکثریتی شیعہ اسی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، خاص طور پر ایران،عراق،آذربائیجان،لبنان، بحرین اور پاکستان کے بعض علاقوں میں۔
عقائد:
یہ بارہ آئمہ کو امام مانتے ہیں جوحضرت علیؓ سے شروع ہو کر حضرت امام مہدی (علیہ السلام) پر ختم ہوتے ہیں۔
انکے نزدیک یہ بارہ امام معصوم،منصوص من اللہ اور امت کےروحانی ودینی رہنما ہیں۔
بارہویں امام،حضرت امام محمد بن حسن عسکری علیہ السلام غائب ہیں اور "مہدی موعود" کےطور پر دوبارہ ظہور کریں گے۔
2. زیدیہ (زیدی شیعہ)
یہ فرقہ حضرت زیدبن علی رحمہ اللہ (حضرت امام حسینؓ کےپوتے) کی نسبت سے مشہور ہے،

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نامزد نہیں فرمایا بلکہ صحابہ نے باہمی مشورے سے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ چُنا۔
اس نظریے کے مطابق خلافت کا مقصد نظامِ عدل اقامتِ دین اور امت کی وحدت ہے۔
2. اہل تشیع کا نظریہ: امامت
اہل تشیع کے نزدیک:
قیادت صرف خلافت نہیں بلکہ امامت ہے جو محض دینی و سیاسی نہیں بلکہ روحانی اور معصوم قیادت ہے۔
وہ مانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت علیؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا (خاص طور پر واقعۂ غدیر خم کی بنیاد پر)۔
شیعہ اثنا عشری عقیدے کے مطابق بارہ امام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر شدہ ہوتے ہیں، جو معصوم ہوتے ہیں اور ان کی اطاعت واجب ہے۔
ان کے نزدیک امامت ایمان کا حصہ ہے۔
رفتہ رفتہ ان کے خیالات میں اضافہ ہوا یہاں تک کہ بعض افراد نے خلافت کے بجائے "امامت" کا عقیدہ اختیار کر لیا کہ خلافت صرف حضرت علیؓ اور ان کی اولاد کا حق ہے، اور یہی امامت کا تصور آگے چل کر "اثنا عشری" شیعوں کی بنیاد بنا۔
باب چہارم: شیعہ اور خلافت و امامت کا نظریہ
اسلام میں قیادت کا مسئلہ یعنی امت کی رہنمائی، خلافت یا امامت کے نظام سے جُڑا ہوا ہے۔اہل سنت اور اہل تشیع دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کو کسی رہنما کی ضرورت ہے مگر اس کی نوعیت تقرری کا طریقہ اور حیثیت کے بارے میں دونوں مکاتبِ فکر کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔
1. اہل سنت کا نظریہ: خلافت
اہل سنت کے نزدیک:
خلافت ایک انتظامی اور دینی قیادت ہے جو امت کے مشورے سے منتخب ہوتی ہے۔
خلافت کا تقرر وحی یا منصوص (یعنی نبی کی طرف سے مقرر کردہ) نہیں ہوتا، بلکہ شوریٰ (مشورہ) سے ہوتا ہے۔
ابتدائی دور:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود حضرت ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ادوار میں کسی بغاوت یا علیحدگی کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ ان کی معاونت کرتے رہے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ خاص طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حالات نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور فتنے کی ابتدا ہوئی۔
کربلا کا واقعہ:
حضرت علیؓ کے بعد ان کے بیٹے حضرت حسنؓ نے خلافت سے دستبرداری اختیار کی تاکہ امت میں خون ریزی نہ ہو۔
بعد میں حضرت حسینؓ اور ان کے اہل بیت پر کربلا میں ہونے والے ظلم نے اہل بیت سے محبت رکھنے والوں کو شدید متاثر کیا اور یوں "شیعہ" بطور ایک منظم گروہ کی بنیاد مضبوط ہوتی گئی۔
شیعہ علی سے شیعہ فرقے تک:
ابتدا میں "شیعہ" صرف وہ لوگ تھے جو حضرت علیؓ سے خصوصی محبت رکھتے تھے اور انکے علم و فضل کو سب سے بلند مانتے تھے۔
"تو اس (موسیٰ علیہ السلام) نے شہر میں دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے پایا،ایک اُس کے شیعہ (پیروکار) میں سے تھا اور دوسرا دشمنوں میں سے۔"
یہاں واضح ہوتا ہے کہ "شیعہ" کا مطلب صرف پیروکار یا حمایتی ہے اور یہ لفظ بذاتِ خود نہ مثبت ہے نہ منفی بلکہ اس کا مطلب سیاق و سباق سے طے ہوتا ہے۔
باب سوم: اسلامی تاریخ میں "شیعہ" کا پس منظر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں کو سب سے اہم مسئلہ خلافت کا درپیش ہوا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا۔اکثر مسلمانوں نے انکی بیعت کی،لیکن چند افراد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو زیادہ مناسب سمجھا۔ان افراد کو بعد میں "شیعانِ علی" یعنی "علیؓ کے حمایتی" کہا گیا۔
بلکہ مقصد صرف علم، فہم، اور رواداری کے ساتھ بات سمجھنا اور سمجھانا ہے۔
باب اول: شیعہ کا لغوی مطلب
"شیعہ" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں:
ساتھی،حمایتی،پیروکار،گروہ یا جماعت۔
لغوی تعریف:
علامہ ابنِ منظور اپنی مشہور لغت لسان العرب میں لکھتے ہیں:
> "الشيعة: الأتباع والأنصار"
یعنی: شیعہ اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو کسی کے پیروکار یا مددگار ہوں۔
باب دوم: قرآن میں "شیعہ" کا استعمال
قرآن کریم میں "شیعہ" کا لفظ مختلف مقامات پر استعمال ہوا ہے:
1. سورۃ الانعام، آیت 159
> إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا
"بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہوں (شیعہ) میں بٹ گئے۔"
2. سورۃ القصص،آیت 15
> فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَذَا مِنْ عَدُوِّهِ
شیعہ کا مطلب کیا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
مقدمہ
الحمد للہ وحدہ، والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد:
اسلام ایک ایسا عظیم دین ہے جو اتحاد،اخوت اور محبت کا درس دیتا ہے لیکن افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ امت مسلمہ میں فکری اور فقہی اختلافات نے جنم لیا۔ان اختلافات میں ایک نمایاں پہچان "شیعہ" اور "سنی" مکاتبِ فکر کی ہے۔اس کتابچہ میں ہم علمی انداز سے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ:
"شیعہ" کا اصل مطلب کیا ہے؟
یہ فرقہ کب اور کیوں وجود میں آیا؟
اس کے عقائد،نظریات اور تاریخی پس منظر کیا ہیں؟
اور سب سے اہم یہ کہ کیا ہمیں ان اختلافات کے باوجود امت مسلمہ کے اتحاد کو ترجیح دینی چاہیے؟
ہماری کوشش ہوگی کہ کوئی ایسا جملہ نہ ہو جو نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنے۔

4. اس کا حل کیا ہے؟
علماء کرام کو چاہیے کہ قوم میں شعور پیدا کریں کہ صرف نام کا اسلامی ملک کافی نہیں، عمل بھی ضروری ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ اسلامی قوانین پر مکمل عمل درآمد کرے اور شراب بنانے اور بیچنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لے۔
عوام کو بھی چاہیے کہ ایسی اشیاء کی خرید و فروخت کی حوصلہ شکنی کریں اور اپنی نسلوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں۔
3. پھر شراب کیوں بنتی ہے؟
الف) اقلیتوں کے لیے قانونی اجازت:
پاکستان میں بعض غیر مسلم اقلیتوں کو (مثلاً مسیحی یا ہندو) شراب پینے کی قانونی اجازت ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر حکومت نے کچھ فیکٹریوں کو شراب بنانے کی اجازت دے رکھی ہے۔
ب) قانونی کمزوری اور کرپشن:
اگرچہ قانوناً عام مسلمانوں کو شراب ممنوع ہے، مگر کرپشن، ناقص نظام اور بعض طاقتور طبقوں کے مفادات کی وجہ سے شراب بنانے اور بیچنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ج) غیر قانونی کاروبار:
ملک میں غیر قانونی طور پر بھی شراب تیار ہوتی ہے اور بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے، جو کہ حکومتی اداروں کی غفلت یا سازباز کا نتیجہ ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain