4. اس کا حل کیا ہے؟
علماء کرام کو چاہیے کہ قوم میں شعور پیدا کریں کہ صرف نام کا اسلامی ملک کافی نہیں، عمل بھی ضروری ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ اسلامی قوانین پر مکمل عمل درآمد کرے اور شراب بنانے اور بیچنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لے۔
عوام کو بھی چاہیے کہ ایسی اشیاء کی خرید و فروخت کی حوصلہ شکنی کریں اور اپنی نسلوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں۔
3. پھر شراب کیوں بنتی ہے؟
الف) اقلیتوں کے لیے قانونی اجازت:
پاکستان میں بعض غیر مسلم اقلیتوں کو (مثلاً مسیحی یا ہندو) شراب پینے کی قانونی اجازت ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر حکومت نے کچھ فیکٹریوں کو شراب بنانے کی اجازت دے رکھی ہے۔
ب) قانونی کمزوری اور کرپشن:
اگرچہ قانوناً عام مسلمانوں کو شراب ممنوع ہے، مگر کرپشن، ناقص نظام اور بعض طاقتور طبقوں کے مفادات کی وجہ سے شراب بنانے اور بیچنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ج) غیر قانونی کاروبار:
ملک میں غیر قانونی طور پر بھی شراب تیار ہوتی ہے اور بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے، جو کہ حکومتی اداروں کی غفلت یا سازباز کا نتیجہ ہے۔
1. اسلام میں شراب کی حرمت واضح ہے:
قرآن کریم میں واضح حکم ہے:
> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"
(اے ایمان والو! شراب، جُوا، بت، پانسے — یہ سب ناپاک ہیں، شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔)
سورہ المائدہ: 90
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص شراب بنائے، پئے، پلائے، بیچے، خریدے، لے جائے، لائے، کسی کو دے سب پر لعنت ہے۔"
ترمذی،حدیث 1295
2. پاکستان کا آئین اور دعویٰ:
پاکستان کا نام "اسلامی جمہوریہ پاکستان" ہے۔
آئین پاکستان کی شق 227 کہتی ہے:
> "تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے اور کوئی قانون ان کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔"
لہٰذا شرعی طور پر تو شراب کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
بےفکر رہو دنیا میں جن لوگوں نے آپکے ساتھ کسی بھی طرح کا فراڈ کیا ہو،پیسہ،اجرت وغیرہ کچھ بھی کھایا ہو،بروز قیامت ایک کی جگہ ستر گناہ ذیادہ لوٹانا پڑے گا۔
فیسبک،دمادم کے مومنوں
کبھی سوچا ہے مرنے کے بعد کیا کیا ہوگا قبر میں پہلی رات کو ہمارے ساتھ؟
دین صرف الفاظ نہیں،بلکہ ایک مکمل عملی نظام ہے جو عدل،محبت،اخلاق،عاجزی اور سچائی کا نام ہے۔
آج ہمیں دین کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے:
"إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ"
(الحجرات: 13)
"اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔"
اللہ ہمیں دکھاوے کے دین سے بچائے اور اخلاص و عمل والا راستہ عطا فرمائے۔
آمین۔
نہیں!
نہ حضرت علی نے یہ کہا نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ قرآن کریم میں ایسا کوئی حکم ہے۔
یہ کیسا دین ہے جسے کچھ لوگ صرف نفرت فرقہ واریت اور اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیتے ہیں؟ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود دین سے نابلد ہوتے ہیں مگر فتوے علماء مفتیوں اور حافظوں پر صادر کرتے ہیں اور وہ بھی اس حالت میں جب ان کے دل نشہ،حسد،تکبر اور جہالت سے بھرے ہوتے ہیں۔
قرآن ہمیں خود احتسابی سکھاتا ہے
"بلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ"
(القیامۃ: 14)
"بلکہ انسان خود اپنے آپ کو خوب جانتا ہے۔"
لہٰذا اے مسلمان!
پہلے اپنے گریبان میں جھانک۔اپنے اعمال دیکھ۔ کیا تیرے قول و فعل میں تضاد ہے؟ کیا تو اپنے رب کو راضی کر رہا ہے یا لوگوں کو دکھاوا کر رہا ہے؟کیا تیری زبان،تیری نیت اور تیرا دل ایک ہیں؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عنوان: "پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں!"
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہاں دین کے نام پر عجب تماشہ برپا ہے۔لوگ دین کی بات کرتے ہیں نعرے لگاتے ہیں دوسروں کو گمراہ کافر، فاسق اور جہنمی قرار دیتے ہیں…لیکن جب ان کے اپنے اعمال دیکھے جائیں تو ان کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم جو علم تقویٰ شجاعت اور عدل کا پیکر تھے انہوں نے کب کہا کہ:
نماز گھر میں چھوڑ دو
جوا کھیلنا زنا کرنا شراب پینا سب جائز ہے
عورتوں کے رقص دیکھو ان پر پیسہ لٹاؤ
لوگوں کو تلوار کی نوک پر مسلمان کرو۔
5. دہشت گردی کے متعلق مغالطے:
افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض گروہ جو دہشت گردی کے مرتکب ہیں اسلام کے نام پر اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔یہ گروہ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے منحرف ہیں بلکہ وہ اسلام کی روح کو مسخ کر رہے ہیں۔اسلام کبھی بھی دہشت گردی قتل و غارت گری یا انسانوں کی جانوں کے ضیاع کی اجازت نہیں دیتا۔
اسلام میں جہاد کا مفہوم بھی دفاعی اور اخلاقی ہے اور اس کا مقصد کسی بھی صورت میں غیر مسلح افراد یا معصوم انسانوں کو نقصان پہنچانا نہیں ہے۔
6. عالمی سطح پر اسلام کا پیغام:
اسلام کا پیغام امن محبت اور صلح ہے اور یہ ہر انسان کی زندگی کی قدر کرتا ہے۔مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہو دنیا میں امن قائم کرنے کی کوشش کرے اور اسلام کے اصل پیغام کو دنیا کے سامنے لائے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
> "جو شخص کسی جان کو قتل کرتا ہے، بغیر کسی بدلہ یا فساد کے وہ گویا تمام انسانوں کو قتل کرتا ہے۔"
(سورہ المائدہ،آیت 32)
یہ آیت دہشت گردی کی ہر شکل کو رد کرتی ہے اور اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ معصوم انسانوں کا قتل دنیا و آخرت میں گناہِ کبیرہ ہے۔
4. نبی ﷺ کی سیرت اور دہشت گردی:
نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ آپ نے کبھی بھی ظلم و تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ امن صلح اور رواداری کی کوشش کی۔آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں کسی بھی موقع پر معصوم انسانوں پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دی چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
> "دہشت گردی صرف فساد ہے اور فساد کا عمل اسلام میں ممنوع ہے۔"
(صحیح مسلم)
قرآن اور حدیث میں کہیں بھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی گئی بلکہ اسے فاسد (فساد کرنے والا) اور ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
2. اسلام اور خودکش حملے:
اسلام میں خودکش حملے اور دہشت گردانہ کارروائیاں مکمل طور پر حرام ہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
> "اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔"
(سورہ البقرہ، آیت 195)
یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کسی انسان کا خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانا اسلام میں شدید طور پر ممنوع ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "جو شخص کسی کو قتل کرتا ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔"
(صحیح بخاری)
یہ حدیث بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ دہشت گردی اور ناحق خونریزی اسلام میں مکمل طور پر حرام ہے۔
3. قرآن اور حدیث میں امن کا پیغام:
قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کو ہمیشہ امن کی طرف دعوت دی گئی ہے۔
باب 8: اسلام اور دہشت گردی: حقیقت کیا ہے؟
دنیا بھر میں اسلام کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں اور افواہیں گردش کرتی ہیں خاص طور پر جب بات دہشت گردی کی ہوتی ہے۔ اسلام کو ایک ایسا مذہب سمجھا جاتا ہے جو دہشت گردی اور تشدد کو فروغ دیتا ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔اس باب میں ہم یہ جانیں گے کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
1. دہشت گردی کی تعریف:
دہشت گردی کو عالمی سطح پر ایک مخصوص مقصد کے لیے خوف تشدد اور تشویش پیدا کرنے کا عمل سمجھا جاتا ہے۔دہشت گردی کا مقصد معصوم انسانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا انہیں اذیت پہنچانا اور اپنے نظریات کو طاقت کے ذریعے مسلط کرنا ہوتا ہے۔
اسلام میں اس قسم کی حرکات کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔
4۔ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں:
اسلام میں دہشت گردی اور امن کے خلاف کوئی عمل ناقابلِ برداشت ہے۔نبی ﷺ نے فرمایا:
> "جس نے کسی بے گناہ شخص کو قتل کیا، وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔"
(صحیح بخاری)
اسلام میں ناحق خونریزی اور دہشت گردی کو قطعی طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ امن اور سلامتی کے خلاف ہے۔
5۔ مسلمانوں کا عالمی پیغام:
اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ امن کی فضا قائم کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
> "تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو انسانوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔"
(ابن ماجہ)
یہ حدیث مسلمان کو یہ سکھاتی ہے کہ اس کا مقصد صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر میں امن محبت اور تعاون کا پیغام دینا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
> "اور لوگوں کو ان کے حقوق دو، جن کے حق میں اللہ نے فیصلہ کیا ہے۔"
(سورہ النساء، آیت 58)
یہ آیت اس بات کا عہد کرتی ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معاشرتی دائرے میں ہر فرد کے حقوق کا احترام کریں اور امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔
3۔ امن کا علمبردار بننا:
نبی ﷺ نے اپنی زندگی میں ہمیشہ امن کو فروغ دیا اور لوگوں کے درمیان امن قائم کرنے کی کوشش کی۔ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا:
> "سب سے بہترین صدقہ یہ ہے کہ تم دو لوگوں کے درمیان صلح کراؤ۔"
(مسند احمد)
یہ حدیث مسلمانوں کو بتاتی ہے کہ ان کا کردار معاشرتی امن میں اہم ہے۔صلح کرنا تنازعات کو ختم کرنا اور لوگوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔
باب 7: مسلمان کا کردار: سلامتی کا پیامبر
اسلام میں ہر مسلمان کو امن کا علمبردار اور دوسروں کے لیے سلامتی کا سبب بننے کا حکم دیا گیا ہے۔ایک مسلمان کا کردار نہ صرف اس کے اپنے معاشرتی دائرہ میں بلکہ عالمی سطح پر بھی امن کے قیام کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
1۔ مسلمان کی حقیقت:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔"
(صحیح بخاری: 10)
یہ حدیث بتاتی ہے کہ مسلمان کی شناخت امن کی علامت ہے اور اس کا کردار دوسرے لوگوں کے لیے اذیت کا باعث نہیں بننا چاہیے۔حقیقی مسلمان وہ ہے جو اپنی زبان اور عمل سے دوسروں کو اذیت نہ پہنچائے۔
2۔ لوگوں کے حقوق کا تحفظ:
اسلام میں ہر انسان کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔
4. مسلمان کا عالمی ذمہ داری:
مسلمانوں کو نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا بھر میں امن قائم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
> "تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔"
(ابن ماجہ)
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی سطح پر امن انصاف اور برابری کے اصولوں کو فروغ دیں۔
5. اسلام اور بین الاقوامی تعلقات:
اسلام نے ہمیشہ بین الاقوامی تعلقات میں عدل انصاف اور احترام کا حکم دیا ہے۔نبی ﷺ کے دور میں بھی مختلف قوموں کے ساتھ سلاحتی معاہدے اور امن کے پروٹوکولز کیے گئے جن میں سب کے حقوق کی حفاظت کی گئی۔ان معاہدوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے ایک مستحکم اور قابلِ اعتماد نظام پیش کرتا ہے۔
اسلام میں جنگ کا مقصد کبھی بھی زیادتی، ظلم یاتسلط قائم کرنا نہیں ہوتا بلکہ دشمن سے اپنے حقوق کا دفاع کرناہوتاہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
> "اگر دشمن تم سے جنگ کرے تو تم بھی ان سے لڑو لیکن جب وہ جنگ بندکردے تو تم بھی امن کی طرف آ جاؤ۔"
(سورۃ محمد، آیت 35)
یہ آیت بتاتی ہے کہ جنگ میں بھی امن کی طرف لوٹنا ضروری ہے اور اگر دشمن صلح کرے تو فوراً امن قائم کیا جائے۔
3. عالمی امن کا پیغام:
اسلام کی تعلیمات میں دنیا کے تمام انسانوں کو امن کی دعوت دی گئی ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
> "تم سب اللہ کے بندے ہو اس نے تمہیں ایک ہی قوم بنایا ہے۔"
(سورہ الحجرات،آیت 13)
یہ آیت عالمی بھائی چارے اور آپس میں امن و محبت کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔اسلام میں تمام انسانوں کو مساوی حقوق دیے گئے ہیں اور کسی قوم یا نسل کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں ہے۔
باب 6: اسلامی معاشرہ اور بین الاقوامی امن
اسلام نہ صرف انفرادی امن بلکہ ایک وسیع پیمانے پر معاشرتی ملکی اور بین الاقوامی امن کے قیام کی تعلیم دیتا ہے۔قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام ایک ایسا عالمی نظام پیش کرتا ہے جس میں انسانوں کے درمیان امن، بھائی چارہ اور انصاف کا راج ہو۔
1۔ معاشرتی امن کی بنیاد:
اسلام میں معاشرتی امن کا دارومدار عدل، شفقت اور مساوات پر ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتاجب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"
(صحیح مسلم)
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہےکہ کسی بھی معاشرے میں امن اس وقت ممکن ہےجب لوگ ایک دوسرے کےحقوق کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و رواداری کا سلوک کریں۔
2۔ جنگ اورامن کامفہوم:
اسلام میں جنگ صرف دفاع کی حالت میں جائزہے۔
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اسلام میں انسانیت کے احترام کا کوئی فرق نہیں کیا جاتا چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔
4۔ ظلم و تشدد سے مکمل اجتناب:
نبی ﷺ نے زندگی بھر کسی بھی ظلم و تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ امن عدل اور انصاف کی بنیاد پر فیصلے کیے۔آپ ﷺ کی تعلیمات میں ہر فرد کے حقوق کا احترام ضروری ہے اور معاشرتی امن کو یقینی بنانے کے لیے ظلم سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
5۔ آپ ﷺ کا عمومی پیغام:
نبی ﷺ کا عمومی پیغام امن، محبت، اور صلح تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
> "تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہترین سلوک کرے اور میں تم میں سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ سب سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔"
(ترمذی)
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ خاندان کے اندر امن محبت اور حسنِ سلوک کا آغاز ہوتا ہے اور یہ معاشرتی امن کے قیام کی بنیاد ہے۔
یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی امن اور رحمت کا سلوک کیا۔
2۔ مساکین اور یتیموں کے ساتھ نرمی:
نبی ﷺ نے ہمیشہ مساکین یتیموں اور غریبوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور نرم دلی کا سلوک کیا۔آپ ﷺ نے فرمایا:
> "وہ شخص ہم میں سے نہیں جو یتیم کے ساتھ حسن سلوک نہ کرے اور دوسروں کو تکلیف پہنچائے۔"
(ابن ماجہ)
یہ حدیث اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اسلامی معاشرت میں خیرات شفقت اور رہنمائی کا دلی جذبہ انتہائی اہم ہے۔
3۔ غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک:
نبی ﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی عدل اور انصاف کے ساتھ سلوک کیا۔ایک مرتبہ ایک غیر مسلم (یہودی) کی تدفین کے دوران نبی ﷺ کھڑے ہو گئے۔جب صحابہ نے سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
> "کیا تم اس شخص کے بارے میں نہیں جانتے کہ وہ انسان تھا؟"
(بخاری)
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain