Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

باب 5: سیرتِ طیبہ کی روشنی میں: نبی ﷺ کا طرزِ عمل
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک مکمل اور جامع نمونہ ہے جو ہر انسان کو امن، محبت اور اخلاقیات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔آپ ﷺ نے اپنی سیرتِ مبارکہ میں جو اصول اپنائے وہ معاشرتی امن اور بھائی چارے کے قیام کے لیے اہم ہیں۔
1۔ دشمنوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک:
نبی ﷺ کی زندگی میں ہمیں کئی مواقع ملتے ہیں جب آپ ﷺ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی انتہائی درگزر اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا۔ایک مشہور واقعہ یہ ہے:
> جب مکہ مکرمہ کے لوگ آپ ﷺ کو اذیت پہنچاتے آپ ﷺ نے کبھی بھی ان سے بدلہ لینے کا ارادہ نہیں کیا۔لیکن جب آپ ﷺ نے مکہ کو فتح کیا، تو آپ نے ان لوگوں کو معاف کر دیا اور فرمایا:
"تم آزاد ہو تم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔"
(ابن ہشام)

MAKT_PAK
 

سلام پھیلانا صرف رسم نہیں بلکہ محبت اور امن کا دروازہ کھولنے کا عمل ہے۔
3۔ قتل و خونریزی سے منع:
> "ایک مؤمن کا خون بہانا دنیا و مافیہا سے زیادہ سنگین جرم ہے۔"
(ترمذی: 1395)
اسلام میں کسی بھی انسان کی ناحق جان لینا سخت حرام اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔
4۔ صلح کرانا عبادت ہے:
> "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو دو لوگوں کے درمیان صلح کروائے۔"
(مسند احمد)
نبی ﷺ نے دلوں کو جوڑنے والے جھگڑوں کو ختم کرنے والے اور معاشرے میں امن قائم کرنے والوں کو "بہترین انسان" قرار دیا۔
5۔ عمومی رحمت کا اعلان:
> "میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں نہ کہ لعنت کرنے والا۔"
(صحیح مسلم: 2599)
نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی رحمت محبت اور سلامتی کا فروغ بتایا۔

MAKT_PAK
 

باب 4: احادیثِ نبوی ﷺ میں امن کی تعلیمات
نبی کریم محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیاتِ طیبہ سراسر امن رحمت اور عفو و درگزر کا عملی نمونہ ہے۔آپ ﷺ نے اپنی احادیثِ مبارکہ کے ذریعے بھی امت کو بار بار امن و سلامتی صلح حسنِ سلوک اور بھائی چارے کی تلقین فرمائی۔
1۔ مسلمان کی پہچان:
> "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔"
(صحیح بخاری: 10)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان دوسروں کے لیے امن کا ذریعہ بنے، نہ کہ نقصان اور تکلیف کا۔
2۔ سلام کو عام کرو:
> "تم جنت میں داخل نہ ہو گے جب تک ایمان نہ لاؤ اور ایمان والا نہ ہو گے جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس پر عمل کرو تو تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟آپس میں سلام کو عام کرو۔"
(صحیح مسلم: 54)

MAKT_PAK
 

اسلام کسی پر ایمان تھوپنے کا قائل نہیں بلکہ ہر انسان کو آزادی دیتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر راہِ حق کو قبول کرے۔
3۔ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام: "السلام"
> "وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ پاک سلامتی دینے والا، امن دینے والا ہے۔"
(سورۃ الحشر، آیت 23)
اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام "السلام" ہے یعنی امن و سلامتی عطا کرنے والا۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام کی بنیاد ہی اس رب کی معرفت پر ہے جو سلامتی کا سرچشمہ ہے۔
4۔ اہل ایمان کے لیے امن کا پیغام:
> "جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم (شرک) کے ساتھ آلودہ نہیں کیا اُن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔"
(سورہ الانعام،آیت 82)
قرآن، ایمان کو امن کی ضمانت قرار دیتا ہے۔ ایمان والا نہ صرف خود پرامن ہوتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی امن کا سبب بنتا ہے۔

MAKT_PAK
 

باب 3: قرآن کی روشنی میں امن کا پیغام
قرآن مجید جو کہ اسلام کی بنیادی کتاب ہے، نہ صرف اللہ تعالیٰ کی وحدانیت عبادات اور اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے بلکہ امن و سلامتی کو ایک عظیم انسانی اور دینی قدر کے طور پر بیان کرتا ہے۔
1۔ جان بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے:
> "جس نے کسی جان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بغیر قتل کیا گویا اُس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو بچایا گویا اُس نے تمام انسانیت کو بچا لیا۔"
(سورۃ المائدہ،آیت 32)
یہ آیت اسلام کی انسانی جان کی حرمت اور امن کے لیے احترام کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ یہ دین صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔
2۔ زبردستی نہیں، بلکہ نرمی کا پیغام:
> "دین میں زبردستی نہیں ہے۔"
(سورۃ البقرہ، آیت 256)

MAKT_PAK
 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "تم جنت میں داخل نہ ہوگےجب تک ایمان نہ لاؤ اور ایمان والا نہ ہوگےجب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس پر عمل کرنے سے تم ایک دوسرے سےمحبت کرنےلگو؟آپس میں سلام عام کرو۔"
(مسلم،حدیث: 54)
اسلام میں سلام صرف الفاظ نہیں بلکہ دلوں میں نرمی محبت اور اعتماد پیدا کرنے والا عمل ہے۔
3۔ مسلمان کی پہچان:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
> "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔"
(بخاری، حدیث: 10)
یہ حدیث بتاتی ہے کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جو معاشرے میں امن کا پیامبر ہو نہ کہ خوف و فساد کا باعث۔
4۔ امن و امان قائم کرنا عبادت ہے:
نبی ﷺ نے فرمایا:
> "سب سے بہتر صدقہ یہ ہے کہ تم دو لوگوں کے درمیان صلح کرا دو۔"
(مسند احمد)
اسلامی تعلیمات میں فساد کی بجائے صلح کروانے والے کو عظیم درجہ دیا

MAKT_PAK
 

باب 2: اسلام اور امن کا باہمی تعلق
اسلام اور امن کے درمیان گہرا اور بنیادی تعلق ہے۔ اگرچہ "اسلام" کا مطلب صرف "امن" نہیں لیکن اسلام کا مکمل پیغام عملی نظام اور اخلاقی تعلیمات سراسر امن صلح رواداری اور رحم دلی پر مبنی ہیں۔
1۔ سلامتی کا دین:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
> وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ
"اور اللہ سلامتی کے گھر (یعنی جنت) کی طرف بلاتا ہے۔"
(سورہ یونس،آیت 25)
اسلام کا پیغام امن اور سلامتی کے ماحول کی طرف دعوت دینا ہے۔
"دارالسلام" صرف جنت نہیں بلکہ دنیا میں بھی ایک پرامن اور مہذب معاشرے کی تمثیل ہے۔
2۔ ایک دوسرے کو سلام کرنا:
اسلامی معاشرے کی بنیاد سلام (یعنی السلام علیکم) پر رکھی گئی ہے۔

MAKT_PAK
 

اسلام اور امن
تحریر: ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
پیش لفظ
اسلام ایک ایسا آفاقی دین ہے جو نہ صرف اپنے ماننے والوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے خیر و سلامتی کا پیغام ہے۔عصر حاضر میں جہاں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششیں کی جاتی ہیں وہاں یہ لازمی ہے کہ ہم اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کریں جو کہ سراپا امن و محبت ہے۔
باب 1: اسلام کا مفہوم
"اسلام" عربی زبان کا لفظ ہے جو "سَلَمَ" سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں:
سلامتی
اطاعت
جھک جانا
اسلام کا اصطلاحی مفہوم ہے: اللہ تعالیٰ کے سامنے مکمل طور پر جھک جانا، اُس کی اطاعت کرنا، اور اُس کے احکام کو دل سے قبول کرنا۔
یعنی مسلمان وہ ہے جو اپنے خالق کے احکام پر دل و جان سے عمل کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں وہ خود بھی امن میں رہتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی امن کا سبب بنتا ہے۔

MAKT_PAK
 

اگرچہ دشمنی ایک فطری ردعمل ہے لیکن اسلام نے دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی ترغیب دی ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"اگر تم اپنے دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کرو گے، تو وہ تمہارے دوست بن جائیں گے۔" (صحیح مسلم)
نتیجہ:
محبت کا صحیح رخ اسلام میں ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول سے محبت کریں اور اسی محبت کی بنیاد پر اپنے والدین اہل ایمان اور اچھے لوگوں سے محبت کریں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے دشمنوں سے بھی حسن سلوک کرنا چاہیے اور ہر حال میں اعتدال اور توازن کو برقرار رکھنا چاہیے۔محبت کا یہ سچا مفہوم انسانیت کی خدمت اخلاقی بہتری اور اللہ کی رضا کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

MAKT_PAK
 

5. اچھی صفات والے لوگوں سے محبت:
محبت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان ان لوگوں سے محبت کرے جو اچھے اخلاق صداقت اور نیک عمل کے حامل ہوں۔اگر کوئی شخص اللہ کی رضا کے لیے اچھے عمل کرتا ہے اس کے دل میں نیکیت ہے اور وہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے تو اسے اپنی محبت کا مرکز بنانا چاہیے۔
"تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔" (صحیح بخاری)
6. محبت میں اعتدال:
اسلام میں محبت کا اصول یہ ہے کہ محبت میں اعتدال ہو۔نہ تو کسی کو اتنا زیادہ محبت دو کہ تم اس کے لیے اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال دو اور نہ ہی کسی سے محبت میں اتنا کم ہو کہ تم اس کی اہمیت کو نظر انداز کر دو۔محبت میں توازن اور اعتدال کا اصول قرآن و حدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
7. دشمنوں سے محبت:
دشمنوں سے بھی محبت کرنا ایک اہم اخلاقی اصول ہے۔

MAKT_PAK
 

اور اس کا دودھ پلانا دو سال میں مکمل ہوتا ہے، تم میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی شکر ادا کرو۔" (لقمان 31:14)
والدین کی خدمت اور ان سے محبت کا حکم قرآن اور حدیث دونوں میں ہے اور یہ اللہ کی رضا کے لیے ضروری ہے۔
4. اہل ایمان سے محبت:
اسلام میں اہل ایمان سے محبت کرنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی اہم ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔" (الحجرات 49:10)
اس کے علاوہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔" (صحیح مسلم)
اہل ایمان کے درمیان محبت اخوت اور تعاون کی فضا قائم کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔

MAKT_PAK
 

2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت:
محبت کا ایک اور بنیادی مرکز ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُس کے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔" (صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے، کیونکہ آپ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہی ہمیں اللہ کے قریب کرتا ہے۔
3. والدین سے محبت:
والدین سے محبت اسلام میں بہت اہمیت رکھتی ہے اور انہیں اللہ کے بعد سب سے زیادہ عزت و احترام دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی ہے اس کی ماں نے اُسے دردِ زہ میں رکھا،

MAKT_PAK
 

محبت ایک انتہائی اہم اور عمیق جذبہ ہے جسکا تعلق نہ صرف انسانی تعلقات سے ہے بلکہ یہ روحانیت اور دین سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اسلام میں محبت کی بنیاد اللہ کی رضا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور ایمان کی مضبوطی پر رکھی گئی ہے۔آئیے اس پر تفصیل سے بات کرتے ہیں:
1. اللہ تعالیٰ سے محبت:
سب سے اہم محبت اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیے کیونکہ اللہ ہی نے ہمیں زندگی دی ہے، اور اس کے حکم اور رضا کی پیروی ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے اللہ کی محبت ہے۔" (آل عمران 3:31)
اللہ سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعمال میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھے۔ اللہ کی عبادت اس کے احکام کی پیروی اور اس کی تقدیر پر ایمان رکھنا اس محبت کا حقیقی مظہر ہے۔

MAKT_PAK
 

5. نماز قیامت کے دن سب سے پہلا سوال
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا، اگر نماز درست ہوئی تو باقی اعمال بھی درست ہوں گے" (ترمذی)
6. نماز بخشش کا ذریعہ ہے
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"پانچوں نمازیں اس طرح گناہوں کو دھو دیتی ہیں جیسے پانی کسی ناپاک چیز کو صاف کردیتا ہے" (مسلم)
7. نماز مومن کی شناخت ہے
جو شخص باقاعدگی سے نماز ادا کرتا ہے، وہ اپنے ایمان کی پہچان ظاہر کرتا ہے۔ یہ بندگی کی علامت اور اطاعت کا اعلان ہے۔

MAKT_PAK
 

1. نماز اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے
نماز ایک ایسا عمل ہے جس میں بندہ براہِ راست اپنے رب سے ہمکلام ہوتا ہے، اس لیے یہ اللہ کے قرب کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
2. نماز مومن کی معراج ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الصَّلَاةُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ"
یعنی نماز مومن کی معراج ہے۔ جیسے نبی کریم ﷺ معراج میں اللہ سے ہمکلام ہوئے، ویسے ہی بندہ نماز میں اللہ کے قریب ہوتا ہے۔
3. نماز دل کو سکون دیتی ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ"
ترجمہ: "خبردار! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے" (سورہ الرعد: 28)
4. نماز گناہوں سے بچاتی ہے
قرآن میں فرمایا:
"إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ"
ترجمہ: "یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے" (سورہ العنکبوت: 45)

MAKT_PAK
 

قرآن و حدیث کا اصول:
> فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَىْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ
(سورہ النساء: 59)
"اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔"

MAKT_PAK
 

2. بریلوی مکتب فکر (بعض افراد)
ان میں بھی کچھ لوگ بدعتوں میں مبتلا ہیں، جیسے:
میلاد النبی کی محفلیں (غلو کے ساتھ)
گیارھویں چہلم عرس وغیرہ
قبروں پر چراغاں چادریں دھمال قوالی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر سمجھنا
یہ اعمال اگر سنت کے خلاف ہوں اور ثواب کی نیت سے کیے جائیں تو بدعت میں شمار ہوتے ہیں۔
3. صوفی ازم کے بعض سلسلے
بعض صوفی سلسلوں میں بھی بدعات پائی جاتی ہیں جیسے:
مخصوص وظائف و اذکار جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سکھائے
بیعت کے مخصوص انداز
بزرگوں سے استعانت
بدعت کسی ایک فرقے یا مذہب تک محدود نہیں، بلکہ جب بھی قرآن و حدیث کو چھوڑا جائے گا بدعت داخل ہو جائے گی خواہ وہ سنی ہو شیعہ ہو صوفی ہو یا کوئی اور۔

MAKT_PAK
 

سوال: سب سے ذیادہ بدعت کس مذہب میں ہے؟
جواب: ہر وہ مذہبی گروہ یا فرقہ جس نے قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنے طور طریقے، عبادات عقائد یا رسومات دین میں شامل کیے—بدعت کا شکار ہوا۔
لیکن اگر آپ پوچھ رہے ہیں "کس فرقے یا مذہب میں سب سے زیادہ بدعات پائی جاتی ہیں؟" تو عام علماء کے مشاہدے کے مطابق:
1. روافض/غالی شیعہ فرقے (خصوصاً اثنا عشریہ اسماعیلیہ)
ان میں بدعات کی تعداد سب سے زیادہ پائی جاتی ہے مثلاً:
متعہ نکاح کو حلال سمجھنا (حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا)
اماموں کو معصوم سمجھنا
اماموں سے مدد مانگنا
عزاداری میں ماتم زنجیر زنی نوحہ خوانی
عاشورہ کے مخصوص اعمال جو قرآن و سنت سے ثابت نہیں
قبروں پر سجدہ اور نذر و نیاز
یہ سب ایسے اعمال ہیں جو نہ قرآن سے نہ حدیث سے نہ صحابہ سے ثابت ہیں بلکہ بعد کے ادوار میں ایجاد کیے گئے۔

MAKT_PAK
 

نتیجہ:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شراب کا استعمال کیا تھا لیکن ان کا استعمال ایک مخصوص اور علامتی مقصد کے تحت تھا جیسے کہ آخری عشایہ میں جہاں انہوں نے شراب کو اپنے خون کی علامت کے طور پر پیش کیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے شادی کی محفل میں شراب کا معجزہ دکھایا لیکن ان کی تعلیمات میں ہمیشہ اعتدال اخلاقی معیار اور گناہ سے بچنے پر زور دیا گیا تھا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شراب کا استعمال کسی قسم کی بے راہ روی یا غیر اخلاقی عمل کا حصہ نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد روحانی اور علامتی تھا۔

MAKT_PAK
 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی اور اپنی تعلیمات میں انسانوں کو گناہ سے بچنے اور روحانیت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔
4. شراب کا استعمال اور اس کا اعتدال:
انجیل میں شراب کے بارے میں جو رہنمائی ملتی ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس کا استعمال اعتدال میں اور صحیح مواقع پر کیا جائے۔متی 26:29 میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آخری عشایہ کے بعد کہا:
"اب سے میں انگور کا رس نہیں پیوں گا جب تک کہ خدا کی بادشاہی نہیں آ جاتی۔" یہ پیغام اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شراب کو ایک مخصوص موقع پر استعمال کیا اور وہ اس کا استعمال ہر وقت نہیں کرتے تھے۔