نتیجہ: انجیل میں مرد اور عورت کے درمیان دوستی کو خاص طور پر حرام یا جائز نہیں کہا گیا لیکن یہ بات واضح ہے کہ تمام تعلقات کو اخلاقی اصولوں اور خدا کے قوانین کے مطابق ہونا چاہیے۔مرد اور عورت کے درمیان تعلقات میں عزت محبت اور حیا کی اہمیت دی گئی ہے اور یہ تعلقات غیر ازدواجی تعلقات سے بچ کر پاکیزہ رہنے چاہئیں۔
متی 19:4-6 میں عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
"خدا نے انسان کو مرد اور عورت کے طور پر پیدا کیا اور فرمایا کہ آدمی اپنی ماں اور باپ کو چھوڑ کر اپنی بیوی سے ملے گا اور دونوں ایک جسم بن جائیں گے۔"
3. شرم و حیا کی تعلیم: انجیل میں مرد اور عورت کے درمیان تعلقات کے بارے میں شرم و حیا کی تعلیم دی گئی ہے۔ 1 تیمتھیس 5:2 میں کہا گیا:
"اب تم مردوں کے ساتھ اس طرح بات کرو جیسے تمہارے بھائی ہوں اور عورتوں کے ساتھ اس طرح بات کرو جیسے تمہاری بہنیں ہوں، تمام پاکیزگی کے ساتھ۔"
4. غصہ اور گناہ سے بچنا: انجیل میں مرد اور عورت کے درمیان تعلقات میں گناہ کی طرف مائل ہونے سے بچنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ متی 5:28 میں عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
"لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ جو شخص کسی عورت پر لالچ کی نگاہ سے دیکھے وہ اپنے دل میں پہلے ہی اس سے زنا کر چکا ہے۔"
انجیل میں مرد اور عورت کے درمیان دوستی یا تعلقات کے بارے میں براہ راست کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا ہے لیکن انجیل میں اخلاقی اصولوں اور معاشرتی تعلقات کے بارے میں جو رہنمائی دی گئی ہے اس سے کچھ عمومی اصول اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
1. محبت اور احترام: انجیل میں مرد اور عورت کے درمیان محبت کی تعلیم دی گئی ہے، لیکن یہ محبت ایک دوسرے کی عزت اور احترام پر مبنی ہونی چاہیے۔ متی 22:39 میں فرمایا گیا:
"تُم اپنے پڑوسی سے اپنے جیسا محبت رکھو۔" یہ اصول انسانوں کے تمام تعلقات میں عزت اور احترام کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
2. ازدواجی تعلق کی اہمیت: انجیل میں مرد اور عورت کے درمیان تعلق کو سب سے زیادہ اہمیت ازدواجی تعلق (شادی) کو دی گئی ہے۔
دس شوال کو تاریخ اسلام میں چند اہم واقعات پیش آئے ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
1. جنگِ اُحد (3ہجری):
10 شوال کو جنگ اُحد ہوئی تھی جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مخالف قریش کی فوج کے درمیان ہوئی۔ یہ جنگ مکہ کے کفار نے مسلمانوں کے خلاف کی تھی۔ ابتدا میں مسلمان فتحیاب ہوئے لیکن بعد میں ایک غفلت کی وجہ سے مسلمانوں کو شکست ہوئی۔اس جنگ میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور جلیل القدر صحابی تھے۔
2. حضرت علی کا یوم ولادت (600ء کے قریب):
بعض مؤرخین کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت بھی 10 شوال کو ہوئی۔وہ اسلام کے چوتھے خلیفہ اور اہم ترین شخصیت ہیں، جنہوں نے اسلام کی خدمت میں بے شمار قربانیاں دیں۔
مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے میرے سر میں اکثر درد رہتا ہے۔
ڈاکٹر: کیا کرتے ہو؟
مریض: کچھ خاص نہیں بس مہدی حسن کو سن لیتا ہوں
ڈاکٹر: اپنی پسند بدلو فورا اور یہاں سے اٹھو ورنہ میرے بھی سر میں درد ہونے لگ جائے گا۔
😂
اس نے لوگوں کی مدد کرنا شروع کی گاؤں کے بچوں کو علم دینے کا عہد کیا اور ہر ممکن طریقے سے دوسروں کی زندگیوں میں خوشی لانے کی کوشش کی۔
جب فاطمہ کی صحت دوبارہ بہتر ہوئی اس کا حسن کبھی پہلے جیسا نہیں تھا لیکن اب وہ ایک نئی فاطمہ بن چکی تھی۔اس کا چہرہ ابھی بھی خوبصورت تھا لیکن اس کی اصل خوبصورتی اس کے عمل اور کردار میں چھپ چکی تھی۔اب لوگ اس کی تعریف کرتے وقت صرف اس کے چہرے کی نہیں بلکہ اس کی دل کی صفائی اور کردار کی بھی بات کرتے تھے۔
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ حسن ہمیشہ نہیں رہتا۔ظاہری حسن وقت کے ساتھ ماند پڑ سکتا ہے لیکن اصل حسن وہ ہے جو انسان کے اندر ہوتا ہے اور وہ وقت کی دھار میں بھی قائم رہتا ہے۔فاطمہ کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ جو حسن ہمیں خود سے تعلق رکھتا ہے وہ سب سے قیمتی ہوتا ہے۔
کہانی ایک خوبصورت پھول کی تھی جو دن بہ دن کھلتا اور اس کا رنگ انتہائی خوبصورت تھا۔لیکن جب موسم بدلتا اس کا رنگ مدھم پڑنے لگا اور پھول کی شکل ماند پڑ گئی۔ لیکن پھول کی خوشبو کبھی نہیں کم ہوئی۔ وہ خوشبو ابھی تک ہر کسی کو معطر کرتی تھی چاہے اس کا رنگ اور شکل اب ویسا نہ رہا ہو۔عالم نے کہا، "حسن وہ نہیں جو تم دیکھتے ہو حسن وہ ہے جو تم محسوس کرتے ہو جو تمہارے دل میں ہوتا ہے۔"
فاطمہ نے اس بات کو گہرائی سے سمجھا۔وہ جان گئی کہ حسن کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اندر سے ہوتا ہے نہ کہ باہر سے۔اس کے بعد فاطمہ نے اپنی بیماری کے دوران اپنی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے بھی زیادہ اس نے اپنے دل کی صفائی اور کردار پر توجہ دی۔
اب اس کا حسن لوگوں کو نہیں دکھے گا، تو کیا وہ اب بے قیمت ہو جائے گی؟
فاطمہ کے دل میں گہرے دکھ کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی آتا کہ اس کا جمال اس کے وجود کا اصل حصہ نہیں تھا۔اسے یہ احساس ہو رہا تھا کہ شاید جو وہ سمجھ رہی تھی، وہ سچ نہیں تھا۔ایک دن وہ اپنے دل کی باتوں سے پریشان ہو کر گاؤں کے بزرگ عالم کے پاس آئی جو ہمیشہ اپنی سادگی اور علم کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔اس وقت فاطمہ کی آنکھوں میں ایک چمک نہیں بلکہ غم تھا۔
عالم نے فاطمہ کی حالت دیکھی اور کہا، "بیٹی حسن ہمیشہ نہیں رہتا۔جو حسن تم نے باہر دیکھا ہے وہ صرف عارضی ہے۔وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے۔لیکن جو حسن تمہارے دل میں ہے وہ کبھی نہیں ماندے گا۔"
بزرگ عالم نے پھر ایک کہانی سنائی، جو فاطمہ کے دل میں اتر گئی۔
حسن ہمیشہ نہیں رہتا
کہانی ایک گاؤں کی خوبصورت لڑکی فاطمہ کی ہے۔ اس کا حسن پورے گاؤں میں مشہور تھا اور لوگ اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔فاطمہ کا چہرہ چاند کی مانند روشن اور اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی جو کسی کو بھی اس کی طرف کھینچ لاتی تھی۔ لیکن فاطمہ کی حقیقت یہ تھی کہ وہ جانتی تھی کہ حسن ایک دن مدھم ہو جائے گا اور اس کا اصل جمال اس کے دل کی خوبصورتی میں چھپا ہوا تھا۔
فاطمہ کی زندگی ایک روز ایک ایسی صورتحال سے گزرنے والی تھی جس نے اس کی سوچ کو بدل دیا۔ایک دن فاطمہ شدید بیماری کا شکار ہو گئی۔بیماری کی شدت کی وجہ سے اس کا چہرہ پژمردہ ہوگیا اور اس کا حسن ماند پڑنے لگا۔جب وہ آئینے میں دیکھتی، تو اسے اپنی حالت پر افسوس ہوتا۔اس کے دل میں بے شمار سوالات اٹھتے کہ اب لوگ کیا کہیں گے؟
https://www.youtube.com/live/YirtbHvyaxY?si=dVFqNvfCG6EN8yat
.
.
.
🔴BOL NEWS LIVE | Latest Pakistan News 24/7 | Headlines - Bulletins | Breaking News | Today News 2025
اللّٰہ رب العزت کی شان تو دیکھو جنکو بیوی لفظ کا مطلب نہیں پتہ اللّٰہ نے انکو بھی بیوی عطا کردی۔
جنکو اولاد سنبھالنی نہیں آتی انکو اولاد عطا کردی۔
جنکو یہ سمجھ نہیں کہ آج کیا کھانا ہے؟ کیا پکانا ہے؟کیا پہنے؟ کیا تحفے تحائف دیں؟
انکو بھی بیشمار مال عطا کردیا۔
اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟

کچھ رو پڑے کچھ بدل گئے اور کچھ پھر بھی وہی کے وہی رہے۔
کیونکہ سچ ہر دل کو نہیں بھاتا مگر جو دل اللہ کی طرف رجوع کر لے وہی اصل "مومن" کہلاتا ہے۔
نماز کے بعد اس مسافر نے خاموشی سے سب کو دیکھا اور بس ایک سوال کیا:
"اگر شراب پینے والا،زنا کرنے والا،حرام کھانے والا،چرس پینے والا،جھوٹ بولنے والا،غیبت کرنے والا،جانوروں کی عبادت کرنے والا اور دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے والا خود کو مومن کہے…
تو پھر کافر کون ہے؟"
باب پنجم: مسجد میں سناٹا
یہ سوال گویا آسمان سے بجلی بن کر گرا۔ سب ساکت ہو گئے۔حاجی صاحب کا چہرہ زرد ہو گیا نمازی نظریں جھکا کر بیٹھ گئے۔
اس مسافر نے کہا:
"مومن وہ ہے جس کا ظاہر بھی پاک ہو، اور باطن بھی۔ جو زبان سے بھی سچ بولے اور عمل سے بھی۔جو حسین کا نام لے مگر کردار بھی حسین جیسا ہو۔جو دین کی بات کرے، مگر خود بھی دین پر چلے۔"
باب ششم: آئینہ نفس کے سامنے
اس دن نور نگر کے لوگوں نے پہلی بار خود کو آئینے میں دیکھا۔
وہ یزید کو گالیاں دیتے حسین کے نام پر ماتم کرتے لیکن زینبوں کی عزت ان کے محفلوں میں محفوظ نہ تھی۔حسین کا نام لیتے، مگر ان کے راستے کو چھوڑ چکے تھے۔
باب سوم: دین فقط زبان تک؟
نور نگر کے لوگ شراب پیتے مگر اس پر شرم محسوس نہ کرتے کہتے "بس شوق ہے نیت صاف ہے"۔
چرس پیتے اور کہتے "دل کا سکون ملتا ہے"۔
زنا کرتے اور کہتے "عشق ہے گناہ نہیں"۔
حرام کماتے اور کہتے "حالات ایسے ہیں"۔
لیکن سب ایک دوسرے کو کافر کہنے سے پیچھے نہ ہٹتے۔
باب چہارم: ایک اجنبی ایک سوال
ایک دن ایک مسافر مسجد آیا۔وہ جمعے کا دن تھا۔سراج الدین صاحب خطبہ دے رہے تھے، یزید کو گالیاں دے رہے تھے جنت کی باتیں ہو رہی تھیں ایمان کی تعریف ہو رہی تھی، اور نعرے لگ رہے تھے۔
عنوان: اگر یہی مومن ہیں… تو کافر کون؟
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
باب اول: نور نگر کا چمکتا چہرہ، اور سیاہ باطن
نور نگر ایک خوبصورت گاؤں تھا۔ وہاں کے لوگ خود کو "صاحبِ ایمان"، "مومن"، "عاشقِ رسول"، اور "محبِ اہلِ بیت" کہتے تھے۔ جمعہ کو مسجدیں بھر جاتیں، عید میلاد، محرم، شبِ برات پر جلوس نکلتے، نعرے لگتے، پرچم لہرائے جاتے۔ لیکن ان نعروں کے پیچھے جو کردار چھپے تھے، وہ کچھ اور ہی کہانی سناتے تھے۔
باب دوم: ظاہر کچھ، باطن کچھ اور
سراج الدین صاحب نہ صرف گاؤں کے امام مسجد تھے، بلکہ حاجی صاحب بھی کہلاتے۔ ان کی داڑھی لمبی، ماتھے پر سجدے کا نشان، ہاتھ میں تسبیح، اور زبان پر درود شریف۔ لیکن ان کے بیٹے کے گودام میں جعلی دوائیاں بنتیں، بیٹی کے موبائل میں حرام تصویریں ہوتیں، اور خود راتوں کو نجومیوں کے پاس دم کروانے جاتے۔
ایسے لوگ دنیا کی جاہ و جلال سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور اللہ کی محبت ہی ان کی زندگی کا مقصد بن جاتی ہے۔
عشقِ الٰہی میں فنا کی علامتیں
1. دنیا سے بے رغبتی:
عشقِ الٰہی میں فنا ہونے کے بعد انسان کی نظر دنیا کی ہر چیز پر سے ہٹ جاتی ہے۔ وہ دنیا کے جاہ و مال کو حقیر سمجھنے لگتا ہے، کیونکہ اس کے دل میں اللہ کی محبت اور رضا کی چمک ہوتی ہے۔
2. اپنی ذات کا مٹنا:
اس مقام پر انسان اپنی ذاتی خواہشات اور egos کو مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں اللہ کی مرضی کے مطابق چلنے لگتا ہے۔
3. صبر اور شکر کی حالت:
عشقِ الٰہی میں فنا ہونے والا انسان ہر حال میں اللہ کے فیصلوں کو قبول کرتا ہے چاہے حالات خوشگوار ہوں یا کٹھن۔
وہ ہر لمحہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کیونکہ اسے اپنی زندگی میں صرف اللہ کی رضا کی تلاش ہوتی ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان صرف اور صرف اللہ کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے اور دنیا کی تمام فانی محبتیں اس کے لیے ماضی کی بات بن جاتی ہیں۔
فنا فی اللہ: اپنی ہستی کا مٹانا
فنا فی اللہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی ذاتی خواہشات عیش و آرام اور دنیا کے فانی معاملات سے آزاد ہو جاتا ہے۔
یہ وہ کیفیت ہے جس میں انسان صرف اللہ کی رضا اور اس کی محبت میں گم ہو جاتا ہے، اور اپنی ذاتی خواہشات کو اللہ کے حکم کے تابع کر دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان، مال اور وقت کو قربان کرتے ہیں اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔"
(سورۃ التوبہ: 111)
جب انسان اللہ کی رضا میں فنا ہوتا ہے تو وہ اپنی ہستی کو مٹاکر اللہ کی رضا کی پوری کوشش کرتا ہے۔
4. عشقِ الٰہی میں فناء:
انسان اپنی ذات کو مٹا کر صرف اللہ کی محبت میں فنا ہو جاتا ہے۔
خلاصہ:
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت انسان کی روحانی زندگی کا اصل مقصد ہے۔
یہ محبت انسان کو اس کی فطرت کی تکمیل سکون اور اطمینان فراہم کرتی ہے۔
جب انسان اللہ کی رضا میں خوش رہتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتا ہے، تو وہ حقیقی محبت میں سرشار ہو جاتا ہے، اور اس کی زندگی میں کامیابی اور سکون آ جاتا ہے۔
باب 8: عشقِ الٰہی میں فنا ہونے کے بعد کی حقیقت
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
عشقِ الٰہی میں فنا ہونا ایک انتہائی بلند روحانی مقام ہے جس میں انسان اپنی تمام خواہشات اپنی ہستی اور اپنی ہر چیز کو اللہ کی رضا میں قربان کر دیتا ہے۔
فنا کا مطلب ہے: "اپنی ذات کا مٹ جانا اور اللہ کی ذات میں گم ہو جانا"۔
محبتِ حقیقی میں انسان اپنی ذات اپنی خواہشات اور اپنے نفسانی جذبوں کو اللہ کی رضا کے سامنے سرنگوں کر دیتا ہے اور اللہ کی محبت میں سکون حاصل کرتا ہے۔
محبوبِ حقیقی کی محبت کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ انسان اپنے محبوب کے احکام کو دل سے مانتا ہے اور ہر حال میں ان کی پیروی کرتا ہے۔
محبتِ حقیقی کی علامات:
1. اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت:
ہر مسلمان کا دل اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جذبے سے معمور ہوتا ہے۔
2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل:
انسان اپنی زندگی میں ہر عمل میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنانا شروع کرتا ہے۔
3. محبوب کی رضا کی تلاش:
انسان اپنی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے وقف کر دیتا ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain