آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آپ کی سادگی آپ کا حسن اخلاق اور آپ کا دین کے لیے جذبہ، یہ سب چیزیں مسلمانوں کو اللہ کے قریب لانے کا سبب بنتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے لیے اس کے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔"
(صحیح بخاری)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور پیروی کرنا ایمان کی تکمیل ہے اور یہی محبت انسان کو اللہ کے قریب لے جاتی ہے۔
محبوبِ حقیقی کی محبت کی حقیقت
جب انسان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے تو اس کی زندگی میں ایک گہری تبدیلی آتی ہے۔
یہ محبت انسان کو اپنی زندگی کے ہر گوشے میں سکون دیتی ہے اور وہ اپنے تمام عملوں میں اللہ کی رضا کی کوشش کرتا ہے۔
(سورۃ آل عمران: 146)
اللہ کی محبت انسان کو ہر چیز سے بلند کر دیتی ہے کیونکہ اللہ کے محبوب بندے کو دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں عطا کی جاتی ہیں۔
اللہ کی محبت میں انسان اپنی زندگی کا مقصد اور رہنمائی پاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبتِ حقیقی کے سفر میں بنیادی کردار ہے۔
جب انسان اپنے دل میں اللہ کی محبت بسانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرتا ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی محبت، ایثار، وفا اور قربانی کی علامت تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعمال اور کردار کے ذریعے ہمیں یہ سکھایا کہ محبت کا اصل معیار اللہ کی رضا ہے۔
باب 7: محبوبِ حقیقی: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
عشقِ حقیقی میں سب سے اہم چیز محبوب کی حقیقت کو سمجھنا ہے۔
محبوبِ حقیقی صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور اسی کی محبت میں انسان کا دل راضی اور خوش رہتا ہے۔
اللہ کی محبت کے بعد انسان کا محبوبِ حقیقی اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور رحمت کا پیغام دےکر انسانوں کے لیے نمونہ بنایا۔
اللہ تعالیٰ کامحبوب ہونا
اللہ تعالیٰ کامحبوب ہونا انسان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
اللہ کی محبت صرف الفاظ میں نہیں بلکہ عمل میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔انسان جب اللہ کی رضا کے لیے اپنےعمل کرتا ہے تووہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
"بے شک اللہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں۔"
4. سکون: دنیا کے تمام مسائل اور پریشانیوں میں اللہ کی رضا کی تلاش میں سکون ملتا ہے
اولیاء کرام کا عشق
اولیاء کرام کی زندگیوں میں ہم عشقِ حقیقی کی بہترین مثالیں دیکھتے ہیں۔
حضرت رابعہ بصریؒ کا عشقِ الٰہی اور حضرت شمس تبریزیؒ کی زندگی ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ کیسے ایک انسان دنیاوی محبتوں کو اللہ کی محبت کی روشنی سے بدل دیتا ہے۔
حضرت امام حسینؓ کا عشقِ الٰہی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جب انسان اللہ کے راستے میں اپنی جان دینے کے لیے تیار ہو جائے تو یہ عشقِ حقیقی کی سب سے بلند ترین سطح ہے۔
خلاصہ:
عشقِ مجازی انسان کو اللہ کے قریب لے جانے کا ذریعہ بن سکتا ہے اور ایک دن وہ عشقِ حقیقی کی حقیقت تک پہنچتا ہے۔
یہ سفر ایک گہری روحانی تبدیلی کا حامل ہے، جس میں انسان اپنی تمام خواہشات اور خودی کو اللہ کی رضا میں مٹا دیتا ہے۔
اور اپنی ذات کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے۔
عشقِ حقیقی کا سفر خود کو اللہ کے احکام کے مطابق ڈھالنے سے شروع ہوتا ہے اور پھر ہر عمل میں اللہ کی رضا کی تلاش ہوتی ہے۔
عشقِ حقیقی کا حصول
عشقِ حقیقی حاصل کرنے کے لیے انسان کو اپنے نفس کی اصلاح کرنا ہوتی ہے۔
یہ وہ مقام ہے جب انسان اپنی دنیاوی خواہشات جذبات اور خواہشوں کو اللہ کی رضا کے تحت نیا رُخ دیتا ہے۔
جب انسان اللہ کی محبت میں فنا ہوتا ہے تو وہ ہر کام میں اللہ کی رضا کا متلاشی ہو جاتا ہے اور اس کا دل دنیا کی فانی محبتوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
عشقِ حقیقی کی علامات:
1. رضا باللہ: انسان اللہ کی رضا کو سب کچھ سمجھتا ہے
2. نفس کا تزکیہ: اپنے نفس کو اللہ کے حکموں کے مطابق ڈھالنا
3. اللہ کی یاد: ہر لمحہ اللہ کی یاد دل میں بسی رہتی ہے
لیکن جب انسان کے دل میں اللہ کی محبت کا شغف آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ محبت صرف ایک وقتی چیز ہے اور اصل محبت تو اللہ کی ذات سے ہونی چاہیے۔
عشقِ مجازی میں انسان اپنے دل کی طلب کو مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن آخرکار وہ سمجھتا ہے کہ یہ محبت اسے مکمل سکون نہیں دے سکتی۔
عشقِ حقیقی کی طرف سفر
عشقِ مجازی کا جب انسان کے دل میں گہرا اثر ہوتا ہے، تو وہ ایک دن دل کی اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ سچا عشق صرف اللہ سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور اسی کی محبت انسان کو سکون دے سکتی ہے۔
عشقِ حقیقی کا آغاز اُس لمحے سے ہوتا ہے جب انسان اللہ کے ساتھ اپنی ہستی کی وابستگی محسوس کرتا ہے اور اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانتا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنی ہر خواہش کو اللہ کی رضا کے تابع کر دیتا ہے
باب 6: عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کا سفر
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کے درمیان ایک گہرا فرق ہے۔
عشقِ مجازی وہ عشق ہے جو انسان دنیاوی چیزوں انسانوں یا مخلوق کےساتھ کرتا ہے، جبکہ عشقِ حقیقی وہ ہے جوانسان اپنے خالق سے کرتا ہے۔
یہ دونوں عشق آپس میں جڑے ہوئے ہیں کیونکہ اگر انسان عشقِ مجازی میں سچا ہو تو وہ ایک دن عشقِ حقیقی کی حقیقت تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
عشقِ مجازی کا آغاز
عشقِ مجازی انسان کے دل میں ایک خاص قسم کی کشش پیدا کرتا ہےجو اسے اپنی حقیقت کو دریافت کرنے کیطرف لے جاتی ہے۔
عشقِ مجازی کسی انسان شے یا محبت کی مخلوق سے شروع ہوسکتا ہے اور یہ جذبہ انسان کو کبھی سکون اور کبھی پریشانی دیتا ہے۔
جب انسان کسی شے سے محبت کرتا ہے تو اسکا دل اُس شے میں ایک خاص قسم کی تسکین اور مکملیت تلاش کرتا ہے۔
محبت کی حقیقت
اسلام میں محبت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان اپنی محبت کو اللہ کی رضا کے لیے وقف کرے اور جو محبت اللہ کے لیے ہو وہ کبھی بھی فاسد یا ناپاک نہیں ہو سکتی۔
جب انسان اللہ کی محبت کو اپنی زندگی کا مرکز بناتا ہے تو وہ دنیا کے تمام فتنوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے دل میں کوئی اور محبت نہیں آتی جو اسے اللہ کی رضا سے دور کرے۔
اسلام میں محبت کا یہ مفہوم ہے کہ انسان خود کو اللہ کی رضا میں ملوث کرے اس کی ہدایت کی طرف راغب ہو اور اسی کی رہنمائی میں زندگی گزارے۔
خلاصہ:
اسلام میں محبت کا مفہوم صرف دنیاوی تعلقات تک محدود نہیں بلکہ یہ روحانیت اللہ کی رضا اور انسان کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔
اللہ کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دین اسلام سے محبت وہ راستے ہیں جو انسان کو اللہ کے قریب لے جاتے ہیں۔
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی مسلمان کی محبت کا دروازہ تب کھلتا ہے جب وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا محبوب سمجھتا ہے۔
دینِ اسلام سے محبت
اسلامی تعلیمات میں محبت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔
ایمان کی حقیقت محبت ہی ہے، کیونکہ ایمان کا ہر جزو محبت پر مبنی ہے۔
ہر مسلمان کو اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرنی چاہیے۔
محبت میں عمل بھی ضروری ہے کیونکہ اگر کسی کو واقعی محبت ہو تو وہ اس کے مطابق عمل بھی کرے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو بہترین اخلاق کا مالک ہو۔"
(صحیح بخاری)
یہ محبت صرف دل میں نہیں بلکہ عمل میں بھی ظاہر ہونی چاہیے۔
یہی وہ محبت ہے جو انسان کو صبر ایمان اور یقین عطا کرتی ہے اور اسے زندگی کے ہر مرحلے میں کامیاب بنانے کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بھی ہر مسلمان کے دل میں ہونی چاہیے کیونکہ وہ اللہ کے محبوب ہیں اور اسی کے ذریعہ انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لیے رحمت اور ہدایت کا ذریعہ بنایا اور مسلمانوں پر یہ فرض کر دیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں اور ان کی سنت پر عمل کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا:
"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میں اس کے لیے اس کے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔"
(صحیح بخاری)
باب 5: اسلام میں محبت اور عشق کی حقیقت
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
اسلام میں محبت اور عشق کی حقیقت بہت گہری ہے، کیونکہ یہ دونوں اس دین کی اساس ہیں۔
اللہ کی محبت اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور دینِ اسلام کی محبت ایک مسلمان کے دل میں بسے ہوئے ہیں اور یہ اس کی روحانیت کا محور ہیں۔
اللہ کی محبت
اللہ کی محبت سب سے بلند اور عظیم محبت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی محبت کسی بھی محبت سے زیادہ ضروری اور لازمی ہے۔یہی وہ محبت ہے جو انسان کو اس کی حقیقت تک پہنچاتی ہے، اور اس کے دل کو سکون اور اطمینان دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
"اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور جن کے دل اللہ کی یاد سے اطمینان پاتے ہیں، آگاہ ہو جاؤ! اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔"
(سورۃ الرعد: 28)
عشقِ الٰہی کا اثر
جب انسان اللہ سے عشق کرتا ہے، تو:
وہ حرام سے بچتا ہے
وہ نفس کو قابو میں رکھتا ہے
وہ نیکی میں راحت محسوس کرتا ہے
وہ ہر چیز میں اللہ کو دیکھنے لگتا ہے
عشق عبادت کو لذت بنا دیتا ہے۔
عشق آنسوؤں کو عبادت بنا دیتا ہے۔
عشق راتوں کو جاگنے کا سکون بنا دیتا ہے۔
اقوالِ اولیاء
حضرت مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
"عشق وہ آگ ہے جو جب لگتی ہے تو صرف محبوب کو باقی چھوڑتی ہے۔"
حضرت شمس تبریزیؒ کہتے ہیں:
"جس دل میں عشقِ حقیقی آ جائے، وہاں دنیا کی محبت خود ہی دم توڑ دیتی ہے۔"
خلاصہ:
عشق صرف جذبہ نہیں ایک سجدہ ہے۔
یہ سجدہ رب کی محبت میں اس کے حکم میں اور اس کی رضا میں خود کو مٹا دینے کا نام ہے۔
عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی
1. عشقِ مجازی:
یہ کسی انسان شےیاچیز سےکیا جانےوالا عشق ہوتا ہے۔
اگرچہ ابتدا میں یہ دنیوی ہوتاہےمگر اگر خلوص پاکیزگی اورقربانی پرقائم رہےتو یہ انسان کو عشقِ حقیقی کےدروازےتک لے جا سکتاہے۔
مثال:
مجنوں کا لیلیٰ سےعشق یافرہادکاشیریں کے لیے پہاڑ کاٹنا۔
لیکن اگریہی جذبہ پاکیزہ نیت کےساتھ ہوتو یہ دل کواللہ کی طرف موڑسکتاہے۔
2. عشقِ حقیقی:
یہ صرف اللہ تعالیٰ اسکےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دینِ اسلام سے ہوتا ہے۔
یہی اصل عشق ہےجوانسان کودنیا سےکاٹ کر رب سے جوڑ دیتا ہے۔
مثال:
حضرت بلالؓ کا عشقِ رسول،
حضرت رابعہ بصریؒ کا عشقِ الٰہی،
حضرت حسینؓ کا عشقِ حق۔
عشق کے مراحل
1. طلب: محبوب کی چاہت
2. تکلیف: ہر آزمائش برداشت
3. قربانی: اپنی ہر چیز نچھاور
4. فناء: اپنی ہستی کو مٹانا
5. وصال: محبوب کی رضا فنا ہو جانا
کبھی وقت دور لے جاتا ہے کبھی حالات بدل جاتے ہیں مگر سچی محبت ہر حالت میں قائم رہتی ہے۔
اگر محبت سچی ہو تو وہ انسان کو اللہ کے قریب لے جاتی ہے۔
باب 4: عشق – فناء فی المحبوب
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
عشق وہ آخری اور سب سے بلند منزل ہے،جو پیار اور محبت کی گلیوں سے گزر کر حاصل ہوتی ہے۔
عشق کوئی عام جذبہ نہیں یہ ایک روحانی انقلاب ہے جو دل کو جلا دیتا ہے،نفس کو پگھلا دیتا ہے اور انسان کو اس کی خودی سے آزاد کر دیتا ہے۔
عشق فنا کا سفر ہے مگر محبوب کی رضا میں بقا کا ذریعہ۔
عشق کی تعریف
عشق اس حالت کو کہتے ہیں جہاں عاشق کا اپنا وجود اپنی خواہش اپنا ارادہ حتیٰ کہ اپنی ہستی تک مٹ جاتی ہے،بس ایک ذات باقی رہتی ہے محبوب کی۔
عشق کا اصل مطلب ہے "خود کو مٹا دینا اور محبوب میں فنا ہو جانا۔"
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ان سے جو توبہ کرتے ہیں اور جو پاک رہتے ہیں۔"
(سورۃ البقرہ: 222)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی شخص کامل مومن نہیں ہو سکتا،جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔"
(صحیح بخاری)
یہی سچی محبت ہے ایثار،وفاداری،خلوص اور قربانی۔
محبت کی نشانیاں:
1. وفاداری – انسان محبوب کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا
2. خلوص – محبت میں نفع و نقصان کا حساب نہیں ہوتا
3. ایثار – اپنی خوشی چھوڑ کر دوسرے کی خوشی کو مقدم رکھنا
4. دعا – محبوب کی خیر مانگنا اس کی کامیابی کی تمنا کرنا
5. احترام – محبوب کی عزت کو اپنی عزت جاننا
محبت میں آزمائش
محبت ہمیشہ آسان نہیں ہوتی۔یہ آزمائشوں سے بھری ہوتی ہے۔
باب 3: محبت – وفا، خلوص اور ایثار کا نام
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
جب پیار دل میں گہرائی اختیار کرتا ہے، تو وہ محبت بن جاتا ہے۔
یہ صرف ایک جذبہ نہیں،بلکہ ایک ذمہ داری، ایک عہد اور ایک قربانی ہے۔
محبت میں صرف دوسروں کو خوش دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے چاہے اس کے لیے اپنی خواہشات کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
محبت کا مفہوم کیا ہے؟
محبت کا مطلب ہے:
کسی کے لیے خود کو بھول جانا اس کی خوشی کو اپنی خوشی بنانا اس کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا۔
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان صرف دل سے نہیں، روح سے وابستہ ہو جاتا ہے۔
محبت دو دلوں کا رشتہ نہیں دو روحوں کی ہم آہنگی کا نام ہے۔
اسلام میں محبت کی حقیقت
اسلام محبت کو عبادت کا درجہ دیتا ہے، بشرطیکہ وہ حدود کے اندر ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم کسی سے محبت کرو تو اسے بتاؤ۔"
(سنن ابی داؤد)
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پیار شرم کا نہیں، رحمت کا جذبہ ہے۔
یہ تعلق بناتا ہے نفرت ختم کرتا ہے اور دلوں کو قریب لاتا ہے۔
پیار میں چھپی خوبصورتی
پیار انسان کو نرم بناتا ہے
نفرتوں کو ختم کرتا ہے
رشتوں کو جوڑتا ہے
دل کو سکون دیتا ہے
پیار زندگی کے پہلے مرحلے کی علامت ہے۔اگر یہ سچا ہو تو آگے بڑھ کر محبت اور عشق بن سکتا ہے۔
اگر اس میں ملاوٹ ہو جائے تو یہ وقتی وابستگی بن کر ختم ہو جاتا ہے۔
باب 2: پیار – جذبے کی پہلی روشنی
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
پیار ایک ایسا جذبہ ہے جو فطرت سے جڑا ہوا ہے۔انسان آنکھ کھولتے ہی سب سے پہلے پیار محسوس کرتا ہے۔ماں کی آغوش باپ کی شفقت، بہن بھائیوں کی قربت یہ سب پیار ہی کی ابتدائی شکلیں ہیں۔
پیار میں شدت کم،نرمی زیادہ ہوتی ہے۔
یہ ایسا احساس ہے جو آہستہ آہستہ دل میں اترتا ہے، اور بنا شور کیے انسان کے اندر جگہ بنا لیتا ہے۔
پیار کا مطلب ہے کسی کے وجود سے خوشی محسوس کرنا اس کی موجودگی کو نعمت سمجھنا۔
یہ وہ پہلی سیڑھی ہے جہاں انسان کسی سے قریب ہونے لگتا ہے۔اس میں توقع کم اور احساس زیادہ ہوتاہے۔پیار دل کو کھولنا سکھاتا ہےمگر اپنی پہچان کوختم نہیں کرتا۔
اس میں نہ اناہوتی ہے نہ مقابلہ۔
یہ سادہ،نرم مگردل میں اترجانےوالا جذبہ ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سےبھی پیارکوایک پاکیزہ جذبہ سمجھاگیا ہے۔
باب 1: تمہید – محبت کیا ہے؟
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
انسانی دل کی سب سے لطیف کیفیت اگر کوئی ہے تو وہ ہے محبت۔
یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی کو نظر نہیں آتا مگر محسوس ہر دل کرتا ہے۔
محبت وہ شعلہ ہے جو خاموشی سے دل کو جلا دیتی ہے اور روح کو نرمی عطا کر دیتی ہے۔
محبت کے بغیر زندگی ایک خالی کمرہ ہے جس میں نہ خوشبو ہے،نہ رنگ،نہ روشنی۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرتاً محبت کرنے والا پیدا کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان چاہے بچپن میں ہو یا بڑھاپے میں کسی نہ کسی سے پیار ضرور کرتا ہے۔
یہ پیار کبھی ماں باپ سے ہوتا ہے،کبھی دوستوں سے اور کبھی کسی خاص شخصیت سے۔
لیکن ان سب محبتوں سے بلند ایک محبت ہے محبتِ الٰہی۔
اور یہ وہ عشق ہے جس میں انسان اپنی ہستی کو مٹا کر صرف اپنے رب کی رضا میں جیتا ہے۔
غزہ کے لوگ، جنہوں نے اپنی زمین کے لئے اتنی قربانیاں دی ہیں وہ ہمیشہ اپنی امیدوں اور خوابوں کو اپنے سینے میں زندہ رکھتے ہیں اور ان کی مزاحمت ایک دن کامیاب ہوگی۔
آخر میں
یوسف اور ابو عادل کی کہانی محض غزہ کے ایک خاندان کی کہانی نہیں بلکہ پورے فلسطین کی کہانی ہے۔یہ ایک ایسی قوم کی کہانی ہے جو ہر دن بموں کے درمیان جیتی ہے جو اپنے خوابوں کو کبھی مرنے نہیں دیتی اور جو اپنے وطن کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کے لئے تیار رہتی ہے۔
یوسف کا دل ہمیشہ یہ کہتا تھا:
"ہم آزادی کا سفر کبھی نہیں روکیں گے، کیونکہ فلسطین کی سرزمین پر ہمیں امید کی شمع ہمیشہ جلاتی رہنی ہے۔"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain