Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

فلسطین کی سرزمین مسلسل خون سےرنگی ہوئی تھی اور غزہ کےلوگ ہرروز اپنی زندگی کی قیمت پر آزادی کےلئے لڑ رہے تھے۔
باب 3: مزاحمت کی روشنی
یوسف اور اسکے والد ابو عادل کبھی بھی ہمت نہیں ہارے۔جب دوسرےلوگ خوف کےمارے اپنے گھروں میں بند ہوگئے ابو عادل اور یوسف نے اپنے چھوٹے سے ورکشاپ کودوبارہ چلانے کی کوشش کی۔انھوں نےجانا کہ فلسطین کی سب سے بڑی طاقت اسکے لوگ ہیں اور ان کی امیدیں اور دعائیں کسی بھی بم سے زیادہ طاقتور ہیں۔
ایک دن یوسف نے ابو عادل سے کہا:
"بابا میں بھی اس جنگ کا حصہ بننا چاہتا ہوں میں بھی فلسطین کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔"
ابو عادل نے اپنے بیٹے کو گلے لگایا اور کہا:
"تمھارے دل میں جو عشق ہے وہ ہی فلسطین کی آزادی کی اصل طاقت ہے مگریاد رکھو، تمہیں اس دنیا میں اپنے کردار کو بہتر بنانا ہوگاعلم اورحکمت کی طاقت سےاس جنگ کو جیتنا ہوگا۔

MAKT_PAK
 

یہ الفاظ یوسف کے دل میں ایک روشنی کی مانند جلے،لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ جنگ محض لڑائی نہیں تھی،یہ ایک مسلسل جدوجہد تھی جس میں انسانوں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں۔
باب 2: جنگ کی دہکتی ہوائیں
ایک دن غزہ پر ایک شدید فضائی حملہ ہوا۔ زمین لرز اُٹھی۔یوسف اور اس کے والد ابو عادل چھپنے کے لئے گھر کی چھت پر دوڑ گئے۔کچے مکانوں کی چھتیں گر گئیں،دیواریں لرز گئیں اور دھواں ہر طرف پھیل گیا۔
یوسف کی آنکھوں میں خوف تھا،لیکن اس کے دل میں ایک گہری خواہش بھی تھی فلسطین کی آزادی کا خواب وہ جسے اپنے والد کی دعاؤں کے ساتھ جیتنے کی کوشش کرتا تھا۔
"یہ سب کچھ کب تک چلے گا؟" یوسف نے اپنے والد سے پوچھا۔
"جب تک تمہارے دل میں امید کا شمع جلتا ہے،تب تک یہ جنگ کبھی نہیں ہاریں گے۔" ابو عادل نے جواب دیا۔
لیکن یہ حملے صرف ایک دن کے نہیں تھے۔

MAKT_PAK
 

کہانی: "دھکتے ہوئے شمعیں"
مصنف: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
باب 1: غزہ کی گلیوں میں سکون کا خواب
غزہ کی گلیوں میں،جہاں ہر لمحہ خوف کی ہوا چلتی ہے،ایک بچہ یوسف اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔یوسف کا خواب تھا کہ وہ ایک دن اسکول جائے گا،کتابیں لے کر علم حاصل کرے گا اور فلسطین کو ایک نیا رخ دے گا۔ مگر وہ جانتا تھا کہ اس خواب کی تکمیل آسان نہیں ہوگی۔
غزہ کا یہ حصہ ہر دن بمباری،حملوں اور خوف کے سائے میں گزرتا تھا۔گھر کے دروازے سے باہر نکلنا ایک خطرہ تھا،لیکن پھر بھی یوسف کی آنکھوں میں ایک امید کی چمک تھی۔
یوسف کا والد، ابو عادل، ایک چھوٹے سے ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کو کہتا:
"یہ زمین تمہاری ہے،تمہاری جدوجہد تمہارے لوگوں کی عزت اور آزادی کے لئے ہے۔تمہیں کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔"

MAKT_PAK
 

وہ کامیاب تو ہو گیا لیکن اب اس کی کامیابی خاموش تھی۔وہ نہ محفلوں کا حصہ تھا نہ تصویروں کا۔صرف ایک تنہا شخص،جو اصل وفا کو تلاش کر کے خود کو پا چکا تھا۔
آخری صفحہ: حقیقت کا چہرہ
شہریار نے ایک کتاب لکھی،عنوان تھا:
"چہرے اور موسم"
ذیلی سطر: "کبھی مخلص، تو کبھی منافق — یہ دنیا صرف ماحول کے حساب سے بدلتی ہے"
کتاب کی آخری لائن تھی:
> "میں نے بہت سے چہرے دیکھے…کچھ خلوص کے نقاب میں چھپے تھے کچھ مطلب کے ننگے…مگر سب ایک جیسے تھے ماحول کے مطابق۔"

MAKT_PAK
 

وہ دوست جس نے کبھی کہا تھا "میرا گھر تیرا ہے"،اس نے فون ہی بند کر دیا۔
شہر کی روشنیوں میں وہ اب اکیلا رہ گیا تھا۔
ایک رات وہ چھت پر بیٹھا،آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔کچھ کہنے سے پہلے اس کی آنکھ سے ایک خاموش آنسو گرا اور دل میں ایک جملہ ابھرا:
"کبھی مخلص تو کبھی منافق ہیں،یہ مطلب پرست لوگ ماحول کے مطابق ہیں…"
باب 4: تنہائی کی روشنی
چند ماہ کے اندھیروں کے بعد،شہریار نے ایک نئی راہ چنی۔اس نے سب کو چھوڑ کر خود سے دوستی کی۔مطالعہ شروع کیا سادگی سے زندگی گزاری اور اپنے رب سے تعلق جوڑ لیا۔
رفتہ رفتہ اس نے ایک نیا چھوٹا کاروبار شروع کیا، اور اس بار کسی کو شریک نہیں کیا۔وہ جان چکا تھا کہ دنیا کے لوگ موسم کی طرح ہوتے ہیں جب فائدہ ہو تو سائے بنتے ہیں اور جب فائدہ ختم ہو تو دھوپ میں چھوڑ جاتے ہیں۔
وقت کے ساتھ شہریار پھر سنبھل گیا۔

MAKT_PAK
 

کچھ دوستوں کو ساتھ ملا کر شراکت داری میں کاروبار بڑھایا۔پیسہ آنے لگا رتبہ بڑھنے لگا، اور ساتھ ساتھ اردگرد لوگوں کی تعریفوں میں شدت آتی گئی۔
ایک دن اُس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی ایک نیا منصوبہ بڑی امیدوں کے ساتھ۔
مگر اچانک ملک کے حالات خراب ہو گئے۔ کاروبار بند ہونے لگا۔نقصان پر نقصان شراکت داروں نے پیچھے ہٹنا شروع کیا۔کچھ نے بہانہ کیا،کچھ نے اسے ہی قصوروار ٹھہرا کر ہاتھ جھاڑ لیے۔
شہریار نے جب اپنے سب سے قریبی دوست حسن سے مدد مانگی تو وہ مسکرا کر بولا:
"یار، مجھے تو شروع سے ہی اندازہ تھا کہ یہ پلان ٹھیک نہیں۔تم نے ہماری نہ سنی اب خود بھگتو۔"
وہی حسن جو کل تک اس کے فیصلوں پر فخر کیا کرتا تھا آج خود کو اس سے الگ ثابت کرنے پر تُلا ہوا تھا۔
باب 3: نقاب اُترتے ہیں
جس دن شہریار کے گھر کا بجلی کا کنکشن کٹ گیا

MAKT_PAK
 

ناول نما کہانی: "چہرے اور موسم"
مصنف: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
باب 1: روشنیوں میں سچ کی تلاش
شہریار ایک نہایت صاف دل،مہربان طبیعت رکھنے والا نوجوان تھا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے ایک چھوٹے سے ادارے میں نوکری کی شروعات کی۔وہ خوش تھا کہ وہ اپنے زورِ بازو سے کچھ بننے جا رہا ہے۔
شہریار کا ماننا تھا کہ خلوص،دیانت اور محبت سے دنیا کو جیتا جا سکتا ہے۔اسکے دوستوں، دفتر کے ساتھیوں اور یہاں تک کہ محلے داروں تک میں اس کی نیک نامی پھیل چکی تھی۔
ہر محفل میں اس کا ذکر عزت سے کیا جاتا، ہر مشورہ میں اس کی رائے لی جاتی اور ہر مشکل وقت میں لوگ اس کی دوستی کے دعوے کرتے۔
مگر شہریار کو اندازہ نہ تھا کہ یہ دنیا صرف چہروں کی بات کرتی ہے کردار کی نہیں۔
باب 2: موسم بدلتے ہیں
چند برس گزرے۔شہریار نے محنت سے ترقی حاصل کی۔اپنی چھوٹی سی کمپنی شروع کی۔

MAKT_PAK
 

وہ ہنس رہے تھے،پرانی باتیں کر رہے تھے اور سعد کو دیکھ کر گرمجوشی سے گلے ملے۔
جنید نے کہا:
"یار،ہم نے سوچا تجھ سے ملیں،پرانے دن یاد کریں۔ویسے تُو نے تو بڑا کمال کر دیا!"
سعد نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:
"ہاں…وقت نے سکھا دیا کہ زندگی اور دوست کبھی وفا نہیں کرتے…اور جو ان پر بھروسہ کرے وہ خود سے بیوفائی کرتا ہے۔"
پھر وہ ان تینوں کی طرف دیکھے بغیر اپنے راستے پر چل دیا…
سورج غروب ہو رہا تھا…اور سعد کے دل میں ایک نیا سورج طلوع ہو چکا تھا خود پر یقین کا خاموشی کا اور صبر کا۔

MAKT_PAK
 

سعد کی پڑھائی چھوٹ گئی،چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں اس کے کندھوں پر آ گئیں۔اس نے دوستوں سے مدد مانگی کسی سے مشورہ، کسی سے کچھ پیسے اور کسی سے صرف حوصلہ۔
مگر سب نے خاموشی اوڑھ لی۔
کسی نے فون اٹھانا چھوڑ دیا،کسی نے مصروفیت کا بہانہ بنا لیا اور جنید نے تو یہاں تک کہہ دیا:
"یار سعد، تُو ہمیشہ جذباتی باتیں کرتا ہے۔ ہر وقت مدد نہیں مانگی جاتی، ہمیں بھی اپنی زندگی دیکھنی ہے۔"
سعد خاموش ہو گیا۔اس کی آنکھوں میں وہ آنسو نہیں تھے جو چیختے ہیں بلکہ وہ آنسو تھے جو اندر ہی اندر دل کو جلا دیتے ہیں۔
وقت گزرتا گیا۔سعد نے چھوٹا موٹا کام شروع کیا، دن رات محنت کی اور برسوں بعد خود کفیل ہو گیا۔وہ اب شہر کا ایک کامیاب تاجر تھا،مگر دل کے کسی کونے میں وہ کمی باقی تھی جو دوستی کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتی ہے۔
ایک دن اسے جنید کامران اور عمر دوبارہ ملے۔

MAKT_PAK
 

کہانی: "پت جھڑ کے سائے"
مصنف: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
سعد ایک حساس دل رکھنے والا نوجوان تھا۔ کم گو، مگر دل میں بےپناہ جذبات رکھنے والا۔ وہ دوستی کو رشتۂ ایمان سمجھتا تھا اور زندگی کو نعمتِ خداوندی۔
اسکے تین قریبی دوست تھے کامران،جنید اور عمر۔بچپن سے جوانی تک ان چاروں نے ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔امتحان کی تیاری ہو، کسی کی شادی ہو یا کوئی دل کا دکھ وہ ایک دوسرے کی ڈھال بنے رہتے۔
سعد کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی یہ تھی کہ اس کے دوست اس کی طاقت تھے۔ وہ اکثر کہا کرتا:
"زندگی چاہے جیسی ہو، اگر دوست مخلص ہوں تو سب آسان ہے۔"
لیکن اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وقت جب کروٹ لیتا ہے تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔
ایک دن سعد کے والد دل کے دورے سے انتقال کر گئے۔گھر کی آمدنی کا واحد ذریعہ ختم ہو گیا۔

MAKT_PAK
 

اب وہ ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک چپ لٹائے جیتا تھا۔وہ لوگوں کے درمیان رہتا ضرور تھا، مگر کسی پر دل نہیں کھولتا تھا۔
کسی نے پوچھا:
"تم اتنے خاموش کیوں ہو گئے ہو؟"
فیضان نے بس ایک جملہ کہا:
"زندگی اور دوست جب دل توڑ دیں…تو خاموشی ہی وفا بن جاتی ہے۔"

MAKT_PAK
 

کہانی: "اکیلا سفر"
مصنف: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
فیضان ایک خوش مزاج،محبت کرنے والا نوجوان تھا۔ وہ ہر رشتے میں خلوص ڈالتا،ہر دوست کے لیے سینہ حاضر رکھتا۔اس کی زندگی خوابوں سے بھری تھی اور دوستوں کا ایک حلقہ بھی جو ہر وقت اسے خوشیوں کا یقین دلاتا تھا۔
مگر قسمت کچھ اور لکھ چکی تھی۔
ایک دن اچانک اس کے والد کا انتقال ہو گیا، گھر کی ساری ذمہ داریاں اس کے کندھوں پر آ گئیں۔ جس دن اسے سب سے زیادہ کسی سہارے کی ضرورت تھی اس دن سب دوست مصروف ہو گئے۔
کوئی کام میں کوئی شہر سے باہر اور کوئی بالکل ہی لاپتہ۔
زندگی کی تھپڑ پر جب دوستوں کی بےوفائی کا چوٹ لگا،تب فیضان نے آسمان کی طرف دیکھ کر آہ بھری اور کہا:
"زندگی اور دوست…کبھی وفا نہیں کرتے۔"
فیضان نے خود کو سنبھالا۔دن رات محنت کی۔ پڑھا،کمایا،گھر سنبھالا ماں کی دوا کروائی۔

MAKT_PAK
 

گھر کے حالات اچھے نہیں۔"
سلمان نے بےرخی سے جواب دیا:
"یار زیشان، بات یہ ہے کہ اب ہماری کمپنی میں پروفیشنل لوگ کام کرتے ہیں۔تُو میرے بچپن کا دوست ضرور ہے لیکن کام اور دوستی الگ الگ چیزیں ہیں۔"
زیشان کو سانپ سونگھ گیا۔وہ چپ چاپ واپس لوٹ آیا۔دل شکستہ مگر سر بلند۔ اس نے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کام شروع کر دیا۔ دن رات محنت کی اور وقت کے ساتھ اپنا خود کا چھوٹا کاروبار شروع کر لیا۔
کچھ برس بعد سلمان کے حالات پھر خراب ہو گئے۔سب چھوڑ کر چلے گئے وہی دوست،وہی پارٹنر، سب۔آخر کار وہ زیشان کے پاس آیا، ندامت کے ساتھ۔
زیشان نے مسکرا کر کہا:
"دوستی نبھانے والا آج بھی میں ہوں…مگر اب میں وہ زیشان نہیں رہا جو وفاؤں کے صلے کا منتظر تھا۔"
اور پھر اس نے اپنی ڈائری بند کرتے ہوئے آہستہ سے کہا:
"دوست ہی کیا خوب وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں…"

MAKT_PAK
 

کہانی: "وفا کا انعام"
مصنف: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
زیشان ایک وفادار، نیک دل اور مخلص نوجوان تھا۔ اس نے اپنے دوست سلمان کے ساتھ بچپن سے لے کر جوانی تک ہر خوشی اور غم میں ساتھ دیا۔سلمان جب بیمار ہوا،زیشان نے دن رات اس کی خدمت کی۔ جب سلمان کا کاروبار ڈوبا، زیشان نے اپنی جمع پونجی دے کر اس کا سہارا بننے کی کوشش کی۔
سلمان ہر بار زیشان کو یہی کہتا:
"یار،تُو میرا سچا دوست ہے،میں تیری وفاؤں کو کبھی نہیں بھولوں گا۔"
وقت گزرتا گیا۔سلمان نے زیشان کے سہارے سے دوبارہ کامیابی حاصل کی۔وہ ایک کامیاب بزنس مین بن گیا، نئے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع ہو گیا۔اب وہ محفلوں کا ستارہ تھا اور زیشان؟ وہ پرانی یادوں کی ایک خاموش تصویر بن کر رہ گیا۔
زیشان نے ایک دن سلمان سے کہا:
"یار اب تمھاری کمپنی میں مجھے کوئی چھوٹی سی ملازمت ہی دے دو۔

MAKT_PAK
 

تنہائی میں اس نے کتابوں،قدرت اور عبادت سے رشتہ جوڑ لیا۔
اب وہ اکیلا تھا،مگر بے سکونی ختم ہو چکی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ:
"تنہائی بہت بہتر ہے مطلبی اور منافق دوستوں سے۔"
عارف اب مطمئن زندگی گزار رہا تھا،کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ سچی صحبت نہ ملے تو خاموشی سب سے بہتر رفیق ہے۔

MAKT_PAK
 

کہانی: "خاموشی کا سکون"
مصنف: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
کئی سال پہلے کی بات ہے،ایک نوجوان،عارف، شہر کی رنگینیوں میں گھرا رہتا تھا۔اسکے اردگرد بہت سے دوست تھے،ہنستے،مسکراتے، گھومتے پھرتے۔بظاہر زندگی خوشگوار لگتی تھی۔ مگر عارف کے دل میں ہمیشہ ایک عجیب سی بےچینی رہتی۔وہ سوچتا، ’’میرے دوست میرے ساتھ ہیں،مگر پھر بھی دل خالی کیوں ہے؟‘‘
ایک دن عارف سخت بیمار پڑ گیا۔اس نے اپنے قریبی دوستوں کو فون کیا،مگر کسی نے فون نہیں اٹھایا۔جنہوں نے اٹھایا وہ مصروفیت کا بہانہ بنا کر کنی کترا گئے۔عارف کئی دن اکیلا بستر پر پڑا رہا، یہاں تک کہ ایک پرانا ہمسایہ اس کی مدد کو آیا۔
اس واقعے کے بعد عارف نے سب سے رابطہ ختم کر دیا۔ کچھ لوگ آئے،معذرت کی،مگر عارف نے خاموشی اختیار کرلی۔اس نے پہاڑوں کے دامن میں ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لیا اور وہیں رہنے لگا۔

MAKT_PAK
 

https://www.facebook.com/share/r/1A8QSCaekL/
.
.
.
جسکو اللّٰہ رکھے اسے کون چکھے؟

MAKT_PAK
 

اگر کوئی شخص خوف،سازش یا خطرے کا شکار ہو تو سورہ فیل کی تلاوت اللہ کی مدد کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
2. سفر کی حفاظت:
کچھ علما نے فرمایا کہ سفر کے دوران سورہ فیل کی تلاوت حفاظت اور امن کا ذریعہ بن سکتی ہے خصوصاً جب سفر خطرناک ہو۔
3. دشمن کے منصوبوں کی ناکامی کے لیے:
اگر کوئی شخص کسی کے شر سے پریشان ہو، اور محسوس کرے کہ کوئی اس کے خلاف چالیں چل رہا ہے تو سورہ فیل کی کثرت سے تلاوت اس چال کو ناکام بنا سکتی ہے (جیسا کہ آیت میں "أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ" فرمایا گیا)۔
4. سبق آموز تعلیم:
یہ سورہ بچوں کو اور بڑوں کو یہ سکھاتی ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے غرور کا انجام تباہی ہے، اور اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔

MAKT_PAK
 

قریش کے پاس کوئی جنگی طاقت نہیں تھی، مگر اللہ نے ان کے دشمنوں کو خود ختم کر دیا۔
4. ظلم و غرور کا انجام:
ابراہہ نے غرور،تکبر اور دینی دشمنی میں کعبہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔یہ سورہ بتاتی ہے کہ جو بھی اللہ کے دین اس کی نشانیوں یا اس کے گھر کے خلاف سازش کرے گا وہ ضرور ذلیل و خوار ہوگا۔
5. اللہ کا دشمنوں پر عذاب:
اللہ تعالیٰ ہر دور کے "اصحاب الفیل" (دین دشمنوں) کو نشان عبرت بناتا ہے۔اس سورہ کے ذریعے ہمیں یقین دلایا جاتا ہے کہ باطل کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو انجام کار شکست اسی کا مقدر ہے۔
روحانی اور عملی فوائد (روایات اور تجربات کی روشنی میں):
1. دشمنوں کے شر سے حفاظت:
سورہ فیل کو پڑھنا اللہ تعالیٰ سے دشمنوں کے شر سے پناہ لینے کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔

MAKT_PAK
 

سورہ فیل کے فضائل و اسباق (تفصیل کے ساتھ):
1. اللہ کی قدرت کا عظیم مظاہرہ:
یہ سورہ اس حقیقت کا اعلان کرتی ہے کہ اگرچہ ابراہہ کا لشکر طاقتور،منظم اور ہاتھیوں سے لیس تھا،مگر اللہ کی قدرت کے سامنے وہ بےبس تھا۔اللہ نے محض چھوٹے پرندوں کے ذریعے ان پر عذاب نازل فرمایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ جب چاہے کمزور سے کمزور ذریعہ استعمال کر کے طاقتور کو مغلوب کر دیتا ہے۔
2. خانہ کعبہ کی عظمت اور حفاظت:
یہ واقعہ اور سورہ فیل اس بات کا ثبوت ہیں کہ خانہ کعبہ محض ایک عمارت نہیں بلکہ اللہ کا وہ گھر ہے جسے وہ خود محفوظ رکھتا ہے۔ یہ ہمیں کعبہ اور مکہ مکرمہ سے محبت ادب اور عقیدت سکھاتی ہے۔
3. توکل علی اللہ (اللہ پر بھروسہ):
اس سورہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ جب انسان اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ اس کی حفاظت فرماتا ہے،چاہے ظاہری اسباب کچھ بھی نہ ہوں۔