Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

قریش کے پاس کوئی جنگی طاقت نہیں تھی، مگر اللہ نے ان کے دشمنوں کو خود ختم کر دیا۔
4. ظلم و غرور کا انجام:
ابراہہ نے غرور،تکبر اور دینی دشمنی میں کعبہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔یہ سورہ بتاتی ہے کہ جو بھی اللہ کے دین اس کی نشانیوں یا اس کے گھر کے خلاف سازش کرے گا وہ ضرور ذلیل و خوار ہوگا۔
5. اللہ کا دشمنوں پر عذاب:
اللہ تعالیٰ ہر دور کے "اصحاب الفیل" (دین دشمنوں) کو نشان عبرت بناتا ہے۔اس سورہ کے ذریعے ہمیں یقین دلایا جاتا ہے کہ باطل کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو انجام کار شکست اسی کا مقدر ہے۔
روحانی اور عملی فوائد (روایات اور تجربات کی روشنی میں):
1. دشمنوں کے شر سے حفاظت:
سورہ فیل کو پڑھنا اللہ تعالیٰ سے دشمنوں کے شر سے پناہ لینے کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔

MAKT_PAK
 

سورہ فیل کے فضائل و اسباق (تفصیل کے ساتھ):
1. اللہ کی قدرت کا عظیم مظاہرہ:
یہ سورہ اس حقیقت کا اعلان کرتی ہے کہ اگرچہ ابراہہ کا لشکر طاقتور،منظم اور ہاتھیوں سے لیس تھا،مگر اللہ کی قدرت کے سامنے وہ بےبس تھا۔اللہ نے محض چھوٹے پرندوں کے ذریعے ان پر عذاب نازل فرمایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ جب چاہے کمزور سے کمزور ذریعہ استعمال کر کے طاقتور کو مغلوب کر دیتا ہے۔
2. خانہ کعبہ کی عظمت اور حفاظت:
یہ واقعہ اور سورہ فیل اس بات کا ثبوت ہیں کہ خانہ کعبہ محض ایک عمارت نہیں بلکہ اللہ کا وہ گھر ہے جسے وہ خود محفوظ رکھتا ہے۔ یہ ہمیں کعبہ اور مکہ مکرمہ سے محبت ادب اور عقیدت سکھاتی ہے۔
3. توکل علی اللہ (اللہ پر بھروسہ):
اس سورہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ جب انسان اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ اس کی حفاظت فرماتا ہے،چاہے ظاہری اسباب کچھ بھی نہ ہوں۔

MAKT_PAK
 

سورہ الفیل کا تعارف:
نام: سورہ الفیل
نمبر: 105
آیات: 5
نزول: مکہ مکرمہ (مکی سورہ)
مرکزی پیغام: اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کے ذریعے ہاتھیوں والے لشکر کو تباہ کیا،جو خانہ کعبہ کو گرانے آیا تھا۔
سورہ الفیل کی مکمل تلاوت اور ترجمہ:
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟
أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ
کیا اُس نے اُن کی چال کو ناکام نہیں بنا دیا؟
وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ
اور اُن پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیے۔
تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ
جو اُن پر کنکریاں پھینک رہے تھے پکی ہوئی مٹی کی۔
فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ
پھر اُن کو ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھوسا۔

MAKT_PAK
 

کبوتر کی بیٹ پاک ہوتی ہے؟
کبوتر کی بیٹ (فضلہ) ناپاک ہوتی ہے۔
فقہاء نے واضح کیا ہے کہ پرندوں میں جو حلال کھانے والے پرندے ہیں،جیسے کبوتر،مرغی، فاختہ وغیرہ ان کا فضلہ بھی ناپاک ہوتا ہے، اگرچہ ان کا گوشت حلال ہے۔ناپاکی کی وجہ یہ ہے کہ انکا فضلہ نجاست غلیظہ میں شمار ہوتا ہے،جیسے کہ انسان یا دوسرے جانوروں کا فضلہ۔
البتہ اگر تھوڑی مقدار میں کسی کپڑے یا جگہ پر لگ جائے اور نماز کے وقت تک صاف نہ ہو پائے تو بعض فقہی آراء کے مطابق معاف بھی ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ مقدار درہم سے کم ہو (یعنی تقریباً 4-5 گرام یا ایک چھوٹے سکے کے برابر)۔
خلاصہ:
کبوتر کی بیٹ ناپاک ہے۔
اگر تھوڑی مقدار ہو تو نماز میں معاف ہو سکتی ہے۔
زیادہ مقدار ہو تو کپڑا یا جگہ پاک کرنا ضروری ہے۔

MAKT_PAK
 

https://youtu.be/AJe3PtMVIv0?si=W5JjggJhZpcWzAj8
.
.
.
Israel-Gaza Conflict - Israeli Forces Intensify Assault on Gaza - Shahzad Iqbal - Naya Pakistan

MAKT_PAK
 

نتیجہ:
اسلام اللہ کا آخری اور مکمل پیغام ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندو مت میں کئی عقائد اور فلسفے ہیں جو اللہ کی واحدیت اور صحیح عبادت کے تصور سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اسلام ایک مکمل اور حتمی دین ہے جو تمام انسانوں کے لیے اللہ کی ہدایت فراہم کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ہدایت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

MAKT_PAK
 

قرآن و حدیث کی روشنی میں:
اسلام میں تمام انبیاء کی عزت کی جاتی ہے اور انہیں اللہ کا منتخب پیغمبر سمجھا جاتا ہے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کی بعثت کے بعد کسی نبی کا آنا ممکن نہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کیا:
> "مکہ اور مدینہ کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو انبیاء کا خاتمے کے طور پر بھیجا گیا ہے۔" (سورہ الاحزاب 33:40)
اسلام میں تمام سابقہ مذاہب میں کمی اور تبدیلی آئی تھی اور اللہ نے قرآن مجید کے ذریعے اپنی ہدایت کو مکمل کیا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
> "میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک کتاب اللہ (قرآن) اور دوسری میری سنت اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔" (صحیح مسلم)

MAKT_PAK
 

"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارا دین مقرر کر دیا۔" (المائدہ 5:3)
یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اسلام اللہ کا آخری دین ہے جو انسانوں کی تمام روحانی،اخلاقی اور معاشرتی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
اسلام اور ہندو مت میں بنیادی فرق:
اسلام اور ہندو مت میں سب سے بنیادی فرق "اللہ کی واحدیت" ہے۔اسلام میں اللہ کی واحدیت پر ایمان لانا ضروری ہے اور کسی کو بھی اللہ کا شریک نہیں بنایا جا سکتا۔قرآن مجید میں اس بات کی بار بار تاکید کی گئی ہے:
> "اللہ ہی وہ واحد معبود ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔" (سورہ محمد 47:19)
جبکہ ہندو مت میں مختلف دیوتاؤں کی عبادت کی جاتی ہے، جسے اسلام میں شرک سمجھا جاتا ہے۔ اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے، اور یہ عقیدہ ایمان کی اساس ہے۔

MAKT_PAK
 

ہندو مت کی تعلیمات میں بہت سے عقائد اور نظریات شامل ہیں،لیکن سب سے اہم عقیدہ "سنسار" ہے،جس میں انسانوں کے اعمال کے مطابق ان کے اگلے جنم کی تقدیر بنائی جاتی ہے۔یہ تصور اسلام کے عقیدہ آخرت سے مختلف ہے،جہاں قیامت کے دن ہر انسان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔
اسلام کی حقیقت:
اسلام، اللہ تعالیٰ کی واحدیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانے کا نام ہے۔ قرآن مجیدجو اللہ کا آخری کلام ہے، اسلام کا بنیادی مرجع ہے اور اس میں انسانوں کو صحیح راستے کی رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے آخری پیغمبر بنا کر بھیجا اور آپ کی تعلیمات میں اللہ کی عبادت،اخلاقی رہنمائی اور معاشرتی انصاف پر زور دیا گیا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

MAKT_PAK
 

ہندو مت کی تاریخ اور اسلام کی حقیقت:
۔
ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
۔
اسلام اور ہندو مت دونوں اپنے آپ میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور دونوں کی تاریخ گہری اور پیچیدہ ہے۔جہاں اسلام اللہ کی آخری ہدایت ہے وہیں ہندو مت ایک قدیم مذہب ہے جس کا آغاز ویدوں سے ہوا۔اس تحریر میں، ہم ان دونوں مذاہب کی تاریخ کا جائزہ لیں گے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کی حقیقت کو واضح کریں گے۔
ہندو مت کی تاریخ:
ہندو مت کی بنیاد تقریباً 1500 قبل مسیح میں ویدوں پر رکھی گئی تھی۔ہندو مت میں دیوتاؤں کی عبادت،آتما (روح) اور برہمن (خدا) کے مختلف فلسفے پائے جاتے ہیں۔ہندو مت میں کئی مختلف دھارمیک کتابیں بھی ہیں، جن میں گیتا،رامائن اور مہابھارت شامل ہیں۔ ان کتابوں میں دیوتاؤں کے متعلق مختلف کہانیاں اور عقائد پیش کیے گئے ہیں۔

MAKT_PAK
 

5. نتیجہ:
اگر ہم اپنے معاشرے میں گناہگاروں سے نفرت کی بجائے ان کے لیے ہدایت کی دعا کریں ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور اللہ کی رحمت کا دروازہ ان کے لیے کھلا دکھائیں تو ان شاء اللہ وہ اللہ کی طرف لوٹ آئیں گے۔

MAKT_PAK
 

3. گناہگار کے لیے محبت اور اصلاح کی دعوت:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے کہ جب وہ اسلام سے قبل گناہوں میں غرق تھے تو ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور محبت نے ان کے دل کو بدل دیا۔اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اپنے آپ کو اصلاح کی،بلکہ بہت سے لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھائی۔
یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر انسان میں بہتری کی صلاحیت ہے،بس ضرورت ہے تو اُسے محبت،نرم دلی اور صحیح رہنمائی دینے کی۔
4. ہمارا رویہ — شفقت اور ہمدردی:
گناہگاروں کے بارے میں ہمارا رویہ ایسا ہونا چاہیے کہ ہم انہیں گناہ سے نفرت دلائیں،نہ کہ خود ان سے۔ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم سب کو اللہ کی طرف سے آزمائشوں کا سامنا ہو سکتا ہے اور جو کل تک گناہ کر رہا تھا وہ آج توبہ کر کے اللہ کے قریب جا سکتا ہے۔

MAKT_PAK
 

"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز نہ پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"
یہ حدیث ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسرے کی اصلاح کے لیے بھی کام کرنا چاہیے۔
2. گناہ سے نفرت کی ضرورت:
اسلام میں گناہ کو سختی سے منع کیا گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اسے شیطان کا کام قرار دیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
> "إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ"
(سورہ البقرہ، آیت 205)
"یقیناً اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔"
اگر ہم گناہگار کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں گے، تو ہم اپنے آپ کو اس سے بہتر سمجھنے لگیں گے،حالانکہ شاید ہم خود اس سے بڑے گناہ گار ہوں۔ہماری اصل نفرت گناہ سے ہونی چاہیے نہ کہ گناہ کرنے والے شخص سے۔

MAKT_PAK
 

باب ہفتم: ہمارا رویہ — گناہگاروں سے نفرت نہیں،گناہ سے نفرت کریں
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
جب ہم گناہ کا ذکر کرتے ہیں یا گناہگاروں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں گناہگار سے زیادہ اہمیت گناہ کو ہے۔گناہ کرنے والے کو ہم ہمیشہ محبت،شفقت اور توبہ کی دعوت دے کر اُس کی اصلاح کی کوشش کریں نہ کہ اُس سے نفرت کریں۔
1. گناہ اور گناہگار میں فرق:
اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی گناہ کرنے والے سے نفرت نہیں کی، بلکہ ہمیشہ گناہ کو گناہ قرار دیا اور گناہ کرنے والے کے لیے توبہ کی راہیں کھولیں۔ایک مشہور حدیث میں آتا ہے:
> "لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ"
(صحیح بخاری،حدیث 13)

MAKT_PAK
 

والدین نے بہت کوشش کی،مگر وہ دن بہ دن بگڑتا گیا۔
ایک دن اس کی ماں نے تہجد میں سجدے میں سر رکھ کر اللہ سے دعا کی:
"یا اللہ! میرے بیٹے کو ہدایت دے دے، یا پھر مجھے موت دے دے!"
اسی رات بیٹے نے خواب میں ایک نورانی بزرگ کو دیکھا جنہوں نے فرمایا:
"تیری ماں کے آنسو تجھے جہنم سے بچا سکتے ہیں، لوٹ آ!"
اگلی صبح وہ نوجوان روتا ہوا اپنی ماں کے قدموں میں گر گیا،چرس ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی اور آج وہ ایک مدرسے میں بچوں کو قرآن پڑھاتا ہے۔
نتیجہ:
یہ واقعات چیخ چیخ کر ہمیں سمجھاتے ہیں کہ:
گناہ کا انجام ہلاکت ہے
توبہ کا راستہ اب بھی کھلا ہے
ماں کی دعا،ندامت کے آنسو اور ایک لمحے کی سچائی زندگی کو بدل سکتی ہے۔

MAKT_PAK
 

کچھ گھنٹوں بعد اس کی زبان سے صرف ایک جملہ نکل رہا تھا: "ماں! مجھے بچا لو، مجھے آگ لگ رہی ہے!"
اور پھر اس کی روح قفصِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
یہ الفاظ ہر سننے والے کو لرزا گئے۔
نشہ وقتی لذت ضرور دیتا ہے،لیکن یہ لذت اکثر جہنم کی جھلک بن جاتی ہے۔
واقعہ 2: شرابی کی آخری خواہش
کراچی کے ایک علاقے میں ایک شخص ہر روز شراب پیتا تھا،لیکن نماز جمعہ کبھی نہیں چھوڑتا تھا۔ایک دن شدید بیمار ہوا، ہسپتال میں داخل ہوا۔آخری لمحے میں جب اذان ہو رہی تھی تو رونے لگا:
"کاش! میں زندگی میں ایک بار بھی نماز شراب کے بغیر پڑھتا!"
اس کے بعد اس کا انتقال ہو گیا۔
ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کی آنکھ کھلی ہوئی تھی اور چہرے پر حسرت نمایاں تھی۔
واقعہ 3: نجات کی راہ — ایک سابق نشئی کی کہانی
پشاور کے ایک نوجوان کو بچپن میں بری صحبت نے چرس کا عادی بنا دیا۔

MAKT_PAK
 

5. آج بھی موقع ہے:
اگر آپ یا آپ کا کوئی جاننے والا شراب،چرس یا کسی گناہ میں مبتلا ہے تو اس پر مایوسی کی چادر نہ ڈالیں۔اسے اللہ کی طرف بلائیں، محبت سے سمجھائیں۔ہو سکتا ہے وہ کل کا ولی ہو اور ہم آجکے مغرور!
باب ششم: عبرت آموز واقعات
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
دل کو بدلنے والی باتیں صرف دلائل سے نہیں، بلکہ کبھی کبھی ایک سچا واقعہ انسان کی روح کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔اس باب میں ہم چند ایسے حقیقی واقعات پیش کرتے ہیں جو نشے، گناہ اور توبہ کے موضوع سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔
واقعہ 1: چرس پینے والے کا عبرتناک انجام
لاہور کے ایک اسپتال میں ایک نوجوان کو نیم بے ہوشی کی حالت میں لایا گیا۔وہ چرس اور آئس کا عادی تھا۔ڈاکٹروں کے مطابق اس کا دماغ تقریباً مفلوج ہو چکا تھا۔

MAKT_PAK
 

2. حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
> "التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ"
(سنن ابن ماجہ،حدیث 4250)
"گناہ سے توبہ کرنے والاایساہےجیسے اس نے کبھی گناہ کیاہی نہیں۔"
3. شرط توبہ سچی ندامت:
توبہ کادروازہ کھلاہے،لیکن اسکےلیےلازم ہےکہ:
بندہ سچےدل سےشرمندہ ہو،
گناہ چھوڑنے کا پکا ارادہ کرے،
دوبارہ اس گناہ کی طرف نہ لوٹنےکی کوشش کرے،
اگر کسی کاحق مارا ہو توواپس کرے۔
4. عبرت کی مثال:
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ جوپہلے ڈاکو تھے،صرف ایک آیت نے انکادل بدل دیا:
> "أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ"
(سورہ الحدید،آیت 16)
"کیاایمان والوں کےلیےابھی وقت نہیں آیا کہ انکے دل اللہ کےذکرکےلیےنرم ہوجائیں؟"
انہوں نےوہیں ڈاکہ چھوڑا،توبہ کی،اور ولی اللہ بن گئے۔

MAKT_PAK
 

باب پنجم: آخرت کی فکر — توبہ کا دروازہ کھلا ہے
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
اللہ تعالیٰ کا دین،جتنا سخت ہے گناہوں پر،اتنا ہی وسیع ہے مغفرت میں۔اسلام کا حسن یہی ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی گناہگار ہو،جب وہ سچےدل سے توبہ کرتاہےتو اللہ رب العزت نہ صرف اسکے گناہ معاف کردیتا ہے،بلکہ انہیں نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔
1. قرآن کی پکار:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
> "قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا"
(سورہ الزمر،آیت 53)
"کہہ دیجئے! اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی،اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،بےشک اللہ تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔"
یہ آیت شراب پینے والے،چرس کے عادی،زنا کار،چور،قاتل ہرگناہگار کے لیے امید کاپیغام ہے۔

MAKT_PAK
 

4. زبان کا غلط استعمال، دین کا نقصان
یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں۔حلال کو حرام اور حرام کو حلال بتاتے ہیں،دین کو اپنی خواہشات کے تابع کر دیتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
> "أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ"
(سورہ البقرہ، آیت 85)
"کیا تم کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟"
5. نتیجہ:
ہر وہ شخص جو دین کا نمائندہ بننا چاہے، اُسے پہلے خود کو پاک کرنا ہوگا دل سے،زبان سے،عمل سے نشے میں ڈوبا ہوا شخص تو خود رہنمائی کا محتاج ہے،وہ کیسے راہ دکھا سکتا ہے؟