4. زبان کا غلط استعمال، دین کا نقصان
یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں۔حلال کو حرام اور حرام کو حلال بتاتے ہیں،دین کو اپنی خواہشات کے تابع کر دیتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
> "أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ"
(سورہ البقرہ، آیت 85)
"کیا تم کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟"
5. نتیجہ:
ہر وہ شخص جو دین کا نمائندہ بننا چاہے، اُسے پہلے خود کو پاک کرنا ہوگا دل سے،زبان سے،عمل سے نشے میں ڈوبا ہوا شخص تو خود رہنمائی کا محتاج ہے،وہ کیسے راہ دکھا سکتا ہے؟
2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
> "مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ"
(سنن ابی داؤد، حدیث 3657)
"جس شخص کو بغیر علم کے فتویٰ دیا گیا، اس کا گناہ اسی پر ہے جس نے فتویٰ دیا۔"
یعنی علم کے بغیر فتویٰ دینا نہ صرف گناہ ہے بلکہ گمراہی کا ذریعہ بھی ہے۔
3. نشے کی حالت میں فتویٰ؟
قرآن مجید نے نشے کی حالت میں نماز سے روکا:
> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَىٰ"
(سورہ النساء، آیت 43)
"اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ۔"
جب نماز جیسے عظیم فریضے سے روکا گیا،تو دین کے حساس ترین معاملے فتویٰ کی جرأت کیسی؟
باب چہارم: فتویٰ اور دینداری کا دعویٰ — اہل علم اور عامی میں فرق
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
آج کا المیہ یہ ہے کہ جو شخص خود دین سے دور ہو، گناہوں میں لتھڑا ہو، وہ بھی فتویٰ دینے اور شرعی فیصلے سنانے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔شراب کے نشے میں دھت، چرس کے دھوئیں میں مدہوش زبان سے "یہ حلال ہے"، "یہ بدعت ہے"، "یہ شرک ہے" جیسے جملے نکلتے ہیں تو عقل حیرت میں پڑ جاتی ہے: یہ دین ہے یا تماشہ؟
1. فتویٰ دینا کس کا کام ہے؟
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
> "فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ"
(سورہ النحل، آیت 43)
"اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ علم سے پوچھو۔"
فتویٰ دینا عام آدمی کا کام نہیں،بلکہ یہ اہلِ ذکر، یعنی علمائے راسخین،مفتیانِ کرام اور متقی اہلِ علم کی ذمہ داری ہے۔
4. عقل و فطرت کی روشنی میں:
نشہ انسان کو حیوان سے بھی بدتر کر دیتا ہے۔ اس کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے، زبان بے قابو، بدن لاشعور، اور نفس بے لگام ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ عبادت کرے، تو عبادت کا کیا مقام باقی رہتا ہے؟ اگر وہ فتویٰ دے، تو فتویٰ کی کیا وقعت رہ جاتی ہے؟
2. حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
> "كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ"
(صحیح مسلم، حدیث 2003)
"ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے۔"
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:
> "مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ، فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ"
(سنن ابی داؤد،حدیث 3681)
"جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ دے،اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔"
یہ اصولی قاعدہ نشہ آور اشیاء کی حرمت پر مہر ثبت کر دیتا ہے۔
3. صحابۂ کرام اور ائمۂ مجتہدین کا موقف:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
> "الخمر ما خامر العقل"
"خمر وہ چیز ہے جو عقل پر پردہ ڈال دے۔"
ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ،مالک،شافعی،احمد رحمہم اللہ) متفق ہیں کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے چاہے وہ مائع ہو یا ٹھوس پینے کی ہو یا سونگھنے کی۔
اسی لیے شریعتِ مطہرہ نے ہر اس چیز کو سختی سے منع فرمایا ہے جو عقل کو زائل کرے،بدن کو مفلوج کرے اور روح کو آلُودہ کرے۔
1. قرآن مجید کا واضح حکم:
اللہ تعالیٰ نے شراب اور نشہ آور چیزوں کو شیطانی عمل اور ناپاک قرار دیا:
> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"
(سورہ المائدہ، آیت 90)
"اے ایمان والو! شراب،جوئے،بت اور فال کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں،ان سے بچو تاکہ تم فلاح پا سکو۔"
یہاں "خمر" کا مطلب صرف انگور یا کھجور کی شراب نہیں بلکہ ہر وہ چیز ہے جو نشہ پیدا کرے،اس کے دائرے میں آتی ہے،چاہے وہ چرس ہو،ہیروئن ہو یا کوئی اور نشہ آور چیز۔
کیا وہ شخص جو دن رات اللہ کی نافرمانی کرتا ہے،جسکی زبان شراب سے اور دماغ چرس سے مدہوش ہے وہ دین کے بارے میں فیصلہ دے سکتا ہے؟
یہ سوال صرف ایک علمی بحث نہیں،بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کی فکری بنیادوں سے جڑا ہوا سوال ہے۔
اس کتابچے میں ہم کوشش کریں گے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں دلیل و حکمت کے ساتھ اس حساس مسئلے پر روشنی ڈالیں۔ مقصد کسی کی تذلیل یا کردار کشی نہیں،بلکہ معاشرے کی اصلاح اور خود احتسابی ہے۔
آئیے! دل کی آنکھیں کھولیں حقیقت کا سامنا کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ مومن ہونے کا دعویٰ صرف زبان سے نہیں، کردار سے ہوتا ہے۔
باب دوم: شرعی موقف — قرآن و سنت کی روشنی میں نشہ آور اشیاء
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی جسمانی،ذہنی اور روحانی پاکیزگی کو اولیت دیتا ہے۔
باب اول: تمہید — حقیقت کا سامنا
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر طرف فتنوں کی یلغار ہے۔دین کے نام پر دنیا کی طلب، اور گناہ کے پردے میں نیکی کا لبادہ اوڑھنا عام ہو گیا ہے۔میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو چرس بھی پیتے ہیں،شراب بھی نوش کرتے ہیں اور پھر بڑے فخر سے فتویٰ بھی صادر کرتے ہیں۔نہ انہیں خوفِ خدا ہے،نہ شرمِ بندگی۔
یہ وہ لوگ ہیں جو حرام کو حلال تو نہیں کہتے،مگر حرام کو معمولی سمجھ کر اس پر جری ہو جاتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے افراد نہ صرف یہ کہ معاشرتی عزت رکھتے ہیں،بلکہ کچھ حلقوں میں ان کی باتوں کو دینی سند بھی مانا جاتا ہے۔
کیا واقعی ایسا شخص مومن ہو سکتا ہے؟
جب فاطمہ نے طیب کے ہاتھوں کو چھوتے ہوئے کہا، "تمہارے ہاتھوں کی مہک ہمیشہ میرے دل میں رہ جائے گی،" تو طیب کا دل خوشی سے بھر گیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ایک محبت بھری زبان کے ذریعے فاطمہ تک اپنا پیغام پہنچا چکا تھا۔
اس دن کے بعد طیب اور فاطمہ کے درمیان رشتہ مزید گہرا ہو گیا۔
دونوں ایک دوسرے کی محبت میں محو ہو گئے اور طیب نے اپنی زندگی کے اس حقیقت کو سچ کر لیا کہ کھانا صرف پیٹ کی بھوک کو نہیں مٹاتا بلکہ یہ دلوں کو بھی ملاتا ہے۔ اور جب وہ فاطمہ کے ساتھ زندگی کی یہ محبت بھری راہیں طے کرتا تو وہ سمجھتا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے صرف کھانا نہیں بن رہا بلکہ ایک نیا رشتہ بھی پروان چڑھ رہا ہے۔
"یہ تمہارے ہاتھوں کا جادو ہے، طیب!" فاطمہ نے کہا۔ "یہ کڑاہی صرف گوشت یا مصالحوں کا امتزاج نہیں، بلکہ تمہاری محبت اور خیال کی مہک ہے جو ہر نوالے میں محسوس ہوتی ہے۔"
طیب کی آنکھوں میں حیرت اور خوشی کی جھلک تھی۔وہ جانتا تھا کہ فاطمہ کی باتوں میں سچائی ہے۔اس کی نظر میں وہ صرف ایک کڑاہی نہیں تھی، بلکہ اس کھانے کے ذریعے وہ فاطمہ تک اپنے دل کی بات پہنچا رہا تھا، اور وہ بات فاطمہ کے دل میں گھر کر گئی تھی۔
"تمہارے ہاتھوں سے صرف گوشت کا نہیں، بلکہ محبت کا بھی ذائقہ آتا ہے۔" فاطمہ نے نوالہ کھاتے ہوئے کہا۔اس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ تھی جو طیب کے دل کو چھو گئی۔ وہ جان چکا تھا کہ محبت صرف الفاظ میں نہیں ہوتی بلکہ عمل،خیالات اور جذبات میں بھی سچائی ہوتی ہے۔
اسکاچہرہ اورآنکھیں ایک بےحدمعصومیت اور محبت کی جھلک دکھاتی تھیں۔طیب نے جب پہلی بارفاطمہ کو دیکھا،تو اسکا دل ایک عجیب سی دھڑکن کے ساتھ اچھل اُٹھا۔وہ جانتا تھا کہ اسکا دل کسی خاص شخص کے لیے دھڑک رہا ہے،لیکن وہ ابھی تک اس احساس کو مکمل طور پر سمجھ نہیں پایا تھا۔
فاطمہ کو دعوت دینے کا وقت آیا اور طیب نے دل میں سوچا، "اگر فاطمہ نے اس کڑاہی کو پسند کیا تو شاید اسکے دل میں میرے لیے کوئی خاص جگہ بن جائے۔" اس نے اپنی پوری محبت اور محنت کے ساتھ کڑاہی تیار کی اور فاطمہ کو دعوت دی کہ وہ آ کر کھائے۔
جب فاطمہ طیب کےگھر آئی تووہ تھوڑی سی جھجک محسوس کررہی تھی۔طیب نے مسکرا کر کہا، "آج تمہارے لیےخاص طور پر ایک ڈش بنائی ہے،امید ہے تمہیں پسند آئے گی۔" فاطمہ نے شک و شبہ کےبغیر ایک نوالہ لیااورجیسے ہی اس نےوہ کڑاہی کھائی اسکاچہرہ ایک لمحےکےلیےدمک اٹھا۔
"ہاتھوں کی مہک"
تحریر: علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
ایک دور دراز گاؤں کی بات ہے جہاں زندگی کی سادگی اور محبت کی گونج ہر طرف تھی۔ وہاں ایک نوجوان لڑکا رہتا تھا،جس کا نام طیب تھا۔طیب کے ہاتھوں میں کچھ ایسا تھا کہ جب وہ کھانا بناتا تو اس میں محبت، خیال اور خلوص کا جادو ہوتا تھا۔ہر شخص جو اس کے ہاتھوں سے بنایا ہوا کھانا کھاتا، وہ یہ محسوس کرتا کہ اس میں کچھ خاص بات ہے،جو اسکے دل کو چھو لیتی ہے۔
ایک دن طیب کے دل میں خیال آیا کہ وہ ایک خاص ڈش بنائے گا۔وہ جانتا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے گوشت کی کڑاہی میں ایک ایسی خاصیت ہے جو ہر لقمے کو لذت اور خوشبو سے بھر دیتی ہے۔لیکن اس مرتبہ اس نے سوچا کہ وہ یہ کڑاہی ایک خاص شخص کے لیے بنائے گا اور وہ شخص تھی فاطمہ۔
فاطمہ ایک نئی لڑکی تھی جو گاؤں میں آئی تھی۔

جب کہ تمہیں یقین بھی نہیں کہ کبھی آزاد ہو سکو گے؟"
یوسف خان نے کہا:
"آزادی ہمیں قید سے نہیں،گناہوں سے چاہیے۔ اور وہ صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔"
اُسی رات راجندر کو شدید بخار ہوا وہ کئی دن بستر سے نہ اٹھ سکا۔یوسف نے اُس کے لیے چپکے سے پانی اور دال کا پیالہ رکھا۔ راجندر نے پوچھا:
"تو دشمن کے لیے کیوں دعا کرتا ہے؟"
یوسف کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"تو میرا دشمن نہیں،صرف گمراہ ہے۔ شاید میری دعا تجھے ہدایت دے دے۔"
چند دن بعد راجندر کی حالت بہتر ہوئی، اور وہ بدل چکا تھا۔اب وہ قیدیوں کو چھپ کر نماز کا وقت بتاتا، اُنہیں چھوٹے برتنوں میں پانی مہیا کرتا۔پھر وہ دن آیا،جب قیدیوں کی رہائی کا اعلان ہوا۔فہرست میں سب سے پہلا نام تھا:
"سپاہی محمد یوسف خان،پاکستانی فوج"
یوسف روتے ہوئے باہر آیا،مگر حیرت اُس وقت ہوئی جب اُسکے ساتھ راجندر بھی باہر آیا۔
مگر رمضان کا چاند جب قید کی تاریکی میں چمکا تو یوسف خان کے چہرے پر نور آ گیا۔ اُس نے اپنے ساتھی قیدیوں سے کہا:
"یہ قید یہ زنجیریں ہمارا امتحان ہیں،لیکن روزہ،ہمارا انعام ہے۔ہم اللہ کی عبادت یہاں بھی کریں گے۔"
بھارتی محافظ حیران تھے۔
ایک نے طنزیہ انداز میں کہا:
"بھوکے ہو،کمزور ہو،قید میں ہو اور روزہ رکھو گے؟کیا ملے گا؟"
یوسف خان نے مسکرا کر جواب دیا:
"بھوک برداشت ہو سکتی ہے، مگر رب سے تعلق نہیں ٹوٹ سکتا۔"
روزے کا آغاز چھپ کر ہوتا۔پانی محدود تھا، مگر وہ وضو کرتا،نماز پڑھتا اور پھر افطار کے وقت اللہ سے راز و نیاز میں مصروف ہوتا۔ کبھی ایک کھجور کسی ساتھی سے آ جاتی، کبھی صرف سادہ پانی سے افطار اور کبھی — صرف آنسوؤں سے۔
ایک دن ایک بھارتی سپاہی راجندر سنگھ جو روز یوسف کی عبادت اور خاموشی کو دیکھتا تھا،بولا:
"تم ہر دن روزہ رکھتے ہو،
باب 4: قیدی کا روزہ
تحریر: ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
1971ء کی پاک بھارت جنگ کا اختتام ہو چکا تھا۔ ملک دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔ہزاروں پاکستانی فوجی جن میں سپاہی،حوالدار اور افسران شامل تھے،بھارتی افواج کی قید میں جا چکے تھے۔اُنہیں مخلتف کیمپوں میں رکھا گیا،نہ گھر کی خبر نہ رہائی کی امید۔
انہی میں ایک نوجوان سپاہی تھا،محمد یوسف خان وہ خیبر پختونخوا کے ایک غریب مگر غیرتمند خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔جنگ میں زخمی ہوا پھر قید میں ڈال دیا گیا۔اُس کا ایمان مضبوط تھا اور دِل میں صرف ایک دعا:
"یا اللہ! مجھے ہمت دے،میں سر جھکانے والوں میں سے نہ بنوں۔"
قید کی زندگی سخت ترین تھی۔بعض دنوں میں کھانے کو صرف ایک روٹی یا کبھی خالی نمک والا پانی سخت سردی کھلے آسمان تلے سونا اور مارپیٹ معمول تھا۔
میں نے وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور برسوں بعد وہی مزدور جو کسی وقت روزانہ کی دیہاڑی کا محتاج تھا ایک چھوٹے کارخانے کا مالک بن گیا۔میں نے اُس سے پوچھا، "کامیابی کا راز کیا تھا؟"
وہ مسکرایا اور بولا:
"شاید وہ روٹی جو میں نے بانٹی تھی… اور اُس بوڑھے کی دعا جو میں نے کمائی تھی۔"
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ چھوٹا سا نیکی کا عمل، جب خلوص سے کیا جائے تو رب اُسے کتنی بڑی نعمت میں بدل سکتا ہے۔
عنوان: "ایک روٹی اور ایک دعا"
تحریر: ڈاکٹر علامہ محمد اویس خان ترین
یہ ایک مزدور کی کہانی ہے،جسے میں نے خود ایک اسٹیشن پر دیکھا۔
ایک دن لاہور ریلوے اسٹیشن پر بیٹھا تھا۔ شدید گرمی کا دن تھا۔ایک بوسیدہ لباس پہنے ہوئے مزدور آیا،پسینے میں شرابور ہاتھ میں صرف ایک خشک روٹی کا ٹکڑا اور ساتھ ایک چھوٹا سا پانی کا گلاس۔اُس نے دھوپ میں بیٹھے ایک بوڑھے فقیر کو دیکھا،جو نقاہت سے کانپ رہا تھا۔
مزدور نے وہ روٹی اُٹھائی،فقیر کے پاس بیٹھا، اور کہا:
"بابا جی،میرے پاس تو کچھ زیادہ نہیں… مگر یہ ایک روٹی ہے،آپ کھا لیں۔"
فقیر نے پہلے اُس کی آنکھوں میں دیکھا،پھر آسمان کی طرف دیکھا اور نم آنکھوں سے کہا:
"پُتر! رب تیرا بھلا کرے…تُو جس دن مانگے گا،اللہ تجھے خالی نہیں لوٹائے گا۔"
یہ الفاظ ایسے تھے جیسے کسی ولی کی زبان سے نکلے ہوں۔
حادثات و قتل کے امکانات بڑھتے ہیں
دینی نقصانات:
نماز قبول نہیں ہوتی
دعائیں رد ہوتی ہیں
اللہ کی ناراضگی
قیامت کے دن سخت پکڑ
6. شراب کو جنت میں نعمت بنانا؟
کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر شراب حرام ہے تو جنت میں کیوں ملے گی؟
جواب یہ ہے:
جنت کی شراب میں نشہ نہیں ہوگا، نہ ہی عقل کو زائل کرے گی۔
قرآن نے فرمایا:
"اس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہوگی، نہ گناہ"
(الواقعہ: 19)
جس کے لیے خریدی جائے"
(سنن ابی داود)
3. صحابہ کرام اور خلفاء راشدین کا عمل:
جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے فوراً اطاعت کی:
حضرت انسؓ فرماتے ہیں: جب حرمت کی آیت نازل ہوئی، مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ گئی، سب نے گھر کی شراب باہر پھینک دی۔
خلیفہ راشد حضرت عمرؓ فرماتے تھے: "کاش ہم شراب سے مکمل باز آ جائیں، اس میں صرف شر ہے۔"
4. فقہی نقطہ نظر:
تمام فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ:
شراب پینا کبیرہ گناہ ہے۔
شراب پینے والے کو تعزیر (سزا) دی جائے گی، اور شرعی حکومت میں 80 کوڑے تک کی سزا دی جا سکتی ہے (اگر وہ بار بار پئے)۔
نماز اور عبادتیں شراب نوشی کی حالت میں قابل قبول نہیں ہوتیں۔
5. شراب کے دنیاوی اور دینی نقصانات:
دنیاوی نقصانات:
دماغی کمزوری
اخلاقی گراوٹ
خاندان کی تباہی
بیماریوں کا باعث (جیسے جگر کا فیل ہونا)
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain