کیونکہ میرے پاس کوئی خادم نہیں ہے۔اسی لیے دیر ہو جاتی ہے۔"
2. دوسری شکایت: "وہ رات کو باہر نظر نہیں آتے!"
جواب: "میں دن میں لوگوں کے کام کرتا ہوں، اور رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں۔"
3. تیسری شکایت: "مہینے میں ایک دن باہر نہیں نکلتے!"
جواب: "میرے پاس صرف ایک جوڑا کپڑا ہے۔ جب وہ میلا ہو جاتا ہے، تو میں اسے دھوتا ہوں اور جب تک خشک نہ ہو، باہر نہیں نکل سکتا۔"
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے بیت المال سے کچھ مال ان کے لیے مقرر کرنے کا ارادہ کیا، لیکن حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا:
"مجھے دنیا کے مال کی ضرورت نہیں، بس میرے لیے اللہ کا اجر کافی ہے!"
سبق
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حکمرانی عیش و آرام کا نام نہیں، بلکہ عوام کی خدمت اور ایمانداری کا تقاضا کرتی ہے۔
یہ واقعہ حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کی ایمانداری اور زہد و تقویٰ کا ہے، جو تاریخ میں حکمرانوں کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔
گورنر کی درویشی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک دن کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور عرض کی:
"امیرالمومنین! کیا آپ نے ہمیں سعید بن عامر کو گورنر نہیں بنایا؟"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"ہاں، تو کیا وہ ظلم کرتے ہیں؟"
لوگوں نے کہا:
"نہیں، لیکن ہمیں ان سے کچھ شکایات ہیں۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا:
"لوگ تمہارے خلاف شکایت کرتے ہیں، کیا کہتے ہو؟"
عوام کی شکایات اور سعید بن عامر کا جواب
1. پہلی شکایت: "وہ صبح دیر سے دربار میں آتے ہیں!"
جواب: "میں اپنے گھر میں خود کام کرتا ہوں، اپنے کپڑے دھوتا ہوں اور اپنے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرتا ہوں،
مگر اس کے باوجود، وہ نبی کریم ﷺ کے سامنے کھڑے رہے، یہاں تک کہ ان کے جسم پر 75 سے زائد زخم لگ چکے تھے!
رسول اللہ ﷺ کی گواہی
بعد میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جس نے کسی جیتے جاگتے شہید کو دیکھنا ہو، وہ طلحہ کو دیکھ لے!"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی فرماتے تھے:
"جس دن اُحد کا معرکہ ہوا، وہ پورے دن طلحہ کا دن تھا!"
سبق
یہ واقعہ قربانی، بہادری، اور عشقِ رسول ﷺ کی لازوال مثال ہے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ ایثار ہمیں سکھاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے محبت صرف زبانی نہیں بلکہ عملی قربانی کا نام ہے۔
یہ واقعہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی بے مثال بہادری اور ایثار کا ہے، جو جنگِ اُحد کے میدان میں پیش آیا۔
رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کے لیے جان کا نذرانہ
جنگِ اُحد میں جب مسلمانوں کو ایک لمحاتی شکست کا سامنا ہوا اور کفار کا لشکر نبی کریم ﷺ کی طرف بڑھنے لگا، تو چند جاں نثار صحابہ نے آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کو ڈھال بنا لیا۔
حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ان میں سب سے نمایاں تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ دشمن نبی کریم ﷺ پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے، تو وہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر دشمنوں کے سامنے آ گئے۔
زخموں سے چور مگر حوصلہ بلند
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار اور تیر سے دشمنوں کو پیچھے دھکیلنے کی پوری کوشش کی۔ اسی دوران ایک تیر آیا اور ان کے ہاتھ کو شدید زخمی کر دیا، جس کی وجہ سے ان کا ہاتھ مفلوج ہو گیا۔
ان کے گرد گھوما اور حیرت انگیز طور پر پالتو جانوروں کی طرح فرمانبردار بن گیا۔ وہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، جیسے ان کی حفاظت کر رہا ہو۔
یہاں تک کہ جب حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ لشکر کے راستے پر پہنچ گئے، تو شیر رک گیا، ایک نظر انہیں دیکھا اور جنگل میں واپس چلا گیا!
سبق
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جب انسان کا تعلق اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے مضبوط ہوتا ہے، تو اللہ دشمنوں کو بھی اس کا محافظ بنا دیتا ہے۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کا ایمان اور اللہ پر بھروسہ ہی تھا جس نے ایک درندے کو بھی ان کا محافظ بنا دیا۔
یہ واقعہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کا ہے، جو رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کی بہادری اور اللہ پر بھروسے کی یہ داستان ایمان کو تازہ کر دیتی ہے۔
شیر اور صحابی
ایک مرتبہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ ایک جنگ میں شرکت کے بعد لشکر سے بچھڑ گئے اور راستہ بھٹک گئے۔ وہ ایک جنگل میں جا نکلے جہاں جنگلی درندے موجود تھے۔ رات کا وقت تھا اور خطرہ ہر طرف منڈلا رہا تھا۔
اچانک، انہوں نے دیکھا کہ ایک شیر ان کی طرف بڑھ رہا ہے! عام طور پر ایک تنہا انسان شیر کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے، لیکن حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کا ایمان مضبوط تھا۔
اللہ کا معجزہ
حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے نہ خوف کا مظاہرہ کیا اور نہ پیچھے ہٹے، بلکہ شیر سے کہا:
"میں رسول اللہ ﷺ کا غلام ہوں!"
یہ سن کر شیر نے سر جھکا لیا
مثال: دیوارپرآویزاں مورت بہت دلکش لگ رہی تھی۔
4. استعاراتی اور تشبیہی استعمال:
یہ لفظ ادب اور شاعری میں کسی شخصیت کےحسن دلکشی یاخاص صفات کو نمایاں کرنےکے لیےاستعمال ہوتا ہے۔
مثال:
یہ کس کی مورتِ دلکش نگاہوں میں بسی ہے؟
وہ ایک جیتی جاگتی مورت کی طرح دلوں میں بستی ہے۔
اردو شاعری میں "مورت" کا استعمال:
کئی اردو شعراء نے "مورت" کا استعمال اپنے کلام میں کیا ہے،مثلاً:
غالبؔ:
"تمثالِ آئنہ ہوں میں اپنی مورت آپ"
(یعنی میں آئینے کی تمثال ہوں اور خود ہی اپنی مورت ہوں)
میرؔ:
"مورت تھی ایک خواب کی،سو ہم کو بھا گئی"
(یعنی وہ ایک خواب کی مانند تھی،جو دل کو بھا گئی)
نتیجہ:
لفظ "مورت" ایک وسیع المعنی لفظ ہے جو نہ صرف مادی اشیاء (مجسمے،بت یا تصویر) کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ ادب و شاعری میں خوبصورتی،حسن اورتخیلاتی پیکر کے اظہارکےلیےبھی آتاہے۔
لفظ "مورت" سنسکرت الاصل ہے اور اس کا بنیادی مطلب بت، مجسمہ، شبیہ، یا تصویر ہے۔ یہ لفظ ہندی اور اردو زبان میں عام طور پر کسی شکل یا صورت کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے، خاص طور پر جب کسی شخصیت، دیوتا، یا خیالی پیکر کی نمائندگی مقصود ہو۔
مختلف معنوں میں استعمال:
1. مجسمہ یا بت:
"مورت" عام طور پر کسی دیوتا یا کسی مقدس شخصیت کے مجسمے یا بت کے لیے استعمال ہوتا ہے، خاص طور پر ہندو مذہب میں۔
مثال: مندر میں رکھی ہوئی مورت کو عقیدت سے دیکھا جا رہا تھا۔
2. خوبصورتی اور حسن کی علامت:
شاعری میں "مورت" کسی خوبصورت چہرے یا حسین شخصیت کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔
مثال: وہ پری وش، وہ مورتِ نایاب، دلوں پر راج کرتی ہے۔
3. تصویر یا عکس:
اردو میں بعض اوقات "مورت" کسی تصویر، پینٹنگ، یا کسی شبیہ کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔
زہر کا کوئی اثر نہ ہوا
تمام لوگ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ چند لمحوں میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ گر پڑیں گے، مگر اللہ کے حکم سے زہر کا کوئی اثر نہ ہوا! وہ بالکل تندرست و توانا رہے۔
یہ منظر دیکھ کر وہاں کے کئی لوگ اسلام کی سچائی پر قائل ہو گئے اور ایمان لے آئے۔
توکل علی اللہ کی مثال
یہ واقعہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ جب انسان کا ایمان مضبوط ہو اور وہ اللہ پر کامل بھروسا رکھے، تو اللہ اسے ہر مشکل اور ہر زہر سے محفوظ رکھتا ہے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا یہی غیر متزلزل ایمان تھا، جس نے انہیں "سیف اللہ" (اللہ کی تلوار) کا لقب عطا کیا۔
یہ واقعہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ناقابلِ یقین ایمان اور شجاعت کا ہے، جسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
زہر کا پیالہ اور توکل علی اللہ
فتحِ شام کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب قیصرِ روم کے علاقے میں پہنچے تو وہاں کے ایک حکمران نے انہیں دھوکے سے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی مہمان نوازی کا بہانہ کیا اور زہر آلود شراب کا پیالہ پیش کیا۔
حکمران نے سوچا کہ اگر حضرت خالد رضی اللہ عنہ یہ پی لیں گے تو فوراً جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور مسلمانوں کی قیادت ختم ہو جائے گی۔
خالد بن ولید کا ایمان افروز عمل
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب یہ زہر آلود پیالہ دیکھا تو کہا:
"اللہ کے نام سے میں اسے پیتا ہوں اور وہی مجھے اس کے شر سے محفوظ رکھے گا۔"
یہ کہہ کر انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر پیالہ پی لیا۔
اللہ نے دنیا میں ہی اجر عطا فرمایا
یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ایسی عظیم سخاوت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عثمان جو بھی کریں، اس کے بعد بھی جنتی ہیں!"
آج بھی "بئرِ رومہ" کے نام سے یہ کنواں مدینہ میں موجود ہے، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام پر اس کی آمدنی فلاحی کاموں میں استعمال ہوتی ہے۔
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ مال و دولت کا اصل فائدہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور دوسروں کی مدد کرنا ہے۔
لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک تجویز دی:
"تم کنویں کا آدھا حصہ مجھے بیچ دو، یعنی ایک دن پانی تمہارا ہوگا اور ایک دن میرا۔"
یہودی کو یہ سودا منافع بخش لگا، اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بیچ دیا۔
مسلمانوں کے لیے پانی مفت
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا دن مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا اور اعلان کر دیا کہ جو چاہے، مفت پانی لے سکتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دن مفت پانی بھر لیتے اور اگلے دن یہودی کے پاس کوئی نہ آتا۔
یہودی نے دیکھا کہ اس کا نقصان ہو رہا ہے، تو وہ کنویں کا بقیہ حصہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بیچنے پر مجبور ہوگیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پورا کنواں خرید کر ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔
یہ واقعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سخاوت اور ایثار کا ہے،جو آج بھی اسلامی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے۔
مدینہ میں پانی کی قلت اور حضرت عثمان کی سخاوت
مدینہ منورہ میں ایک وقت ایسا آیا جب پانی کی شدید قلت ہوگئی۔ اس وقت ایک کنواں تھا جسے "بئرِ رومہ" کہا جاتا تھا،لیکن وہ ایک یہودی کی ملکیت تھا۔ وہ کنویں کا پانی مہنگے داموں بیچتا تھا، اور غریب مسلمانوں کے لیے پانی خریدنا مشکل ہوگیا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس مشکل کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص بئرِ رومہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے، اس کے لیے جنت ہے۔"
یہ سنتے ہی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فوراً یہودی کے پاس گئے اور اس سے کنواں خریدنے کی بات کی۔
یہودی سے کنواں خریدنے کی حکمت
یہودی نے پہلے تو انکار کر دیا کیونکہ وہ پانی بیچ کر منافع کما رہا تھا۔
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا:
"ابوبکر! تم نے اپنے بعد والوں کے لیے کام بہت مشکل کر دیا!"
یہ واقعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بے لوث خدمت اور حقیقی قیادت کی بہترین مثال ہے، جو حکمرانوں کے لیے ایک عظیم سبق چھوڑ گئی۔
یہ واقعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور کا ہے، جو ان کی عاجزی اور خدمتِ خلق کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔
خلیفہ کی چھپی ہوئی خدمت
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو میں نے سوچا کہ اب وہ گھر کے اندر رہیں گے اور حکومتی معاملات سنبھالیں گے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ روزانہ صبح سویرے ایک گھر کی طرف جاتے ہیں اور کچھ دیر بعد واپس آتے ہیں۔
ایک دن میں نے ان کا پیچھا کیا اور دیکھا کہ وہ ایک خیمے میں داخل ہوئے۔ جب وہ باہر آئے، تو میں اندر گیا۔ وہاں ایک بوڑھی نابینا عورت رہتی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا:
"یہ روزانہ آپ کے پاس آنے والا شخص کون ہے؟"
بوڑھی عورت نے کہا:
"مجھے نہیں معلوم، یہ روزانہ آتے ہیں، میرا گھر صاف کرتے ہیں، پانی بھرتے ہیں، کھانا بنا کر دیتے ہیں، اور چلے جاتے ہیں۔"
یہ سن کر عورت حیران رہ گئی اور اللہ سے دعا کرنے لگی کہ ایسا حکمران ہر قوم کو نصیب ہو۔
یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عوام سے محبت، عاجزی، اور عدل کی ایک بےمثال مثال ہے۔
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل پر شدید اثر ہوا۔ انہوں نے افسوس سے کہا:
"عمر تو برباد ہو گیا اگر رعایا میں کوئی بھوکا سوئے!"
بیت المال سے آٹا اور کھجور خود لے کر جانا
آپ فوراً بیت المال گئے اور وہاں سے آٹا، کھجور اور گھی کی بوری اپنے کندھے پر اٹھا لی۔حضرت اسلم جو آپ کے ساتھ تھے،بولے:
"امیرالمؤمنین! یہ بوری مجھے دے دیجیے، میں اٹھا لیتا ہوں۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"قیامت کے دن بھی میرا بوجھ تم اٹھاؤ گے؟"
یہ کہہ کر وہ خود بوری لے کر اس عورت کے پاس پہنچے اور اپنے ہاتھوں سے کھانے کا انتظام کیا۔جب بچوں نے کھانا کھا لیا اور خوش ہو گئے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اطمینان کا سانس لیا اور خاموشی سے وہاں سے چل دیے۔
عورت کو حقیقت معلوم ہوئی
بعد میں کسی نے اس عورت کو بتایا کہ جس شخص نے آ کر مدد کی تھی وہ مدینہ کا خلیفہ تھا۔
یہ واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کا ہے، جو ان کے عدل و انصاف اور عوامی خدمت کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔
خلیفہ اور بھوکی ماں کے آنسو
ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ حسبِ معمول مدینہ کی گلیوں میں گشت کر رہے تھے تاکہ عوام کے حالات سے باخبر رہیں۔ اچانک، انہوں نے ایک خیمہ دیکھا، جس کے اندر سے بچوں کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قریب گئے اور دیکھا کہ ایک عورت چولہے پر ہانڈی رکھ کر چمچ چلا رہی تھی، لیکن کھانے کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔
انہوں نے پوچھا:
"بہن! بچے کیوں رو رہے ہیں؟"
عورت نے افسردگی سے جواب دیا:
"بھوک کی وجہ سے۔ میں نے ان کے بہلانے کے لیے چولہے پر صرف پانی رکھ دیا ہے تاکہ یہ سمجھیں کہ کھانا پک رہا ہے اور نیند میں چلے جائیں۔ ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں۔"
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"ہاں، میرا غلام قنبر اور میرا بیٹا حسن گواہ ہیں۔"
قاضی نے کہا:
"بیٹا اپنے باپ کے حق میں گواہ نہیں بن سکتا۔ اس لیے آپ کے پاس ایک ہی گواہ ہے جو ناکافی ہے۔"
چنانچہ قاضی نے شرعی اصول کے مطابق فیصلہ سنایا کہ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس شرعی طور پر مطلوبہ گواہ نہیں ہیں، اس لیے یہ زرہ یہودی کے پاس ہی رہے گی۔
یہودی کا مسلمان ہونا
یہودی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف سے حیران رہ گیا۔ وہ بولا:
"یہ عدل وہی کر سکتا ہے جو واقعی حق پر ہو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ زرہ واقعی حضرت علی کی ہے، جو جنگِ صفین میں ان سے گری تھی۔"
یہ کہہ کر یہودی مسلمان ہوگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوش ہو کر وہ زرہ اسے تحفے میں دے دی۔
یہ واقعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عدل و انصاف کا ہے، جو قیامت تک حکمرانوں کے لیے ایک مثال رہے گا۔
یہودی سے قاضی کے سامنے مقدمہ
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک زرہ (لوہے کی بکتر) گم ہوگئی۔کچھ دن بعد انہوں نے وہی زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا:
"یہ زرہ میری ہے،یہ میرے پاس تھی اور کہیں گم ہوگئی تھی!"
یہودی نے انکار کر دیا اور کہا:
"یہ زرہ میری ہےاور میرے قبضے میں ہے۔"
چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اُس وقت خلیفۂ وقت تھے،لیکن انہوں نے اپنی خلافت کا رعب نہیں ڈالا بلکہ عدل کاراستہ اپنایا۔وہ مقدمہ لے کر قاضی (جج) شریح رحمہ اللہ کے پاس پہنچے۔
عدالت میں انصاف کا منظر
قاضی شریح رحمہ اللہ نے دونوں فریقین کا موقف سنااورحضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
"امیر المومنین!آپکے پاس کوئی گواہ ہے کہ یہ زرہ آپکی ہے؟
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain