ترجمہ: "جب لوگ دنیا کو دین پر فوقیت دینے لگیں اور عبادت کو ریاکاری کے لیے کرنے لگیں تو ان کے اعمال ان کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں (قبول نہیں کیے جاتے)۔"
3. حج کے بعد گناہوں میں مشغول ہونے والے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ حَجَّ وَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ"
(صحیح بخاری: 1521)
ترجمہ: "جس نے حج کیا اور بے حیائی و گناہ کی باتوں سے بچا رہا، وہ (گناہوں سے) ایسا پاک لوٹتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا ہو۔"
جو لوگ حج کے بعد دوبارہ فسق و فجور اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ان کا حج ان کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتا۔
4. دوسروں کا حق دبانے والے (ظالم، دھوکہ باز، غاصب)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَحَدٍ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ ٱلْيَوْمَ
وَنَفَقَتُكَ حَرَامٌ، وَحَجُّكَ غَيْرُ مَبْرُورٍ"
(مسند الطبرانی، المستدرك للحاكم)
ترجمہ: "جب کوئی شخص حلال کمائی کے ساتھ حج کے لیے نکلتا ہے، اور لبیک پکارتا ہے تو آسمان سے ندا آتی ہے: ’لبیک و سعدیک، تیرا حج مقبول ہے۔‘ لیکن اگر کوئی حرام کمائی سے حج کرتا ہے، تو ندا آتی ہے: ’تیرا حج قبول نہیں، کیونکہ تیرا زادِ راہ اور مال حرام ہے۔‘"
2. ریاکاری (دکھاوے) کے لیے حج و عمرہ کرنے والے
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"لَا يَزَالُ النَّاسُ يَخْتَلِفُونَ فِي هَذَا الدِّينِ مَا لَمْ تَظْهَرْ فِيهِمُ الدُّنْيَا وَيَقْصُرُوا الْعِبَادَةَ عَلَى الرِّيَاءِ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ رُدَّتْ عَلَيْهِمْ أَعْمَالُهُمْ"
(المعجم الأوسط للطبرانی)
اللہ تعالیٰ حج اور عمرہ کی عبادت کو خالص نیت، حلال کمائی اور شریعت کے مطابق ادا کرنے پر قبول فرماتا ہے۔ لیکن کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے حج اور عمرے قبول نہ ہونے یا بے فائدہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث میں ایسے چند طبقات کا ذکر ملتا ہے:
1. حرام کمائی سے حج و عمرہ کرنے والے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ حَاجًّا بِنَفَقَةٍ طَيِّبَةٍ، فَوَضَعَ رِجْلَهُ فِي ٱلْغَرْزِ، فَقَالَ: لَبَّيْكَ ٱللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، نَادَاهُ مُنَادٍ مِنَ ٱلسَّمَاءِ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، زَادُكَ حَلَالٌ، وَرَحْلُكَ حَلَالٌ، وَحَجُّكَ مَبْرُورٌ. وَإِذَا خَرَجَ بِنَفَقَةٍ خَبِيثَةٍ، فَوَضَعَ رِجْلَهُ فِي ٱلْغَرْزِ، فَقَالَ: لَبَّيْكَ ٱللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، نَادَاهُ مُنَادٍ مِنَ ٱلسَّمَاءِ: لَا لَبَّيْكَ وَلَا سَعْدَيْكَ، زَادُكَ حَرَامٌ
قرآن میں براہِ راست "گانے والوں پر لعنت" کا ذکر نہیں آیا،لیکن لہو الحدیث اور زور جیسی اصطلاحات کو مفسرین نے موسیقی،گانے اور لغو باتوں سے جوڑا ہے۔
جن احادیث میں موسیقی پر لعنت کا ذکر آیا ہے، وہ قرآن کی ان آیات کی تفسیر کے طور پر سمجھی جا سکتی ہیں۔
اگر کوئی موسیقی فحاشی،بے حیائی یا دین سے دوری کا سبب بنے تو وہ ناپسندیدہ اور حرام ہوگی۔
ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے بھی کہا کہ اس آیت میں "لہو الحدیث" سے مراد گانے اور موسیقی کے آلات ہیں جو غفلت اور گمراہی میں مبتلا کرتے ہیں۔
2. باطل اور لغوی باتوں سے اجتناب:
وَٱلَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ ٱلزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا۟ بِٱللَّغْوِ مَرُّوا۟ كِرَامًۭا
(الفرقان: 72)
ترجمہ: "اور وہ (نیک لوگ) جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو (فضول) چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو عزت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔"
تفسیر:
"زور" کا ایک معنی گانا اور موسیقی بھی بیان کیا گیا ہے۔
امام مجاہد،امام مکحول اور دیگر مفسرین نے کہا کہ اس آیت میں موسیقی اور بے ہودہ محافل میں شریک ہونے سے منع کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں براہِ راست گانے گانے والوں پر لعنت کا ذکر نہیں آیا،لیکن بعض آیات ایسی ہیں جنہیں مفسرین نے موسیقی اور لغو باتوں کی مذمت کے طور پر بیان کیا ہے۔
متعلقہ قرآنی آیات:
1. لَہْوَ الْحَدِيثِ کا ذکر:
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُو۟لَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌۭ مُّهِينٌۭ
(سورہ لقمان: 6)
ترجمہ: "اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لہو الحدیث خریدتے ہیں تاکہ (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے بہکائیں، بغیر کسی علم کے، اور اسے مذاق بنا لیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ذلت آمیز عذاب ہے۔"
مفسرین کی رائے:
حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: "اللہ کی قسم! اس (لہو الحدیث) سے مراد گانا ہے۔"
ترجمہ: "اللہ تعالیٰ نے شراب، اسے پینے والے، پلانے والے،بیچنے والے،خریدنے والے،نچوڑنے والے، نچڑوانے والے،اٹھانے والے،جس کے لیے اٹھائی جائے اور اس کی قیمت کھانے والے پر لعنت بھیجی ہے۔"
یہ حدیث واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ صرف شراب پینے والا ہی نہیں بلکہ اس سے جڑے تمام لوگ اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں۔
شراب کے نقصانات اور اس کی حرمت:
1. یہ شیطانی عمل ہے (المائدہ: 90)
2. یہ عقل کو زائل کرتی ہے
3. یہ دیگر گناہوں کا دروازہ کھولتی ہے
4. یہ دنیا و آخرت میں نقصان کا سبب بنتی ہے
شراب حرام اور ملعون عمل ہے۔جو شخص اس میں مبتلا ہو،اسے فوراً توبہ کرنی چاہیے اور اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اس لعنت سے محفوظ رکھے۔
آمین۔
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"
(المائدہ: 90)
ترجمہ: "اے ایمان والو! بے شک شراب،جُوا، بت اور قسمت کے تیر ناپاک اور شیطانی عمل ہیں،پس ان سے بچو تاکہ فلاح پاؤ۔"
حدیث میں شراب پینے والوں پر لعنت:
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
"لَعَنَ اللَّهُ الْخَمْرَ وَشَارِبَهَا،وَسَاقِيَهَا، وَبَائِعَهَا، وَمُبْتَاعَهَا،وَعَاصِرَهَا،وَمُعْتَصِرَهَا،وَحَامِلَهَا،وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ، وَآكِلَ ثَمَنِهَا"
(سنن ابی داؤد: 3674، ابن ماجہ: 3381)
7. فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والوں پر لعنت
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ ٱلْفَٰحِشَةُ فِى ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ ۚ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ"
(النور: 19)
ترجمہ: "بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔"
5. اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف دینے والوں پر لعنت
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"إِنَّ ٱلَّذِينَ يُؤْذُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًۭا مُّهِينًۭا"
(الاحزاب: 57)
ترجمہ: "بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، ان پر اللہ نے دنیا اور آخرت میں لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔"
6. کافروں پر لعنت
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ أُو۟لَٰٓئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ ٱللَّهِ وَٱلْمَلَٰٓئِكَةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ"
(البقرہ: 161)
ترجمہ: "بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور کفر کی حالت میں مر گئے، ان پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔"
3. ظالموں پر لعنت
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ"
(ہود: 18)
ترجمہ: "خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔"
4. منافق مردوں اور عورتوں پر لعنت
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَعَدَ اللَّهُ ٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱلْمُنَٰفِقَٰتِ وَٱلْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَٰلِدِينَ فِيهَا ۚ هِىَ حَسْبُهُمْ ۚ وَلَعَنَهُمُ ٱللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ"
(التوبہ: 68)
ترجمہ: "اللہ نے منافق مردوں، منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہی ان کے لیے کافی ہے، اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے، اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔"
قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مختلف برائیوں میں مبتلا افراد پر لعنت فرمائی ہے۔ یہاں چند اہم آیات درج کی جا رہی ہیں جن میں سیدھی سیدھی لعنت کا ذکر آیا ہے:
1. سود خوروں پر لعنت
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ"
(البقرہ: 275)
ترجمہ: "پس جسے اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچے اور وہ باز آ جائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اس کا ہے، اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور جو دوبارہ (سود خوری) کرے گا تو وہ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔"
2. جھوٹوں پر لعنت
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"
(آل عمران: 61)
ترجمہ: "جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔"
یزید کے بارے میں بھی تاریخی حوالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شراب نوشی اور کئی دوسری برائیوں میں ملوث تھا، اور اسی وجہ سے امت مسلمہ میں اس پر شدید تنقید کی جاتی ہے۔
آج کے دور میں اگر کوئی شخص دین کا نام لے کر ایسی حرکتیں کر رہا ہے تو یہ دین کے ساتھ بدترین مذاق اور فتنہ ہے۔ دین کے داعی کو خود سب سے پہلے اپنے کردار کو درست کرنا چاہیے، ورنہ اس کی دعوت بے اثر اور نقصان دہ ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلام میں شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے اور نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف اس کے پینے بلکہ اس کے بنانے، بیچنے، خریدنے اور کسی بھی طریقے سے اس میں معاونت کو سختی سے منع فرمایا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر شراب کو "رجس" (ناپاک) اور "شیطانی عمل" قرار دیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(المائدہ: 90)
یعنی، "اے ایمان والو! بے شک شراب، جوا، بتوں کے چڑھاوے اور پانسے (یہ سب) ناپاک، شیطانی کام ہیں، پس ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔"
اب اگر کوئی شخص خود شراب پی رہا ہو، حرام خوری کر رہا ہو، اور دوسروں کو گمراہ یا کافر کہہ رہا ہو، تو یہ صریح منافقت اور جہالت کی علامت ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اقوالِ زریں حکمت، دانائی اورزندگی کے تجربات کا نچوڑ ہیں۔ مزیدچنداقوال درج ذیل ہیں:
"غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے، کیونکہ غصے میں انسان کو نفع و نقصان کی خبر نہیں رہتی۔"
"سب سے بڑاعیب یہ ہے کہ تم وہ چیز پسند کرو جو تم خود کرتےہو اور دوسروں میں ناپسند کرو۔"
"علم دولت سے بہتر ہے،کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے، جبکہ دولت کی تمہیں حفاظت کرنی پڑتی ہے۔"
"تین چیزیں انسان کی پہچان کرواتی ہیں: غصے میں، پیسے کے معاملے میں اور مشکل وقت میں۔"
ل "جو شخص اپنے عیبوں پر نظر رکھے،اسے دوسروں کے عیب دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔"
"سب سےاچھا رشتہ وہ ہےجس میں محبت عزت سےزیادہ ہواورعزت محبت سےکم نہ ہو۔"
"جو تم سےراز کی بات کہے،اسےاپنارازدار نہ بناؤ،کیونکہ جودوسروں کارازتمہیں بتاسکتاہے،وہ تمہارارازبھی دوسروں کو بتاسکتاہے۔
یہ آیت مباہلہ کے واقعے کے ضمن میں نازل ہوئی تھی،لیکن اس میں جھوٹ بولنے والوں پر عمومی لعنت کی وعید ہے۔یعنی جو بھی جھوٹ بولے گا وہ اللہ کی لعنت کا مستحق ہوگا۔
اسی طرح ایک اور آیت میں فرمایا:
"إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ"
(النحل: 105)
ترجمہ: "جھوٹ تو وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔"
یہ آیات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ جھوٹ بولنا نہ صرف ایک گناہِ کبیرہ ہے بلکہ اس کے نتیجے میں اللہ کی لعنت بھی نازل ہوتی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے بھی جھوٹ کو نفاق کی نشانیوں میں شمار فرمایا ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین!
بے شک! جھوٹ ایک ایسی برائی ہے جو انسان کو گناہوں کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جھوٹ کو "فساد کی جڑ" قرار دیا کیونکہ یہ بے شمار برائیوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ جب کوئی جھوٹ بولتا ہے، تو وہ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے مزید جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، اور یوں وہ گناہوں کے سلسلے میں الجھتا چلا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں بھی جھوٹ کی شدید مذمت کی گئی ہے:
"فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ"
(الحج: 30)
ترجمہ: "پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔"
قرآن مجید میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کا ذکر موجود ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"
(آلِ عمران: 61)
ترجمہ: "تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔"
شراب سے بھی خطرناک پتہ ہے کیا ہے؟
جھوٹ بولنا کیوں کہ ہمارے آقا دو جہانوں کے رحمت للعالمین احمد مجتبیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
جھوٹ فساد کی جڑ ہے یعنی ہر برائی کا آغاز جھوٹ سے ہوتا ہے۔
اللّٰہ پاک ہم سب کو جھوٹ بولنے کی لعنت سے بچائے۔
آمین ثم آمین
کیونکہ میرے پاس کوئی خادم نہیں ہے۔اسی لیے دیر ہو جاتی ہے۔"
2. دوسری شکایت: "وہ رات کو باہر نظر نہیں آتے!"
جواب: "میں دن میں لوگوں کے کام کرتا ہوں، اور رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں۔"
3. تیسری شکایت: "مہینے میں ایک دن باہر نہیں نکلتے!"
جواب: "میرے پاس صرف ایک جوڑا کپڑا ہے۔ جب وہ میلا ہو جاتا ہے، تو میں اسے دھوتا ہوں اور جب تک خشک نہ ہو، باہر نہیں نکل سکتا۔"
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے بیت المال سے کچھ مال ان کے لیے مقرر کرنے کا ارادہ کیا، لیکن حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا:
"مجھے دنیا کے مال کی ضرورت نہیں، بس میرے لیے اللہ کا اجر کافی ہے!"
سبق
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حکمرانی عیش و آرام کا نام نہیں، بلکہ عوام کی خدمت اور ایمانداری کا تقاضا کرتی ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain