صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ کی صحبت نصیب ہوئی اور جنہوں نے دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت میں اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دیا۔ یہ وہ مقدس جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ساتھ چن لیا اور قرآنِ کریم میں ان کی فضیلت کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا:
1. اللہ کی رضا اور جنت کی بشارت
اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کی عظمت کو ان الفاظ میں بیان کیا:
"محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔ تم انہیں رکوع اور سجدے میں دیکھو گے، وہ اللہ کے فضل اور رضا کے طلبگار ہیں۔" (الفتح: 29)
2. سب سے بہترین امت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے، ہدایت پاؤ گے۔" (مشکوٰۃ)
5. چاند رات میں کیا نہ کیا جائے؟
چاند رات خوشی کا موقع ہے،لیکن بعض غیر اسلامی رسومات سے اجتناب ضروری ہے:
1. فضول خرچی اور اسراف سے بچیں: عید کے کپڑوں اور تیاریوں میں فضول خرچ کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
2. ناچ گانے اور بے حیائی سے اجتناب کریں: غیر شرعی محفلیں اور فحاشی پر مبنی پروگرام اس مقدس رات کی برکت کو ختم کر دیتے ہیں۔
3. نماز اور ذکر الٰہی کو نہ بھولیں: عید کی تیاری کے ساتھ ساتھ اللہ کی عبادت کو ترک نہ کریں۔
نتیجہ
چاند رات کا موقع شکر گزاری،دعا،عبادت اور خوشی کا ہے۔اس رات میں اللہ کی بڑائی بیان کرنا،استغفار کرنا،درود شریف پڑھنا اور دعا مانگنا مسنون اعمال میں شامل ہیں۔
اللہ ہمیں اس رات کو صحیح طریقے سے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین!
4. چاند رات کی چند مسنون دعائیں
یہ موقع خوشی،دعا اور اللہ سے خیر و برکت مانگنے کا وقت ہے۔درج ذیل دعائیں چاند رات کو مانگنا مفید ہوگا:
(1) نئی نعمت پر شکر کی دعا
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ
(ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں،جس کی نعمت سے نیک اعمال مکمل ہوتے ہیں۔) (مسند احمد: 18089)
(2) رزق، برکت اور بھلائی کی دعا
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذَا الشَّهْرِ،وَخَيْرِ مَا فِيهِ، وَخَيْرِ مَا بَعْدَهُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذَا الشَّهْرِ، وَشَرِّ مَا فِيهِ،وَشَرِّ مَا بَعْدَهُ
(ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے اس مہینے کی بھلائی، اس میں پائی جانے والی بھلائی، اور اس کے بعد کی بھلائی مانگتا ہوں،اور اس مہینے کے شر،اس میں پائی جانے والی برائی،اور اس کے بعد کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔)
(2) استغفار اور توبہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَن قَامَ لَيْلَةَ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ
(ترجمہ:جو شخص عید کی رات کو ثواب کی نیت سے قیام کرے،اس کا دل اس دن مردہ نہ ہوگا جس دن سب کے دل مردہ ہو جائیں گے۔) (سنن ابن ماجہ: 1917)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند رات میں عبادت کرنا دل کو زندہ رکھنے اور روحانی ترقی کے لیے مفید ہے۔
(3) درود شریف پڑھنا
نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ہر وقت افضل ہے، اور چاند رات جیسے مبارک موقع پر اس میں مزید اضافہ کرنا بہتر ہے:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
3. چاند رات میں استغفار،عبادت اور دعا
چاند رات کی کوئی خاص عبادت یا نفل نماز احادیث میں ثابت نہیں،لیکن چونکہ یہ ایک مقدس موقع ہوتا ہے،اس لیے درج ذیل اعمال کرنا مستحب ہیں:
(1) اللہ کی بڑائی اور شکر ادا کرنا
جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا: وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ (البقرہ: 185)، اس لیے اس رات میں تکبیرات پڑھنا مستحب ہے:
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
(ترجمہ: اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،اللہ سب سے بڑا ہے،اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔)
یہ تکبیرات عید کی رات اور دن میں زیادہ سے زیادہ پڑھنا سنت ہے۔
2. چاند دیکھنے کی دعا
چاند رات پر سب سے اہم عمل نیا چاند دیکھنے کی دعا پڑھنا ہے۔نبی کریم ﷺ جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے:
اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَالتَّوْفِيقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضَى، رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ
(ترجمہ: اے اللہ! اس چاند کو ہم پر امن و ایمان،سلامتی و اسلام اور اس چیز کی توفیق کے ساتھ طلوع فرما،جو تجھے پسند ہو اور جس سے تو راضی ہو۔اے چاند! تیرا اور میرا رب اللہ ہے۔)
(سنن ترمذی: 3451، سنن دارمی: 1729)
یہ دعا پڑھنا مسنون ہے اور اس میں امن، ایمان،سلامتی اور نیک اعمال کی توفیق کی درخواست کی گئی ہے۔
چاند رات کے فضائل، احکام اور دعائیں – قرآن و حدیث کی روشنی میں
1. چاند رات کی حقیقت اور اس کا اسلامی تصور
چاند رات ایک ایسا موقع ہے جو رمضان المبارک کے بعد شوال کے مہینے کے آغاز پر آتی ہے۔ یہ رات اس خوشی کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم عبادت (روزے) کی تکمیل کے بعد ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
(ترجمہ: اور تاکہ تم گنتی پوری کرو، اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی، اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔) (البقرہ: 185)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے بعد شوال کا چاند دیکھ کر اللہ کی تکبیر و تہلیل کرنا، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا اور اس کے حضور دعائیں مانگنا مستحب عمل ہے۔
اور ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد بغیر نئے نکاح کے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے نکاح میں دے دیا۔
3. صحابہ کرام کا اخلاقی رویہ: حضرت ابو العاص کے مال کو واپس کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اسلامی تعلیمات کی عکاسی کرتا ہے۔
مستند احادیث اور حوالہ جات
یہ واقعہ مختلف احادیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے، جن میں شامل ہیں:
مسند احمد (1836)
سنن ابی داود (3931)
دارقطنی (3/253)
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ (8/32)
ابن ہشام، السیرۃ النبویہ (1/372)
یہ واقعہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی عظمت، ان کے صبر، اور نبی کریم ﷺ کی رحمت و شفقت کو نمایاں کرتا ہے۔
"اے قریش! کسی کو اس کے مال کی امانت واپس کرنی ہو تو آکر لے جائے، کیونکہ میں نے سب کا حق ادا کر دیا ہے۔ اب میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔"
پھر وہ مدینہ آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح بغیر نئے مہر اور نئے عقد کے دوبارہ بحال کر دیا۔
نتائج اور اہمیت
1. یہ واقعہ اسلامی قانون کا ایک خاص استثناء ہے: حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو العاص کا نکاح اس وقت ہوا تھا جب اسلامی احکام مکمل نہیں ہوئے تھے، اس لیے انہیں ایک خاص رعایت دی گئی۔
2. یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق اور صبر کی بہترین مثال ہے: آپ ﷺ نے اپنے داماد کے لیے صبر کیا، ان کے اخلاق اور دیانت کی قدر کی،
بعض روایات کے مطابق اس حملے کی وجہ سے انہیں حمل (pregnancy) ضائع ہو گیا تھا۔
حضرت ابو العاص کا اسلام قبول کرنا اور نکاح کی تجدید
چند سال بعد، 6 ہجری میں حضرت ابو العاص شام کی طرف تجارتی قافلے کے ساتھ گئے۔ وہاں سے واپسی پر مسلمانوں کے ایک دستے نے ان کا قافلہ پکڑ لیا۔ حضرت ابو العاص کسی طرح مدینہ پہنچے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے گھر پناہ لی۔ صبح فجر کی نماز کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے مسجد نبوی میں بلند آواز سے کہا:
"میں نے ابو العاص کو پناہ دے دی ہے۔"
نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا:
"اگر تم مناسب سمجھو تو ان کا مال واپس کر دو، ہم کسی کا مال ضبط نہیں کرتے، اور وہ جسے چاہیں واپس کر دیں۔"
(سنن ابی داود: 3931، دارقطنی: 3/253)
صحابہ نے فوراً ان کا مال واپس کر دیا۔ حضرت ابو العاص مکہ پہنچے اور وہاں اعلان کیا:
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ان کی رہائی کے لیے فدیہ کے طور پر اپنی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وہ مشہور ہار بھیجا جو انہیں شادی کے وقت ملا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے یہ ہار دیکھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یاد میں رقت طاری ہو گئی اور صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ اگر وہ چاہیں تو فدیہ لیے بغیر ابو العاص کو رہا کر دیں۔
مکہ واپسی اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی ہجرت
ابو العاص رہائی کے بعد مکہ واپس گئے، لیکن نبی کریم ﷺ نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو مکہ میں نہیں رکھیں گے، کیونکہ مسلمان عورت کا نکاح کسی غیر مسلم مرد سے جائز نہیں۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ہجرت کروا دی گئی۔
جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہجرت کر رہی تھیں تو قریش کے کچھ سرداروں نے راستے میں انہیں روک کر زخمی کر دیا۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے اس نکاح سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرح نبی کریم ﷺ بہت خوش تھے، کیونکہ ابو العاص دیانت داری اور امانت داری میں مشہور تھے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا اسلام قبول کرنا اور جدائی
جب نبی کریم ﷺ کو نبوت ملی، تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے فوراً اسلام قبول کر لیا، لیکن ان کے شوہر ابو العاص نے اسلام قبول نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی دیگر صاحبزادیاں حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن کا نکاح بعد میں مسلمانوں سے ہوا، لیکن حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے معاملے میں ان کا شوہر بدستور غیر مسلم رہا۔
سن 2 ہجری میں جنگِ بدر ہوئی، اور قریش کے کئی سرداروں کے ساتھ حضرت ابو العاص بھی مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہو گئے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کا واقعہ سیرت النبی ﷺ کے اہم واقعات میں شمار ہوتا ہے، جس میں نکاح، جدائی، ہجرت، اور پھر اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ نکاح کی تجدید کا ذکر آتا ہے۔ اس واقعے کی تفصیل صحیح احادیث اور سیرت کی مستند کتب میں ملتی ہے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ ان کا نکاح مکہ میں ابو العاص بن ربیع سے ہوا جو قریش کے معزز اور دیانت دار تاجروں میں شمار ہوتے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد ابو العاص کی والدہ تھیں، اس طرح یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے قریبی رشتہ دار بھی تھے۔
یہ نکاح نبوت سے پہلے ہوا تھا، اور اس وقت تک اسلام کے احکام مکمل طور پر نازل نہیں ہوئے تھے۔
ساتھ ہی عید کا دن ان غریبوں اور ناداروں کے لیے بھی مسرت لاتا ہے جنہیں زکوٰۃ الفطر کے ذریعے خوشیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔
اگر غیر مسلم خود مبارکباد دے تو شکریہ کہنا یا نرمی سے جواب دینا درست ہے۔
بغیر کسی شرعی قباحت کے،محض حسن اخلاق اور اسلامی رواداری کے تحت "آپ کے لیے بھی نیک تمنائیں" کہنا جائز ہو سکتا ہے۔
لیکن بلا وجہ خود سے پہلے بڑھ کر غیر مسلم کو "عید مبارک" کہنا بہتر نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ عید مسلمانوں کے لیے مخصوص دینی خوشی کا موقع ہے۔
عیدالفطر درحقیقت تمام مسلمانوں کے لیے خوشی اور شکرانے کا دن ہے۔ یہ رمضان المبارک کے اختتام پر آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے پورے مہینے روزے رکھے، عبادت کی، تقویٰ اختیار کیا اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔
لیکن اگر غور کریں تو عیدالفطر خاص طور پر روزہ داروں کے لیے ایک انعام اور خوشی کا موقع ہے، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
"لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ، فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ"
(صحیح البخاری: 1904)
ترجمہ: "روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔"
لہٰذا، عیدالفطر ان کے لیے زیادہ خاص ہوتی ہے جنہوں نے رمضان کا حق ادا کیا، نماز، زکوٰۃ، صدقہ فطر ادا کیا اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی۔

غریب بندے کی تو اچھی بات میں بھی وزن نہیں ہوتا ہے اور امیروں کی چول بھی کسی اقوال زریں سے کم نہیں ہوتی ہے۔
میں نے کبھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر نہیں سوچا،تبھی وہ مجھے مل بھی گیا۔
بیوی اسلیئے نہیں ملی کیوں کہ کبھی سوچا ہی نہیں تھا اس بارے میں۔
تو نے مجھے پہچانا نہیں
عشق ہوں میں تیرا
تیرے ابا کا ملازم نہیں
دیوانہ ہوں میں تیرے نام کا
عاشق کوئی تیرا مجھ سا نہیں
وہ او ہو ہاں ہاں لا لا
ارسطو نے زندگی کے بارے میں کہا:
"اچھی زندگی کا راز یہ نہیں کہ ہم صرف جینے پر توجہ دیں،بلکہ یہ ہے کہ ہم نیک اور باعزت زندگی گزاریں۔"
(“The good life is not one that is focused merely on living, but on living well and virtuously.”)
ارسطو کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف بقا نہیں بلکہ اخلاقی اقدار،نیکی اور علم کی جستجو تھا۔
وہ سمجھتے تھے کہ ایک متوازن اور باکردار زندگی ہی حقیقی خوشی اور کامیابی کی بنیاد ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain