نتیجہ:
قرآن و حدیث کی روشنی میں مولا علی علیہ السلام کی شخصیت اور ان کے مقبرے کا ایک خاص مقام ہے۔ ان کے مقابر میں سے نجف، عراق کا مقبرہ زیادہ مستند اور معروف سمجھا جاتا ہے، جب کہ مزار شریف (افغانستان) اور نیشاپور (ایران) میں بھی مختلف تاریخی روایات کے مطابق ان کی قبروں کے بارے میں دعوے ہیں، مگر ان کا درجہ نجف کے مقبرے جیسا نہیں۔
مولا علی کے مقبرے کے بارے میں اختلافات
مولا علی علیہ السلام کے مقبرے کے بارے میں مختلف تاریخ دانوں اور محدثین کے درمیان کچھ اختلافات بھی ہیں، خاص طور پر ان روایات کے حوالے سے کہ حضرت علی کا جسم کہاں دفن کیا گیا تھا۔ لیکن زیادہ تر روایات اور تحقیق یہ بتاتی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کا اصلی مقبرہ نجف، عراق میں واقع ہے۔
4. مقبرے کی زیارت اور روحانی اہمیت
حضرت علی علیہ السلام کے مقبرے کی زیارت کو مسلمانوں کے لیے ایک روحانی تجربہ اور برکت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ شیعہ مسلمان ان کی قبر کو جنت کا ایک باغ سمجھتے ہیں اور ان کی قربانیوں اور کردار کو یاد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نجف، مزار شریف اور دیگر جگہوں پر ان کی زیارت کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔
بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا جسم نجف کی طرف روانہ ہونے سے پہلے یہاں رکھا گیا تھا، اور اس جگہ پر آپ کا مزار موجود ہے۔
شیعہ عقیدہ: مزار شریف میں مقبرہ مولا علی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، اور یہاں ہر سال عظیم محافل اور زیارتیں ہوتی ہیں۔
3. نیشاپور، ایران
نیشاپور میں حضرت علی علیہ السلام کا مقبرہ اس مقام پر بھی موجود ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، لیکن اس کا تاریخی اعتبار کم ہے۔ یہاں کی ایک مشہور روایت یہ ہے کہ حضرت علی کی روح نیشاپور میں ایک وقت کے لیے آئی تھی، اور اس کے بعد ان کا جسم دفن کرنے کے لیے نجف روانہ کیا گیا۔ تاہم، اس بارے میں کوئی مستند تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔
حضرت علی کی شہادت کے بعد ان کی اولاد اور شیعہ مسلمانوں نے اس جگہ کو خاص اہمیت دی، اور یہ مقبرہ آہستہ آہستہ ایک عظیم زیارت گاہ بن گیا۔
احادیث کی روشنی میں: حضرت علی علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کے مزار کی اہمیت پر مختلف روایات آئی ہیں۔ ایک مشہور حدیث ہے:
> "علی علیہ السلام کا مزار جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔"
(حسین بن سعید، امام علی علیہ السلام کی حدیث)
2. مزار شریف، افغانستان
مزار شریف میں بھی حضرت علی علیہ السلام کا مقبرہ ایک معروف زیارت گاہ ہے، اور یہاں پر بہت سی شیعہ روایات اور دعوے موجود ہیں۔
تاریخی پس منظر: یہ مقبرہ افغانستان کے شہر مزار شریف میں واقع ہے اور یہاں ایک قدیم روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ایک دوسری قبر یہاں موجود ہے۔
احادیث میں مولا علی علیہ السلام کا مقام: مولا علی علیہ السلام کے بارے میں کئی احادیث آئی ہیں جو آپ کی عظمت اور مقام کو بیان کرتی ہیں۔ ان میں سب سے مشہور حدیث "من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ" ہے، جو حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی تصدیق کرتی ہے۔
2. مولا علی علیہ السلام کا مقبرہ
مولا علی علیہ السلام کے مقبرے کے حوالے سے مختلف تاریخی روایات اور دعوے ہیں،جن میں تین اہم مقامات پر ان کا مزار بتایا گیا ہے:
1. نجف، عراق
نجف میں موجود مقبرہ مولا علی علیہ السلام کا سب سے معروف اور مستند مقام سمجھا جاتا ہے۔شیعہ مسلمانوں کے لیے یہ مقبرہ ایک مقدس زیارت گاہ ہے، اور ہر سال لاکھوں افراد یہاں زیارت کے لیے آتے ہیں۔
تاریخی پس منظر: حضرت علی علیہ السلام کی شہادت 21 رمضان 40 ہجری کو ہوئی۔ آپ کو کوفہ میں شدید زخمی ہونے کے بعد کوفہ کے قریب نجف میں دفن کیا گیا۔
قرآن میں مولا علی علیہ السلام کا ذکر: قرآن میں مولا علی علیہ السلام کا براہ راست نام نہیں آیا، لیکن آپ کی شخصیت اور کردار کی گواہی مختلف آیات میں دی گئی ہے۔ سب سے اہم آیت جو مولا علی علیہ السلام کے فضائل کو بیان کرتی ہے، وہ آیتِ تطہیر (سورہ احزاب، آیت 33) ہے جس میں اہل بیت کی پاکیزگی کا ذکر ہے:
> "یقیناً اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی نجاست دور کر دے، اے اہلِ بیت، اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے۔"
اس کے علاوہ آیتِ ولایت (سورہ مائدہ، آیت 55) میں ولایت کا لفظ آیا ہے، جو شیعہ مسلمان مولا علی علیہ السلام کے لیے خاص طور پر استعمال کرتے ہیں:
> "تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان لاتا ہے اور جس نے رکوع کرتے ہوئے صدقہ دیا۔"
مولا علی علیہ السلام کی شخصیت اسلامی تاریخ میں بے شمار اہمیت کی حامل ہے، اور ان کے بارے میں قرآن اور احادیث میں بھی خاص ذکر آیا ہے۔ آپ کی زندگی اور مقبرے سے متعلق مختلف روایات پائی جاتی ہیں، جنہیں اسلامی تاریخ اور جغرافیائی تحقیق کے مطابق مختلف مقامات سے جوڑا گیا ہے۔ اس موضوع پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
1. مولا علی علیہ السلام کی شخصیت اور اہمیت
مولا علی علیہ السلام کو مسلمانوں میں خاص مقام حاصل ہے، خصوصاً شیعہ مسلمان انہیں "امام اول" اور "ولی اللہ" کے طور پر مانتے ہیں، جب کہ اہلِ سنت بھی انہیں بہت عزت و احترام دیتے ہیں۔ آپ کی زندگی اور کردار قرآن و حدیث میں ایک مثالی نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
9. حجۃ الوداع اور آخری نصیحت
10 ہجری میں آپ ﷺ نے حج ادا کیا اور خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا:
"آج دین مکمل ہو گیا، تمہارے مال، جان اور عزت محترم ہیں، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، سب برابر ہیں سوائے تقویٰ کے۔"
10. وصال
12 ربیع الاول 11 ہجری کو نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا، اور یوں دنیا کے لیے اللہ کی سب سے عظیم نعمت کا ظاہری دور مکمل ہوا۔
سیرتِ طیبہ کا پیغام
نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمیں صبر، استقامت، محبت، عدل، سچائی، عبادت، اور حسنِ اخلاق سکھاتی ہے۔
اگر ہم کامیابی چاہتے ہیں، تو ہمیں سیرتِ طیبہ پر عمل کرنا ہوگا۔
طائف میں تبلیغ کے دوران اہلِ طائف نے آپ پر پتھر برسائے، مگر آپ ﷺ نے بددعا نہیں دی، بلکہ ہدایت کی دعا کی۔
5. ہجرتِ مدینہ
جب مکہ میں حالات بہت سخت ہو گئے، تو اللہ کے حکم سے آپ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، جہاں انصار نے آپ کا والہانہ استقبال کیا۔
6. مدنی زندگی اور اسلامی ریاست کی بنیاد
مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوئی، مسجد نبوی تعمیر ہوئی، اور مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ قائم کیا گیا۔
7. جہاد اور دفاعِ اسلام
کئی جنگیں ہوئیں، جیسے بدر، احد، خندق، اور خیبر، مگر آپ ﷺ ہمیشہ امن کو ترجیح دیتے تھے اور ظلم و زیادتی کے خلاف کھڑے ہوتے تھے۔
8. فتح مکہ: عظیم معافی
8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ دشمنوں کو عام معافی دی گئی، اور خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کر دیا گیا۔
2. نوجوانی اور صداقت و امانت
آپ ﷺ کی جوانی نہایت پاکیزہ گزری۔ آپ ﷺ ہمیشہ سچ بولتے اور امانت کی حفاظت کرتے، اسی لیے اہلِ مکہ نے آپ کو "الصادق الامین" (سچا اور امانت دار) کہا۔
3. نبوت کا آغاز
چالیس برس کی عمر میں، غارِ حرا میں عبادت کے دوران، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے پہلی وحی نازل فرمائی:
"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ" (العلق: 1)
"پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔"
آپ ﷺ نے سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زیدؓ کو اسلام کی دعوت دی، اور پھر آہستہ آہستہ یہ پیغام پھیلنے لگا۔
4. مکی زندگی: مشکلات و صبر
مکہ میں 13 سال تک آپ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو سخت تکالیف دی گئیں۔ شعبِ ابی طالب میں تین سال کا سخت مقاطعہ ہوا۔
سیرتِ طیبہ، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی، پوری انسانیت کے لیے کامل نمونہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب: 21)
"یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ (ﷺ) کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔"
سیرتِ طیبہ کے اہم مراحل
1. پیدائش و بچپن
نبی کریم ﷺ 12 ربیع الاول عام الفیل (570 عیسوی) میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ والد محترم حضرت عبداللہ آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ والدہ حضرت آمنہ نے آپ کی پرورش کی، مگر جب آپ ﷺ چھ سال کے ہوئے تو وہ بھی انتقال فرما گئیں۔ پھر آپ کے دادا عبدالمطلب اور بعد میں چچا ابوطالب نے آپ کی کفالت کی۔
3. عفو و درگزر
فتح مکہ کے موقع پر جب قریش کے لوگ آپ ﷺ کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے، تو آپ نے فرمایا:
"آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو" (سیرت ابن ہشام)۔
4. محبت اور شفقت
آپ ﷺ بچوں سے محبت فرماتے، خواتین کے حقوق کا خیال رکھتے، غلاموں اور کمزوروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے، اور صحابہ کرامؓ سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔
5. سادگی اور زہد
آپ ﷺ کے پاس دنیاوی ساز و سامان بہت کم تھا، لیکن پھر بھی دل کا اطمینان سب سے زیادہ تھا۔
نتیجہ
اگر ہم اپنی زندگی کو رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے مطابق ڈھال لیں، تو دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرنا اور اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
سیرتِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہ بہترین نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا، اور اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ اگر ہم حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر شعبۂ زندگی کے لیے رہنمائی ملتی ہے۔
چند نمایاں پہلو
1. اخلاقِ حسنہ
رسول اللہ ﷺ کی سب سے نمایاں صفت آپ کا اخلاق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: 4)
"اور بے شک، آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر ہیں۔"
آپ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں" (بخاری، مسلم)۔
2. صبر و استقامت
آپﷺ نے اسلام کی دعوت میں بے شمار مشکلات کا سامنا کیا، مگر کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ طائف میں جب لوگوں نے پتھر مار کر زخمی کر دیا، تب بھی بددعا دینے کے بجائے ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی۔
https://www.facebook.com/share/v/18TkUnSqBi/
۔
۔
۔
92 کروڑ کی سب سے بڑی چلغوزوں کی چوری
https://www.facebook.com/share/v/1A5c1VABF6/
.
.
.
رحیم یار خان صادق آباد لنڈا بازار
پھر دیگر مستحق مسلمان۔
فطرانے کا مقصد یہ ہے کہ عید کے دن کوئی غریب بھوکا نہ رہے اور وہ بھی خوشیوں میں شریک ہو سکے، اس لیے اسے عید سے پہلے ادا کرنا افضل ہے۔
7. فی سبیل اللہ – جو دین کے کسی جائز کام میں مصروف ہوں، مثلاً طلبہ، مجاہدین یا دیگر دینی کاموں میں مشغول افراد۔
8. ابن السبیل – وہ مسافر جو کسی ضرورت کی بنا پر راستے میں پریشان ہو جائے اور اسے مالی مدد کی ضرورت ہو۔
فطرانہ کس کو نہیں دیا جا سکتا؟
اپنے ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ کو (کیونکہ ان کا خرچ خود پر واجب ہے)۔
اپنی اولاد (بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں) کو۔
شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو نہیں دے سکتی۔
ایسے لوگوں کو جو صاحبِ نصاب ہوں (یعنی جن کے پاس زکوٰۃ کے نصاب کے برابر مال موجود ہو)۔
سب سے بہتر فطرانہ کس کو دینا چاہیے؟
سب سے پہلے اپنے قریبی غریب رشتہ دار، جیسے بھائی، بہن، چچا، ماموں وغیرہ۔
پھر پڑوسیوں میں جو مستحق ہوں۔
فطرانہ مستحقینِ زکوٰۃ کو دیا جاتا ہے، یعنی وہ لوگ جو بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ فقہاء نے فطرانے کے مستحقین کی وہی آٹھ قسمیں بتائی ہیں جو زکوٰۃ کے لیے بیان کی گئی ہیں، جیسا کہ سورۃ التوبہ (9:60) میں ذکر ہوا ہے:
1. فقیر – جو انتہائی تنگدست ہو اور بنیادی ضروریات پوری نہ کر سکتا ہو۔
2. مسکین – جو فقیر سے قدرے بہتر ہو مگر اب بھی محتاج ہو۔
3. عاملینِ زکوٰۃ – وہ افراد جو زکوٰۃ اور فطرانہ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے مقرر کیے گئے ہوں۔
4. مولّفتہ القلوب – وہ لوگ جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود ہو (یہ آج کل زیادہ رائج نہیں)۔
5. غلاموں کی آزادی – کسی غلام یا قیدی کو آزادی دلانے کے لیے۔
6. مقروض افراد – جو جائز اور شرعی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوں اور انہیں ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔
رمضان المبارک کے اختتام پر ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔اس کی مقدار نبی کریم ﷺ کے زمانے میں مخصوص اجناس کی بنیاد پر مقرر کی گئی تھی،جیسے گندم، جو،کھجور اور کشمش۔ موجودہ دور میں ان اجناس کی قیمتوں کے مطابق صدقہ فطر کی رقم کا تعین کیا جاتا ہے، جو ہر سال مختلف ہو سکتی ہے۔
رواں سال 2025 میں پاکستان میں صدقہ فطر کی کم از کم مقدار 220 روپے فی کس مقرر کی گئی ہے، جو گندم کے حساب سے ہے۔ اگر آپ جو کے حساب سے ادا کرنا چاہیں تو 450 روپے فی کس، کھجور کے حساب سے 1,650 روپے فی کس، اور کشمش کے حساب سے 2,500 روپے فی کس ادا کرنا ہوں گے۔
اہلِ ثروت افراد کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی مالی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر ادا کریں تاکہ مستحقین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے۔
سوال:لیلۃ القدر ایک ہونے کے باوجود مختلف ممالک میں الگ الگ کیوں ہوتی ہے؟
جواب:لیلۃ القدر ایک ہی رات ہوتی ہے، لیکن مختلف ممالک میں اس کے دن میں فرق اس وجہ سے آتا ہے کہ اسلامی مہینے کا آغاز چاند دیکھنے پر منحصر ہوتا ہے اور چاند مختلف جگہوں پر مختلف دنوں میں نظر آ سکتا ہے۔
چونکہ اسلامی تقویم قمری ہے اور ہر ملک میں چاند نظر آنے کا وقت مختلف ہو سکتا ہے اس لیے رمضان کا آغاز اور اختتام بھی مختلف ہو سکتا ہے۔جب رمضان مختلف دنوں میں شروع ہوتا ہے تو آخری عشرہ بھی مختلف ہو سکتا ہے،جسکی وجہ سے لیلۃ القدر مختلف ممالک میں ایک دن کے فرق سے آسکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض ممالک میں ایک رات کو شبِ قدر مانی جاتی ہے،جبکہ دوسرے ممالک میں اگلی رات کو۔لیکن حقیقت میں لیلۃ القدر ایک ہی رات ہوتی ہے،بس مقامی چاند کے حساب سے اس کا تعین مختلف دنوں میں ہو سکتا ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain