ضرورت۔ قسط لمبر #07 چند لمحوں بعد وہ بولی “چھوڑ گیا۔” “تم ہیرا منڈی کیسے گئی تم مجھے ناچنے گانے والی تو نہیں لگتی؟” اب وہ نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی، “سیٹھ جی قسمت وہاں لے گئی۔ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ایک بیمار ماں اور بچے کی ذمہ داری تھی۔ کہیں اور کام نہیں ملا تو ناچاہتے ہوئے بھی مجبورا”یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے تک نائیکہ نے ناچ گانا سکھایا اور پھر دھندے پر بیٹھا دیا۔۔ وہ مجھے مجرا کرنے کے روزانہ دو سو روپے دیتی ہے اور ساتھ میں تماش بینوں کا بچا کھچا کھانا، جو میں گھر لا کے اپنی ماں کو کھلاتی ہوں اور خود بھی کھاتی ہوں۔ برقعے میں آتی جاتی ہوں جس سے محلے میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اور اک بھرم قائم ہے۔ جاری۔
ضرورت۔ قسط لمبر#06 چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر آئی مجھے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر کمرے میں گئی اور اک پرانی کرسی اٹھا لائی۔ “سیٹھ جی! معذرت۔ میرے گھر میں آپ کو بیٹھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔” وہ کرسی رکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔میں سر ہلاتے ہوئے اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہاں سے شروع کروں۔ “تمھارا اصل نام کیا ہے بلبل؟” بالآخر میں نے اس سے پوچھا ۔وہ چپ رہی شاید بتانا نہیں چاہ رہی تھی افشاں”۔ میرے دوبارہ پوچھنے پر اس نے آہستہ سے کہا۔ ” بہت افسوس ہوا تمھاری ماں کی وفات کا۔” وہ خاموش رہی۔ “تمھارا باپ، بھائی کوئی ہے ؟” اس نے خاموشی سے “نہیں” میں سر ہلایا۔ “یہ بچہ تمھارا ہے ؟” اس نے پھر خاموشی سے “ہاں “میں سر ہلایا۔ تمھارا شوہر کہاں ہے؟ جاری۔
ضرورت۔ قسط لمبر #05 یہ چھوٹا سا ایک کمرے کا گھر تھا۔ صحن کے بیچ میں چارپائی پر اسکی ماں کی لاش ایک گدلے کمبل میں لپٹی پڑی تھی۔ صحن میں بلب کی پیلی روشنی وہاں بسنے والوں اور گھر کی حالت چیخ چیخ کر عیاں کر رہی تھی۔ چارپائی کے پاس دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھی ۔ ایک کی گود میں سات آٹھ ماہ کا بڑا گول مٹول اور پیارا سا بچہ کھیل رہا تھا۔ آدھی رات ہونے کو آئی تھی۔ جیسے ہی بلبل گھر میں داخل ہوئی، وہ بوڑھی عورتیں بچہ اسے سونپتے اور دیر آنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئیں۔ بلبل بچے کو لے کر کمرے کی طرف گئی۔ بچہ بہت بے قرار تھا اور پھر وہ اسکی چھاتی سے لپٹ گیا جیسے صبح سے بھوکا ہو۔ “کیا یہ بلبل کا بچہ ہے؟” یہ ایک نیا انکشاف تھا کہ بلبل شادی شدہ بھی ہے۔ جاری۔
ضرورت۔ قسط لمبر #04 تماش بین کوٹھے پر نہیں آتے۔ جو آتے ہیں وہ پہلے کی طرح کچھ لٹاتے نہیں۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ایدھی والوں سے اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کروا لو۔” اتنا کہہ کے وہ برقعہ پہن کر کوٹھے سے باہر نکل آئی۔ میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا،”میں تمھاری ماں کے کفن و دفن کا بندوبست کرتا ہوں۔” وہ چند لمحے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی ٹیکسالی سے باہر نکالتے ہوئے میں نے بلبل سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ وہ علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا کئی بار میں وہاں سے گزرا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ سارا راستہ وہ خاموشی سے روتی رہی۔ میرے پاس اسکو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی نہیں تھے۔کچھ دیر میں ہم بلبل کے گھر پہنچ گئے۔ جاری۔
ضرورت۔ قسط لمبر #03 اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟ میری طرف دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہی اور میرے دوبارہ پوچھنے پر گھٹی گھٹی آواز میں بولی “ماں مر گئی۔” “کیا؟” جب مجھے اسکی سمجھ نہیں آئی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے دوبارہ بولی کہ “آج میری ماں مر گئی۔” اس جواب سے جیسے میرے منہ کو تالا لگ گیا۔ میری شیطانی ہوس، جس کو پورا کرنے کے لیے میں اس کی جانب آیا تھا، مجھ سے میلوں دور بھاگ گئی۔ “تو تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” میں نے غصے اور حیرت سے اس سے پوچھا۔ ” کفن دفن کے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ اس لئے میں مجرا کرنے آئی تھی۔ مگر نائیکہ آج پیسے ہی نہیں دے رہی۔ کہتی ہے بہت مندی ہے۔ جاری۔
ضرورت۔ قسط لمبر #02 وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہی تھی۔ دروازہ کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہ کر وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کے میرے اندر خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ وہ ضرورت پوری کر کے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس کی جانب بڑھا، اس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور وہ برقعہ پہن رہی تھی۔ پاس جا کر جب میں نے اسے پکارا تو وہ میری طرف مڑی۔ اسکا چہرہ آنسووں سے تر اور برف کی مانند ایسے سفید تھا جیسے کسی نے اس کا سارا خون نکال لیا ہو۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میں چکرا سا گیا ۔ جاری۔
ضرورت۔ قسط لمبر #01 اس کو پیسوں کی ضرورت تھی اور مجھے اس کے جسم کی ، میرے اندر کا شیطان پوری طرح جاگ چکا تھا جب میں کمرے میں اس کے پیچھے داخل ہوا وہ برقعہ پہن رہی تھی مجھے اس کا مجرا دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی تھی تو جیسے سب تماش بین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس دن مجرا کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔ مجرے کے اختتام پہ جب سب تماش بین چلے گئے تو میں بھی اٹھا۔۔۔ جاری۔۔۔
ڈاکٹر نے اسڑیچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا - - - کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "کھول دو" سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہویی بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی - بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا "زندہ ہے میری بیٹی زندہ ہے" ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا_۔ 😔😔
سانڈ جب بُوسونگھ کر گائے کے پاس جاتا ہے تو اُس کو بدن پر عطر لگانا نہیں پڑتا اور جب کتا کُتیا سے عشق لڑاتا ہے تو وہ پہلے بیٹھ کر اسکیم تیار نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر ایک طرف بیٹھا ہانپ رہا ہوتا ہے۔ بلکل اِسی طرح جب ایک لڑکی اچانک آپ کے سامنے آتی ہے پھر آپ کے اندر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ ساتھ لیٹی ہو در اصل عشق و محبت ایک حیوانی طلب ہے ہم بنیادی طور پر حیوان ہیں ہمیں حیوانیت سے ہی کام لینا چاہیے۔۔۔ ♥♥
عورتوں کی صفات کی پرواہ ہی کون کرتا ہے ۔کون پوچھتا ہے کہ عورت کس درجہ کمال ہے ۔مرد کو تو صرف عورت کا سراپا اٹریکٹ کرتا ہے ،وہ بیچاری اس کوسجاتی نہ پھرے تو اور کیا کرے ؟ 😒