Damadam.pk
MR-FREAK's posts | Damadam

MR-FREAK's posts:

MR-FREAK
 

آج کی اچھی بات
کسی کے آگے جھکنا نہیں
اگر آپ جھک گئے
تو وہ آپ کی گ مار دے گا۔

MR-FREAK
 

گناہ اور ثواب, سزا و جزا کی بھول بھلیاں میں پھنس کر آدمی کسی مسلے پر ٹھنڈے دل سے غور نہیں کر سکتا۔۔۔
ویسے آپ جانتی ہیں تنگ لباس آپکی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔
♥♥

MR-FREAK
 

انگڑائی ذرا سنبھل کے لیا کیجئے
حسن مثل کانچ و آب ہے ٹوٹ نہ جائے کہیں۔
مرشد۔
♥♥

MR-FREAK
 

رکھیل۔
میں تیری ہر ادا سے بہت اچھے سے واقف ہوں ، تو پہلے گردن پھر ہونٹ چومنے دے گی۔
♥♥

MR-FREAK
 

سنا تھا آنکھیں بولتی ہیں لیکن آج کل تو ڈگی بھی بولتی ہیں۔۔۔
♥♥

MR-FREAK
 

عورت اگر چاہے تو ہجوم میں اپنے پسند کے مرد کو اپنا سب کچھ دکھا سکتی ہے اور نا چاہے تو تنہائی میں بھی کوئی اور اس کے ناخن تک کو نہیں دیکھ سکتا۔

MR-FREAK
 

حُسن کو پہچاننے کیلئے ضروری ہے کہ
پہلے اپنے اندر کی شہوت کو ٹھنڈا کر لیا جائے
پھر حُسن شناسی کی فطرت بھی جھاگ جائے گی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے جب ایسے شہوت انگیز بریسٹ دیکھیں گے تو حسن شناسی جاتی ہے تیل لینے۔
ٹھرکیوں کے من کی بات
منہ پر کپڑا ڈال دیں گے۔🔫

MR-FREAK
 

عورت نام ہی پیار کا ھے خمار کا ھے اقرار کا ھے اظہار کا ھے ۔۔اس سے پیار کریں مخلص ہو جائیں اس سے ۔پھر دیکھیں کتنا بھرپور ساتھ دیتی ھے آپکا ۔جو ایک عورت میں لگا ہوتا ھے وہی دوسری میں بھی ہوتا ہے۔
سالے کمینوں🔫

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#19
اور یوں میری بیٹی کا رشتہ افشاں کے بیٹے احمد سے طے ہو گیا۔ وہ تعلق جو اک طوائف اور تماش بین جیسے گندے رشتے سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام ایک نہایت مہذب رشتے کی شکل میں ہوا۔یہ سچ ہے کہ ہر انسان کو قدرت سدھرنے کا موقعہ ضرور دیتی ہے۔ کبھی گندگی کے ڈھیر سے اس کو ایسا سبق سیکھا دیتی ہے، کبھی دو بھٹکے لوگوں ملا کر سیدھے راہ پر لے آتی ہے اور انسان ساری زندگی اسی کے مطابق گزارنے کو فخر محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ طوائف اور میں تماش بین تھا۔ مگر آج وہ میری منہ بولی بہن اور اس کا بیٹا میری بیٹی کا شوہر ہے۔ اور
مجھے ان دونوں رشتوں پر فخر ہے۔
ختم شدہ۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#18
بیگم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ “میں نے روبی بیٹی کے لیے ایک لڑکا پسند کیا ہے ۔ تم مل لو اگر تم کو پسند آجائے تو پھر اس کے بعد روبی سے بات کر لینا۔” میں نے مختصر لفظوں میں اسے وجہ بتائی۔ اگلے دن میں اور میری بیگم ارم ناز افشاں کے گھر میں تھے۔ ارم کو بھی احمد بہت پسند آیا۔ ہم نے پھر افشاں سے احمد اور روبی کے رشتے کی بات کی۔ افشاں کو بھلا اس سے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ پھولے سے نہیں سما رہی تھی۔
جاری۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#17
میں نے تم کو بہن کہا ہے افشاں بہن۔ اور میں کیسے تم سے یہ پیسے واپس لے سکتا ہوں۔ مجھے یوں شرمندہ مت کرو۔” میرے رکے رکے الفاظ میں پیسے نہ لینے کی معذرت چھپی تھی۔ مگر وہ بضد تھی۔ مجھے اس کے سامنے ہار ماننا پڑی اور وہ تمام پیسے جو میں اسکو منی آڈر کی صورت میں بھیجتا تھا . اس کو واپس لینے کی حامی بھرنی پڑی۔ پھر وہ دونوں مجھے اپنے نئے گھر کا پتہ دے کر اور آنے کی تاکید کر کے وہاں سے چلے گئے۔ “ارم میں نے تمہیں کسی سے ملوانا ہے میرے ساتھ چلو گی۔؟ ” شام کو میں نے اپنی بیگم سے کہا۔ “کیوں نہیں چلوں گی۔ مگر کون ہے؟ اور کس سلسلے میں ملنا ہے؟”
جاری۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#16
اپنے بیٹے کو ایک قابل انسان بنایا۔ آپ نے مجھے بائیس سال پہلے کہا تھا کہ یہ قرض ہے اور یہ تب واپس کرنا جب تمھارا بیٹا ایک قابل انسان بن جائے۔” کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد افشاں پھر سے بولی، “سیٹھ جی آج وہ وقت آگیا ہے۔ میں آپ کے احسانوں کا بوجھ تو میں نہیں اتار سکتی مگر جو پیسے آپ نے مجھے دئیے تھے میرا بیٹا وہ ضرور اتارے گا۔ اور آپ سے درخواست ہے آپ انکار مت کریں۔”میں افشاں کو بڑی تحسین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آخر اس نے وہ کر ہی دکھایا۔ یقیناً قول و قرار کو نبھانا، وعدہ پر قائم رہنا اک اچھے کردار کے حامل انسان کی بڑی نشانی ہے۔ یہ سب سن کر میرے دل میں اسکی عزت اور احترام اور بڑھ گیا۔
جاری۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#15
سیٹھ صاحب جس طرح آپ ہم بے سہارا اور بے کس لوگوں کی زندگی میں مسیحا بن کر آئے . اس کا احسان ہم کبھی نہیں بھولیں گے ۔” احمد بڑی مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا بڑی عاجزی سے بول رہا تھا۔ “ایسے کہہ کر آپ لوگ مجھے شرمندہ مت کریں۔” میں نے افشاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آج اسکو پکارتے ہوئے بے اختیار میرے منہ سے افشاں بہن نکل گیا۔ میں خود حیران تھا مگر یہ سچ تھا۔افشاں صوفے سے اٹھی اور آگے بڑھ کر پرانی سی ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگی، “سیٹھ جی اس میں وہ تمام حساب درج ہے ۔۔ میری ماں کی تدفین سے لے کر آپ کے آخری منی آڈر تک۔ میں نے اک اک پائی کا حساب رکھا۔ آپ کے دیے پیسوں کا امانت کے طور پر استعمال کیا۔
جاری۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#14
سلام سیٹھ جی میں افشاں ہوں اور یہ میرا بیٹا احمد ۔” جونہی اس نے افشاں کا نام لیا میرے ذہن میں اسکا ماضی کا چہرہ گھوم گیا۔ اور پھر مجھے پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ وہ افشاں تھی۔” آپ مجھے پہچان گئے ناں؟” میں نے سر ہلاتے ہوئے “ہاں” میں جواب دیا اور ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔افشاں پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر بولی۔ “احمد بیٹا یہی ہیں میرے مسیحا جن کی بدولت تمھاری ماں گندگی کی دلدل میں گرتے گرتے نکلی اور یہی ہیں جو تمھاری پڑھائی کا تمھیں یہاں اس مقام تک لانے کا ذریعہ ہیں ۔” ” میں انکو جانتا ہوں امی جان ان کا شمار علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا ہے ۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس مقام پر لانے میں انکا کردار سب سے اہم ہے۔
جاری۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#13
ایک شام چھٹی کے دن جب میں اپنے گھر میں موجود تھا تو ملازم نے آکر مجھے بتایا کہ ایک عورت اور اسکے ساتھ ایک جوان لڑکا آپ سے ملنے آئے ہیں۔ “کون ہیں؟” “معلوم نہیں صاحب پہلی بار ان کو دیکھا ہے۔” ملازم نے مودبانہ لہجے میں جواب دیا۔ “اچھا انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میں آرہا ہوں۔” کون ہو سکتا ہے یہی سوچتے ہوئے میں ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا۔ ایک عورت پرنور چہرہ کے ساتھ سفید بڑی چادر میں خود کو چھپائے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری لیے کھڑی تھی۔ اور اس کے ساتھ اچھے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑا ہینڈسم نوجوان کھڑا تھا۔ اس لڑکے کو میں جانتا تھا وہ ہمارے علاقے کا نیا ڈی ایس پی احمد تھا۔
جاری۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#12
ہر روز اس کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا، اس سے معافی کی درخواست کرتا۔میں باقاعدگی سے ہر ماہ “افشاں” کو منی آڈر بجھواتا رہا۔ کئی دفعہ دل کیا میں اس مسیحا کو مل کر آؤں جس کی وجہ سے مجھے ان تمام گناہوں اور بدکاریوں سے نجات ملی۔ مگر ہر دفعہ اک شرمندگی آڑے آتی رہی کہ کبھی میں اپنی شیطانی ہوس کے لیے اس کا پیاسا تھا۔ اور پھر وقت گزرتا چلا گیا دن مہینوں میں بدلنے لگے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ مگر میں افشاں کو بھولا نہیں تھا۔ وہ بھی میری طرح بوڑھی ہو گئی ہو گی۔ اور اس کا بیٹا بھی جوان ہو گیا ہو گا۔ پتہ نہیں کسی قابل بنا ہو گا۔ اپنی ماں کا سہارا بنا ہو گا کہ نہیں؟ میرے بچے جوان ہو گئے تھے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل چل رہی تھی۔
جاری۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#11
تو تم مجھے واپس کر دینا۔افشاں حیران پریشان کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس انسان کو جس کے سامنے ابھی وہ ناچ کر آئی تھی وہ اس سے ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر وہ بے آواز رو پڑی۔ مجھے سے وہاں رکا نہیں گیا۔ میں نے افشاں کے گھر کا پتہ لیا اور اس کو اپنا کیا وعدہ یاد دلا کر وہاں سے رخصت ہو گیا۔ سارے راستے میں یہی سوچتا رہا۔ “مجھے تم سے کچھ نہیں چاہے۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے افشاں۔جو تم نے مجھے دیا ہے میں اس کا احسان ساری عمر نہیں اتار پاؤں گا۔ تم نے مجھ میں دفن اس انسانیت کو جگا دیا جو میں دولت اور شیطانی ہوس کے نیچے دبا کر مار چکا تھا۔ تم نے مجھے پھر سے انسان بنایا ہے افشاں۔”اس واقعے کے بعد میں ان تمام برے کاموں سے توبہ کر کے اس کی بارگاہ میں گناہوں کا بوجھ لیے حاضر ہوا۔
جاری۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#10
مجھے احساس ہوا کہ میں ذلت اور اپنے کردار کی پستی کی آخری حد کو چھو رہا تھا۔ میں اس بے حس معاشرہ میں ایک تنہا اور بے سہارا لڑکی کی مدد کر رہا تھا مگر وہ اس کو بھی ایک ڈیل کے طور پر سمجھ رہی تھی۔ شاید جہاں سے میں اٹھ کر آیا تھا وہاں پر جانے والے لوگوں سے بغیر کسی وجہ کے مدد کی توقع نہیں کی جاتی۔ میں نے لرزتی آواز میں جواب دیا، “تمھیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اور تم اب کوٹھے پر مجرا کرنے نہیں جاؤ گی۔ اپنے گھر میں رہو گی۔ ہر مہینے تمھیں منی آرڈر مل جایا کرے گا۔ تم نے کرنا بس یہ ہے کہ یہ جو بچہ تمھاری گود میں ہے اس کی تربیت ایسے کرو کہ یہ اک دن بڑا ہو کر تمھارا سہارا بن سکے ۔ یہ جو رقم میں بجھواؤں گا یہ تم پر قرض ہے اور جب تمھارا بیٹا جوان ہو جائے گا، ایک قابل انسان بن جائے گا ۔
جاری۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#09
پھر پرس سے چند نوٹ نکالے اور اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا “کل اپنی ماں کی تدفین کروا لینا اور بچے کے لیے کچھ خوارک اور گھر کے لیے راشن پانی لے لینا۔” وہ اتنے سارے نوٹ ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہو گئی۔ “کیا ہوا؟” میں نے اس کو یوں چپ دیکھتے ہوئے پوچھا۔ “سیٹھ جی مجھے ان روپوں کے بدلے کیا کرنا ہو گا؟” وہ ڈرتے ڈرتے پوچھ رہی تھی۔ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ ان نوٹوں کے بدلے سیٹھ پتہ نہیں کب تک اس کا جسم نوچے گا؟ کب تک اس کو سیٹھ کی رکھیل بن کر رہنا پڑے گا؟ اس کی بات سن کر مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ میں خواہش کرنے لگا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔
جاری۔

MR-FREAK
 

ضرورت۔
قسط لمبر#08
سیٹھ جی، ایسی کتنی ہی بے سہارا گمنام لڑکیاں معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کوٹھوں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ آپ لوگوں کو کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتی ہیں ۔ کوئی لڑکی اپنی خوشی سے یوں سب کے سامنے اپنا جسم، اپنی عزت نیلام نہیں کرتی۔ جو لڑکیاں اک بار اس دلدل میں گر پڑتی ہیں پھر وہ دھنستی ہی چلی جاتی ہیں ۔ اور پھر اس میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتی ہیں۔” یہ سب کچھ بتاتے ہوئے افشاں کے لہجے میں بے بسی اور بے چارگی تھی جیسے وہ کسی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہو۔میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔
جاری۔