غزل بے حد جو قیمتی تھے ، خزانوں کا کیا ہوا اک پل کی قید تھی تو ، زمانوں کا کیا ہوا تم تو دکھا رہے ہو یہ شفاف دل مگر ....... اے شخص ! نفرتوں کے ٹھکانوں کا کیا ہوا لے کر تجھے جنت ترے سجدے نہیں گئے؟ ماتھے پہ جو پڑے تھے، نشانوں کا کیا ہوا دکھ بستیوں کی بستیاں پل میں نگل گیا مسمار ہو چکے جو ، مکانوں کا کیا ہوا یا رب کسی کی آنکھ کے خوابوں کی خیر ہو اس دشتِ بےکراں میں یگانوں کا کیا ہوا