کبھی کبھی جی چاہتا ہے لکھ ہی ڈالوں اپنی زندگی کی کتاب اپنا سارا دکھ درد حرفوں سے کہ دوں پڑھنے والے پڑھ کی بھی رو پڑیں اپنی زندگی کی ساری تلخیاں لفظوں میں چھپا ڈالوں تمام بیڑیاں توڑ ڈالوں لیکن پھر کہتا ہوں کہیں کوئی مجھے پڑھ ہی نہ لے مجھ سے کوئی واقف ہی نہ ہو جائے کہیں سو پردوں میں چھپا کے رکھا ہے درد اپنا بتائیں گے کسی کو اگر کوئ ملا ہمدرد اپنا...