بڑوں کا احترام کیجئیے- خوش رہئیے اور خوش رکھیئے-
Assalam 0 Alaikum !
Good Morning ''
.سردیوں میں ہماری جلد بہت خشک ہو جاتی ہے تو جلد کو خشکی سے بچانے کے لیے پانی میں ہلدی اور ذرا سا مِلک پاؤڈر ملا کر اُبال لیں ٹھنڈا ہو جائے تو آدھا کپ دہی ڈال کر مکسچر کو دھوپ میں 4 گھنٹے کے لئے رکھ دیں۔
بعد میں ایک چمچ زیتون کا تیل ، ایک دیسی انڈا اور ایک چٹکی زعفران ڈال کر پھینٹ لیں ۔ضرورت ہو تو گرم پانی ڈالیں جب صحیح سے پیسٹ بن جائے تو . .
اسے پھینک دیں
اور چہرے پر کوئی کولڈ کریم لگا لیں
جب مارکیٹ میں ایک چیز دستیاب ہے تو بلاوجہ حکیم بن کر فنکاریاں دکھانے کی ضرورت کیا ہے۔
شکریہ 😁🤣
Copy۔..
ہائی ریڈرز 🌹
میں ترچ میر اس پیج کا کو-ایڈمن ہوں۔ اس پیج کے مالک #یاقوت کا انتقال نہیں ہوا بلکہ یاقوت کے ایک دوست کے بقول انکا یاقوت اغوا 😶 ہو چکا ہے۔
🤪
آپ ان کی ای ڈی پر زیادہ سے زیادہ میسیج چھوڑیں کہ اغوا کرنے والے مغوی یا قو ت کو رہا کر دیں
تاب موج کو وہ حقیقی خوشی ملی جو بیان سے باہر ہے اس دن معلوم ہوا کسی کی مدد کرنے سے کیسا سکون ملتا ہے میری جیب تو خالی تھی لیکون دل خوشی اور شکر کے جذبات سے بھرا ہوا
اس کے بعد میں اپنے کمرے میں کھانا کھانے کے لئے بیٹھا ہی تھا ایک نوالہ بھی ابھی نہیں کھایا نہیں تھا کہ ایک کمپنی سے فون آیا اور مجھ کو 40000 کا کام مل گیا شاید خدا کو میری نیکی پسند آ گئی تھی اس نے 200 کو200 دگنا کر کے چالیس ہزار کے برابر کر دیا
The End
بھائی آپ سے پہلے بھی بہت لوگوں سے مانگیں ہیں لیکن کسی نے میری مدد نہیں کی اوس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میری آنکھیں بھی نم ہو گئیں
میرے پاس و150درم بچے تھے میں نے خدا پر توکل کرتے ہوئے کے اللہ تعالی میرے لئے اور انتظام کرے گا باقی پیسے بھی اس کو دے دیے تب وہ میری طرف حیرت ذدہ اور کھلی آنکھوں سے دیکھنے لگا اور رو رہا تھا سات میں دعائیں دیتا جاتا خدا آپ کو اور دے خدا آپکو اور دے
اس کا سانس پھولا ہوا تھا بوک پیاس اور گرمی کی شدت نے اس کا برا حال کر دیا تھا
آیا اور بولا یہ لیں آپ کے 200 درم میں نے پیسے پکڑتے ہوئے اس کو پوچھا تم کتنے بہن بھائی ہو کہنے لگا میں چھ بہنوں کا اکیلا بھائی ہوں والد صاحب وفات پا چکے ہیں اور ماں بیمار ہیں آپ سے ماں کی دوائیں کے لیے ہی پیسے مانگے ہیں
میں گاڑی سے باہر آیا اور 50درم اس کو دیے اور وہ شکر ادا کرنے لگا اس کی آنکھیں نم ہو چکی تھی کوس کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں
وہ ایکدم رونے لگا اور بولا میں فقیر نہیں لیکن دو دن سے بھوکا ہوں میری والدہ بیمار ہے میرے پاس کوئی نوکری بھی نہیں کیا آپ مجھ کو پچاس د رم دے سکتے ہیں اور مجھ کو بھوک لگی ہیں اور میں اپنی ماں کو کچھ پیسے جمع کر کے بنگلہ دیش بھیجنا چاہتا ہوں تاکہ میری ماں دوا لے سکے
عام حالات میں 50 درم میرے لئے زیادہ نہ تھے لیکن میں نے سوچا کہ یہ جھوٹ تو نہیں بول رہا مگر اس کی آنکھوں میں آنسو اور اس کی باتوں سے ساچ ظاہر ہو رہا تھا
میرے پاس دو سو درہم کا نوٹ تھا جو میں نے اس کو دے دیا کہ جاؤ سامنے دکان سے کھلے پیسے لے آؤ وہ جلدی پیسے لے کر باغ کرگیا اور بھاگتا ہوا واپس میرے پاس آیا
بھوک کی شدت سے برا حال تھا گاڑی کی سی ہوٹل پر کھڑی کرنے کا وقت نہ ملا گرمی انتہا کی تھی اور گاڑی کا ائرکنڈیشن چل رہا تھا اس سےنہ اترنے کی غرض سے سوچا کہ کھانا روم میں جاکر کھاؤنگا
میرا دبئی میں ایک چھوٹا سا بزنس تھا لیکن ان دنوں کام بلکل نہیں تھا اس لیے گاہکوں کو جا کر ملناپر رہ تھا کام نا آنے کی وجہ سے پیسوں کی بی کمی ہوگئی تھی جیب میں صرف دو سو دم رہ گئے تھےاسی سوچ میں گاڑی پارک میں کی تو ایک بنگالی لڑکا پسینے سے شرابور گندے کسے کپڑے پہنے ہوئے میری کار کی طرف بڑھا میں نے شیشہ نیچے کیا تو کہنے لگا
السلام علیکم بھائی کیا حال ہے میں مسلمان ہوں اور آپ بھی مجھ کو شکل سے مسلمان لگتے ہے مجھے آپ سے گزارش کرنی ہے
میں نے پوچھا کیا بات ہے
نیچے بھی نہیں......
گھبراہٹ ہونے لگی. ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمایاں ہو گئیں..
دُور کھڑی نرس کو اشارے سے بلایا......ہونٹ ہلے پر کچھہ الفاظ نہیں نکل سکے....
نرس نے زچہ کی گھبراہٹ محسوس کر لی. اس کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔۔۔ آخر وہ بھی ماں تھی، ماں کی تڑپ کو کیسے نہ سمجھہ پاتی.
دوڑ کر انکیوبیٹر روم سے نوزائیدہ کو لاکر ماں کے ہاتھہ میں تھماتے ہوئے کہا
"میں سمجھہ سکتی ہوں بہن !
لو...... جی بھر کے دیکھہ لو۔"
زچہ بولی....
"بہت شکریہ لیکن میں موبائل ڈھونڈ رہی تھی
😊😊Agr post achi Lge to plzz follow kr dein mujy
ایک درد ناک تحریر۔۔
بچے کی پیدائش کے بعد ڈیلیوری روم سے نکلے ایک گھنٹہ ہوا تھا، زچہ کو ابھی ابھی ہوش آیا تھا.
بدن میں طاقت بالکل ختم ہو گئی تھی....
کروٹ لینا تو دور کی بات ہلنے میں بھی بے پناہ دقت ہو رہی تھی.
اس نے بڑی مشکل سے داہنے ہاتھہ کو حرکت دی، کچھہ ٹٹولا، ہاتھہ کو کچھہ محسوس نہیں ہوا
پھر بائیں ہاتھہ کو حرکت دینے کی کوشش کی. کچھہ نہیں ہاتھہ لگا. بے چین ہوگئی.
خیال آیا کہیں نیچے لڑھک کے گر تو نہیں گیا! اوہ خدایا..............
ہمت کرکے بمشکل پلنگ کے نیچے دیکھا.
یوں بدلتے موسم کے دن گزرتے۔ نہ وہ پنکھے کی رفتار کم کرنا بھولتا اور نہ اماں رات اٹھنا بھولتیں۔ کئ برس سب کچھ معمول کے مطابق چلتا رہا، لیکن اس بار بدلتے موسم میں اچانک وہ معمول بدل گیا۔ اس بار اس نے کسی کے کہے بنا ہی پنکھا بند کر دیا اور پتلے لحاف کے بجائے دبیز کمبل اوڑھ لیا۔ باہر موسم تو ویسے ہی بدل رہا تھا پر اسے لگا جیسے اس بار گرمی کے بعد یکدم سخت سردی شروع ہوگئ ہے۔ باہر موسم تو ویسے ہی بدل رہا تھا پر اس کے اندر کے سارے موسم بدل چکے تھے، سارے موسم!
اس بار سب کچھ تھا پر اماں نہ رہی تھیں۔ 😭💔
The End ☺☺
post agr achi lgy to Follow kr dein .Aise posts Ap ko milte rhein gi
سویر ناشتے پر اماں ناراضگی سے کہتیں،'' رات بھی تو سردی سے ٹھٹھر رہا تھا، کیسے سمٹا پڑا تھا تب میں نے تیرے اوپر کمبل ڈال کر پنکھے کی رفتار آہستہ کی۔ دیکھ پتر کبھی میری بھی سن لیا کر''۔ آخری جملہ کہتے ہوئے اماں کی آواز میں مامتا کی مٹھاس بھر آتی
''اماں تم سو جایا کرو نا، میرا لیے کاہے کو جاگتی ہو''۔وہ اماں کو تنگ کرنے کیلیے کہ دیتا
''لے سو جاؤں، کیسے سو جاؤں، تو ادھر سردی سے ٹھٹھڑتا رہے اور میں یہاں سکون سےسو جاوں''۔
''اچھا اماں آج پنکھا بند کروں گا''۔ وہ بات ٹالتے ہوئے کہتا
''ہاں جانتی ہوں تجھے، کہتا کچھ ہے کرتا کچھ اور ہے''۔ اماں کی ناراضگی برقرار رہتی۔ وہ مسکراتے ہوئے اماں کا ہاتھ چومتا اور اٹھ جاتا۔
اسے بدلتے موسم بھی پسند تھے، بدلتے رنگ بھی، پر ہاں، بدلتے لوگوں سے اسکی ایک نہ بنتی۔۔۔
یوں تو بدلتے موسم میں پنکھے کی ضرورت نہ تھی پر کہتا، '' اماں، گرمیوں میں تو ہمیشہ اس ظالم پنکھے کی گرم ہوا ہی نصیب ہوتی ہے، اب تو ٹھنڈک محسوس کرلوں''۔
رات نجانے کس پہر آنکھ کھلتی تو محسوس ہوتا پنکھے کی رفتار قدرے آہستہ ہوچکی ہے اور اس کے جسم پر لحاف کی جگہ ایک گرم کمبل موجود ہے۔ اسے حیرت نہ ہوتی، اسے خبر تھی کہ اماں کہ علاوہ ایسا کرنے والا کوئ نہیں ہوسکتا۔ وہ ادھ کھلی آنکھوں سے زیر لب مسکراتا اور پاوں کمبل کے اندر کرلیتا۔ ہاں ایسا کرنے سے پہلے وہ اٹھ کر پنکھے کی رفتار دوبارہ بڑھانا نہ بھولتا۔
اماں کہتی تھیں ،''پنکھا چلا کر نہ سویا کر، موسم بدل رہا ہے، بیمار پڑ جائے گا''، اور وہ لحاف کے اندر منہ کیے جواب دیتا،'' اماں مجھے گرمی لگتی ہے، پنکھے چلائے بغیر میں نہ سو سکوں''۔
''میں تو اور کچھ نہ کہتی، تیرے بھلے کیلیے کہا کہ رات کو سردی لگ گئ تو بیمار ہوجائے گا''۔ یہ کہتے ہوئے اماں چل دیتیں۔ وہ اٹھتا، پنکھے کی رفتار ذرا اور بڑھا دیتا، زرد بلب کا بٹن ٹک سے بند کرتا اور دوبارہ بستر پر لیٹ کر لحاف کھینچ لیتا۔ رفتار بڑھنے کے ساتھ پنکھے کی آواز بھی بدل جاتی اور گھڑ گھڑ کی آواز کمرے میں پھیل جاتی۔
اسے یہ آواز پسند تھی،ردھم میں چلتی پنکھے کی گھڑ گھڑ کو سنتے اسے جلد ہی نیند آجاتی تھی۔
السلام و علیکم
دوستو
mujy follow kro back mily ga
Friends Meri posts chek krein agr pasand Ayein To follow kr dein thanks
مگر آپ بہتی ہوئی آنکھوں اور لزرتے ہوتے ہونٹوں سے اس کی تعریف کیجیے کہ آپ کی اولاد محفوظ ہے۔ وہ آپ کے ہر گناہ کو دیکھ کر بھی انجان بن رہا ہے اور عافیت، نعمت اور زندگی نہیں چھین رہا۔ آپ بھی عزم کرلیں کہ اب کبھی اس کو ناراض نہیں کریں گے۔
ابھی وقت ہے۔ جس نے دوسرے کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔ اس کے سامنے جھک جائیں۔ جس نے دوسروں کے سامنے تڑپنے سے بچا لیا اس کے سامنے رو لیں۔ جس نے دوسرے کا احسان اٹھانے سے بچا لیا اس کی بندگی اختیار کرلیں۔
the End
چلیے دو لمحے کے لیے ایک دفعہ پھر فرض کرلیجیے کہ یہ سب کچھ ہوچکا ہے۔ آپ کا مال لٹ گیا ہے۔ آپ کی جوان بیٹی کی آبرو پر حرف آگیا ہے۔ آپ کا بچہ آپریشن تھیٹرمیں ہے۔ آپ خود ہسپتال میں پڑے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ کرب کے ان لمحوں کا تصور کیجیے۔ سوچیے کہ آپ کو کہاں کہاں بھاگنا اور کن کن لوگوں کے آگے گڑگڑانا پڑ رہا ہے۔ اور پھر اس ہستی کا تصور کیجیے جو عافیت کا قلعہ بن کر آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔
وہ آپ سے کچھ نہیں مانگ رہا۔ مگر آپ اس کے قدموں پر احسان مندی کے جذبے سے گر جائیے کہ اس نے آپ کے مال کو بچا لیا۔ وہ اپنے احسانوں پر اپنی تعریف نہیں سننا چاہتا۔
next
اطمینان رکھیے۔ ہم صرف فرض کر رہے ہیں۔ ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ آپ نے جیولری باحفاظت بینک لاکر میں رکھوا دی۔ آپ کا بچہ روز پڑھنے جاتا ہے اور خیر سے آجاتا ہے۔ آپ کی طبیعت گرچہ ناساز ہوئی مگر معمولی سا مسئلہ تھا جو دوا سے حل ہوگیا۔ اس دنیا میں اس جیسی ہزار چیزیں فرض کی جاسکتی ہے۔ مگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ آپ کو کسی کی منت نہیں کرنی پڑتی۔ کسی کے آگے گڑگڑانا نہیں پڑتا۔ آپ کی بیوی بلک بلک کر نہیں روتی۔ آپ کے بچے تڑپتے نہیں۔ آپ کا مال محفوظ ہے۔ عزت کو بٹہ نہیں لگا۔ جان عافیت میں ہے۔
next..
فرض کیجیے کہ چند دن سے آپ کی طبیعت کچھ خراب ہے۔ مگر ایسی نہیں کہ چھٹی لے کر گھر بیٹھ جائیں۔ مگر آپ مکمل نارمل بھی نہیں۔ آپ اپنے مسائل لے کر فیملی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ وہ کچھ دوائیں دیتا ہے۔ کچھ ٹیسٹ لکھتا ہے۔ آپ دوا کھاتے ہیں۔ فائدہ ہوجاتا ہے۔ مگر احتیاطاً آپ ٹیسٹ بھی کرا لیتے ہیں۔ ٹیسٹ کی رپورٹ آنے پر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کینسر کا جان لیوا مرض لاحق ہے۔ آپ کے گھر میں کہرام مچ جاتا ہے۔ پھر علاج شروع ہوتا ہے۔ لاکھوں روپے برباد کرکے اور بے پناہ تکلیف اٹھا کر بھی آپ ہسپتال کے بستر پر پڑے موت کی آہٹ سننے پر مجبور ہیں۔ آپ کے بچے تڑپ رہے ہیں۔ بیوی کے چہرے پر تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ آپ کی دنیا بھی اندھیر ہوچکی ہے۔
next
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain