ASALAM O ALIKUM کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں میدان وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
ASALAM O ALIKUM راز الفت چھپا کے دیکھ لیا دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا اور کیا دیکھنے کو باقی ہے آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکی عشق کو آزما کے دیکھ لیا
ASALAM O ALIKUM جو عشق نبی ﷺ میں تو بالکل ہی دیوانہ ہے اس کا ہی تو سمجھو کہ اب تو یہ زمانہ ہے فرمان الہی ہے ہی فاتبعونی کا مُضْمَر ہی تو سنت میں الفت کا خزانہ ہے چاہت جو نبی ﷺ کی ہو وہ اپنی بھی چاہت ہو چاہت میں نبی ﷺ کی تو بس خود کو مٹانا ہے جب قافلے حج کے تو نظروں سے گزرتے ہیں دل تھام کر اپنے تو آنسو ہی بہانا ہے حسرت ہے یہی اپنی مسکن ہو مدینہ ہی سوئی ہوئی قسمت کو بس اب تو جگانا ہے یہ اثر کے ہیں ارماں غالب ہو دین احمد ﷺ اس کے لیے اپنا تو سب کچھ ہی لٹانا ہے JUMMA MUBARAK
ASALAM O ALIKUM کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں ورنہ کیا بات کر نہیں آتی کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں میری آواز گر نہیں آتی داغ دل گر نظر نہیں آتا بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ شرم تم کو مگر نہیں آتی
ASALAM O ALIKUM قمر کا خوف کہ ہے خطرہء سحر تجھ کو مآل حسن کي کيا مل گئي خبر تجھ کو؟ متاع نور کے لٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو ہے کيا ہراس فنا صورت شرر تجھ کو؟ زميں سے دور ديا آسماں نے گھر تجھ کو مثال ماہ اڑھائي قبائے زر تجھ کو غضب ہے پھر تري ننھي سي جان ڈرتي ہے! تمام رات تري کانپتے گزرتي ہے چمکنے والے مسافر! عجب يہ بستي ہے جو اوج ايک کا ہے ، دوسرے کي پستي ہے اجل ہے لاکھوں ستاروں کي اک ولادت مہر فنا کي نيند مے زندگي کي مستي ہے وداع غنچہ ميں ہے راز آفرينش گل عدم ، عدم ہے کہ آئينہ دار ہستي ہے! سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے ميں ثبات ايک تغير کو ہے زمانے ميں
میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے مطمئن ہے تو پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں زخمیٔ شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں یہ پریشانی مری سامان جمعيت نہ ہو یہ جگر سوزی چراغ خانۂ حکمت نہ ہو ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو رشک جام جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے توسن ادراک انساں کو خرام آموز ہے
ASALAM O ALIKUM تو شناسائے خراش عقدہ مشکل نہیں اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں زیب محفل ہے شریک شورش محفل نہیں یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو اور تیری زندگانی بے گداز آرزو توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بيں نہیں آہ یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گلچیں نہیں کام مجھ کو دیدہ حکمت کے الجھيڑوں سے کیا دیدہ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ تیرا سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے
ASLAM O ALIKUM علم نے مجھ سے کہا عشق ہے ديوانہ پن عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمين و ظن بندہ تخمين و ظن! کرم کتابي نہ بن عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب! عشق کي گرمي سے ہے معرکہء کائنات علم مقام صفات، عشق تماشائے ذات عشق سکون و ثبات، عشق حيات و ممات علم ہے پيدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب! عشق کے ہيں معجزات سلطنت و فقر و ديں عشق کے ادني غلام صاحب تاج و نگيں عشق مکان و مکيں، عشق زمان و زميں عشق سراپا يقيں، اور يقيں فتح باب! شرع محبت ميں ہے عشرت منزل حرام شورش طوفاں حلال، لذت ساحل حرام عشق پہ بجلي حلال، عشق پہ حاصل حرام علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب!
ASALAM O ALIKUM ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نہ ہو نومید نومیدی زوال علم و عرفاں ہے امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
ASALAM O ALIKUM ہری ہے شاخِ تمنا ابھی جلی تو نہیں دبی ہے آگ جگر کی مگر بجھی تو نہیں جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی کٹی ہے برسرِ میداں مگر جھکی تو نہیں