مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے-ہمایوں- میرا بیٹا میرے پاس ہے- فواد نے مجھے میرا حصہ بھی دلا دیا ہے- میں لوگوں کی محتاج نہیں رہی ، آپ فرشتے سے شادی کرلیں- وہ آپ کا انتظار کر رہی ہے-
اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا- ہمایوں نے گردن موڑ کر دیکھا-
فرشتے وہاں کھڑی رو رہی تھی- ہمایوں کو گردن موڑتے دیکھ کر ، وہ منہ پہ ہاتھ رکھے باہر کو بھاگی تھی-
آپ اس کا اور امتحان نہ لیں- اس سے شادی کر لیں- میں تیمور ایک دوسرے کو بہت ہیں- ہمارا تیسرا اللہ ہے- آپ ہمیں جانے دیں- اب ہمارا ساتھ نا ممکن ہے-
وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا تھا-
میں نے تمہاری قدر نہیں کی محمل! وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اٹھا، اور شکستہ قدموں سے باہر کی جانب بڑھ گیا-
مگر ہمایوں اور محمل اس کو نہیں دیکھ ..رہے تھے
" محمل ، مجھے معاف کردو - میں رجوع کرنا چاہتا ہوں-میرے ساتھ چلو- ہمایوں نے اسکا ہاتھ تھامنے کے لیےہاتھ بڑھایا مگر محمل ایک دم پیچھے کو ہوئی-
لیکن اب میں ایسا نہیں چاہتی - ٹوٹئ دھاگے کو دوبارہ جوڑا جائے تو اس میں ایک گرہ رہ جاتی ہے-ہمارے درمیان بھی وہ گرہ رہ گئی ہے، سو اس دھاگے کو ٹوٹا رہنے دیں-
محمل! وہ بے یقین تھا- معافی کے لیے جڑے اس کے ہاتھ نیچے گر گئے- محمل نے گہری سانس لی -
میں نے آپ کو معاف کر دیا ہے ہمایوں! دل سے معاف کردیا ہے-مگر اب رجوع کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے- آپ فرشتے سے شادی کر لیں- آپ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں- درمیان میں ،میں آگئی تھی-
مگر محمل۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر آج وہ نہیں سن رہی تھی-
کیوں نہیں آپ نے تصآویر معیز کے منہ پے دے ماریں؟کیا آپ بہت قابل پولیس آفیسر نہیں تھے؟ کیا اپ کو کھرا اور کھوٹا الگ کرنا نہیں آتا تھا؟ کیا آپ آرزو کی خصلت کو نہیں جانتے تھے؟ یا شاید آپ کی دلچسپی ایک بیمار ،بے ہوش عورت میں ختم ہو گئی تھی- شاید آپ کو میری خدمت سے دور بھاگنے کا ایک موقع چاہیئے تھا- آپ آزاد ہو نا چاہتے تھے- اگر ایسانہ ہوتا تو آپ مجھے صفائی کا موقع تو دیتے - ایک بار تو پوچھتے کہ کیا تم نے ایسا کیا ہے؟ مگر آپ خود بھی مجھ سے تھل گئے تھے- آپ نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا ہمایوں کہ اگر میری جگہ آپ یوں بیمار ہوتے اور میں آپ کے ساتھ یہی کرتی تو آپ کی کیا حالت ہوتی؟
بولتے بولتے اس کا سانس پھول گیا تھا- تب ہی کھلے دروازے سے تیمور اندر آیا- شور سن کر وہ نیند سے جاگا تھا- وہ بھاگ کر اس کے پاس آیا اور اس کے گھٹنوں سے لپٹ گیا- مگر ہمایوں
میں نے صرف فرشتے کی بات پر۔۔۔۔۔ اور آج وہ کہہ رہی ہے کہ تم نے اس سے صرف ایک مسئلہ پوچھا تھا، اس نے خود غلط اخذ کیا- میں نے صرف فرشتے کی وجہ سے-
کیا آپ نے پہلے زندگی کے سارے فیصلے فرشتے کے دماغ سے کیے تھے ایس پی صاحب ؟ وہ سپاٹ لہجے میں بولی تھی- آپ چھوٹے بچے تھے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ میرے رشتے دار میرے کھلے دشمن ہیں؟ آپ ان پڑھ جاہل تھے جو یہ نہیں سمجھتے تھے کہ ایسی محمل ، یقین کرو میں-
ایک منٹ ایس پی صاحب ! میں نے کئی مہینے صرف آپ کی سنی ہے- آج اپ میری سنیں گے-آپ کہتے ہیں کہ آپ نے فرشتے کے کہے پہ یقین کرلیا؟ آج میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ آپ نے فرشتے سے پوچھا ہی کیوں؟ آپ میری طرف سے اتنے بدگمان تھے کہ آپ کو دوسروں سے پوچھنا پڑا ؟
ہمایوں تھکا ہارا سا دروازے میں کھڑا تھا- یہ وہ دروازہ تھا جہ اسنے محمل کی موجودگی میں کبھی پار نہیں کیا تھا- یہ وہ چوکھٹ تھی جس پہ وہ کبھی سوالی بن کر نہیں ایا تھا- مگر آج وہ آیا تھا-
اس کے تھکے تھکے ٹوٹے قدم آہستہ آہستہ اندر داخل ہوئے تھے-
محمل! ٹوٹی ہوئی آواز میں اس نے پکارا تھا- اور پھر وہ پورے قد سے ،گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں آن گرا تھا-
مجھے معاف کردو محمل !اس کی آنکھیں سرخ تھیں ، اور چہرے پہ صدیوں کی تھکان تھی-
مجھے معاف کردو- میں بہت دور چلا گی اتھا- اس نے تاسف سے ہمایوں کو دیکھا- پہلے بھی وہ سب اس سے اس کا سب کچھ چھین کر لے گئے تھے- آج بھی وہ مانگ ہی رہے تھے مانگنے ہی آئے تھے-
ہر ایک کو اپنے ضمیر کے بوجھ سے نجات چاہیئے تھی- محمل ابراہیم تو کہیں بھی نہیں تھی!
مگر یہ دنیا انجام کی جگہ تھوڑی ہے؟یہ تو امتحان کی جگہ ہے اپنے گناہ نظر آنا بھی ایک امتحان ہے اصل فیصلہ تو روز حساب ہی ہوگا-
اس کے بیڈ کی پائنتی پر چند کاغذ رکھے تھے- وہ کاغذ جوکبھی اس کی زندگی کا محور تھے مگر آج اس نے ان پہ دوسری نظر بھی نہیں ڈالی تھی-انہیں کاغذوں کے لیے اس نے فواد کا جھانسہ قبول کیا تھا، آج فواد نے اسے خود لا دیے تھے مگر کتنی بھاری قیمت تھی اس غلطی کی جو اسے چکانی پڑی تھی-
کچی عمر کے کچے سودے۔۔۔۔
بارش دھیمی ہو چکی تھی- کھڑکی کی جالیاں گیلی ہو چکی تھیں-ان سے مٹی کی سوندی خوشبو اندر آرہی تھی-بہت دیر تک وہ وہی بیٹھی خوشبو سونگھتی رہی - اسے لا شعوری طور پر اس کا انتظار تھا- وہ جانتی تھی اب وہ اس کے کمرے میں ضرور آئے گا-
کافی لمحے بیت گئے تو اس نے چوکھٹ پرآہٹ سنی- وہ آہستہ سے مڑی-
سدرہ کے شوہر کی ڈیتھ ہوگئی ہے اور اس کے وہ خاندانی سسرال والے اس کو میکے نہیں انے دیتے - وہ اور اس کے یتیم بچے اپنے گھر میں اس سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں جو تم نے مسرت چچی نے گزاری تھی- مہرین کو۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے کچھ مت بتائیں فواد بھائی- پلیز میں نے معاف کیا - سب معاف کیا- مجھے یہ سب بتا کر اور دکھ نہ دیں- ابھی مجھے اکیلا چھوڑ دیں- اس کے نرم لہجے میں منت تھی-
ٹھیک ہے- اور یہ تمہارا حصہ ہے ان میں تمام سالوں کے منافع سمیت - فرشتے کا حصہ میں اسے ادا کر چکا ہوں-ہوسکے تو ہمارے لیے دعا کرنا- وہ ایک فائل اور ایک مہربند لفافہ اس کی بیڈ کی پائنتی پہ رکھ کر واپس مڑگیا تھا-
محمل نے گردن پھیر کر دیکھا- وہ سر جھکائے نادم و شکستہ حال جا رہا تھا-
وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ آغا فواد کا کیا انجام ہوا؟
مصحف
#
قسط نمبر- 42 ( آخری )
💕
آپا! آرزوآپا نے خود کشی کر لی ہے-آج ہمایوں بھائی نے اس کو ریجیکٹ کر دیا تھا- اماں سنبھل نہیں پا رہیں- ہمیں بدعا مت دینا آپا -
جاؤ معیز ! میں نے تمہیں معاف کیا- سب کچھ معاف کیا-
وہ کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی-
آپا دعا کرو آرزوآپا بچ جائیں- ان کے لیے بد دعا مت کرنا-
میں دعا کروں گی تم جاؤ -
اور وہ ویسے ہی الٹے قدموں واپس پلٹ گیا-
کیا تم ہمیں معاف کر سکتی ہو محمل؟َوہ شکست خوردہ ،ٹوٹا ہوا آغا فواد ہی تھا-
"میں نے معاف کیا سب معاف کیا- وہ اب بھی پیچھے نہیں مڑی تھی-
آغآ جان کو آدھے جسم کا فالج ہو گیا ہے- وہ تمہیں بہت یاد کرتے ہیں-ممی ان کے غم کی وجہ سے نہ زندوں میں رہی ہیں نہ مردوں میں-
محمل نے ہاتھ بڑھا کر پردہ برابر کردیا- وہ اس منظر کو اب مزید نہیں دیکھنا چاہتی تھی-
کتنی ہی دیر بعد اس نے فرشتے کی اواز سنی، وہ فواد اور معیز کو ادھر لا رہی تھی-
اس کے کمرے کا دروازہ کھلا، محمل کی اس کی طرف پشت تھی-
محمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فواد کی بھرائی ہوئی آواز اسے سنائی دی-
معیز نے ہمایوں کو سب کچھ بتا دیا ہے-اگر مجھے پہلے پتا ہوتا تو۔۔۔ محمل ہمیں معاف کردو- ہم نے تمہارے ساتھ بڑی زیادتی کی-
آپا! ہمیں معاف کردو ! وہ معیز تھا وہ رو رہا تھا-
اماں اور آرزو آپا نے مجھے یہ سب کرنے کو کہا تھا- آپا! اماں بیمار ہیں- وہ اب پہلے جیسی نہیں ہیں- وہ سارا دن چیختی چلاتی ہیں- آپا۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں - وہ کہہ رہا تھا اور کوئی دھیمے سے اس کے اندر بولا تھا-
پس تم یتیم کے ساتھ سختی نہ کرنا-
Episode 41 Complete... ♥️
تب ہی فواد نے لپک کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا اور کسی کو بازو سے کھینچ کر باہر نکالا- محمل دھک سے رہ گئی- وہ معیز تھا-
پتلا لمبا نوجوان،
فواد اس کو پکڑ کر ہمایوں کے سامنے لایا جو قدرے چونکا ہوا کھڑا تھا-
برستی بارش کا شور بہت تیز تھا- ان کی باتوں کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی-وہ تینوں بارش میں بھیگتے کھڑے تھے-فواد زور زور سے کچھ کہہ رہا تھا- ہمایوں سینے پہ ہاتھ باندھے خاموشی سے صرف سن رہا تھا- اس کی محمل کی طرف پشت تھی- وہ اس کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ سکتی تھی-
اور تب اس نے معیز کو ہاتھ جوڑے دیکھا- شاید اس کے چہرے پہ بارش کے قطرے تھے ، یا شاید وہ رو رہا تھا- روتے ہوئئے وہ کچھ کہتے ہوئے وہ ہمایوں سے معافی مانگ رہا تھا-اور تب اس نے فرشتے کو باہر آتے دیکھا- وہ بھی کچھ کہہ رہی تھی-
انسان جس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے، اللہ اسے اسی کے ہاتھوں سے توڑتا ہے، انسان کو اس ٹوٹے ہوئے برتن کی طرح ہونا چاہیئے جس سے لوگوں کی محبت ائے اور باہر نکل جائے-
اللہ نے اسے انہی لوگوں کے کے ہاتھوں توڑا تھا جن سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتی تھی- ہمایوں فرشتے اور تیمور!
تب ہی گاڑی کا ہارن سنائی دیا- وہ خاموشی سے دیکھتی رہی -
وہ گاڑی باربار ہارن بجا رہی تھی- تب اس نے برستی بارش میں ہمایوں کو گیٹ کی جانب جاتے دیکھا-اس نے گیٹ کھولا تو گاڑی زن سے اندر داخل ہوئی- ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر وہ تیزی سے باہر نکلا تھا، وہ فواد ہی تھا ، وہ پہچان گئی تھی-
وہ ویسا ہی تھا ، بس آنکھوں پہ فریم لیس گلاسز تھے اور بالوں کا کٹ زیادہ چھوٹا تھا-
کیا ہمایوں اس کی بات سن لے گا؟ کبھی بھی نہیں!
وہ جانتا ہے- کہ فرشتے جھوت نہیں بولتی ، خیانت نہیں کرتی -اس نے ان تصویروں پہ نہیں مجھ پہ یقین کر کے تمہیں طلاق دی تھی- تم میری عزت رکھ لینا-
وہ اسکی وہیل چئیر دھکیلتی آہستہ آہستہ بے خود سی کہہ رہی تھی- محمل نے سر جھکا لیا- وہ فرشتے کو نہیں بتا سکی کہ آج وہ پھر زمین کی طرف جھک رہی ہے مگر اسے پتہ نہیں ہے-
تم ہمایوں کو واپس لے لو محمل- وہ تمہارا ہے، اسے تمہارا ہی رہنا چاہیئے- وہ اسے اس کے کمرے میں چھوڑ کر پلٹ گئی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کمرے میں اسی طرح نیم اندھیرا تھا- کھڑکی کے پردے ہٹے تھے- ٹیبل لیمپ ابھی تک جل رہا تھا-وہ خود کو گھسیٹتی آگے بڑھی اور لیمپ کا بٹن بجھایا-ایک دم کمرے میں اندھیرا پھیل گیا-بس کھڑکی کے پار بارش کے قطرے گرتے دکھائی دے رہے تھے-
وہ وہیں کھڑکی کے سامنے بیٹھی بارش کو دیکھے گئی-
بارش زور سے ان دونوں پہ برس رہی تھی
میں نے فواد کو فون کردیا ہے وہ پہنچنے والا ہوگا - وہ خاصا سمجھدار بندہ ہے ایسے ثبوت لائے گا کہ ہمایوں اس کو جھٹلا نہیں سکے گا -وہ ابھی آ کر ہمایوں کو سب کچھ بتا دے گا-ابھی کل دوپہر میں خاصا وقت ہے-تمہاری عدت ختم نہیں ہوئی - میں جانتی ہوں کہ وہ حقیقت جان کر رہ نہیں پائے گا-اور تمہیں واپس اپنائے گا- آؤ- اندر چلتے ہیں-فرشتے نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالے ، اٹھی اور پھر وہیل چئیر کی پشت تھام لی-
بس مجھ پر ایک احسان کرنا - ہمایوں کو مت بتانا کہ میں خیانت کی-میں اس کی نظروں سے گرنا نہیں چاہتی-بظاہر میں نے جھوٹ نہیں بولا مگر مجھے تمہارا راز نہیں کھولنا چاہیئے تھا-میں اس سے کہہ دوں گی کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی، میں فواد کے سامنے تمہاری تائید کرونگی،مگر تم - تم میری عزت رکھ لینا-
موسلا دھار بارش میں بار بار بجلی چمکتی تو پل بھر میں سارا لان روشن ہو جاتا-
فوادنے کئی دفعہ فون کر کے تمہارا پوچھنا چاہا، میں نے اسے کبھی کچھ نہیں بتایا، بس اس کی بات سن کر کچھ کہے بنا ہی فون بند کر دیتی-وہ بہت بدل گیا ہے-مجھے لگتا تھا کہ اگر اسے اس سارے کھیل کا علم ہو گیا تو وہ ہمایوں پاس آ کر اسے سب بتادے گا-
مشکل ہی تھا کہ ہمایوں اس کا یقین کرے مگر اس ڈر سے میں نے اسے کبھی کچھ پتا نہیں لگنے دیا-
مجھے ہمایوں نہیں چاہیئے فرشتے! وہ روتے ہوئے بولی تھی، مجھے اپنی بہن چاہیئے!
مجھے بھی ہمایوں نہیں چاہیئے - مجھے بھی اپنی بہن ہی چاہیئے! اس نے بھیگی آنکھوں کا رخ پہلی دفعہ محمل کے چہرے کی طرف کیا-محمل نے اس کے گھٹنوں پہ رکھے ہاتھ پکڑ لیے- ان میں آج چاندی کی وہ انگوٹھی نہیں تھی-
وہ کراچی چلا گیا اور میں کئی دن تک تمہیں دیکھنے اسپتال نہ جا سکی-جس دن میں نے خیانت کی،اس دن سے آج کے دن تک تین ساڑھے تین سال ہونے کو آئے ہیں،میں قرآن نہیں کھول پائی-ہاں نمازیں میری آج بھی ویسی ہی لمبی ہیں، میں سجدوں میں گر کر ہمایوں کو اب بھی مانگتی ہوں، مگر قرآن پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملا-ْ
بارش تڑا تڑ برس رہی تھی-فرشتے کے بھورے بال بھیگ چکے تھے-موٹی موٹی لٹیں ، چہرے ک اطراف میں چپک گئی تھی-وہ ابھی تک اوپر چاند کو دیکھ رہی تھی-
وہ کراچی سے آیا تو بدل گیا تھا-پھر ایک روز اس نے مجھے پرپوز کیا-اچانک بالکل اچانک سے اور مجھے لگا میری ساری قربانیاں مستجاب ہو گئی ہیں-پھر مڑ کر پیچھے دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا-وہ تم سے بہت بد ظن ہو چکا تھا- مگر میں نے اسے مجبور کیا کہ ،کہ وہ تمہارا علاج کروانا نہ چھوڑے -
اس نے کہا کہ میں نے اپنی بہن کو بچانے کے لیے اس کے سر تھوپ دیا ہے-اس نے بہت مشکل سے دل بڑا کر کے اس بات کو نظر انداز کیا تھا کہ تم کس طرح پہلی دفعہ اس کے گھر لائی گئی تھی-مگر یہ بات کہ فواد کا اور تمہارا کوئی افیر تھا-اس کے لیے ناقابل برداشت تھی-میرے ایک فقرے نے ہر چیز پر تصدیق کی مہر لگا دی -وہ مجھ پہ کبھی ایسے نہیں برسا تھا-جیسے اس رات برسا تھا، میں ساری رات روتی رہی - نا معلوم غم کس بات کا زیادہ تھا- خیانت کا یا ہمایوں کے رویے کا-میں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا-مگر ہمایوں نے اگلی صبح مجھ سے ایکسیکوز کر لیا- میں چپ چاپ سنتی رہی -تب آخری دفعہ میرے دل سے آواز ائی کہ اس کو بتا دو کہ تم نے جھوٹ بولا تھا-
مگر میں چپ رہی -میں خواہشات کی پیروی میں چلنا شروع کر دیا-اور میں بھٹک گئی -
وہ میرے اوپر چلا رہا تھااور میرے اندر مسلسل کوئی میرے اندر کہہ رہا تھا کہ کہو ہذا افک مبین"
یہ بہتان ہے کھلم کھلا) میں نے سر اٹھایا ، ایک نطر ہمایوں کو دیکھا،وہ ہمایوں جس سے میں محبت کرتی تھی اور پھر میں نے کہہ دیا کہ میں اس بارے میں لا علم ہوں-
تب ایک دم میرے اندر باہر خاموشی چھا گئی-وہ آواز آنا بند ہو گئی-تب ہمایوں نے معلوم نہیں کہاں سے وہ ٹیپ نکالی اور مجھے سنوائی-اس میں کسی انگوٹھی کا تذکرہ تھا -اس نے معیز کی بات دہرائی کہ کیا اس روز فواد تمہیں پرپوز کرنے کا جھانسہ دے کر باہر لے کر گیا تھا؟تب پھر سے کسی نے میرے اندر کہا -
اللہ خیانت کار کی چال کی راہنمائی نہیں کرتا- مگر اب وہ آواز کمزور پڑ چکی تھی-مجھے امانت کے سارے سبق بھول گئے-میں نے اسے وہ بتا دیا جو تم نے مجھے بتایا تھا- تب وہ مجھ پہ بہت چیخا-
اس کے پاس تصویریں تھیں اور وہ کاغذ -ہمایوں نے مجھ سے پوچھا تو کاغذ کی بابت میں نے سچ بولا، مگر جب اس نے تصویریں میرے سامنے پھینکیں تو میں خاموش ہوگئی- مجھے یقین تھا کہ وہ جعلی ہیں، مگر ٹیکنیکلی - میں نہیں جانتی تھی کہ وہ سچ ہیں یا نہیں-
میرے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا مگر میرا دل ۔۔۔۔ بار بار کوئی میرے اندر وہ آیت دہرا رہا تھا کہ
کیوں نہیں تم نے کہا کہ یہ کھلم کھلا بہتان ہے-
وہ آیت بھی ایک ایسی محترم ہستی کے لیے نازل ہوئی تھی جس کے اوپر لگائے گئے بہتان کی حقیقت سے مومن بے خبر تھے، پھر بھی اللہ نے ان کو سرزنش کی کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کردار کی کتنی سچی ہے ، تم نے اس کی حمایت نہیں کی؟
میں ہمایوں کے سامنے سر جھکائے کھڑی تھی-
اس امید پر تمہاری خدمت کرنے لگی کہ شاید یہی دیکھ کر ہمایوں کا دل میری طرف کھنچ جائے- میری اس انتھک خدمت میں ریا شامل ہوگئی- مجھے اس وقت سےڈر نہیں لگا جب میں حشر کے روز اپنے اعمال نامے پہ ان بڑی بڑی نیکیوں پہ کاٹا لگے دیکھوں گی کہ یہ تو ریا کے باعث ضائع ہو گئیں، قبول ہی نہیں کی گئیں- مجھے ڈر نہیں لگا- میں ریا کاری کرتی گئی مگر یقین کرو، قرآن مجھ سے نہیں چھوٹا- میں تب بھی روز اسے پڑھتی تھی مگر میرا جینا مرنا نماز اور قربانی ہمایون کے لیے ہو گئی-
یکدم بادل زور سے گرجے اور اگلے ہی لمحے بارش کے ٹپ ٹپ قطرے گرنے لگے مگر وہ دونوں بے خبر بیٹھی تھیں- پھر ایک دن معیز چلا آیا، اسے آرزو نے بھیجا تھا- وہ ان گزرے سالوں میں کئی دفعہ ہمایوں سے رابطے
کی کوشش کر چکی تھی مگر جب اس نے توجہ نہ دی تو اس نے معیز کو بھیجا تھا--
. تقدیر ہے
شاید تم ہمیں چھوڑ جاؤ، تب ہمایوں میرے پاس واپس آجائے، مجھے لگا میری قربانی قبول ہوگئی ہے-اس کا انعام مجھے دیا جانے لگا ہے-مجھے بھول گیا کہ وہ قربانی تو اللہ کے لیے تھی، اللہ کو پانے کے لیے تھی، دنیا کے لیے یا ہمایوں کے لیے تو نہ تھی-مگر تمہاری طرف سے ہم اتنے مایوس ہو گئے تھے کہ آہستہ آہستہ مجھے سب بھولتا گیا- میں ہر نماز میں ، ہر روز تلاوت کے بعد ہمایوں کو خدا سے مانگنے لگی - میں آہستہ آہستہ زمین کی طرف جھکنے لگی تو میرے ساتھ شیطان لگ گیا-
اس کی اٹھی لمبی گردن پہ آنکھوں سے نکلتے آنسو پھسل رہے تھے- اس کی نگاہیں ابھی بھی اوپر چاند پہ ٹکی تھیں- شاید وہ ابھی محمل کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی-
جب میں دوبارہ واپس آئی تو اپنی زمین کی طرف جھکی ہوئی آئی ،
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain